جَشنِ ولادت یا مِشنِ رسالت۔۔۔؟ 

❄بے حیائی کا خاتمہ
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ [آل عمران: 164]
ذی وقار سامعین!
نبی کریمﷺکی پہچان دو طرح سے ہے ، نبی کریمﷺکی دو حیثیتیں ہیں:
نبیﷺکی پہلی پہچان اور حیثیت "محمد بن عبداللہ” کی ہے ، کہ آپﷺعبداللہ کے بیٹے ، آمنہ کے لختِ جگر ، سردار عبدالمطلب کے پوتے اور سردار ابو طالب کے بھتیجے ہیں۔
نبیﷺکی دوسری پہچان اور حیثیت "محمد رسول اللہ” کی ہے ، کہ آپﷺاللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں ، آپﷺکا مقام ، مرتبہ اور شان تمام رسولوں سے زیادہ ہے اور آپﷺخاتم النبیین ہیں۔
یہ بات یاد رکھئے گا کہ پہلی حیثیت سے نبیﷺکو ہر کوئی مانتا ہے ، اپنے بھی مانتے ہیں ، پرائے بھی مانتے ہیں ، حتیٰ کہ مکہ کے مشرک بھی اس حیثیت سے نبیﷺکو مانتے تھے ، آپﷺکو صادق اور امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا ، لیکن مشرکینِ مکہ نبیﷺکو رسول اللہ کی حیثیت سے نہیں مانتے تھے ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس  کہتے ہیں:
لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَرَهْطَكَ مِنْهُمْ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ فَقَالُوا مَنْ هَذَا فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ فَقَالَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ قَالُوا مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا قَالَ فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ قَالَ أَبُو لَهَبٍ تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ وَقَدْ تَبَّ
جب یہ آیت نازل ہوئی ۔ ” آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں “ تو رسول اللہﷺصفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا ” یاصباحاہ‘ ‘ قریش نے کہا یہ کون ہے! پھر وہاں سب آکر جمع ہوگئے ، آنحضرتﷺنے ان سے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے ، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے ، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ آنحضرت نے فرمایا پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آرہا ہے ۔ یہ سن کرابو لہب بولا تو تباہ ہو۔ کیا تو نے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا؟ پھر آنحضرت ﷺوہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی ۔ تبت یدا ابی لھب وتب الخ یعنی دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابو لہب کے اور وہ برباد ہوگیا۔ [صحیح بخاری 164]
پتہ چلا کہ جس طرح نبیﷺکو پہلی حیثیت سے ماننا ضروری ہے ، اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ نبیﷺکو دسری حیثیت سے مانا اور تسلیم کیا جائے۔
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نبیﷺکی ولادت کا جشن منانے کی بجائے نبیﷺکے مشن پر توجہ کرنی چاہئے کہ نبیﷺکا مشن کیا تھا؟
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم اس بات کو سمجھیں گے کہ نبیﷺکا مشن کیا تھا؟ نبیﷺکے مشن میں کیا کیا باتیں شامل تھیں؟ تاکہ ان پر عمل پیرا ہو کر ہم نبیﷺکے حقیقی محب بن سکیں۔
1۔ عقیدہ توحید کا احیاء:
نبی اکرمﷺکا پہلا بڑا اور بنیادی مشن یہ تھا کہ عقیدہ توحید کا احیاء اور نفاذ ہو ، یہ ہر نبی کا مشن اور مقصد تھا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ
"اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میری عبادت کرو۔” [الانبیاء: 25]
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
"اور بلاشبہ یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔” [النحل: 36]
اس لئے نبیﷺنے بھی لوگوں کو عقیدہ توحید کی طرف دعوت دی ، نبیﷺنے سیدنا معاذ بن جبل کو یمن روانہ کیا تو فرمایا:
إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ
’’تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو ، انہیں اس کی گواہی دینے کی دعوت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگر وہ اس میں (تمہاری ) اطاعت کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ (زکاۃ) فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لیا جائے گا اور ان کے محتاجوں کوواپس کیا جائے گا ، پھر اگر وہ اس بات کو قبول کر لیں تو ان کے بہترین مالوں سے احتراز کرنا (زکاۃ میں سب سے اچھا مال وصول نہ کرنا) اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس (بددعا) کے اور اللہ کے درمیان کو ئی حجاب نہیں ۔ ‘‘ [صحیح مسلم: 121]
2۔ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کا قیام:
جناب محمد رسول اللہﷺکا دوسرا بڑا اور بنیادی مشن یہ تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو ، اللہ کی دھرتی پر اللہ کا قانون نافذ ہو ، کرہ ارض پر اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کا نفاذ ہو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
"وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے، خواہ مشرک لوگ برا جانیں۔”  [التوبہ: 33]
اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے کہ زمیں پر صرف اللہ تعالیٰ کا حکم چلے ، اسی لئے یوسف نے فرمایا تھا:
 إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
"حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت مت کرو، یہی سیدھا دین ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔”  [یوسف: 40]
اس آیت کے تحت مفسر قرآن الشیخ عبدالسلام بھٹوی﷬لکھتے ہیں:
"حقیقت یہ ہے کہ یوسف کی یہ تقریر ملت ابراہیم، یعنی اسلام کی بہترین مختصر ترجمانی ہے۔”
قرآن کے ایک اور مقام پر اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
"اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اسے خوب دیکھنے والا ہے۔”[الانفال: 39]
سیدنا عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ نبی مکرمﷺنے فرمایا:
أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاَةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ
"مجھے ( اللہ کی طرف سے ) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمدﷺاللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ ( رہا ان کے دل کا حال تو ) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔” [صحیح بخاری: 25]
اسی لئے نبی معظمﷺکے صحابہ نے بھی اسی حاکمیت کی خاطر جہاد کیا اور اسی حاکمیت کی خاطر بڑے بڑے بادشاہوں سے ٹکر لی ، معرکہ قادسیہ کے موقع پر رستم نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو پیغام بھیجا کہ اپنا قاصد بھیجیں جس کے ساتھ مَیں جنگ شروع کرنے سے قبل مذاکرات کر سکوں۔ انھوں نے مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا، جنھوں نے رستم سے کہا: ’’ہمیں دنیا کی کوئی طلب نہیں ہے، ہمارا مطلوب و مقصود تو صرف آخرت کی خوشگوار زندگی ہے۔‘‘
ان کے بعد حضرت سعد  نے دوسرے قاصد کے طور پر ربعی بن عامر کو بھیجا، وہ رستم کے پاس اس وقت پہنچے، جب اس کے دربار کو سونے اور ریشمی کپڑے سے خوب سجایا جا چکا تھا اور بڑے قیمتی لعل و یاقوت ظاہر کر رکھے تھے۔ رستم سونے کے تخت پر بیٹھا تھا، ربعی  معمولی سا لباس پہنے، ہاتھ میں تلوار اور ڈھال لیے چھوٹے سے قد کے گھوڑے پر سوار رستم کے پاس پہنچے، وہ اس وقت تک گھوڑے پر سوار رہے جب تک گھوڑے نے ان کے قیمتی قالینوں کو اپنے پاؤں تلے روند نہ ڈالا، پھر وہ گھوڑے سے اترے اور اسے ان کے ایک گاؤتکیے کے ساتھ باندھ دیا، پھر رستم کی طرف بڑھے، جبکہ حضرت ربعی وہ زرہ پہنے اور اپنا اسلحہ لیے ہوئے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ اپنا اسلحہ نیچے رکھ دو، انھوں نے کہا: میں تمھارے پاس اپنی مرضی سے نہیں آیا ہوں بلکہ میں تو تمھارے بلانے پر آیا ہوں، اگر مجھے اسی طرح رہنے دو تو ٹھیک ہے ورنہ میں یہیں سے واپس لوٹ جاتا ہوں۔ رستم نے یہ بات سن کر کہاکہ اسے آنے دو، وہ اپنے نیزے پرٹیک لگائے آگے بڑھتے گئے حتی کہ انھوں نے ان کے اکثر قالینوں میں نیزے کی نوک سے سوراخ کر دیے۔ انھوں نے حضرت ربعی سے کہا: تم لوگ کیوں آئے ہو؟ انھوں نے کہا:
اللَّهُ ابْتَعَثْنَا لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ اللَّهِ، وَمِنْ ضِيقِ الدُّنْيَا إِلَى سِعَتِهَا، وَمِنْ جَوْرِ الْأَدْيَانِ إِلَى عَدْلِ الْإِسْلَامِ، فَأَرْسَلَنَا بِدِينِهِ إِلَى خَلْقِهِ لِنَدْعُوَهُمْ إِلَيْهِ، فَمَنْ قَبِلَ ذَلِكَ قَبِلْنَا مِنْهُ وَرَجَعْنَا عَنْهُ، وَمَنْ أَبَى قَاتَلْنَاهُ أَبَدًا حَتَّى نُفْضِيَ إِلَى مَوْعُودِ اللَّهِ. "ہمیں اللہ نے بھیجا ہے، تاکہ ہم بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کرنے والے بنائیں،  انہیں دنیا کی تنگی و ترشی سے نکال کر آسایش و کشایش مہیا کریں اور مختلف ادیان کے ظلم و جور سے نجات دلا کر انہیں اسلام کے عدل و انصاف تک لائیں ،   اس نے ہمیں اپنے دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ ہم لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیں، جس نے ہم سے یہ دین قبول کر لیا ہم اسے قبول کر لیں گے اور ہم وہاں سے واپس لوٹ جائیں گے، اور اگر کسی نے یہ دین قبول کرنے سے انکار کیا تو ہم اس کے ساتھ جہاد کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کے وعدے تک پہنچ جائیں۔”
انھوں نے کہاکہ اللہ کا وعدہ کیا ہے؟  حضرت ربعی  نے فرمایا:
الْجَنَّةُ لِمَنْ مَاتَ عَلَى قِتَالِ مَنْ أَبَى، وَالظَّفَرُ لِمَنْ بَقِيَ.
’’جو منکرین سے لڑتے ہوئے شہید ہو جائے، اس کے لیے جنت اور جو زندہ بچ جائے اس غازی کے لیے ظفر و کامیابی۔‘‘ ]البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر: 7/ 39[
3۔ حصولِ جنت کا شوق پیدا کرنا:
نبی رحمتﷺکا دوسرا مشن یہ تھا کہ لوگوں میں جنت کے حصول کا شوق پیدا ہو اور جہنم سے بچنےکی فکر پیدا ہو ، اسی لئے آقائے رحمت چاہتے تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہو جائیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
"شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔” [الشعراء: 3]
سیدنا ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آقا نے فرمایا:
إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَتِ الدَّوَابُّ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهِ، فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهِ "میری اور میری امت کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو حشرات الارض اور پتنگے اس آگ میں گرنے لگے۔تو میں تم کو کمر سے پکڑ کر روکنے والا ہوں اور تم زبردستی اس میں گرتے جارہے ہو۔” [صحیح مسلم: 5955]
سیدنا ابوذر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
ما بَقِيَ شيءٌ يُقَرِّبُ من الجنَّةِ ويباعدُ من النّارِ إلا وقد بُيِّنَ لكم
”کوئی ایسا عمل باقی نہیں رہا، جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرتا ہے، مگر تمہارے لیے اس کی وضاحت ہو چکی ہے۔“ [سلسلہ صحیحہ: 386]
جنگ بدر میں جب مشرکین مکہ اسلام اور مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو رسول اکرمﷺنے اپنے ساتھیوں سے فرمایا؛
” قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ "
"جنت کی طرف اُٹھ کھڑے ہوجس کی چوڑائی سارے آسمان اور زمین ہیں۔”
یہ سن کر حضرت عمیر بن حمام نے عرض کیا؛
يَا رَسُولَ اللهِ ، جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ؟
 اے اللہ کے رسول! کیا (شہادت کے عوض) آسمانوں اور زمین کی چوڑائی کے برابر جنت ہے؟
 رسول اکرمﷺنے فرمایا: نعم "ہاں”۔
حضرت عمیر بن حمام کہنے لگے:بخ بخ۔ رسول اکرمﷺنے دریافت فرمایا؛
 مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخٍ؟ "بخ بخ کہنے پر تجھے کس نے ابھارا؟”
حضرت عمیر بن حمام نے عرض کیا ؛ لَا وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، إِلَّا رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا
 اے اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی میں نے یہ جنت کی اُمید میں کہا ہے۔رسول اکرمﷺنے فرمایا؛ فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا”تم جنت والوں میں سے ہو”۔ اس کے بعد حضرت عمیر بن حمام اپنے ترکش سے کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔پھر شوق شہادت میں کہنے لگے:
لَئِنْ أَنَا حَيِيتُ حَتَّى آكُلَ تَمَرَاتِي هَذِهِ إِنَّهَا لَحَيَاةٌ طَوِيلَةٌ
"اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہوں تو یہ بڑی ہی طویل زندگی ہو جائے گی”۔
چنانچہ انہوں نے بقیہ ساری کھجوریں پھینک دیں اور آگے بڑھ کر مردانہ وار جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ [صحیح مسلم: 4915]
عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت ابن عباس نے کہا:
أَلاَ أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ المَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّﷺفَقَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي، قَالَ: «إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ» فَقَالَتْ: أَصْبِرُ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ لاَ أَتَكَشَّفَ، فَدَعَا لَهَا
تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں ؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں ، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریمﷺکی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئے ۔ آنحضرتﷺنے فرمایا اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کردوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے۔ آنحضرتﷺاللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کردیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ آنحضرتﷺنے اس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحیح بخاری: 5652]
4۔ عدل و انصاف کا قیام:
نبی مکرمﷺکا تیسرا مشن عدل و انصاف کا قیام تھا ، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ، چنانچہ فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
"بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، یقیناً اللہ تمھیں یہ بہت ہی اچھی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔” [النساء: 58]
دوسرے مقام پر اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
"بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔”[النحل: 90]
تیسرے مقام پر اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جاؤ، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔ پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو، یا پہلو بچاؤ تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پوری طرح باخبر ہے۔” [النساء: 135]
آقائے کائناتﷺنے ہمیں اس کی تعلیم عملی طور پر دی ہے ، سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں:
أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ الفَتْحِ، فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ  فِيهَا، تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ»، قَالَ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا كَانَ العَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ خَطِيبًا، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ النَّاسَ قَبْلَكُمْ: أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الحَدَّ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْكَ المَرْأَةِ فَقُطِعَتْ يَدُهَا، فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِكَ وَتَزَوَّجَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ: «فَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
غزوہ‘ فتح ( مکہ ) کے موقع پر ایک عورت نے نبی کریمﷺکے عہد میں چوری کرلی تھی ۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی اسامہ بن زید کے پاس آ ئی تاکہ وہ حضورﷺ سے اس کی سفارش کردیں (کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے) عروہ نے بیان کیا کہ جب اسامہ نے اس کے بارے میں آنحضورﷺسے گفتگو کی تو آپﷺکے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آ پ نے فرمایا ! تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو ۔ اسامہ نے عرض کیا ، میرے لیے دعائےمغفرت کیجئے ، یا رسول اللہ ! پھر دو پہر کے بعد آنحضرتﷺنے صحابہ کو خطاب کیا ، اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا ، اما بعد ! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معززشخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کرلیتا تو اس پر حد قائم کر تے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺکی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرلے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔ اس کے بعد حضور ﷺنے اس عورت کے لیے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کرلی اور شادی بھی کرلی ۔ حضرت عائشہ  نے بیان کیا کہ بعد میں وہ میرے یہاں آتی تھیں ۔ ان کو اور کوئی ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہﷺکے سامنے پیش کردیتی۔ [صحیح بخاری: 4304]
5۔ اتفاق و اتحاد پیدا کرنا:
نبی اکرمﷺکا پانچواں مشن یہ تھا کہ اللہ کی زمین پر بسنے والے لوگوں کے درمیان اتفاق و اتحاد قائم ہوجائے ، یہ مل جل کر زندگی بسر کریں ، یہ نبیﷺکی بعثت کے بعد ہی ہوا ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
"اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔” [آل عمران: 103]
اس اتفاق و اتحاد کو نعمت کیوں کہا؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں موجود ہے:
وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
"اور ان کے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی، اگر تو زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتا ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈالتا اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی۔ بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔” [الانفال: 63]
حنین کے موقع پر رسول اللہﷺنے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت فرمایا:
يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمْ اللَّهُ بِي وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ فَأَلَّفَكُمْ اللَّهُ بِي وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمْ اللَّهُ بِي كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ
"اے انصاریو! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نااتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا۔ آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں۔”[صحیح بخاری: 4330]
آقا اور آپ کے صحابہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو نبیﷺنے سب سے پہلا کام یہ کیا ہے کہ انصار اور مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کروایا ہے ، جسے "مؤاخاتِ مدینہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نبی مکرمﷺنے کیسے اتفاق و اتحاد پیدا کیا۔۔۔؟ اس کی صرف ایک مثال پیشِ خدمت ہے:
مؤاخاتِ مدینہ کے موقع پر نبیﷺنے مہاجر صحابی سیدنا عبدالرحمن بن عوف  کو سیدنا سعد بن ربیع  کا بھائی بنایا تو سعد  نے عبدالرحمن بن عوف  سے کہا؛
إِنِّي أَكْثَرُ الْأَنْصَارِ مَالًا فَأَقْسِمُ مَالِي نِصْفَيْنِ وَلِي امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْكَ فَسَمِّهَا لِي أُطَلِّقْهَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ أَيْنَ سُوقُكُمْ فَدَلُّوهُ عَلَى سُوقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَمَا انْقَلَبَ إِلَّا وَمَعَهُ فَضْلٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ ثُمَّ تَابَعَ الْغُدُوَّ ثُمَّ جَاءَ يَوْمًا وَبِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْيَمْ قَالَ تَزَوَّجْتُ قَالَ كَمْ سُقْتَ إِلَيْهَا قَالَ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ
میں انصار میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں اس لیے آپ میرا آدھامال لے لیں ۔  اور میری دوبیویاں ہیں ، آپ انہیں دیکھ لیں جو آپ کو پسند ہو اس کے متعلق مجھے بتائیں میں اسے طلاق دے دوں گا ۔ عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کرلیں ، اس پر عبدالرحمن بن عوف نے کہا : اللہ تمہارے اہل اور مال میں برکت عطافرمائے تمہارا بازار کدھر ہے ؟ چنانچہ میں نے بنی قینقاع کا بازار انہیں بتادیا ، جب وہاں سے کچھ تجارت کرکے لوٹے تو ان کے ساتھ کچھ پنیر اور گھی تھا پھر وہ اسی طرح روزانہ صبح سویرے بازار میں چلے جاتے اور تجارت کرتے آخر ایک دن خدمت نبوی میں آئے تو ان کے جسم پر ( خوشبو کی ) زردی کا نشان تھا آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میں نے شادی کرلی ہے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا : مہر کتنا ادا کیا ہے ؟ عرض کیا کہ سونے کی ایک گٹھلی یا ( یہ کہا کہ ) ایک گٹھلی کے پانچ درم وزن برابر سونا ادا کیا ہے۔ [صحیح بخاری: 3780]
6۔ تکمیلِ مکارمِ اخلاق:
مرشدِ کاملﷺکا چھٹا مشن مکارمِ اخلاق کی تکمیل تھا ، مکارم اخلاق کا مطلب ہے اعلیٰ اور عمدہ اخلاقی صفات۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو انسان کو اخلاقی طور پر بلند اور دوسروں کے لیے قابل احترام بناتی ہیں۔ ان میں سچائی، دیانتداری، انصاف، رحم دلی، اور دوسروں کی مدد شامل ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا:
 إنما بُعِثتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخلَاقِ.
"مجھے تو صرف اس (‏‏‏‏مقصد) کے لیے مبعوث کیا گیا کہ اخلاقی اقدار کی تکمیل کر سکوں۔” [سلسلہ صحیحہ:  2399]
آقا کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
"اور بلاشبہ یقیناً تو ایک بڑے خلق پر ہے۔” [القلم: 4]
پتہ چلا کہ نبیﷺکا ایک اہم ترین مشن یہ تھا کہ اخلاقی اقدار کی تکمیل ہو ، نبی نے اس کو عملی طور پر کرکے بھی دکھایا ، اس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
❄ حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی ” جس کا نام زاہر تھا ” دیہات سے آتے ہوئے نبیﷺکے لئے کوئی نہ کوئی ہدیہ لے کر آتا تھا اور جب واپس جانے لگتا تو نبی ﷺاسے بہت کچھ دے کر رخصت فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ” إِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتُنَا وَنَحْنُ حَاضِرُوهُ "
” زاہر ہمارا دیہات ہے اور ہم اس کا شہر ہیں۔”
نبی ﷺ  اس سے محبت فرماتے تھے گو وہ رنگت کے اعتبار سے قابل صورت نہ تھا۔ ایک دن زاہر اپنے سامان کے پاس کھڑے اسے بیچ رہے تھے کہ نبی ﷺ  پیچھے سے آئے اور انہیں لپٹ کر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے، وہ کہنے لگے کہ کون ہے، مجھے چھوڑ دو، انہوں نے ذرا غور کیا تو نبی ﷺ  کو پہچان گئے اور اپنی پشت نبی ﷺ  کے سینے کے اور قریب کرنے لگے، نبی ﷺ آواز لگانے لگے کہ ” مَنْ يَشْتَرِي الْعَبْدَ ؟ ” ” اس غلام کو کون خریدے گا؟”
 انہوں نے عرض کیا  "يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَنْ وَاللَّهِ تَجِدُنِي كَاسِدًا "
اے اللہ کے رسول ﷺ آپ مجھے کھوٹا سکہ پائیں گے۔
 نبیﷺ نے فرمایا ؛
 لَكِنْ عِنْدَ اللَّهِ لَسْتَ بِكَاسِدٍ ” أَوْ قَالَ : ” لَكِنْ عِنْدَ اللَّهِ أَنْتَ غَالٍ. "لیکن تم اللہ کے نزدیک کھوٹا سکہ نہیں ہو، بلکہ تمہاری بڑی قیمت ہے۔” [مسند احمد: 12648صحیح]
❄نبی مکرمﷺپہلی وحی کے وقت جب گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجہ سے کہا: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي  "مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔”
تو سیدہ خدیجہ نے کہا:
كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ "اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، فقیروں، محتاجوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلے میں پیش آنے والے مصائب میں مدد کرتے ہیں۔” [صحیح بخاری: 3]
❄سیدنا انس  بیان کرتے ہیں:
كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺوَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الحَاشِيَةِ، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَذَبَهُ جَذْبَةً شَدِيدَةً، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ ﷺقَدْ أَثَّرَتْ بِهِ حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَذْبَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ
میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا ، آپ پر موٹے کنارے والی نجرانی چادر تھی ، اتنے میں ایک اعرابی آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپ ﷺ کی چادر کے ساتھ آپ کو اتنے زور سے کھینچا کہ نبی ﷺ اس اعرابی کے سینے کے قریب پہنچ گئے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کے کندھے پر دیکھا تو زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کے نشانات کندھے مبارک پر پڑ چکے تھے ، پھر اس نے کہا محمد اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے میرے لیے بھی حکم فرمائیے ، رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور ہنس دیے ، پھر اسے کچھ دینے کا حکم فرمایا۔ [بخاری: 3149]
7۔ بے حیائی کا خاتمہ:
نبی رحمتﷺکا ساتواں مشن معاشرے سے بے حیائی ، فحاشی اور عریانی کا خاتمہ کرنا تھا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
"بلاشبہ یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔” [آل عمران: 164]
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ آقا کا ایک مشن تزکیہ نفس تھا ، کہ لوگوں کو فحاشی ، عریانی اور بے حیائی سے بچا کر پاکدامنی کی زندگی گزارنے کی تعلیم دینا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
"مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔”  [النور: 30]
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:   وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا "اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔” [بنی اسرائیل: 32]
آقا نے تزکیہ نفس کیسے کیا۔۔۔؟ ، چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
❄عبداللہ بن عمرو بن عاص  کہتے ہیں:
مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار و بہادر(شخص تھے جو (مسلمان) قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے، اور مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ، بدکار عورت تھی، وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی)دوست تھی، انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کر لے جائیں گے، کہتے ہیں کہ میں اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے آ گیا، میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جا کر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آ گئی۔ دیوار کے اوٹ میں میری سیاہ پرچھائیں اس نے دیکھ لی، جب میرے قریب پہنچی تو مجھے پہچان کر پوچھا: مرثد ہونا؟ میں نے کہا: ہاں، مرثد ہوں، اس نے کہا:
مَرْحَبًا وَأَهْلًا هَلُمَّ فَبِتْ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ ” خوش آمدید ، آؤ، رات ہمارے پاس گزارو۔”
میں نے کہا:  يَا عَنَاقُ، حَرَّمَ اللَّهُ الزِّنَا "عناق! اللہ نے زنا کو حرام قرار دیا ہے۔” اس نے شور مچا دیا، اے خیمہ والو (دوڑو)یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھائے لیے جا رہا ہے، پھر میرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑ پڑے، میں خندمہ (نامی پہاڑ) کی طرف بھاگا اور ایک غار یا کھوہ کے پاس پہنچ کر اس میں گھس کر چھپ گیا، وہ لوگ بھی اوپر چڑھ آئے اور میرے سر کے قریب ہی کھڑے ہو کر۔ انہوں نے پیشاب کیا تو ان کے پیشاب کی بوندیں ہمارے سر پر ٹپکیں، لیکن اللہ نے انہیں اندھا بنا دیا، وہ ہمیں نہ دیکھ سکے، وہ لوٹے تو میں بھی لوٹ کر اپنے ساتھی کے پاس (جسے اٹھا کر مجھے لے جانا تھا) آ گیا، وہ بھاری بھر کم آدمی تھے، میں نے انہیں اٹھا کر (پیٹھ پر) لاد لیا، اذخر (کی جھاڑیوں میں)پہنچ کر میں نے ان کی بیڑیاں توڑ ڈالیں اور پھر اٹھا کر چل پڑا، کبھی کبھی اس نے بھی میری مدد کی (وہ بھی بیڑیاں لے کر چلتا) اس طرح میں مدینہ آ گیا۔ رسول اللہﷺکے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کر لوں؟ (یہ سن کر)رسول اللہﷺخاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیت الزاني لا ينكح إلا زانية أو مشركة والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك وحرم ذلك على المؤمنين ”زانی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے اور زانیہ سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے، مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے“ (النور: ۳)، نازل ہوئی آپ نے (اس آیت کے نزول کے بعد مرثد بن ابی مرثد سے) فرمایا: ”اس سے نکاح نہ کرو“۔ [ترمذی: 3177 صححہ الالبانی]
❄  سیدنا ابو امامہ انصاری  سے روایت ہے کہ ایک انصاری نوجوان، نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے زنا کی اجازت دیں، لوگ اس پر پل پڑے اور کہا: خاموش ہو جا، خاموش ہو جا تو،لیکن آ پ ﷺ نے اس نوجوان سے فرمایا: قریب ہو جا۔  پس وہ آپ ﷺ کے قریب ہوکر بیٹھ گیا، آپ  ﷺ نے فرمایا: کیا تو اپنی ماں کیلئے اس چیز کو پسند کرتا ہے؟  اس نے کہا: اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی ماؤں کیلئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے۔  پھر آپ  ﷺ  نے فرمایا: اچھا کیا تو اپنی بیٹی کے لئے اس چیز کو پسند کرے گا؟  اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کر دے، آپ  ﷺ  نے فرمایا: لوگ بھی اس برائی کو اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں کرتے۔  آپ  ﷺ  نے فرمایا: اچھا کیا تو زنا کو اپنی بہن کے لئے پسند کرتا ہے؟  اس نے کہا: اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے، میں اپنی بہن کے لیے اس کو کبھی بھی پسند نہیں کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے۔ آپ ﷺ  نے فرمایا: کیا تو اس کو اپنی پھوپھی کے لئے پسند کرے گا؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم میں اس کو پسند نہیں کروں گا، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، آپ  ﷺ  نے فرمایا: تو پھر لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ آپ ﷺ  نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تو اس برائی کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرے گا؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں اس کو پسند نہیں کروں گا، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کریں۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا: تو پھر لوگ بھی اپنی خالاؤں کے لئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے، آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا اور اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:
اللَّهمَّ اغفِرْ ذنبَه وطهِّرْ قلبَه وحصِّنْ فرجَه.  ” اے میرے اللہ! اس کے گناہ بخش دے، اس کے دل کو پاک کر دے اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ کر دے۔”
راوی کہتے ہیں: قال: فلم يكُنْ بعدَ ذلك الفتى يلتَفِتُ إلى شيءٍ   "اس کے بعد وہ نوجوان کسی چیز کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔”  [مسند احمد: 22211 ، سلسلہ صحیحہ: 2819]
دوسرا خطبہ
آج کے خطبہ جمعہ میں ، ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے سب سے پہلے اس بات کو سمجھا ہے کہ نبیﷺکی دو حیثیتیں ہیں:
پہلی حیثیت محمد بن عبداللہ کی ہے ، دوسری حیثیت محمدرسول اللہﷺکی ہے۔
نبیﷺکو دونوں حیثیتوں سے ماننا ضروری اور فرض ہے ، جو شخص پہلی حیثیت کو تو مانتا ہے لیکن دوسری حیثیت کو نہیں مانتا یا اس طرح نہیں مانتا جس طرح ماننے کا حق ہے تو ایسا شخص ناکام و نامراد ہے ، کیونکہ پہلی حیثیت سے تو نبیﷺکو مشرکینِ مکہ نے بھی مانا تھا ، اسی حیثیت سے وہ نبیﷺکو صادق و امین کہتے تھے ، لیکن جب دوسری حیثیت سے ماننے کی باری آئی تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد یہ بات سمجھی ہے کہ نبی کی ولات کا جشن منانے کی بجائے آقا کا مشن اپنانا چاہئے ، اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنا ، عقیدہ توحید کا احیاء ، عدل و انصاف کا قیام ، حصولِ جنت کا شوق پیدا کرنا ، اتفاق و اتحاد کا قیام ، مکارمِ اخلاق کی تکمیل اور بے حیائی کا خاتمہ نبیﷺکے مشن تھے ، جشن کی بجائے یہ ضروری ہے کہ نبیﷺکے ان مشنوں کو اپنایا جائے۔
❄❄❄❄❄