جنت کے نظارے

1176۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ  نبی ﷺ نے فرمایا:

((دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَرَأَيْتُ فِيهَا دَارًا أَوْ قَصْرًا فَقُلْتُ لِمَنْ هٰذَا فَقَالُوا لِعُمَرَ بْنِ الخطابِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ فَذَكَرْتُ غَيْرَتَكَ)) (أخرجه البخاري:5526،7024،  ومسلم:2394، واللفظ له)

’’میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک گھر یا محل دیکھا۔ میں نے پوچھا: یہ کس کا ہے؟ فرشتوں نے کہا: یہ عمر بن خطاب کا (محل) ہے۔ میں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا، پھر مجھے تمھاری غیرت یاد آگئی ۔‘‘

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ رونے لگے اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ سے غیرت کی جاتی ہے!

 توضیح وفوائد: جنت سے مراد وہ مکان ہے جو اللہ تعالی نے اپنے نیک اور مومن بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو انھیں ان کے نیک اعمال کے صلے کے طور پر ملے گا۔ جہنم کی طرح جنت بھی اللہ کی تفوق ہے، یہ پیدا کی جا چکی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس کی حقیقت کو سمجھنا ناممکن ہے، اس کی نعمتوں کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جا  سکتا۔  اللهم أدخلنا جنة الفردوس جنت کا جو نقشہ قرآن کریم نے یا اللہ کے رسول ﷺنے کھینچا ہے اسے اپنے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

1177۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی ﷺنے فرمایا:

((قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:  أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ مِصْدَاقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ11001 ) أخرجه البخاري: 5000، 100، ومسلم: 2004، واللفظ له.

 (أخرجه البخاري:7498  ومسلم:2824واللفظ له)

’’اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک گزرا ہے۔ کتاب اللہ میں اس کا مصداق (یہ آیت) ہے: کسی کو معلوم نہیں کہ جو ایک کام وہ کرتے رہے ان کی جزا کے طور پر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔‘‘

1178۔ سیدنا ابوہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:

((مَن يَّدْخُلُ الْجَنَّةَ يَنْعَمْ لَا يُبْأَسُ، لَا تَبَلٰى ثِيَابَهُ وَلَا يَفْنٰى شَبَابُهُ)) (أخرجه مسلم:2836)

’’جو شخص جنت میں داخل ہوگا وہ ناز و نعمت میں ہوگا، کبھی تنگ حال نہ ہوگا، اس کا لباس پرانا ہوگانہ اس کی جوانی ڈھلے گی ۔‘‘

توضیح و فوائد: تمام مومن خواتین اور مرد جنت میں جوان ہو کر داخل ہوں گے اور ان کی جوانی ہمیشہ برقرار رہے گی۔ کبھی بڑھا پانہیں آئے گا۔

1179۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ أَوَّلَ زُمْرَةٍ يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ عَلَى أَشَدِّ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً، لاَ يَبُولُونَ وَلاَ يَتَغَوَّطُونَ، وَلاَ يَتْفِلُونَ وَلاَ يَمْتَخِطُونَ، أَمْشَاطُهُمُ الذَّهَبُ، وَرَشْحُهُمُ المِسْكُ، وَمَجَامِرُهُمْ الأَلُوَّةُ الأَنْجُوجُ، عُودُ الطِّيبِ وَأَزْوَاجُهُمُ الحُورُ العِينُ، عَلَى خَلْقِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، عَلَى صُورَةِ أَبِيهِمْ آدَمَ، سِتُّونَ ذِرَاعًا فِي السَّمَاءِ)) (أخرجه البخاري3327، ومسلم:2834)

’’پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہوگا۔ وہ چودھویں کے چاند کی شکل میں ہوں گے۔ جو ان کے (فوراً)) بعد جائیں گے وہ آسمان میں سب سے زیادہ روشن چمکتے ہوئے ستارے کی شکل میں ہوں گے۔ انہیں پیشاب کی حاجت ہوگی نہ پاخانے کی نہ تھوکیں گے، نہ ناک سنکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور ان کا پینا کستوری کا ہوگا۔ ان کی انگیٹیوں میں عطر عود (سلگتا) ہوگا، ان کی بیویاں غزال چشم حوریں ہوں گی، ان سب کے اخلاق و عادات ایک ہی آدمی کے خلق کے مطابق ہوں گے۔ اپنے والد آدم علیہ السلام  کی طرح ساٹھ ہاتھ لیے ہوں گے۔‘‘

توضیح و فوائد: لوگوں کے اعمال کے اعتبار سے ان کے درجات بھی مختلف ہوں گے۔ اس اعتبار سے ان کی خوبصورتی اور چمک ایک بھی بے مثال ہو گی لیکن ہر جنتی اپنی حاصل کردہ نعمتوں پر خوش اور مطمئن ہو گا۔ جہاں تک حوروں کا تعلق ہے تو ہر جنتی کو دنیا کی بیویوں کے علاوہ  دو حوریں ملیں گی، تاہم شہید کو بہتر (72) حور میں ملیں گی اور ان حوروں کے جنتی لباس کے بارے میں ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ حوروں کے سر کا دوپٹہ دنیا جہان سے زیادہ قیمتی ہوگا۔

1180۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنےفرمايا:

((لَقَابُ قَوسِ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِمَّا تَطْلُعُ عَلَيْهِ الشَّمْسُ وَتَغْرُبُ)) (أخرجه البخاري:2793)

’’جنت میں ایک کمان کے برابر جگہ دنیا کی ان تمام چیزوں سے زیادہ بہتر ہے جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔‘‘

1181۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((سَأَلَ مُوسَى رَبَّهُ، مَا أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً، قَالَ: هُوَ رَجُلٌ يَجِيءُ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، كَيْفَ وَقَدْ نَزَلَ النَّاسُ مَنَازِلَهُمْ، وَأَخَذُوا أَخَذَاتِهِمْ، فَيُقَالُ لَهُ: أَتَرْضَى أَنْ يَكُونَ لَكَ مِثْلُ مُلْكِ مَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا؟ فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: لَكَ ذَلِكَ، وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ وَمِثْلُهُ، فَقَالَ فِي الْخَامِسَةِ: رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، وَلَكَ مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ، وَلَذَّتْ عَيْنُكَ، فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، قَالَ: رَبِّ، فَأَعْلَاهُمْ مَنْزِلَةً؟ قَالَ: أُولَئِكَ الَّذِينَ أَرَدْتُ غَرَسْتُ كَرَامَتَهُمْ بِيَدِي، وَخَتَمْتُ عَلَيْهَا، فَلَمْ تَرَ عَيْنٌ، وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ، وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ "، قَالَ: وَمِصْدَاقُهُ فِي كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: ” {فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ} [السجدة: 17] الْآيَةَ.)) (أخرجه مسلم:189)

’’موسی  علیہ السلام نے رب تعالی سے پو چھلا جنت میں سب سے کم درجے کا (جنتی) کون ہو گا اللہ تعالی نے فرمایا: وہ (ایسا) آدمی ہو گا جو تمام اہل جنت کو جنت میں  بھیج دیے جانے کے بعد آئے گا تو اس سے کیا جائے گا جنت میں داخل ہو جا۔ وہ کہے گا: میرے رب کیسے ؟ لوگ اپنی اپنی منزلوں میں قیام پذیر چکے ہیں اور جو لینا تھا سب کچھ لے چکے ہیں۔ تو اس سے کیا جائے گا: کیا تم اس پر راضی ہو جاتا ہے کہ تمہیں دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے ملک کے برابر مل جائے ؟ وہ کہے گا میرے رب میں راضی ہوں۔ اللہ فرمائے گا۔ وہ (ملک) تمھارا ہوا، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور پھر اتنا اور پھر اتنا اورپھر اتنا اور پانچویں بار وہ آدمی (بے اختیار) کہے گا میرے رب ! میں راضی ہو گیا۔ اللہ عز وجل فرمائے گا: یہ(سب بھی) تیرا اور اس سے دس گنا مزید بھی تیرا اور وہ سب کچھ بھی تیرا جو تیرا دل چاہے اور جو تیری آنکھوں کو بھائے۔ وہ کہے گا: اے میرے ربا میں راضی ہوں۔ پھر (موسی علیہ السلام نے) کہا پر وردگار تو وہ جو سب سے اونچے درجے کا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: یہی لوگ ہیں جو میری مراد ہیں ۔ ان کی عزت و کرامت کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کیا اور اس پر مہر لگا دی (عزت کا) دو (مقام) نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا۔ فرمایا: اس کا مصداق اللہ  عزوجل کی کتاب میں موجود ہے: ’’کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی  کیسی ٹھنڈک چھپا کے رکھی گئی ہے۔‘‘

1182۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ حَبْوًا، فَيَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ "، قَالَ: ” فَيَأْتِيهَا، فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا – أَوْ إِنَّ لَكَ عَشَرَةَ أَمْثَالِ الدُّنْيَا – "، قَالَ: ” فَيَقُولُ: أَتَسْخَرُ بِي – أَوْ أَتَضْحَكُ بِي – وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟))(أخرجه البخاري: 6571، 7511، و مسلم:186، و اللفظ له)

’’بے شک میں دوزخ سے سب سے آخر میں نکلنے والے اور جنت والوں میں سب سے آخر میں جانے والے کو خوب جانتا ہوں۔ وہ ایسا آدمی ہوگا جو ہاتھوں اور پیٹ کے بل گھستا ہوا آگ سے نکلے گا۔ اللہ تبارک و تعالی اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں آئے گا تو اسے ایسا لگے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا: اے میرے رب مجھے تو وہ بھری ہوئی ملی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔ آپ ﷺنے فرمایا: وہ (دوبارہ) جائے گا تو اسے یہی لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آکر (پھر) کہے گا: اے میرے رب ! میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا ہے۔ اللہ تعالی اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔ بے شک تیرے لیے (وہاں) پوری دنیا کے برابر اور اس سے میں گنا زیادہ جگہ ہے (یا تیرے لیے دنیا سے اس گنا زیادہ جگہ ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص کہے گا: کیا تو میرے ساتھ مذاق کرتا ہے (یا میری ہنسی اڑاتا ہے ،)  حالانکہ تو ہی بادشاہ ہے؟‘‘

سید نا عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا آپ ہنس دیے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ عبداللہ  رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: چنانچہ یہ کہا جاتا تھا کہ یہ شخص سب سے کم مرتبہ جنتی ہوگا۔

1183۔ سید نا اس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوقًا يَأْتُونَهَا كُلَّ جُمُعَةٍ فَتَهُبُّ رِيحُ الشَّمَالِ فَتَحْثُو فِي وُجُوهِهِمْ وَثِيَابِهِمْ فَيَزْدَادُونَ حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَرْجِعُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ وَقَدْ ازْدَادُوا حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ وَاللَّهِ لَقَدْ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَقُولُونَ وَأَنْتُمْ وَاللَّهِ لَقَدْ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا))(أخرجه مسلم:2833)

’’یقینا جنت میں ایک بازار ہے جس میں وہ (اہل جنت) ہر جمعہ کو آیا کریں گے تو (اس روز) شمال کی ایسی ہوا چلے گی جو ان کے چہروں پر اور ان کے کپڑوں پر پھیل جائے گی۔ وہ حسن و جمال میں اور بڑھ جائیں گے۔ وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس آئیں گے تو وہ (بھی) حسن و جمال میں اور بڑھ گئے ہوں گے۔ ان کے گھر والے ان سے کہیں گے: اللہ کی قسم! ہمارے ہاں سے جانے کے بعد تمھارا حسن و جمال اور بڑھ گیا ہے۔ وہ کہیں گے اور تم بھی، اللہ کی قسم ! ہمارے پیچھے تم لوگ بھی اور زیادہ خوبصورت و حسین ہو گئے ہو۔‘‘

توضیح و فوائد: جنت میں جمعہ کے دن اصحاب جنت اللہ رب العزت کا دیدار کریں گے، جب بھی وہ دیدار الہی کریں گے ہر بار اس دیدار کی بدولت ان کا حسن دو بالا ہو جائے گا۔ جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھروں ہی میں رہیں گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرماتے ہیں کہ ان عورتوں کا حسن بڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھروں ہی میں اللہ تعال کے دیدار کا شرف حاصل کر لیں گی۔ واللہ اعلم .

1184۔سیدنا ابو موسی اشعری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ وَاحِدَةٍ مُجَوَّفَةٍ طُولُهَا سِتُّونَ مِيلًا لِلْمُؤْمِنِ فِيهَا أَهْلُونَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ الْمُؤْمِنُ فَلَا يَرَى بَعْضُهُمْ بَعْضًا)) (أخرجه البخاري: 4879، ومسلم:2838، واللفظ له)

’’بلا شبہ مومن کے لیے جنت میں ایک خیمہ ہوگا جو ایک پولے اور کھو کھلے چمکتے سفید موتی کا بنا ہوا ہوگا۔ اس کی لمبائی ستر میل ہوگی۔ اس (خیمے) میں مومن کے بہت سے گھر والے ہوں گے۔ وہ (باری باری) ان کے ہاں چکر لگائے گا، (لیکن) وہ  (اس قدر فاصلے پہ ہوں گے کیا ایک دوسرے کو نہیں دیکھتے ہوں گے۔‘‘

1185۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺسے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةً سَنَةٍ)) (أخرجه البخاري:3252: 4881، ومسلم: 2826، واللفظ له)

’’جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک اونٹ سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔‘‘

1186 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ أَدْنَى مَقْعَدِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ أَنْ يَقُولَ لَهُ: تَمَنَّ فَيَتَمَنَّى، وَيَتَمَنَّى، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَمَنَّيْتَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَا تَمَنَّيْتَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ ")) (أخرجه مسلم:182)

 ’’بے شک تم میں سے کسی کی جنت میں کم از کم جگہ یہ ہوگی کہ اللہ تعالی اس سے فرمائے گا: تمنا کرو۔ وہ تمنا کرے گا، پھر تمنا کرے گا اللہ اس سے پوچھے گا: کیا تم تمنا کر چکے ؟ وہ کہے گا: ہاں۔ اللہ تعالی فرمائے گا: وہ سب کچھ تیرا ہوا جس کی تو نے تمنا کی اور اس کے ساتھ اتناہی (اور بھی)۔‘‘

1187۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن گفتگو کر رہے تھے جبکہ اس وقت آپ کے پاس ایک دیہاتی بھی بیٹھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ فِي الزَّرْعِ فَقَالَ لَهُ أَوَلَسْتَ فِيمَا شِئْتَ قَالَ بَلَى وَلَكِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَزْرَعَ فَأَسْرَعَ وَبَذَرَ فَتَبَادَرَ الطَّرْفَ نَبَاتُهُ وَاسْتِوَاؤُهُ وَاسْتِحْصَادُهُ وَتَكْوِيرُهُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى دُونَكَ يَا ابْنَ آدَمَ فَإِنَّهُ لَا يُشْبِعُكَ شَيْء)) (أخرجه البخاري:7519)

’’اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی باڑی کرنے کی اجازت طلب کرے گا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: کیاوہ  سب کچھ تیرے پاس نہیں ہے جو تو چاہتا ہے؟ وہ عرض کرے گا: کیوں نہیں لیکن مجھے کھیتی باڑی سے محبت ہے، پھر وہ بہت جلد  بیج بوئے گا اور پل جھپکنے ہی میں وہ آگ آئے گا ، سیدھا ہو جائے گا، کاٹنے کے قابل ہو جائے گا اور پہاڑوں کی طرح  غلےکے انبار لگ جائیں گے۔ اللہ تعالی فرمائے گا: اے ابن آدم ! یہ لے لے۔  تیرے پیٹ کو کو کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔‘‘

دیہاتی نے کہا: اللہ کے رسول ! یہ خواہش تو قریشی یا انصاری ہی کریں گے کیونکہ وہی کھیتی باڑی والے ہیں، ہم تو کسان نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اس کی یہ بات سن کر ہنس پڑے۔

توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنتی جس چیز کی خواہش کریں گے، وہ پوری ہو گی لیکن کوئی جنتی ایسی خواہش نہیں کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی نا پسندیدہ ہو کیونکہ سب کے دل نہایت پاک صاف ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا عنصر ان کے دل سے نکال دیا جائے گا۔

1188۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ فَيَقُولُونَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ فَيَقُولُ هَلْ رَضِيتُمْ فَيَقُولُونَ وَمَا لَنَا لَا نَرْضَى يَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ فَيَقُولُ أَلَا أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُونَ يَا رَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا))  (أخرجه البخاري7518 و مسلم:2829)

’’یقینا اللہ تعالی اہل جنت سے فرمائے گا: اے جنت والو!  وہ عرض کریں گے: لبیک و سعدیک، اے ہمارے رب ! تمام تر خیر و برکت تیرے دونوں ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالی فرمائے گا: کیا تم خوش ہو ؟وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم خوش کیوں نہ ہوں جبکہ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا؟ اللہ تعالی فرمائے گا: کیا میں تمہیں اس سے افضل انعام نہ دوں؟ اہل جنت عرض کریں گے: اے ہمارے رب ! اس سے افضل کیا چیز ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالی فرمائے گا: میں اپنی خوشی و رضا مندی تم پر اتارتا ہوں ۔ آئندہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔‘‘

1189۔سید نا صہیب  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، قَالَ: يَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ، فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَلَّ)) (أخرجه المسلم:181)

’’جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے، (اس وقت) اللہ تبارک و تعالی فرمائے گا: تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں ؟ وہ جواب دیں گے: کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دور سے نجات نہیں دی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چنانچہ ان پر اللہ تعالی پردہ اٹھادے کا تو انھیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہوئی ہوگی جو انھیں اپنے رب عزو جل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘