جنت کی نعمتیں

﴿وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝۱۳۳﴾ (ال عمران:133)
گذشتہ چند خطبات جمعہ سے جنت کا ذکر ہو رہا تھا، جنت کے بارے میں قرآن وحدیث میں بہت کچھ بیان ہوا ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ ہوا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جنت کے وجود کے اثبات کا بیان ہے، اس کے ناموں کا ذکر ہے، اس کے دروازوں کا ذکر ہے، اس کی وسعت کا ذکر ہے، اس کے محلات کا ذکر ہے، اس کی مٹی، اس کے درختوں ، اس کے خیموں اور اس کی نہروں کا ذکر ہے، اور پھر اہل جنت کے حلیوں، ان کے لباسوں، ان کے کھانوں اور ان کی مجلسوں کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی نعمتوں کا ذکر ہے، مگر جنت کی سب سے بڑی نعمت اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی اور اس کا دیدار ہے، تا ہم قرآن وحدیث میں جنت کی بہت زیادہ اور واضح تفصیلات بیان ہوئی ہیں، جن میں سے گزشتہ خطبات جمعہ میں کچھ بیان ہوئیں۔
آج مزید چند نعمتوں کے بارے میں جانتے ہیں، یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جنت کے سو (۱۰۰) درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ زمین اور آسمان کے درمیان ہے۔
ایک حدیث میں اس کی یوں منظر کشی کی گئی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَتَرَاءُوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ كَمَا تَتَرَاءُ وَنَ الْكَوْكَبَ الدُّرَى الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوْ مِنَ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَيْنَهُمْ))
’’فرمایا: جنتی لوگ اپنے سے اوپر والے محلات کے جنتیوں کو دیکھیں گے، تو ایسا محسوس کریں گے، جیسا کہ دور آسمان کے مشرقی یا مغربی کنارے پر کوئی تارا چمک رہا ہے، اور یہ فاصلہ جنتیوں کے باہمی درجات کے فرق کی وجہ سے ہوگا۔ یعنی جس کو بلند درجہ ملا ہے وہ ایمان و عمل میں دوسرے سے بہتر ہے۔‘‘
((قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الْأَنْبِيَاءِ، لَا يَبْلُغُهَا غَيْرُهُمْ))
صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺیہ تو انبیاء علیہم السلام کا مقام ہی ہو سکتا ہے، ان کے علاوہ اس بلند مقام پر کوئی اور تو نہیں پہنچ سکے گا۔‘‘
((قَالَ: بَلٰى))
’’فرمایا: کیوں نہیں ۔‘‘
((وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدِهِ ، رِجَالٌ آمَنُوا بِاللهِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِيْنَ)) (صحيح البخاري:3256)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ لوگ ان درجوں میں ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی ۔‘‘
تو یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم اور انعام و احسان ہے کہ اس نے اہل جنت کے مابین یہ درجات رکھتے ہیں، تاکہ جو زیادہ محنت کرے، زیادہ فرمانبرداری کرے، وہ زیادہ اونچے درجات حاصل کرے۔
﴿وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا﴾(الانعام:132)
’’اور ہر شخص کا درجہ اس کے عمل کے لحاظ سے ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ اُنْظُرْ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ ؕ وَ لَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَكْبَرُ تَفْضِیْلًا۝۲۱﴾ (الاسراء:21)
’’دیکھو! دنیا میں ہم نے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر کیسے فضیلت دے رکھی ہے۔ اور آخرت میں اس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی۔‘‘
تو درجات میں فرق و تفاوت اللہ تعالی کا فضل و احسان اور اس کا عدل و انصاف ہے۔ کہ جو جس کا حق بنتا ہے، اللہ تعالی اس کا پورا پورا حق دیتے ہیں، ایک ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوتی بلکہ یقینًا آدمی کے حق سے زیادہ اس کو عطا کرتے ہیں۔
تو آدمی کے عمل کے مطابق اس کو اجر و ثواب ملنا عین عدل و انصاف ہے۔ اور اللہ تعالی کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم و نا انصافی نہیں کرتے ، اس کی حق تلفی نہیں کرتے۔
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَ اِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۴۰﴾(النساء:40)
’’اللہ تعالی کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اسے دو چند کرتا ہے، اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا۝۱۲۴﴾ (النساء:124)
’’اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اور ان کی کسی داغ دھبے کے برابر بھی حق تلفی نہ ہوگی ۔‘‘
نقیر اصل میں کہتے ہیں کھجور کی گٹھلی پر بنے ایک نہایت ہی چھوٹے سے انھرے ہوئے نقطے کو، کھجور کی گٹھلی پر ایک طرف شکاف ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کی پشت پر اک ہلکا سا ابھرا ہوا نقطہ بنا ہوتا ہے، اس کو نقیر کہتے ہیں۔ یعنی کھجور کی گٹھلی پر بنے ہوئے اس باریک سے نقطے کے برابر بھی کسی کی حق تلفی نہ ہوگی۔
اور حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً))
’’اللہ تعالی کسی مسلمان کی کسی ایک نیکی کی حق تلفی بھی نہیں کرتا ۔‘‘
((يُعْطَى بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيُجْزَى بِهَا فِي الآخِرَةِ))
’’دنیا میں بھی اس کا اجر و ثواب دیتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی جزا ملے گی۔‘‘
((وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلهِ فِي الدُّنْيَا))
’’البتہ کافر کو دنیا میں اس کی اللہ کے لیے کی گئی نیکیوں کے بدلے میں کھلایا پلایا جاتا ہے‘‘
((حَتّٰى إِذَا أَفْضَى إِلَی الْآخِرَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنةٌ يُجزٰى بِهَا))(صحیح مسلم:2808)
’’حتی کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو جزاء دیئے جانے کے لیے اس کے پاس کوئی نیکی نہیں رہتی ۔‘‘
یعنی اس کی تمام نیکیوں کا بدلہ اسے دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
حقیقت میں تو دنیا کی تمام چیزوں کے اصل حق دار بھی اہل ایمان ہی ہیں مگر چونکہ دنیا ایک آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے لہٰذا منکرین اسلام کو بھی اس میں شریک کر دیا گیا ہے، مگر آخرت تو خالصتاً اہل ایمان کے لیے ہے۔
جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں: وَقُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ
الرزق
ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کر دیا ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا، اور کس نے اس کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں ؟
﴿قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ ﴾(الاعراف:32)
’’کہو! یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں.اور قیامت کے روز تو خالصتا انہی کے لیے ہوں گی۔‘‘
تو آخرت میں کسی کی ایک نیکی بھی ہوگی تو اسے بھی اس کے اجر سے محروم نہیں کیا جائے گا، اور اگر کوئی دو آدمیوں میں ایک نیکی کا بھی فرق ہوگا تو اس کے درجے میں بھی فرق ہوگا۔ تو قیامت کے دن کسی کی ایک نیکی بلکہ ذرہ برابر نیکی بھی کتنی بڑی اور عظیم نعمت ثابت ہوگی، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مِّنَّا شِدَّةً لِلَّهِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِلهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا خَوَانِهِمُ الَّذِينَ فِي النَّارِ))
’’فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اپنے حق کے لیے اتنی بحث و تکرار نہیں کرتا جتنی قیامت کے دن اہل ایمان اپنے ان مسلمان بھائیوں کے حق کے لیے اللہ تعالی سے کریں گے جو جہنم میں ہوں گے ۔‘‘
((يَقُولُونَ رَبَّنَا كَانُوا يَصُومُونَ مَعَنَا وَيُصَلُّونَ، وَيَحْجُونَ))
’’ کہیں گے: اے رب ہمارے یہ لوگ تو ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے اور حج کرتے تھے۔‘‘
((فَيُقَالُ لَهُمْ: أَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ))
’’انھیں کہا جائے گا۔ جن کو تم جانتے ہو انھیں نکال لو ۔‘‘
((فَتُحَرَّمُ صُورُهُمْ عَلَى النَّارِ))
’’چنانچہ ان کی صورتوں کو جہنم پر حرام کر دیا جائے گا۔‘‘
((فيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا قَدْ أَخَذَتِ النَّارُ إِلَى نِصْفِ سَاقَيهِ وَاِلٰى رُكْبَتَيْهِ))
’’تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی۔‘‘
((ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا مَا بَقِي فِيْهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِهِ))
’’پھر وہ کہیں گے: اے ہمارے رب ! جنھیں نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں رہا۔‘‘
((فَيَقُولُ: اِرْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَاخْرِجُوهُ))
’’تو وہ فرمائے گا تو جاؤ جس کے دل میں دینار بھر خیر پاؤ سے بھی نکال لاؤ‘‘
((فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا))
’’تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے۔‘‘
((ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا أَحَدًا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا))
’’پھر وہ کہیں گے: اے ہمارے رب ! جن کو نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کوئی نہیں چھوڑ ا یعنی سب کو نکال لائے۔‘‘
((ثمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ))
’’پھر اللہ تعالی کہے گا جس کے دل میں نصف دینار کے بقدر خیر پاؤ اسے بھی نکال لاؤ۔‘‘
((فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ، رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا أَحَدًا))
’’تو وہ بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے، پھر کہیں گے: اے ہمارے رب! جن کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا انھیں ہم نے نہیں چھوڑا (نکال لائے ہیں)‘‘
((ثم يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ))
’’پھر وہ کہے گا، واپس لوٹو اور جس کے دل میں ذرہ برابر خیر پاؤ اسے بھی نکال لاؤ۔ ‘‘
فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرَ فِيهَا خَيْرًا))
’’تو وہ بہت خلقت کو باہر نکال لائیں گے پھر کہیں گے: اے ہمارے رب ! ہم نے کسی بھی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا۔‘‘
((فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ شَفَعَتِ الْمَلَائِكَةُ، وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ، وَلَم يبق إِلَّا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ))
’’پھر اللہ عز و جل فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی ، انبیاء نے سفارش کی ، ایمان داروں نے سفارش کی اب صرف ارحم الراحمین (اللہ تعالی ) ہی باقی رہ گیا ہے۔‘‘
((فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطٌّ))
’’پھر وہ آگ سے ایک مٹھی بھرے گا تو اس سے ان لوگوں کو نکال لے گا جنھوں نے بھی کوئی بھلائی کا کام نہ کیا تھا۔‘‘
((قَدْ عَادُوا حُمَمًا فَيُلْقِيهِمْ فِي نَهْرٍ فِي أَفْوَاءِ الْجَنَّةِ يُقَالُ لَهُ: نَهْرُ الْحَيَاةِ))
’’وہ جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے پھر وہ انھیں جنت کے دہانوں پر ایک نہر میں ڈال دے گا جسے نہر حیات کہا جاتا ہے۔‘‘
((فَيَخْرُجُونَ كَمَا تَخْرُجُ الْحِبَةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ))
’’تو وہ نہر حیات سے یوں نھیں گے جیسے بارش کے جمع شدہ پانی کے کنارے پڑا کوئی بیچ پھوتا ہے۔‘‘
((فَيَخْرُجُونَ كَاللُّؤْلُوءِ فِي رِقَابِهِمُ الْخَوَاتِمِ يَعْرِفُهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ، هٰؤُلاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ الَّذِينَ أَدْخَلَهُمُ اللهُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ)) (صحیح مسلم، رقم:183)
’’تو وہ لوگ موتیوں کی مانند نکلیں گے، ان کی گردنوں میں میریں ہوں گی اہل جنت انھیں پہچان لیں گے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے آزاد کردہ ہیں جن کو اللہ تعالی نے بغیر کسی عمل کیے اور بغیر کسی نیکی کیسے جنت میں داخل کیا ہے۔‘‘
یعنی ہوں گے وہ مسلمان مگر کلمہ شہادت کے علاوہ کوئی نیکی نہیں ہوگی۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺکی شفاعت پر جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہونے والے لوگوں کو جہنمی کے نام سے پکارا جائے گا۔ فرمایا:
((يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَيُسَمُّوْنَ الْجَهَنَّمِيِّيْنَ))(بخاری:6566)
’’فرمایا: کچھ لوگ محمد ے کی سفارش سے آگ سے نکالے جائیں گے، اور جنت میں داخل کیے جائیں گے، لوگ انہیں جہنمی کے نام سے پکاریں گے۔‘‘
طعنے کے طور پر نہیں بلکہ پہچان کے طور پر اور اللہ تعالی کا فضل یاد دلانے کے لیے۔ تو بات اصل میں ہو رہی تھی جنت کے درجات کی، ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق درجہ ملے گا، اور ہر شخص اپنی اپنی جنت میں ہی رہے گا کسی دوسرے کی جنت میں نہیں جا سکے گا۔ کیونکہ جو مچھلی جنت میں ہوں گے ان کو حق نہیں ہوگا کہ وہ اپنے سے اوپر والے درجے میں جاسکیں، اور جو اوپر والے درجے میں ہوں گے ان کے لیے اپنے سے کم درجے میں آتا ان کی شان اور ان کے مقام و مرتبے کے خلاف ہو گا، اس لیے ہر شخص اپنی اپنی جنت میں ہی رہے گا۔
اگر چہ بعض روایات میں ہے کہ اونچے درجے والے جنتی نیچے آسکیں گے مگر نیچے والے اوپر نہیں جاسکیں گے۔ البتہ ایک استثناء ہوگا کہ جو لوگ اونچے درجے میں ہوں گے تو اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ان کی اولادوں کو ان کے ساتھ ملا دے گا۔
جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ۝﴾(الطور:21)
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولا د بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چل رہی ہے، ان کی اس اولا د کو بھی جنت میں ان کے ساتھ ملا دیں گے۔ اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا اور کمی ان کو نہ دیں گے ۔ ‘‘
یعنی یہ نہیں ہو گا کہ ان کے عمل کم کر کے ان کی اولادوں کے عمل میں اضافہ کر دیا جائے اور پھر ایک نیا درجہ بنا کر اولاد کو والدین سے ملا دیا جائے ، بلکہ ان کے عملوں میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے ان کی اولادوں کو نچلے درجے سے اٹھا کر ان کے والدین کے ساتھ ملا دیں گے۔
مگر اس کی تفسیر میں علماء کرام لکھتے ہیں کہ غیر شادی شدہ اولاد کو ان کے والدین کے ساتھ ملایا جائے گا۔ اور شادی شدہ اولاد کی اپنی اپنی جنت ہوگی ۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنتی اپنے اعزاء و اقارب اور دوست و احباب سے ملنے کی خواہش کریں گے تو اس کا کیا حل ہوگا؟ تو اس کا حل یہ ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ وہاں اک جمعہ بازار ہے گا، یعنی ہر جمعہ کو ایک بازار ہے گا، اس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی بلکہ ملاقات کے لیے ہوگا۔ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوْقًا يَأْتُونَهَا كُلَّ جُمُعَةٍ))
’’جنت میں ایک بازار ہے جس میں ہر جمعہ کے دن جنتی لوگ آیا کریں گے۔‘‘
((فَتَهَبُ رِيحُ الشِّمَالِ فَتَحْثُوا فِي وُجُوهِهِمْ وَ ثِيَابِهِمْ فَيَزْدَادُونَ حُسْنًا وَجَمَالاً))
’’شمال کی طرف سے ایک ہوا چلے گی جس کے جھونکے جنتیوں کے چہروں اور کپڑوں پر پڑیں گے، تو اس سے ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
((فَيَرْجِعُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ وَقَدْ إِزْادَادُوا حُسْنًا وَجَمَالًا))
’’جب وہ پلٹ کر اپنے گھروں کو آئیں گے تو ان کی بیویاں بھی پہلے سے زیادہ حسین و جمیل ہوئی ہوں گی۔‘‘
((فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ: وَاللَّهِ لَقَدِ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وجمالا))
’’تو ان کی بیویاں ان سے کہیں گی کہ واللہ تمہارا حسن و جمال ہمارے بعد تو بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘
((فَيَقُولُونَ: وَأَنتُمْ وَاللهِ، لَقَدِ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا))(صحیح مسلم:2833)
’’اور وہ کہیں گے: واللہ ! ہمارے بعد تمہارا حسن و جمال بھی بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘
یعنی جنتی لوگ ملاقات کے لیے ایک ایسی جگہ پر جمع ہوں گے جو کسی جنتی کی ملکیت نہیں ہوگی۔
اور ملاقات کا طریقہ یہ ہوگا کہ لوگ اپنے اپنے تختوں پر بیٹھے وہاں جائیں گے، گویا کہ دو اڑن کھٹولا ہوگا ، اڑنے والا تخت تخت رواں۔ اڑن کھٹولا کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پریوں کے سیر کرنے کا تخت۔
جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ
﴿ فِیْ جَنَّةٍ عَالِیَةٍۙ۝۱۰ لَّا تَسْمَعُ فِیْهَا لَاغِیَةًؕ۝۱۱ فِیْهَا عَیْنٌ جَارِیَةٌۘ۝۱۲ فِیْهَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَةٌۙ۝۱۳ وَّ اَكْوَابٌ مَّوْضُوْعَةٌۙ۝۱۴ وَّ نَمَارِقُ مَصْفُوْفَةٌۙ۝۱۵ وَّ زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَةٌؕ۝۱۶﴾ (الغاشية:10-16)
’’عالی مقام جنت میں ہوں گے، کوئی بے ہودہ بات وہاں نہ سنیں گے، اس میں چشمے رواں ہوں گے، اس کے اندر اونچی مسندیں ہوں گی، ساغر رکھے ہوئے ہوں گے، گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہوں گی، اور نفیس فرش بچھے ہوئے ہوں گے۔‘‘
تو کچھ اس طرح اپنے اپنے تختوں پر بیٹھ کر جائیں گے اور وہاں بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ دنیا کی باتوں کا تذکر ہ بھی ہوگا۔
﴿ وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ۝﴾(الحجر:47)
’’ اور ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے گے۔‘‘
اسی حوالے سے ایک آخری حدیث سنتے ہیں، حضرت سعید بن المسیب است روایت کرتے ہیں کہ:
((أَنَّهُ لَفِي أَبا هريرة))
’’وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے‘‘
((فَقَالَ: أَبو هريرة رضي الله تعالي عنه أَسْأَلُ اللهَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ فِي سوق الجنة))
’’ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی سے سوال کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو جنت کے بازار میں اکٹھا کرے۔‘‘
((فَقَالَ سَعِيْد: أَفِيْهَا سُوقٌ))
’’تو سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے عرض کیا! کیا اس میں بازار ہوگا ؟‘‘
((قَال: نَعَم: وَذَكَرَ الحَدِيْث))(ترمذی:2549)
’’فرمایا: جی ہاں ! پھر حدیث بیان کی۔‘‘
تو اللہ تعالی ہم سب کو بھی اپنے فضل و کرم سے اس جمعہ بازار میں جمع کرے۔ آمین
……………