جنت کی مزید نعمتیں

﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝۱۳۳﴾(ال عمران:133)
گزشتہ چند خطبات جمعہ المبارک میں جنت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی ، جنت کے بارے میں ابھی مزید بہت کچھ کہنے کو ہے ، لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب موضوع کو یہاں سمیٹ لیا جائے اور جو باتیں باقی رہ جائیں گی وہ دوسرے موضوعات میں کسی نہ کسی مناسبت سے بیان ہوتی رہیں گی۔ ان شاء اللہ
جنت کے بارے میں جاننا اور گفتگو کرنا انسان کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، اس لیے کہ انسان کی اس عارضی زندگی کے بعد یعنی قوت ہونے کے بعد اس کے سامنے صرف دو ہی ٹھکانے ہوں گے ان دو میں سے کوئی ایک ضرور اور اس کی آخری حقیقی اور حتمی منزل
ہوگی ۔ تیسرا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔
﴿ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَ فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ۝۷﴾ (الشورى:7)
’’ایک گروہ جنت میں ہوگا اور دوسرا جہنم میں ۔‘‘
اب جو آدمی قرآن پاک کی بیان کردہ اس حقیقت پر یقین رکھتا ہے وہ تو ضرور جانتا چاہے گا کہ جنت کیا ہے اور جہنم کیا ہے، تاکہ وہ فیصلہ کر سکے کہ اسے ان دو میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ ویسے دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ان دونوں ٹھکانوں میں ہرانسان کی پہلے سے جنگ موجود ہے، جب دو اپنے عملوں سے ایک جگہ کو کنفرم کر دے گا کہ اسے فلاں جگہ ہی لینی ہے تو اس کی دوسری سیٹ کینسل ہو جائے گی۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا لَهُ مَنْزَلَانِ))
’’ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کی دو منزلیں اور ٹھکانے نہ ہوں ۔‘‘
((مَنْزَلٌ فِي الْجَنَّةِ وَمَنْزِلٌ فِي النَّارِ ))
’’ ایک منزل، ایک گھر ، لوکان، رہائش جنت میں ہے اور ایک جہنم میں ۔‘‘
((فَإِذَا مَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ ، وَرِثَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْزِلَهُ )) (سنن ابو داؤد:4341)
’’جب وہ فوت ہو کر جہنم میں چلا جاتا ہے، تو جنت والے اس کی منزل اور اس کے محل کے وارث بن جاتے ہیں ۔
فذلك قوله تعالى: ﴿أولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ﴾ (المومنون :10)
’’ پھر آپ ﷺنے فرمایا: پس یہی ہے اللہ تعالی کا فرمان: ﴿أولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ﴾ ’’کہ یہی لوگ وارث ہوں گے۔‘‘
تو بنیادی طور پر ہر انسان کے لیے دونوں جگہوں پر ایک ایک مکان اور ٹھکانا الاٹ کیا گیا ہے، اب اس کی مرضی ہے وہ کس کو پسند کرتا ہے اور کسی کو ترجیح دیتا ہے، وہ جدھر جانا چاہتا ہے اس کے لیے عملی کوششیں کرتا ہے۔ یہ بات آج کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے، کوئی اس پر ایمان لائے یا نہ لائے اس کو اہمیت دے یا نہ دے، مگر ایک نہ ایک دن اس کو اس کے دونوں ٹھکانوں کا معائنہ اور مشاہدہ ضرور کرایا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ أَحَدٌ إِلَّا أُرِى مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ، لَوْ أَسَاءَ لِيَزْدَادَ شُكْرًا))
’’ کوئی شخص اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کو اس کا جہنم والا ٹکانہ نہ دکھا دیا جائے، کہ اگر وہ برے عمل کرتا تو اس کا وہ ٹھکانہ ہوتا، تا کہ وہ مزید شکرگزاری کرے ۔‘‘
((وَلا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ إِلَّا أُرى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ لَوْاَحْسَنَ ليَكُونَ عَلَيْهِ حَسْرَةً)) .()صحیح البخاري:6569)
’’اور کوئی شخص اس وقت تک جہنم میں نہیں جائے گا، جب تک اس کو اس کا جنت والا ٹھکانہ نہ دکھا دیا جائے، کہ اگر وہ اچھے عمل کرتا تو وہ اس کا ٹھکانہ ہوتا، اور وہ اس لیے اس کو دکھایا جائے گا کہ تا کہ وہ اس پر حسرت و افسوس ہے ۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ آدمی کو اس کے دونوں ٹھکانے کس وقت دکھائے جائیں گے؟ تو اس میں علماء کرام کی دو آراء میں ایک یہ کہ قیامت کے دن دکھائے جائیں گے جیسا کہ پہلی حدیث کے مفہوم سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ قبر میں دکھائے جائیں گے۔
جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا وُضِعَ الْعَبْدُ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلّٰى عَنْهُ أَصْحَابُهُ فَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرع نِعَالِهِم))
’’آدمی کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے، اور اس کے دوست و احباب اور اس کے اعزا و اقارب دفنانے کے بعد واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔‘‘
((فَيَأْتِيهِ مَلَكَانَ، فَيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُولان: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ))
’’دوفرشتے اس کے پاس آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ یعنی آپ سے ان کے بارے میں۔‘‘
((فَأَمَّا إِنْ كَانَ مُؤْمِنًا فَيَقُولُ: إِنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ))
’اگر وہ مؤمن ہوگا تو کہے گا آپ ﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
((فَيُقَالَ: أَنْظُرُ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الجَنَّةِ)) (بخاري:1374، مسلم:2870)
’’تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اب اپنا جہنم والا ٹھکانہ بھی دیکھ لے جسے اللہ تعالی نے تیرے لیے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔‘‘
تو اس حدیث کی روشنی میں آدمی کو بصورت دیگر اس کا دوسرا ٹھکانہ بھی قبر میں ہی دکھا دیا جاتا ہے اور اس کا اصلی ٹھکا نہ تو ہر وقت اس کے سامنے کھلا ہی رہتا ہے، اگر جنتی ہو تو اسے جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی رہتی ہیں، اور اگر جہنمی ہو تو اسے جہنم کی گرمی اور زہر آلود ہوا ئیں پہنچتی رہتی ہیں۔
تو جنت چونکہ ہر مسلمان کی آخری اور حقیقی منزل ہے، اس لیے اس کی گھر اور اس کا ذکر لازمی اور ضروری ہے، اور دور اندیشی، دانشمندی اور عقلمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آدمی اپنی آخری، حتمی اور حقیقی منزل کو اس دنیا کی عارضی، ادھوری اور نا پائیدار رہائش پر ترجیح دے اور اس پر زیادہ توجہ دے اور اس کے لیے زیادہ محنت اور جدو جہد کرے۔ اس حقیقت سے دنیا کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ آدمی کے نزدیک جو چیز زیادہ اہم ہوتی ہے، اس کو زیادہ وقت دیتا ہے اور اس کے لیے زیادہ محنت کرتا ہے۔ آدمی کو جس چیز کی سچی تڑپ اور بھی خواہش ہوتی ہےیقینًا اس کے لیے زیادہ کوشش اور محنت کرتا ہے، قرآن پاک میں ایسی کچی تڑپ رکھنے والوں کا بکثرت ذکر کیا گیا ہے اور احادیث مبارکہ میں ایسے لوگوں کے جابجا تذکرے ملتے ہیں۔
مگر وہ چونکہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے اس لیے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے
صرف ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ پانچویں خلیفہ راشد کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان کے ایک وزیر رجاء بن حيوة الكندي جو کہ ایک بہت بڑے عالم دین بھی تھے ان کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ
أَمَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْد العزيز ان اشتري له ثوبا بسته دراهم))
’’مجھے عمر بن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے کچھ درہم کی ایک قمیص خرید کر لاؤں۔‘‘
((فاتیته به))
’’پس میں وہ لے آیا۔‘‘
((فَجَسَّهُ وقال: هو على ما أحبُّ لَولَا انَّ فيه لينًا))
’’چھو کر دیکھا اور کہا کہ یہ ہے تو میری پسند کا لیکن اگر یہ نرم اور ملائم نہ ہوتا تو‘‘
(فبكى رجاء بن حيوة))
’’رجاء بن حیوہ رو پڑے۔‘‘
((فقال له عمر: ما يبكيك))
’’تو عمر بن عبد العزیز بیٹے نے پوچھا کس بات پر رونا آیا۔‘‘
((قال: اتيتك وانت امير بثوب بستمائة درهم، فجَسَسْته وقلت: هو على ما احب لولا ان فيه خُشونة))
’’کہا: جب آپ گورنر تھے تو میں آپ کے پاس 600درہم کی قمیص لے کر آیا تھا اور آپ نے چھو کر کہا تھا کہ میں پسند تو ایسی ہی کرتا ہوں اگر یہ کھردری نہ ہوتی تو
((واتيتك وانت امير المومنين بثوب بسته دراهم فجسته وقلتَ هو على ما احب لولا ان فيه لينا))
’’اور اب جبکہ آپ امیر المؤمنین ہیں آپ کے پاس صرف چھ درہم کی قمیص لے کر آیا ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ بہت ملائم ہے۔‘‘
((فقال: يا رجاء إن لي نفساً توَّاقة))
’’رجاء! میں بڑا شوقین مزاج نفس رکھتا ہوں ، جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔‘‘
((تاقت الى فاطمة بنت عبد الملك فتزوجتها))
’’دل نے چاہا کہ فاطمہ بنت عبدالملک سے شادی ہو، شادی ہوگئی ۔‘‘
((و تاقت إلى الإمارة فوُلِّيْتُها))
’امارت کی خواہش ہوئی امیر اور والی بنا دیا گیا۔‘‘
((وتاقت الى الخلافة فادركتها))
’’خلافت کا شوق ہوا تو خلافت مل گئی۔‘‘ (امیر المومنین بن گئے )۔
((وقد تاقت الى الجنة فأرجو أن أدركها، ان شاء الله عز وجل)) .( وقيات الاعيان لابن خلكان ، ج:2، ص:301، ترجمه:237)
’’اور اب جنت کا شوق دل میں پیدا ہو گیا ہے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ بھی حاصل کرلوں گا۔‘‘
تو جس چیز کی سچی خواہش اور تڑپ دل میں ہو انسان لا محالہ اس کے لیے کوشش کرتا ہے، اور سنجیدہ کوشش کرتا ہے، ہم جنت کی دل میں کتنی خواہش رکھتے ہیں اور کیا وہ بھی خواہش ہے، اس کا جواب ہمیں ہمارے عمل سے ملتا ہے۔
آپ لوگوں نے تازہ تازہ جنت کے نظارے کیے ہیں، اور جنت کی باتیں سن کریقینًا خوش ہوئے ہوں گے، لہٰذا میں فوری طور پر ایسی باتیں نہیں کرنا چاہتا ہے کہ جن سے وہ مزا کر کرا ہو جائے، مگر حقیقت یہ ہے کہ حقیقت سے آنکھیں بھی نہیں موند سکتے ، ورنہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں بہت سی ایسی باتوں کا ذکر ہے کہ جن کا مرتکب جنت سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں کچھ لوگ خود ہی جنت میں جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی ایسے شخص کے بارے میں سنا ہے جو جنت میں نہ جانا چاہتا ہو؟ شاید نہ سنا ہو، مگریقینًا ایسے لوگ موجود ہیں ، حدیث میں ہے آپ سے تم نے فرمایا:
((كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أبي))
’’فرمایا: میری تمام امت جنت میں جائے گی، سوائے ان لوگوں کے جو جنت میں جانے سے خود انکار کر دیں ۔‘‘
((قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَنْ يَأْبٰي))
’’صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺجنت میں جانے سے کون انکار کرتا ہے؟‘‘
((قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبٰي)).(بخاری:7280)
’’فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔‘‘
جنت میں جانے کا شوق ہو اور اس کے لیے کوئی کوشش نہ ہو بات سمجھ میں نہیں آتی، شاعر کہتا ہے کہ:
ترجو النجاة ولم تسلك طريقتها
إن السفينة لا تجري على اليبس
’’کامیابی اور نجات بھی چاہتے ہو مگر اس کا راستہ اختیار نہیں کرتے ۔ کشتی کبھی خشکی پر نہیں چلا کرتی ۔‘‘
میٹھی میٹھی باتیں کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ حقیقتا لوگ ایسے ہی شخص کو پسند کرتے ہیں جو میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہو، جن سے کسی کو ڈر، خوف اور فکر اور پریشانی میں مبتلا نہ ہونا پڑے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ ایسی باتیں کرنا ہرگز ہمدردی اور خیر خواہی نہیں ہے۔ خطبہ ارشاد فرماتے وقت آپ ﷺ کا حال یہ ہوتا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ
((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ إِذا خَطَبَ اِحْمَرَّتْ عَيْنَاه))
’’آپ ﷺ جب خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ سے کام کی آنکھیں سرخ ہو جائیں۔‘‘
((وَعَلَا صَوْتُهُ))
’’آواز بلند ہوتی ۔‘‘
((وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ))
’’غصہ شدید ہوتا۔‘‘
((حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشِ))
’’حتی کہ آپ سے کام کا انداز یہ ہوتا گویا کہ آپ کسی لشکر کو ڈرا رہے ہیں۔‘‘
((يَقُولُ صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ)) (صحیح مسلم:867)
’’جیسا کہ کوئی اپنے لشکر کو دشمن کے حملے سے ڈرا رہا ہو، کہ دشمن صبح یا شام کسی وقت بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔‘‘
تو اصل خیر خواہی یہ ہے کہ لوگوں کو خطرات سے آگاہ کیا جائے جو موت کے وقت ، قبر میں حشر میں اور پل صراط پر پیش آنے والے ہیں۔
مگر افسوس! آج ہمارے ہاں خیر خواہی کا معیار بدل گیا ہے، آج ہمارے ہاں مخلص، ہمدرد اور خیر خواہ اس کو سمجھا جاتا ہے، جو دنیا کے معاملات میں کسی طرح آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو، مالی معاملات میں ہو، طرف داری میں ہو، جسمانی راحت و آسائش کے حوالے سے ہو۔
ممکن ہے ایسا شخص دنیا کے لحاظ سے واقعی آپ کا ہمدرد اور خیر خواہ ہو لیکن اگر وہ آخرت کے معاملے میں آپ کی ہمدردی نہیں کرتا تو وہ خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہے۔ اب کتنے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو فجر کی نماز کے لیے خود تو مسجد میں چلے آتے ہیں۔ مگر اپنے بالغ اور جوان بیٹوں کو گھر میں سوتا چھوڑ کر آجاتے ہیں، کہ انہوں نے سکول جانا ہے یا جاب پر جانا ہے، ان کی نیند خراب ہو جائے گی لہٰذا سو لینے دو۔ کیا یہ ہمدردی ہے؟یقینًا نہیں، بلکہ یہ دشمنی ہے۔ اگر اس شخص کا اس حدیث پر ایمان ہے کہ جس میں آپﷺ کو خواب میں بے نماز کا انجام دکھایا گیا کہ جو شخص نماز سے سویا رہتا ہے اس کا انجام یہ ہے کہ ایک فرشتہ اس کے سر پر پتھر مارتا ہے، جس سے اس کے سر کے پر خچے اڑ جاتے ہیں، پتھر لڑھک کر دور جا گرتا ہے، وہ فرشتہ پتھر اٹھا کر واپس آتا ہے تو اتنے میں اس کا سر پھر جڑ چکا ہوتا ہے، اور وہ پھر اسی طرح اس کو پتھر مارتا ہے۔ اور یہ معاملہ قبر کا ہے، عالم برزخ کا ہے، آخرت میں جو اس کا انجام ہوگا وہ الگ ہے۔ اب کیا سمجھتے ہیں کہ اس حدیث پر ایمان رکھنے والا شخص اپنے بیٹے کا مخلص اور ہمدرد ہو سکتا ہے، ہرگز نہیں، بلکہیقینًا اس کا دشمن ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو ایک دوسرے سے دوستی کا دم بھرتے ہیں، اور وہ ایک دوسرے کے لیے جان بھی قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں مگر دین کے معاملے میں وہ ان کے ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہیں، نہ خود نماز پڑھتے ہیں نہ دوستوں کو ترغیب دیتے ہیں ، نہ خیر خواہی کی نصیحت کرتے ہیں ، قرآن کہتا ہے کہ یہ تمہارے دشمن ہیں۔
﴿ اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠۝۶﴾(الزخرف:67)
’’اس روز سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے متقین کے آج کے دوست جو دوستی کا بہت دم بھرتے ہیں اگر متقی نہیں ہیں تو جان لو یہ کل کو تمہارے دشمن ہوں گے، جب تم پر حقیقی مشکل آپڑے گی ۔
خیر تو بات ہو رہی تھی ہمدردی اور خیر خواہی کی تو انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر انسانیت لیے کوئی ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہو سکتا اور پھر ان کے بعد ورثیہ الانبیاء علماء کرام ہیں۔ ہے کہ چلتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف اور جنت کا ذکر کرتے ہیں، حقیقت یہ جنت کا ذکر صرف خطبات میں ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ جنت ہماری محفلوں کا موضوع بھی ہونا چاہیے، یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ جنت ہمارے ہاں کتنا اہم مسئلہ ہے، ہمارے اسلاف کا یہی طرز عمل تھا۔ حدیث میں ہے، مسلم شریف کی حدیث ہے امام ابن سیرین رحمہ اللہ ، کبار تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ روایت کرتے ہیں کہ:
((اِخْتَصَمَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ أَيُّهُمْ فِي الْجَنَّةِ أَكْثَرُ)) .
’’مردوں اور عورتوں میں اس بات پر بحث و تکرار چل نکلی کہ ان میں سے جنت میں کون زیادہ ہوں گے مرد یا عورتیں؟‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ
((إِمَّا تَفَاخَرُوا وَإِمَّا تَذَاكَرُوا الرِّجَالُ فِي الْجَنَّةِ أَكْثَرُ أمِ النِّسِاءُ))
’’کہ یا تو فخر کے طور پر بات ہو رہی تھی یا از راہ تذکرہ بات ہو رہی تھی کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے، یا عور تیں ؟‘‘
((فَسَأَلُوا أَبَا هُرَيْرَة))
’’تو لوگوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ آپ بتا ئیں جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں؟‘‘
((فَقَالَ: أَوَلَمْ يَقُلْ أَبُو الْقَاسِمِ))
’’تو انہوں نے کہا: کیا ابو القاسم ﷺ نے نہیں فرمایا۔‘‘
ابو القاسم آپ ﷺکی کنیت ہے، اور آپﷺ کی کنیت کے بارے میں مسئلہ ہے کہ آپﷺ نے ابو القاسم کنیت رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، فرمایا:
((سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكْنُوا بِكُنيتي))
’’میرے نام کے ساتھ نام رکھو اور میری کنیت کے ساتھ کنیت نہ رکھو۔‘‘
اور اس میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے تین اقوال ہیں:
(1) آپ کی موجودگی میں منع تھا مگر بعد میں کوئی حرج نہیں۔
(2) جس کا نام محمد ہو وہ ابو القاسم کنیت نہ رکھے۔
(3) اور تیسرے یہ کہ کسی صورت میں بھی ابو القاسم کنیت نہ رکھی جائے اور یہی احوط ہے، یعنی احتیاط کا راستہ ہے۔ تو حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ فرماتے ہیں:
((أَوَلَمْ يَقُلْ أَبُو الْقَاسِمِ إِنَّ أَوَّلَ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ))
’’کیا ابو القاسم ﷺنے فرمایا نہیں ! پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی۔ وہ چودھویں کے چاند کی طرح چمکتے ہوئے چہروں والے ہوں گے۔‘‘
((وَالَّتِي تَلِيْهَا عَلٰى أَضْوَاءِ كَوْكَبِ دُرِّي فِي السَّمَاءِ))
’’اور جو ان کے بعد جائے گی وہ آسمان میں سب سے زیادہ چمکتے ہوئے ستارے کی طرح ہوگی۔‘‘
((لِكُلِّ امْرِى مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ اثْنتان، يُرَى مِنْ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللحْمِ ، وَمَا فِي الْجَنَّةِ أَعْزَبُ)) (مسلم:2834)
’’ان میں سے ہر آدمی کی دو دو بیویاں ہوں گی ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا اور جنت میں کوئی کنوارا نہ رہے گا۔‘‘
تو گویا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بتانا چاہ رہے تھے کہ جنت میں عورتوں کی اکثریت ہوگی ۔ اب اس میں بھی تفصیل ہے مگر اللہ کے فضل سے پھر کسی وقت عرض کی جائے گی۔
………………….