جنت کی نعمتیں اور اس کا راستہ
اہم عناصر خطبہ :
01.جنت اور اہلِ جنت کے اوصاف قرآن مجید میں
02.جنت کے اوصاف احادیث ِ نبویہ میں
03.جنت کا راستہ
پہلا خطبہ
برادران اسلام !آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ جنت کے متعلق چند گذارشات عرض کریں گے جس کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کا ٹھکانا بنایا ہے۔ اور آئندہ خطبۂ جمعہ ان شاء اللہ تعالیٰ جہنم کے بارے میں ہو گا جس کو اس نے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں ، کافروں اور منافقوں کا ٹھکانا بنایا ہے (نسأل اللہ العفو والعافیۃ) قیامت کے روز دو ہی ٹھکانے ہو نگے : جنت اور جہنم ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَرِیْقٌ فِیْ الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِیْ السَّعِیْرِ﴾ (الشوری42 :7)
’’ ایک گروہ جنت میں ہو گا اور ایک گروہ جہنم میں ہو گا ۔ ‘‘
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو جنت الفردوس میں داخل کرے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے ۔ آمین
آئیے سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جنت کا تذکرہ کس طرح سے کیا ہے ؟ اور اہلِ جنت کے اوصاف کون سے بیان کیے ہیں ؟
01.جنت کے اوصاف قرآنِ مجید میں
01.جنت کے پھل اور اہلِ جنت کی بیویاں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ہٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُوتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًا وَّلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ﴾ (البقرۃ2:25)
’’ اور ایمان و الوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دیجئے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ جب کبھی انھیں پھلوں کا رزق دیا جائے گا اور ان کے پاس ہم شکل ( پھل ) لائے جائیں گے تو کہیں گے : یہ وہی ہے جوہمیں اس سے پہلے دیا گیا تھا ۔ ان کیلئے پاکیزہ بیویاں ہیں اور وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ ‘‘
02.اہلِ جنت کا ایک دوسرے کو سلام
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ یَہْدِیْہِمْ رَبُّہُمْ بِإِیْمَانِہِمْ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْأَنْہَارُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ. دَعْوَاہُمْ فِیْہَا سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلاَمٌ وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ (یونس10:10-9)
’’ یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچا دے گا ، نعمت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہو نگی ۔ ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی: ’’سبحان اللہ ‘‘ اور ان کا باہمی سلام یہ ہو گا : ’’ السلام علیکم ‘‘ اور ان کی اخیر بات یہ ہو گی : تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے ۔ ‘‘
03.فرشتے بھی اہل ِ جنت کو سلام کہیں گے اور خوشخبریاں سنائیں گے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ إِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا حَتّٰی إِذَا جَآؤُوْہَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خَالِدِیْنَ. وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآئُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِیْنَ﴾ (الزمر39:74-73)
’’ اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آ جائیں گے اور دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے : تم پر سلام ہو ، تم خوشحال رہو ، تم اس میں ہمیشہ کیلئے چلے جاؤ۔ یہ کہیں گے : اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے اپناوعدہ پورا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ جنت میں جہاں چاہیں ٹھہریں ۔ سو عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے ۔ ‘‘
04.جنت میں جنتیوں کے درمیان کوئی رنجش نہیں ہوگی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ. اُدْخُلُوْہَا بِسَلاَمٍ آمِنِیْنَ. وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقَابِلِیْنَ. لاَ یَمَسُّہُمْ فِیْہَا نَصَبٌ وَّمَا ہُمْ مِّنْہَا بِمُخْرَجِیْنَ ﴾ (الحجر15:48-45 )
’’ متقی ( پرہیز گار ) لوگ یقینا باغوں اور چشموں میں ہو نگے ۔ ( ان سے کہا جائے گا ) : سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ ۔ ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش وکینہ تھا ہم سب کچھ نکال دیں گے ۔ وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہو نگے ۔ نہ تو وہاں انھیں کوئی تکلیف چھو سکتی ہے اور نہ وہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے ۔ ‘‘
05.جنتیوں کو سونے اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس ریشم کا ہو گا
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿إِنَّ اللّٰہَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَّلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ﴾ (الحج22 :23)
’’ ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں انھیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور سچے موتی بھی ۔ وہاں ان کا لباس خالص ریشم ہو گا ۔‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے :﴿إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ أَمِیْنٍ. فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْن. یَلْبَسُوْنَ مِنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَقَابِلِیْنَ﴾ (الدخان44:55-51)
’’ بے شک اللہ سے ڈرنے والے امن اورچین کی جگہ میں ہو نگے ۔ باغوں اور چشموں میں ۔ باریک اور دبیز ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہو نگے ۔ ‘‘
06.اہل ِ جنت کیلئے میوے اور با حیا حوریں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ہٰذَا ذِکْرٌ وَّإِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَآبٍ. جَنّٰتِ عَدْن ٍمُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْأَبْوَابُ. مُتَّکِئِیْنَ فِیْہَا یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّشَرَابٍ. وَعِنْدَہُمْ قٰصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ. ہٰذاَ مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ. إِنَّ ہٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہُ مِنْ نَفَادٍ﴾ (ص38 :55-49)
’’ یہ نصیحت ہے اور یقین مانوکہ پرہیزگاروں کی بڑی اچھی جگہ ہے ۔ یعنی ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن کے دروازے ان کیلئے کھلے ہوئے ہیں ۔ جن میں بافراغت ، تکیے لگائے بیٹھے ہوئے ، طرح طرح کے میوے اور قسم قسم کی شرابوں کی فرمائشیں کریں گے ۔ اور ان کے پاس نیچی نظروں والی ہم عمر حوریں ہونگی ۔ یہ ہے جس کا وعدہ تم سے حساب کے دن کیلئے کیا جاتا تھا ۔ بے شک یہ ہمارا عطیہ ہے جس کا کبھی خاتمہ ہی نہیں ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے:﴿إِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا. حَدَآئِقَ وَأَعْنَابًا. وَّکَوَاعِبَ أَتْرَابًا. وَّکَأْسًا دِہَاقًا. لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلاَ کِذَّابًا. جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَآئً حِسَابًا﴾ (النبأ78 :36-31)
’’ یقینا پرہیز گار لوگوں کیلئے کامیابی ہے ۔ باغات ہیں اور انگور ہیں ۔ اور نوجوان کنواری ہم عمر عورتیں ہیں ۔ اور چھلکتے ہوئے جامِ شراب ہیں ۔ وہاں نہ تو وہ بے ہودہ باتیں سنیں گے اور نہ جھوٹی باتیں ۔ ( ان کو) آپ کے رب کی طرف سے ( ان کے نیک اعمال کا ) یہ بدلہ ملے گا جو کافی انعام ہو گا ۔ ‘‘
07.اہلِ جنت کے دلچسپ مشغلے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فَاکِہُوْنَ. ہُمْ وَأَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِلاَلٍ عَلَی الْأَرَائِکِ مُتَّکِئُوْنَ. لَہُمْ فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ . سَلاَمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ﴾ (یس36 :58-55)
’’ جنتی لوگ آج کے دن اپنے ( دلچسپ ) مشغلوں میں ہشاش بشاش ہیں ۔ وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے ۔ ان کیلئے جنت میں ہر قسم کے میوے ہو نگے اور اسی طرح جو کچھ وہ طلب کریں گے ۔ مہربان رب کی طرف سے انھیں سلام کہا جائے گا۔‘‘
08.جنت میں پانی ، دودھ ، شراب اور خالص شہد کی نہریں ہو نگی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْہَا أَنْہَارٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ آسِنٍ وَأَنْہَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہُ وَأَنْہَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشَّارِبِیْنَ وَأَنْہَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی وَلَہُمْ فِیْہَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ﴾ (محمد47: 15)
’’اس جنت کی صفت جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بد بو کرنے والا نہیں ۔ اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلا ۔ اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کیلئے بڑی لذت ہے ۔ اور شہد کی نہریں ہیں جو بہت صاف ہے ۔ اور ان کیلئے وہاں ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے ۔ ‘‘
09.تخت ، آبخورے ، جامِ شراب ، پسندیدہ میوے اور مختلف قسم کے پھل ، پرندوں کا گوشت اور کنواری حوریں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ. أُوْلٰئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ. فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ. ثُلَّۃٌ مِّنَ الْأَوَّلِیْنَ . وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْآخِرِیْنَ. عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ. مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْہَا مُتَقَابِلِیْنَ. یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ. بِأَکْوَابٍ وَّأَبَارِیْقَ وَکَأْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ . لَا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلاَ یُنْزِفُوْنَ . وَفَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ. وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ. وَحُوْرٌ عِیْنٌ. کَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُوْنِ. جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ . لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلاَ تَأْثِیْمًا. إِلاَّ قِیْلاً سَلاَمًا سَلاَمًا . وَأَصْحَابُ الْیَمِیْنِ مَا أَصْحَابُ الْیَمِیْنِ . فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ . وَطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ . وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ . وَّمَآئٍ مَّسْکُوْبٍ . وَّفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ . لاَّ مَقْطُوْعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍ . وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ . إِنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إِنْشَآئً . فَجَعَلْنَاہُنَّ أَبْکَارًا . عُرُبًا أَتْرَابًا . لِّأَصْحَابِ الْیَمِیْنِ . ثُلَّۃٌ مِّنَ الْأَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْآخِرِیْنَ ﴾ (الواقعۃ56 :40-11)
’’ اور جو سبقت لے جانے والے ہیں وہ تو سبقت لے جانے والے ہی ہیں۔ وہ بالکل تقرب حاصل کئے ہوئے ہیں ۔ نعمتوں والی جنتوں میں ہیں ۔ ( بہت بڑا) گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہو گا اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے ۔ یہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر ، ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے ۔ ان کے پاس ایسے ( خدمت گار) لڑکے آمدو رفت کریں گے جو ہمیشہ ( اسی طرح) رہیں گے ۔ آبخورے اور جگ لے کر اور ایسا جام لیکر جو بہتی ہوئی شراب سے پُر ہو جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فتور آئے ۔ اور ایسے میوے لئے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں ۔ اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں ۔ اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں ۔ یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا ۔ وہ وہاں نہ بے ہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ کی بات ۔ صرف سلام ہی سلام کی آواز ہو گی ۔ اور داہنے ہاتھ والے ، کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے ! وہ بغیر کانٹے کی بیریوں ، تہہ بہ تہہ کیلوں ، لمبے لمبے سایوں اور بہتے ہوئے پانیوں اور بکثرت پھلوں میں جو نہ ختم ہوں نہ روک لئے جائیں اور اونچے اونچے فرشوں میں ہو نگے ۔ ہم نے ان (کی بیویوں کو ) خاص طور پر بنایا ہے ۔ اور ہم نے انھیں کنواریاں بنا دیا ہے ، محبت والی اور ہم عمر ہیں ۔ دائیں ہاتھ والوں کیلئے ہیں ۔ جم غفیر اگلوں میں سے اور بہت بڑی جماعت ہے پچھلوں میں سے ۔ ‘‘
10.نعمتیں ہی نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَجَزَاہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا . مُتَّکِئِیْنَ فِیْہَا عَلَی الْأرَائِکِ لَا یَرَوْنَ فِیْہَا شَمْسًا وَّلاَ زَمْہَرِیْرًا. وَدَانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلالُہَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُہَا تَذْلِیْلاً . وَیُطَافُ عَلَیْہِمْ بِآنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّأَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرًا . قَوَارِیْرَ مِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوْہَا تَقْدِیْرًا . وَیُسْقَوْنَ فِیْہَا کَأْسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنْجَبِیْلاً . عَیْنًا فِیْہَا تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلاً . وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ إِذَا رَأَیْتَہُمْ حَسِبْتَہُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا. وَإِذَا رَأَیْتَ ثَمَّ رَأَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکاً کَبِیْرًا . عَالِیَہُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ وَّحُلُّوْآ أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍ وَّسَقَاہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوْرًا. إِنَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَآئً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا﴾ (الإنسان 76: 22-12)
’’ اور انھیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے ۔ یہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گے ۔ نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے اور نہ جاڑے کی سختی ۔ ان جنتوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہونگے ۔ اور ان کے ( میوے اور ) گچھے نیچے لٹکے ہوئے ہونگے ۔ اور ان پر چاندی کے برتنوں اور ان جاموں کا دور کرایا جائے گا جو شیشے کے ہونگے ۔ شیشے بھی چاندی کے جن کو ( ساقی نے ) اندازے سے ناپ رکھا ہو گا ۔ اور انھیں وہاں وہ جام پلائے جائیں گے جن کی آمیزش زنجبیل کی ہو گی ۔ جنت کی ایک نہر سے جس کا نام سلسبیل ہے اور ان کے ارد گرد وہ کم سن بچے گھومتے پھرتے ہونگے جو ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ جب تو انھیں دیکھے تو سمجھے کہ وہ بکھرے ہوئے سچے موتی ہیں ۔ تو وہاں جہاں کہیں بھی نظر ڈالے گا سراسر نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی دیکھے گا۔ ان کے جسموں پر سبز باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہونگے اور انھیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور انھیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا۔ ( کہا جائے گا) : یہ ہے تمھارے اعمال کا بدلہ اور تمھاری کوشش کی قدر کی گئی ۔ ‘‘
محترم حضرات ! اب تک ہم نے جتنی آیاتِ قرآنیہ ذکر کی ہیں ان سب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت کی تعریف کی ہے اور اہلِ جنت کے اوصاف بیان فرمائے ہیں ۔اور اِس بات کو واضح کردیا ہے کہ اُس نے جنت ایمان والوں ، نیک عمل کرنے والوں ، پرہیز گاروں اور اُس کی نافرمانی سے بچنے والوں کیلئے پیدا کی ہے۔لہٰذا ہم سب کو اِن صفات کا حامل ہونا چاہئے ۔
02.جنت کے اوصاف احادیث ِ نبویہ میں
01.جنت میں سب سے پہلے داخل ہو نے والا شخص
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( آتِیْ بَابَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَسْتَفْتِحُ،فَیَقُوْلُ الْخَازِنُ:مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُوْلُ: مُحَمَّد،فَیَقُوْلُ : بِکَ أُمِرْتُ،لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَکَ )) (صحیح مسلم :188)
’’ میں قیامت کے روز جنت کے دروازے پر آؤں گا ۔ پھر میں دروازہ کھولنے کا مطالبہ کروں گا تو خازن پوچھے گا : آپ کون ہیں ؟ میں کہوں گا : میں محمد ہوں۔ وہ کہے گا : مجھے آپ ہی کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کیلئے جنت کا دروازہ نہ کھولوں ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( وُلْدُ آدَمَ کُلُّہُمْ تَحْتَ لِوَائِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،وَأَناَ أَوَّلُ مَن یُّفْتَحُ لَہُ بَابُ الْجَنَّۃِ )) (صحیح الجامع :6995)
’’ قیامت کے دن آدم ( علیہ السلام ) کی تمام اولاد میرے جھنڈے تلے جمع ہو گی ۔ اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کیلئے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا ۔ ‘‘
02. جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی صفت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی مانند ہونگی ۔ پھر ان
کے بعد داخل ہونے والے لوگوں کی صورتیں آسمان پر سب سے زیادہ چمکنے والے ستارے کی طرح ہو نگی ۔ انھیں پیشاب وپاخانہ کی ضرورت نہیں ہو گی اور وہ بلغم اور تھوک سے پاک ہونگے۔ان کی کنگھیاں سونے کی ہو نگی اور ان کے جسم سے نکلنے والے پسینے کی خوشبو کستوری جیسی ہو گی۔ ان کے اگردان عود کے ہوں گے۔ان کی بیویاں موٹی موٹی آنکھوں والی حوریں ہو نگی۔ان سب کے اخلاق ایک جیسے ہو نگے اور وہ سب کے سب اپنے باپ آدم ( علیہ السلام ) کی صورت پر ہو نگے اور ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہو گا ۔ ‘‘ (صحیح البخاری:3327،صحیح مسلم :2834)
03.جنت کے دروازے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جس شخص نے اللہ کے راستے میں ( ہر خیر کے کام میں ) ایک کی بجائے جوڑے کو خرچ کیا اسے جنت کے دروازوں سے پکارا جائے گا : اے اللہ کے بندے ! یہ دروازہ بہتر ہے ۔ چنانچہ جو اہلِ نماز میں سے تھا اسے نماز کے دروازے سے پکار ا جائے گا ۔ جو اہلِ جہاد میں سے تھا اسے جہادکے دروازے سے پکارا جائے گا۔ جو روزہ داروں میں سے تھا اسے روزوں کے دروازے سے پکار ا جائے گا ۔ اور جو اہلِ صدقہ میں سے تھا اسے صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا ۔‘‘
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے ماں با پ آپ پر قربان ہوں ، جس شخص کو ان تمام دروازوں سے پکارا جائے گا اسے تو کسی چیز کی ضرورت نہ ہوگی ، تو کیا کوئی ایسا شخص بھی ہو گا جسے ان تمام دروازوں سے پکارا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہی لوگوں میں شامل ہو گے۔ ‘‘ (صحیح البخاری:1897،صحیح مسلم :1027)
04.جنت کے درجات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ،وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ ،وَصَامَ رَمَضَانَ،کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ،جَاہَدَ(وفی روایۃ:ہَاجَرَ)فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْ جَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْہَا ))
’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ، نماز قائم کی ، رمضان کے روزے رکھے تواس کا اللہ پرحق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے ، چاہے اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ( ایک روایت میں ہے چاہے اس نے ہجرت کی ) یا اس سرزمین پر مقیم رہا جہاں وہ پیدا ہوا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! تو کیا ہم لوگوں کو اس کی بشارت نہ سنا دیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ،أَعَدَّہَا اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ،مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأرْضِ،فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہُ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ ۔ أُرَاہُ قَالَ : وَفَوْقَہُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ ، وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّۃِ )) (صحیح البخاری،الجہاد باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ :2790و7423)
’’ جنت میں ایک سو درجے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں جہاد کرنے والوں کیلئے تیار کیا ہے ۔ اورہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے ۔ لہٰذا جب تم اللہ سے سوال کرو تو اس سے فردوسِ اعلی کا سوال کیا کرو کیونکہ وہ جنت کا سب سے اوپر والا درجہ ہے ۔ اس کے اوپر اللہ کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں ۔‘‘
05.جنت والے ہمیشہ جواں رہیں گے
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یَدْخُلُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ جُرْدًا مُرْدًا مُکَحَّلِیْنَ،أَبْنَائَ ثَلَاثِیْنَ أَوْ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِیْنَ سَنَۃً )) ((سنن الترمذ ی:2545۔وحسنہ الألبانی))
’’ جنت والے جنت میں اس حالت میں داخل ہو نگے کہ ان کے جسموں پر بال نہیں ہونگے،بے ریش ہونگے ، سرمگیں آنکھوں والے ہونگے اوران کی عمرتیس یا تینتیس سال ہو گی ۔‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ یَنْعَمُ وَلَا یَبْأَسُ ، لَا تَبْلٰی ثِیَابُہُ ، وَلَا یَفْنیٰ شَبَابُہُ )) (صحیح مسلم:2836)
’’ جو شخص جنت میں داخل ہو گا وہ خوشحال رہے گا اور کبھی کوئی دکھ نہیں دیکھے گا ۔ اس کا لباس کبھی پرانا نہیں ہو گا اور اس کی جوانی کبھی ختم نہیں ہو گی ۔ ‘‘
06.اہلِ جنت کی بیویاں
جنت میں اللہ تعالیٰ جنتیوں کو پاکیزہ بیویاں عطا کرے گا ۔ وہ کون ہونگی اور ان کے اوصاف کیا ہونگے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ فِیْہِنَّ قٰصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ إِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلاَ جَانٌّ . فَبِأَیِّ آلاَئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ . کَأَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ﴾ (الرحمن55:58-56)
’’ وہاں نیچی نگاہ والی ( شرمیلی ) حوریں ہونگی جنہیں ان سے پہلے کسی انسان اور جن نے ہاتھ تک نہیں لگایا ہو گا ۔ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ وہ حوریں ایسی ہونگی جیسے ہیرے اور مرجان ۔ ‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حسن وجمال کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
(( لِکُلِّ امْرِئٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ،یُرٰی مُخُّ سُوْقِہِنَّ مِنْ وَّرَائِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ)) (صحیح البخاری:3254 ، صحیح مسلم:2834)
’’ہر آدمی کی ‘ موٹی موٹی آنکھوں والی حوروں میں سے دو بیویاں ہونگی۔ ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت اور ہڈی کے باہر سے نظر آرہا ہوگا ۔ ‘‘
اورحضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَرَوْحَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْ غَدْوَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا،وَلَقَابَ قَوْسِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ أَوْ مَوْضِعُ قَیْدٍ ۔ یَعْنِیْ سَوْطَہُ ۔ خَیْرٌ مْنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا،وَلَوْ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ اِطَّلَعَتْ إِلٰی أَہْلِ الْأرْضِ لَأضَائَ تْ مَا بَیْنَہُمَا وَلَمَلَأتْہُ رِیْحًا ، وَلَنَصِیْفُہَا عَلٰی رَأْسِہَا خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا )) (صحیح البخاری:2796)
’’ اللہ کے راستے میں ایک مرتبہ شام کے وقت یا صبح کے وقت نکلنا دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے ۔ اور جنت کا ایک کمان کے برابر ( یا ایک ہاتھ کے برابر ) یا ایک کوڑے کے برابر حصہ پوری دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے ۔اور اگر اہلِ جنت کی ایک عورت اہلِ زمیں پر جھانک لے تو وہ زمین وآسمان کے درمیان پورے خلا کو روشنی اور خوشبو سے بھر دے ۔ اور اس کے سر کا دوپٹہ پوری دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے ۔ ‘‘
جبکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یُعْطَی الْمُؤْمِنُ فِیْ الْجَنَّۃِ قُوَّۃَ کَذَا وَکَذَا مِنَ الْجِمَاعِ،قِیْلَ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !أَوَ یُطِیْقُ ذٰلِکَ ؟قَالَ: یُعْطیٰ قُوَّۃَ مِئَۃٍ )) (صحیح الجامع:8106)
’’جنت میں مومن کو بہت زیادہ قوتِ جماع دی جائے گی ۔ کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا وہ اس کی طاقت رکھے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے ایک سو افراد کی طاقت دی جائے گی ۔ ‘‘
07.اہلِ جنت کا کھانا پینا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ یَأْکُلُوْنَ فِیْہَا وَیَشْرَبُوْنَ،وَلَا یَتْفُلُوْنَ،وَلَا یَبُوْلُوْنَ وَلَا یَتَغَوَّطُوْنَ وَلَا یَمْتَخِطُوْنَ ) قَالُوْا : فَمَا بَالُ الطَّعَامِ ؟ قَالَ:(جُشَائٌ وَرَشْحٌ کَرَشْحِ الْمِسْکِ ، یُلْہَمُوْنَ التَّسْبِیْحَ وَالتَّحْمِیْدَ کَمَا تُلْہَمُوْنَ النَّفَسَ )) (صحیح مسلم :2835)
’’بے شک اہلِ جنت جنت میں کھائیں پییں گے اور نہ تھوکیں گے اور نہ بول وبراز کریں گے ۔ اور بلغم سے پاک ہونگے۔ ‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:ان کا کھانا کہاں جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا کھانا محض ایک ڈکار ہو گا اور پسینہ ہو گا جس سے کستوری کی خوشبو آئے گی ۔ انہیں تسبیح وتحمید کا الہام کیا جائے گا جیسا کہ تمھیں سانس کا الہام کیا جاتا ہے ۔ ‘‘
08.جنت کے برتن
حضرت ابو موسی ا لأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّۃٍ آنِیَتُہُمَا وَمَا فِیْہِمَا،وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَہَبٍ آنِیَتُہُمَا وَمَا فِیْہِمَا،وَمَا بَیْنَ الْقَوْمِ وَبَیْنَ أَنْ یَنْظُرُوْا إِلٰی رَبِّہِمْ إِلَّا رِدَائُ الْکِبْرِ عَلٰی وَجْہِہٖ فِیْ جَنَّۃِ عَدْنٍ )) (صحیح البخاری: 4878و4880و7444،صحیح مسلم:180)
’’ دو باغ ایسے ہو نگے جن میں برتن اور دیگرہر چیز چاندی کی ہو گی ۔ اور دو باغ ایسے ہوں گے جن میں برتن اور دیگرہر چیز سونے کی ہو گی اور ہمیشہ رہنے والی جنت میں جنتیوں اور دیدارِ باری تعالیٰ کے درمیان محض کبریائی کی ایک چادر حائل ہو گی جو اللہ تعالیٰ کے چہرے پر ہو گی ۔ ‘‘
09.جنت کے بالا خانے
جنت میں عالیشان بالا خانے ہونگے ۔ وہ کیسے ہونگے اور کن لوگوں کیلئے ہونگے ؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿لَکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّن فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَعْدَ اللَّہِ لَا یُخْلِفُ اللَّہُ الْمِیْعَادَ﴾ (الزمر39:20)
’’ ہاں وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کیلئے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بھی بنے بنائے بالا خانے ہیں اور ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ بے شک اہلِ جنت اپنے اوپر بالا خانے والوں کو یوں دیکھیں گے جیسا کہ تم مشرق یا مغرب کے افق پر چمکتے اور غروب ہوتے ہوئے ستارے کو دیکھتے ہو ۔یہ اس لئے ہو گا کہ ان کے درجات میں تفاضل ہو گا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ یقینا انبیاء کے گھر ہو نگے جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( بَلٰی وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ،رِجَالٌ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَصَدَّقُوْا الْمُرْسَلِیْنَ )) (صحیح البخاری:3256، صحیح مسلم:2831)
’’کیوں نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ گھر ان لوگوں کے ہونگے جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی ۔ ‘‘
اور حضرت ابو مالک ا لأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ غُرَفًا یُرٰی ظَاہِرُہَا مِنْ بَاطِنِہَا،وَبَاطِنُہَا مِنْ ظَاہِرِہَا، أَعَدَّہَا اللّٰہُ تَعَالٰی لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ ،وَأَلَانَ الْکَلَامَ ،وَتَابَعَ الصِّیَامَ،وَصَلّٰی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ )) (رواہ احمد وابن حبان ۔صحیح الجامع للألبانی :2123)
’’ بے شک جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی منظر اندر سے اور اندرونی منظر باہر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کیلئے تیار کیا ہے جو کھانا کھلاتا ہو ، بات نرمی سے کرتا ہو، مسلسل روزے رکھتا ہو اور رات کو اس وقت نماز پڑھتا ہو جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ‘‘
10.جنت کے خیمے
حضرت ابو موسی ا لأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِیْ الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ،طُوْلُہَا سِتُّوْنَ مِیْلًا، لِلْمُؤْمِنِ فِیْہَا أَہْلُوْنَ،یَطُوْفُ عَلَیْہِمُ الْمُؤْمِنُ،فَلاَ یَرٰی بَعْضُہُمْ بَعْضًا)) (صحیح مسلم:2838)
’’ بے شک مومن کیلئے جنت میں ایک خیمہ ہو گا جو اندر سے تراشے ہوئے ایک موتی سے بنا ہو گا، اس کی لمبائی ساٹھ میل ہو گی ، اس میں مومن کی بیویاں ہونگی ، وہ ان کے پاس باری باری جائے گا ۔اور وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکیں گی ۔ ‘‘
11.جنت کے درخت
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ شَجَرَۃً،یَسِیْرُ الرَّاکِبُ الْجَوَادُ الْمُضَمَّرُ السَّرِیْعُ مِائَۃَ عَامٍ مَا یَقْطَعُہَا )) (صحیح مسلم:2828)
’’ بے شک جنت میں ایک درخت ایسا ہے جس کے سائے میں ایک عمدہ ، تیز رفتار گھوڑا ایک سو سال تک دوڑتا رہے تو اسے طے نہ کر سکے ۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا فِیْ الْجَنَّۃِ شَجَرَۃٌ إِلَّا وَسَاقُہَا مِنْ ذَہَبٍ )) (سنن الترمذی:2525۔ صحیح الجامع للألبانی:5647) ’’ جنت میں ہر درخت کا تنا سونے کا ہو گا ۔‘‘
محترم حضرات ! آپ بھی اگر چاہیں تو جنت میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگا سکتے ہیں ۔ اس کا طریقہ کیاہے ؟ لیجئے ایک حدیث سماعت فرمائیے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَقِیْتُ إِبْرَاہِیْمَ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِیْ،فَقَالَ:یَا مُحَمَّدُ ! أَقْرِئْ أُمَّتَکَ مِنِّیْ السَّلَامَ ،وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ الْجَنَّۃَ طَیِّبَۃُ التُّرْبَۃِ،عَذْبَۃُ الْمَائِ،وَأَنَّہَا قَیْعَانٌ،غِرَاسُہَا: سُبْحَانَ اللّٰہِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ )) (سنن الترمذی:3462۔ السلسلۃ الصحیحۃ:105)
’’ میں معراج کی رات حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) سے ملا تو انہوں نے کہا : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی ہے ، اس کا پانی میٹھا ہے اور وہ ایک خالی میدان کی شکل میں ہے ۔اور (سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ) کے ذکر کے ساتھ اس میں شجر کاری کی جاسکتی ہے۔ ‘‘
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ قَالَ:سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ،غُرِسَتْ لَہُ بِہَا نَخْلَۃٌ فِیْ الْجَنَّۃِ )) (سنن الترمذی،ابن حبان،الحاکم ۔ صحیح الجامع للألبانی:6429)
’’ جو شخص ( سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ ) کہے اس کیلئے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگا دیا جاتا ہے ۔ ‘‘
12.جنت کا بازار
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ لَسُوْقًا یَأْتُوْنَہَا کُلَّ جُمُعَۃٍ ، فَتَہُبُّ رِیْحُ الشِّمَالِ فَتَحْثُوْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ وَثِیَابِہِمْ،فَیَزْدَادُوْنَ حُسْنًا وَجَمَالًا،فَیَرْجِعُوْنَ إِلٰی أَہْلِیْہِمْ وَقَدِ ازْدَادُوْا حُسْنًا وَجَمَالًا،فَیَقُوْلُ لَہُمْ أَہْلُوْہُمْ:وَاللّٰہِ لَقَدِ ازْدَدْتُّمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَّجَمَالًا،فَیَقُوْلُوْنَ : وَأَنْتُمْ وَاللّٰہِ لَقَدِ ازْدَدْتُّمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَّجَمَالًا)) (صحیح مسلم ۔کتاب الجنۃ باب فی سوق الجنۃ :2833)
’’ جنت میں ایک بازار ہو گا جہاں وہ ( یعنی اہل ِ جنت ) ہر ہفتے آئیں گے ۔ شمال کی جانب سے ایک ہوا چلے گی جو ان کے کپڑوں اور چہروں پر مٹی ڈالے گی ۔ ( یاد رہے کہ کہ جنت کی مٹی کستوری ہو گی ) اس سے ان کے حسن وجمال میں اور اضافہ ہو جائے گا ۔ وہ اپنی بیویوں کے پاس لوٹیں گے جبکہ ان کے حسن وجمال میں اضافہ ہو چکا ہو گا تو وہ ان سے کہیں گی : اللہ کی قسم ! آپ یہاں سے جانے کے بعد اور حسین وجمیل ہو گئے ہیں ۔ تو وہ کہیں گے : اور تم بھی اللہ کی قسم ! ہمارے جانے کے بعد اور خوبصورت ہو گئی ہو ۔ ‘‘
13.جنت کے محلات
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے سونے کا ایک محل دیکھا ۔ میں نے پوچھا : یہ کس کا ہے؟ انھوں نے کہا : یہ قریش کے ایک شخص کا ہے ۔ تو میں نے گمان کیا کہ شاید وہ میں ہوں اس لئے میں نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ انھوں نے کہا : عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۔ اے ابن الخطاب ! مجھے اس میں داخل ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی سوائے اس کے کہ میں تمھاری غیرت کو جانتا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا ؟ ‘‘ (صحیح البخاری:5226و7024،صحیح مسلم:2394)
14.جنت کی نہریں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے ایک نہر دیکھی جس کے دونوں کناروں پر موتیوں کے خیمے لگے ہوئے تھے ۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس میں چلتے ہوئے پانی کے اندر مارے تو مجھے کستوری کی بہت اچھی خوشبو محسوس ہوئی ۔ میں نے پوچھا : اے جبریل !یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : یہ وہ کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاری:6581)
15.جنت میں سب سے بڑا اکرام ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار
حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں چلے جائیں گے تو اعلان کرنے والا اعلان کرے گا : اے اہل ِ جنت ! بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا جسے وہ اب پورا کرنا چاہتا ہے ۔ وہ کہیں گے : وہ کیا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے ترازو بھاری نہیں کئے ؟ اور کیا اس نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا ؟ اور کیا اس نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کردیا ؟ اور کیا اس نے ہمیں جہنم سے نجات نہیں دے دی ؟ (یعنی ان نعمتوں کے بعد اب اور کونسا وعدہ باقی رہ گیا ہے ؟ ) پھراچانک پردہ ہٹا یا جائے گا ۔ چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں گے ۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے انھیں کوئی ایسی چیز نہیں دی ہو گی جو انھیں اس کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو گی اور جس سے ان کی آنکھوں کو زیادہ ٹھنڈک نصیب ہو گی ۔‘‘ ( یعنی جنت میں دیدارِ الہی انھیں جنت کی دیگر تمام نعمتوں کی نسبت زیادہ محبوب ہو گا اور اس سے ان کی آنکھوں کو سب سے زیادہ ٹھنڈک نصیب ہو گی ۔) (احمد وابن ماجہ ۔ صحیح الجامع :521)
16.سب سے اونچے درجے والا اور سب سے نچلے درجے والا جنتی
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ جنت میں سب سے نچلے درجے والا جنتی کیسا ہو گا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : وہ وہ آدمی ہو گا جو جنت والوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا ۔ اس سے کہا جائے گا : جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب! میں کیسے جاؤں جبکہ تمام لوگوں نے اپنے اپنے گھر سنبھال لئے ہیں اور سب نے اپنا اپنا انعام وصول کرلیا ہے! اسے کہا جائے گا : کیا تجھے یہ پسند ہے کہ دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کی پوری مملکت جیسی مملکت تجھے عطا کردی جائے ؟ وہ کہے گا : اے رب ! میں راضی ہو ں۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : میں نے تجھے اس کی مملکت جیسی ایک مملکت ، اس جیسی ایک اور ، اس جیسی ایک اور ، اس جیسی ایک اور ، اس جیسی ایک اور مملکت عطا کردی ہے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں راضی ہوں ۔ پھر اللہ کہے گا :
(( ہٰذَا لَکَ وَعَشْرَۃُ أَمْثَالِہٖ ، وَلَکَ مَا اشْتَہَتْ نَفْسُکَ ، وَلَذَّتْ عَیْنُکَ))
’’ یہ بھی تیرے لئے ہے اور میں تجھے اس جیسی دس مملکتیں اور عطا کرتا ہوں ۔اور تیرے لئے ہر وہ چیز ہے جس کی تو تمنا کرے گا اور جس سے تیری آنکھوں کو لذت ملے گی ۔ ‘‘
وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں راضی ہو گیا ہوں ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب ! ( یہ تو ہوا نچلے درجے والا جنتی ) تو جنت میں سب سے اونچے درجے والے جنتی کیسے ہو نگے ؟ اللہ تعالیٰ نے کہا :
( أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ أَرَدْتُّ غَرَسْتُ کَرَامَتَہُمْ بِیَدِیْ وَخَتَمْتُ عَلَیْہَا ، فَلَمْ تَرَ عَیْنٌ،وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ،وَلَمْ یَخْطُرْ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ) (مسلم۔کتاب الایمان باب أدنی أہل الجنۃ منزلۃ فیہا :189)
’’ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں میں نے چن لیا ہے اورمیں نے ان کی عزت اپنے ہاتھ سے گاڑھ دی ہے اور اس پر
مہر لگا دی ہے (یعنی اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔)اور ان کیلئے وہ کچھ تیار کیا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ، نہ اس کے بارے میں کسی کان نے کچھ سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آ سکتا ہے۔‘‘
17.انچاس لاکھ افراد اور ان کے علاوہ مزید بے تحاشا لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ مجھ پر ( سابقہ ) امتیں پیش کی گئیں ۔چنانچہ میں نے ایک نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ محض چند افراد (دس سے کم ) ہیں ۔ ایک نبی کے ساتھ صرف ایک دو آدمی ہیں ۔ اور ایک نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے ۔ پھر اچانک مجھے ایک بہت بڑی جماعت دکھلائی گئی ۔ میں نے گمان کیا کہ شاید یہی میری امت ہے۔ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ہے ۔ آپ ذرا اس افق کی جانب دیکھئے ۔ میں نے دیکھا تو ایک سوادِ عظیم ( لوگوں کا بہت بڑا گروہ ) نظر آیا۔ پھر مجھے کہا گیا کہ اب آپ دوسرے افق کی جانب دیکھیں ۔ میں نے دیکھا تو ایک اور سوادِ عظیم نظر آیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو ئے اور اپنے گھر میں چلے گئے ۔ تو لوگ ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) ان سترہزار افراد کے متعلق غور وخوض کرنے لگے جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہو نگے ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں ، ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام کی حالت میں ہوئی اور انھوں نے کبھی شرک نہیں کیا ۔ کچھ لوگوں نے کچھ اور آراء بھی ظاہر کیں ۔ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تم کس چیز کے بارے میں غور کر رہے ہو ؟ تو لوگوں نے آپ کو بتایا کہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ وہ ستر ہزار افراد کون ہو نگے جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو ں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ہُمُ الَّذِیْنَ لَا یَرْقُوْنَ،وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ،وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ))
’’ یہ وہ لوگ ہو نگے جو نہ دم کرتے تھے اور نہ دم کرواتے تھے ۔ اورنہ وہ بد شگونی لیتے تھے۔اور وہ صرف اپنے رب تعالیٰ پر ہی توکل کرتے تھے ۔ ‘‘
یہ سن کر حضرت عکاشۃ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور کہا : آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم انہی میں سے ہو ۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا : میرے لئے بھی دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( سَبَقَکَ بِہَا عُکَاشَۃُ) ’’عکاشۃ رضی اللہ عنہ تم سے سبقت لے گئے ہیں ۔ ‘‘ (صحیح البخاری:3410و5705و5752،صحیح مسلم:220)
ایک روایت میں ہے جس کے راوی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر ہزار افراد کی صفات یوں بیان فرمائیں:
(( ہُمُ الَّذِیْنَ لَا یَسْتَرْقُوْنَ،وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ، وَ لَا یَکْتَوُوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ )) (صحیح مسلم:218)
’’ وہ دم نہیں کرواتے ، شگون نہیں لیتے ، آگ سے اپنا جسم نہیں داغتے اور صرف اپنے رب تعالیٰ پر ہی توکل کرتے ہیں ۔‘‘
جبکہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :
(( وَعَدَنِیْ رَبِّیْ أَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِیْ سَبْعِیْنَ أَلْفًا َلا حِسَابَ عَلَیْہِمْ وَلَا عَذَابَ،مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُوْنَ أَلْفًا ، وَثَلَاثُ حَثَیَاتٍ مِنْ حَثَیَاتِ رَبِّیْ)) (احمد والترمذی وابن ماجہ ۔ وصححہ الألبانی فی تخریج المشکاۃ :5556)
’’ میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت سے ستر ہزار افراد کو جنت میں داخل کرے گا جن پر نہ حساب ہو گا اور نہ عذاب ۔ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار افراد اورہو نگے اور اس کے علاوہ تین چُلُّو میرے رب کی چلووں میں سے ۔ ‘‘
18.آدھے اہلِ جنت اِس امت میں سے ہو نگے
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَکُوْنُوْا رُبْعَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟ ))
’’ کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو گے ؟‘‘
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم نے ( خوشی کے مارے ) اللہ اکبر کہا ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَکُوْنُوْا ثُلُثَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ؟))
’’ کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم اہل جنت کا تیسراحصہ ہو گے ؟‘‘
حضرت عبد اللہ کہتے ہیں : ہم نے ( خوشی کے مارے ) پھر اللہ اکبر کہا ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّیْ لَأرْجُوْ أَنْ تَکُوْنُوْا شَطْرَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ))
’’ میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ تم اہلِ جنت کا آدھا حصہ ہو گے۔ ‘‘
میں تمھیں عنقریب اس کے بارے میں خبر دوں گا ، مسلمان کافروں کے مقابلے میں ایسے ہونگے جیسے ایک سیاہ رنگ کے بیل پر ایک سفید رنگ کا بال ہو ۔ یا ( آپ نے فرمایا : ) جیسے سفید رنگ کے بیل پر ایک سیاہ رنگ کا بال ہو ۔ ‘‘ (صحیح البخاری:6528،صحیح مسلم۔کتاب الإیمان باب کون ہذہ الأمۃ نصف أہل الجنۃ: 221۔واللفظ لمسلم)
19. جنت میں داخل ہونے والاسب سے آخری شخص
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخر ی شخص وہ ہو گا جو اس حالت میں آئے گا کہ کبھی چلے گا اور کبھی گر پڑے گا ۔ کبھی آگ اسے تھپیڑے مارے گی اورجب وہ اسے ( آگ کو) عبور کر جائے گا تو پیچھے مڑ کر دیکھے گا اور کہے گا : بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی ہے ۔ یقینا اللہ نے مجھے وہ چیز عطا کردی ہے جو اس نے پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں کی ۔ پھر ایک درخت اس کے سامنے بلند کیا جائے گا تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں چلا جاؤں اور اس کے (قریب بہتے ہوئے ) پانی سے پیاس بجھا سکوں ۔
اللہ تعالیٰ کہے گا : اے ابنِ آدم ! اگر میں تیرا یہ سوال پورا کردوں تو شاید تو پھر کوئی اور سوال بھی کرے گا ؟ وہ کہے گا : نہیں اے میرے رب ۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا کہ وہ کوئی اور سوال نہیں کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ بھی اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو دیکھ رہا ہو گا جس سے صبر کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردے گا ۔ تو وہ اس کے سائے میں چلا جائے گا اور اس کے پانی سے پیاس بجھائے گا ۔
پھر ایک اور درخت اس کے سامنے بلند کیا جائے گا جو پہلے درخت سے زیادہ اچھا ہو گا ۔ وہ کہے گا:اے
میرے رب!مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں چلا جاؤں اور اسکے ( قریب بہتا ہوا) پانی پی سکوں ، اس کے بعد تجھ سے کوئی اورسوال نہیں کروں گا۔
اللہ تعالیٰ کہے گا : اے ابنِ آدم ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو کوئی اور سوال نہیں کرے گا ؟ پھر کہے گا : اگر میں تیرا یہ سوال بھی پورا کردوں تو شاید تو پھر کوئی اور سوال بھی کرے گا؟ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا کہ وہ کوئی اور سوال نہیں کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ بھی اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو دیکھ رہا ہو گا جس سے صبر کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردے گا ۔ تو وہ اس کے سائے میں چلا جائے گا اور اس کے پانی سے پیئے گا ۔
پھر ایک اور درخت جنت کے دروازے کے قریب اس کے سامنے بلند کیا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ اچھا ہو گا ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں چلا جاؤں اور اس کے ( قریب بہتا ہوا ) پانی پی سکوں ، اس کے بعد تجھ سے کوئی اورسوال نہیں کروں گا ۔
اللہ تعالیٰ کہے گا:اے ابنِ آدم !کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو کوئی اور سوال نہیں کرے گا ؟وہ کہے گا : کیوں نہیں اے میرے رب !بس یہی سوال پورا کردیں ، اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کروں گا ۔ اللہ تعالیٰ بھی اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو دیکھ رہا ہو گا جس سے صبر کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا ۔ چنانچہ وہ اسے اس درخت کے قریب کردے گا اوروہ اس کے قریب پہنچ کر اہلِ جنت کی آوازیں سنے گا ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس میں داخل کردے ۔
اللہ تعالیٰ کہے گا : اے ابنِ آدم ! کونسی چیز تجھے راضی کرے گی اور تیرے اور میرے درمیان سوالات کا سلسلہ کب منقطع ہو گا ؟کیا تو اس بات پر راضی ہو جائے گا کہ میں تجھے دنیا اور اس جیسی ایک اور دنیا دے دوں ؟ وہ کہے گا : اے میرے رب ! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں جبکہ آپ تو رب العالمین ہیں !
یہاں تک حدیث بیان کرکے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے ۔ پھر کہنے لگے : کیا تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنس رہا ہوں ؟ لوگوں نے پوچھا : آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ تو انھوں نے کہا : میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ حدیث یہاں تک بیان کرکے ہنس پڑے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بھی اس آدمی کی یہ بات سن کر ہنس پڑیں گے کہ کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے حالانکہ تو تو رب العالمین ہے ! پھر اللہ تعالیٰ کہے گا : میں تجھ سے ہرگز مذاق نہیں کر رہا بلکہ میں جو چاہوں (کر سکتا ہوں ) اور میں ہر چیز پر قادر ہوں ۔ ‘‘ (صحیح مسلم۔کتاب الإیمان باب آخر أہل النار خروجا :187)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں اس شخص کے بارے میں یقینا جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم کی آگ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو گا ۔ یہ وہ شخص ہو گا جو ہاتھوں اور گھٹنوں ( ایک روایت میں ہے کہ اپنی دبر) کے بل چلتا ہوا جہنم سے نکلے گا ۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ چنانچہ وہ آئے گا اور اس کے دل میں یہ خیال ڈالا جائے گا کہ جنت تو پر ہو چکی ہے ، اس لئے وہ واپس لوٹے گا اور کہے گا : اے میرے رب ! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ چنانچہ وہ دوبارہ آئے گا اور اس کے دل میں پھریہ خیال ڈالا جائے گا کہ جنت تو پر ہو چکی ہے ، اس لئے وہ پھر واپس لوٹے گا اور کہے گا : اے میرے رب ! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ،میں نے تمھیں پوری دنیا کے برابر اور اس جیسی دس گنا زیادہ وسعت عطا کی ۔ ( دوسری روایت میں ہے : میں نے تمھیں دنیا سے دس گنا زیادہ وسعت عطا کی) وہ شخص کہے گا : اے اللہ ! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں حالانکہ آپ تو بادشاہ ہیں ؟
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث بیان فرما کر اتنے ہنسے کہ آپ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے ۔ کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہلِ جنت میں سب سے نچلے درجے والا ہو گا ۔ ‘‘ (صحیح البخاری:6571و7511،صحیح مسلم،کتاب الإیمان باب آخر أہل النار خروجا :186)
20. جنت کی نعمتوں کا تصور کرنا بھی نا ممکن ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِی الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ ، وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ )) (صحیح البخاری:3244،صحیح مسلم :2823)
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کیلئے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کے متعلق کوئی تصور پیدا ہوا ہے ۔ ‘‘
21. جنت میں موت نہیں آئے گی
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِذَا دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یُنَادِیْ مُنَادٍ:إِنَّ لَکُمْ أَنْ تَحْیَوْا فَلَا تَمُوْتُوْا أَبَدًا،وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَصِحُّوْا فَلَا تَسْقَمُوْا أَبَدًا،وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَشِبُّوْا فَلَا تَہْرَمُوْا أَبَدًا،وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَنْعَمُوْا فَلَا تَبْأَسُوْا أَبَدًا)) (صحیح مسلم :2837)
’’ جب جنت والے جنت میں چلے جائیں گے تو ایک اعلان کرنے والا پکار کر کہے گا : تمھیں یہ حق حاصل ہے کہ تم زندہ رہو گے ، تم پر موت کبھی نہیں آئے گی۔ اور یہ بھی کہ تم تندرست رہو گے ، کبھی بیمار نہیں ہو گے ۔ اسی طرح تم جوان رہو گے ، کبھی بوڑھے نہیں ہو گے ۔ نیز تم خوشحال رہو گے ، کبھی بد حال نہیں ہو گے ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو جنت کے وارثوں میں سے بنائے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
عزیزان گرامی ! جنت کے اوصاف معلوم کرنے کے بعداب سوال یہ ہے کہ اس قدر عظیم الشان جنت اور اس کی نعمتوں تک پہنچانے والا راستہ کون سا ہے ؟ اور ہم کیسے وہاں تک پہنچ سکتے ہیں ؟ اور وہ کون خوش نصیب ہیں جو اس جنت میں داخل ہو نگے ؟ ( اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت الفردوس کے وارثوں میں سے بنائے ۔) آئیے وہ راستہ معلوم کریں کہ جس پر چلتے ہوئے ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دن ضرور اس جنت میں پہنچ جائیں گے۔
جنت کا راستہ
جنت کا راستہ انتہائی آسان اور بہت ہی روشن ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اوراحادیثِ مبارکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واضح طور پر بیان کردیا ہے ۔ تو لیجئے چند آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ سماعت کیجئے جن میں جنت تک پہنچانے والے راستے کا تعین کیا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا﴾ (مریم19:63)
’’ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ( پرہیز گار ) ہوں۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ. ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیْظٍ. مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ. أُدْخُلُوْہَا بِسَلاَمٍ ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ. لَہُمْ مَّا یَشَآؤُوْنَ فِیْہَاوَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ﴾ (ق50 :35-31)
’’ اور جنت پرہیزگاروں کیلئے بالکل قریب کردی جائے گی۔ ذرا بھی دور نہ ہو گی ، یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھاہر اس شخص کیلئے جو ( اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا ، پابندی کرنے والا ہو ، جو رحمان کا غائبانہ خوف رکھتا ہو اور توجہ والا دل لایا ہو ۔ تم اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ ۔ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے ۔ یہ وہاں جو چاہیں گے انھیں ملے گا (بلکہ ) ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے ۔ ‘‘
نیز فرمایا:﴿ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی. فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی﴾ (النازعات79: 41-40)
’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہو گا اور اپنے نفس کو خواہش ( کی پیروی کرنے ) سے روکا ہو گا تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے ۔ ‘‘
اور فرمایا : ﴿وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ﴾ (الرحمن55 :46)
’’ اور اس شخص کیلئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں ۔‘‘
یہ اور ان کے علاوہ دیگر کئی آیات ( جن میں سے بیشتر کا ذکر ہم خطبہ کے آغاز میں کر چکے ہیں ) سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے جنت ان لوگوں کیلئے تیار کی ہے جو پرہیز گار ہوں ، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوں ، اس کی طرف بکثرت رجوع کرنے والے ہوں ، اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرنے والے ہوں اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کی بجائے شریعتِ الہیہ کے پیروکار اور پابند ہوں ۔ لہٰذا تقوی ہی جنت کا راستہ ہے۔ تقوی ایسا جامع لفظ ہے جسے ہر خیر کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے اور اس سے مراد اللہ رب العزت کے احکامات کی پیروی کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے پرہیز کرنا ہے ۔ لہٰذا جو شخص بھی اس صفت کا حامل ہو گا وہ جنت میں جانے کا حقدار ہو گا ۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(( حُفَّتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ،وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّہَوَاتِ)) (صحیح مسلم:2822)
’’ جنت کو ان کاموں سے ڈھانپا گیا ہے جو کہ ( طبعِ انسانی کو ) نا پسند ہوتے ہیں۔ اور جہنم کو شہوات سے ڈھانپا گیا ہے ۔ ‘‘
اس حدیث میں ( المکارہ ) سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسانی طبیعت کو نا پسند ہوتے ہیں اور ان کا بجا لانا ان پر گراں ہوتا ہے مثلا گرمی میں گرم پانی سے اور سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا ، پانچ وقت نماز کی پابندی کرنا ، زکاۃ ادا کرنا اور روزے کے دوران کھانے پینے سے پرہیز کرنا وغیرہ ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اعمال طبعی طور پرمشکل سمجھے جاتے ہوں انھیں انجام دینا جنت کا راستہ ہے جبکہ نفسانی خواہشات پر عمل کرنا جہنم کا راستہ ہے ۔
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( کُلُّ أُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ إِلَّا مَنْ أَبٰی،قِیْلَ:مَنْ أَبٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! قَالَ : مَنْ أَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ،وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ أَبٰی )) (صحیح البخاری:7280)
’’ میری امت کے تمام لوگ جنت میں داخل ہونگے سوائے اس کے جس نے انکار کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! انکار کون کرتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کردیا۔‘‘
یہ حدیث بھی جنت کا راستہ متعین کر رہی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہی جنت میں داخل ہو نگے ۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اِتَّقُوْا اللّٰہَ،وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ،وَصُوْمُوْا شَہْرَکُمْ،وَأَدُّوْ ا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ ، طَیِّبَۃً بِہَا أَنْفُسُکُمْ ، وَأَطِیْعُوْا ذَا أَمْرِکُمْ ، تَدْخُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُم )) (سنن الترمذی،ابن حبان وغیرہ ۔ صحیح الجامع للألبانی :109)
’’ تم سب اللہ سے ڈرو ، پانچوں نمازیں ادا کرو ، ماہِ رمضان کے روزے رکھو ، اپنے مالوں کی زکاۃ بخوشی ادا کرو اور اپنے حکمران کی اطاعت کرو ، اس طرح تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے ۔ ‘‘
اس حدیث میں بھی جنت میں پہنچانے والے راستے کا تعین کردیا گیا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں اور مذکورہ اعمال پابندی سے انجام دیتے رہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاہم سے وعدہ ہے کہ ہم ضرور جنت میں داخل ہو نگے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت الفردوس کے وارثوں میں شامل کردے ۔ آمین