جھوٹ کی برائی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿إِنَّمَا يَفْتَرِى الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللهِ وَ أُولَئِكَ هُمُ الْكَذِبُونَ﴾ (النحل: 105)
’’جھوٹ تو صرف وہ لوگ جوڑتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں‘‘
جھوٹ کے معنی دروغ گوئی اور غلط بیانی کے ہیں۔ اور یہ نہایت ہی قبیح وصف ہے جس میں یہ بری صفت یعنی جھوٹ بولنے کی عادت پائی جاتی ہے وہ خدا اور انسانوں کے نزدیک بہت برا ہے اور اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ کتاب وسنت میں جھوٹ کی بڑی مذمت آئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ﴾ (زمر :3)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس کو راہ نہیں دکھاتا، جو جھوٹا ہے احسان نہیں مانتا۔ ‘‘
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ گناہ (فجور) کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں، اور جھوٹ بولتے بولتے آدمی خدا کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ اسلام کے محاورہ میں سخت ترین لفظ لعنت ہے۔ لعنت کے معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور محرومی کے ہیں قرآن پاک میں اس کا مستحق شیطان بنایا گیا ہے اور اسکے بعد یہودیوں، کافروں اور منافقوں کو اس کی وعید سنائی گئی ہے لیکن کسی مومن کذب کے سوا اس کے کسی فعل کی بنا پر لعنت سے یاد نہیں کیا گیا۔ جھوٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]بخاري: کتاب الادب باب قوله الله تعالى ياايها الذين امنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بولنے اور جھوٹا الزام لگانے کی صورت میں اللہ تعالی نے اجازت دی ہے کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت کی جائے۔ مباہلہ کے موقع پر یہ فرمایا گیا کہ دونوں فریق خدائے تعالی سے گڑ گڑا کر دعا مانگیں کہ جو ہم میں جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو۔
﴿ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ﴾ (آل عمران: 61)
’’پھر دعا کریں، پھر جھوٹوں پر اللہ تعالی کی لعنت بھیجیں‘‘
میاں بیوی کے لعان کی صورت میں جب شوہر بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور شوہر کے پاس اس کا کوئی گواہ نہ ہو تو اس کو چار دفعہ اپنی سچائی کی قسم کھانے کے بعد پانچویں دفعہ یہ کہنا پڑے گا۔
﴿أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ﴾ (نور: 7)
’’اس پر اللہ کی لعنت ہوا گر وہ جھوٹوں میں سے ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایسی بڑی لعنت ہے کہ جو اس کا مرتکب ہوتا ہے وہ کافروں اور منافقوں کی طرح بددعا کا مستحق ہوتا ہے۔ جھوٹ نفاق کی بدترین قسم ہے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اٰيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَ إِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ) [1]
’’منافق کی تین علامتیں ہیں (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو خلاف کرے (3) جب عہد و اقرار کرے تو عہد شکنی کرے۔‘‘
جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔[1]
اور جھوٹ بولنے والے کے منہ سے اتنی بد بو نکلتی ہے کہ فرشتے اس سے دور بھاگتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
(إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَكُ مِيْلًا مِّنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهِ)
’’یعنی جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں اس بدبو کے باعث ہو جھوٹ بولنے سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ ایمان اور جھوٹ متضاد چیزیں ہیں۔ دونوں کا یکجا جمع ہونا غیر ممکن ہے جس طرح کفرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الايمان باب علامة المنافق، ومسلم کتاب الايمان باب بيان خصاله المنافق
[2] مؤطا امام مالك: كتاب الجامع باب ماجاء في الصدق والكذب
[3] ترمذي: كتاب البر والصلة باب ما جاء في الصدق والكذب: 137/3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایمان یکجا جمع نہیں ہو سکتے۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لا يَجْتَمِعُ الْكُفْرُ وَ الْأَيْمَانُ فِي قَلْبِ امْرَأٍ وَلَا يَجْتَمِعُ الصِّدْقُ وَ الكِذَّبُ جَمِيعًا وَلَا تجْتَمِعُ الْأَمَانَةُ وَ الْخَيَانَةُ جَمِيعًا)[1]
’’یعنی کسی کے دل میں ایمان و کفر اکٹھا جمع نہیں ہو سکتا اگر کفر ہے تو ایمان نہیں اور ایمان ہے تو کفر نہیں۔ اور جھوٹ اور سچ بھی اکٹھا جمع نہیں ہو سکتا اور خیانت امانت بھی اکٹھا نہیں ہو سکتی۔‘‘
جھوٹے آدمی کی قیامت کے دن بڑی بڑی سزائیں ہیں۔ معراج والی حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ جھوٹے آدمی کو میں نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں۔ قبر میں بھی یہی عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا۔
جھوٹ کے بہت سے مرتبے ہیں۔ اچھے اچھے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ بے ضرورت جھوٹ کو برا نہیں جانتے جیسے اکثر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لیے ان سے جھوٹے وعدے کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ان وعدوں کو تھوڑی دیر میں بھول جائیں گے اور ہوتا بھی اکثر یہی ہے مگر جھوٹ بہر حال مجھوٹ ہے۔ اسلام نے اس جھوٹ کو بھی اجازت نہیں دی ہے۔ ایک کم سن صحابی عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
(دَعَتْنِي أُمِّي يَوْمًا وَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي بَيْتِنَا فَقَالَتْ مَا تَعَال أعْطِكَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَرَدْتَ أَنْ تُعْطِیَهُ قَالَتْ أَرَدْتُّ أن أُعْطِيَهُ تَمْرًا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كِذْبَةٌ)[2]
’’ایک دفعہ میری ماں نے مجھے بلایا اور حضور انور ﷺ ہمارے گھر تشریف رکھتے تھے تو ماں نے میرے بلانے کے لیے کہا کہ یہاں آ تجھے کچھ دوں گی۔ حضورﷺ نے فرمایا اس کو کیا دینا چاہتی ہو۔ ماں نے کہا: اس کو کھجور دوں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں اگر تم اس وقت اس کو کچھ نہ دیتیں تو یہ جھوٹ بھی تمہارا لکھا جاتا۔‘‘
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو کھانے کے لیے یا کسی اور چیز کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ تصنع اور بناوٹ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ مجھے خواہش نہیں حالانکہ ان کے دل میں اس کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 349/2۔
[2] ابو داود: كتاب الأدب باب التشديد في الكذب (455/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی جھوٹ ہے چنانچہ ایک دفعہ ایک صحابیہ خاتون نے دریافت کیا۔
(يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ قَالَتْ إِحْدَانَا لِشَىء وَتَشْتَهِيهِ لَا أَشْتَهِيهِ يُعَدُّ ذَالِكَ كَذِبًا قَالَ إِنَّ الْكَذِبَ يُكْتَبُ كَذِبًا حَتَّى تُكْتَبَ الْكَذَيْبَةُ كَذِيْنَةً)[1]
’’یارسول الله ﷺ ہم میں سے کوئی کسی چیز کی خواہش رکھے اور پھر کہہ دے کہ مجھے اس کی خواہش نہیں تو کیا یہ بھی جھوٹ شمار ہوگا۔ ارشاد ہوا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بھی جھوٹ لکھا جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح وہ جھوٹ ہے جو خوش گپی کے موقع پر محض لطف صحبت کے لیے بولا جاتا ہے اس سے اگرچہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پڑتا۔ بلکہ بعض موقعوں پر یہ ایک دلچپسی کی چیز بن جاتا ہے۔ تاہم اسلام نے اس کی بھی اجازت نہیں دی ہے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(وَيْلٌ لِّلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ وَيْلٌ لَهُ)[2]
’’جو لوگوں کے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اس پر بڑے افسوس کی بات ہے۔‘‘
لوگوں کو خوش کرتا ہے اور جھوٹ بول کر اپنی آخرت برباد کرتا ہے۔ اور جھوٹ بولنا بڑی خیانت کی بات ہے۔ کیونکہ خدا کا اور لوگوں کا امین ہے تو اس کو سچ ہی بولنا چاہیئے۔ یعنی ہر صورت میں جھوٹ بولنا اور فضول جھگڑا کرنا برا ہے۔ اس سے ایمان کامل جاتا رہتا ہے۔
جھوٹی گواہی
سب سے زیادہ خطرناک جھوٹ وہ ہے کہ جھوٹ بول کر لوگوں کی حق تلفی کی جائے اور ان کی عزتیں خراب کی جائیں۔ اس کو جھوٹی شہادت کہتے ہیں۔ جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے ترندی شریف میں ہے کہ آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا: ہاں یارسول اللہ ﷺ فرمایا کہ ’’شرک اور ماں باپ کی نافرمانی۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ آپﷺ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعتا اٹھ بیٹھے اور کہا کہ جھوٹی شہادت یا جھوٹی بات اور برابر یہی کہتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے (تاکہ بار بار کہنے میں آپ کو تکلیف نہ ہو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 438/6۔
[2] ابو داود: كتاب الأدب باب التشديد في الكذب (454/4)
ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء من تكلم بالكلمة ليضحك الناس (260/3)
[4] بخاري کتاب الشهادات باب ما قيل في شهادة الزور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھوٹی قسم
بغیر ضرورت کے قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے اگر خاص ضرورت ہی پیش آ جائے تو بھی قسم کھائی جائے جھوٹی قسم ہرگز نہ کھائے کیونکہ قسم میں خدا کو گواہ بنایا جاتا ہے تاکہ مخاطب کو یقین ہو جائے اس لیے سچے معاملہ میں خدا کو گواہ بنانا درست ہے جھوٹے معاملہ میں خدا کو ہرگز گواہ نہ بنایا جائے جھوٹی قسم کھا کر خدا کو جھوٹے معاملہ میں گواہ بنانا سنگین جرم ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
﴿ وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ؕ تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّةٍ ؕ﴾ (نحل: (13)
’’اور قسموں کو پکا کرنے کے بعد توڑ مت ڈالو اور تم نے اپنے اوپر خدا کو ضامن بنایا ہے بے شک اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے اور اس عورت کی طرح مت ہو جس نے اپنے کاتے ہوئے سوت کو محنت کرنے بعد توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے تم اپنی قسموں کو آپس میں فریب کا بہانہ بناتے ہو کہ ایک فریق دوسرے فریق سے بڑھ چڑھ کر ہو۔‘‘
خدا کا نام لے کر معاہدہ کرنا اور اس کو توڑ ڈالنا خدا کے مقدس نام کی تحقیر کرنا ہے اس لئے فرمایا کہ جس بات پر کسی نے قسم کھائی اس پر اس نے گویا خدا کو ضامن ٹھہرایا۔ اس لیے قسم توڑ ڈالنا ایسا ہی حماقت کا کام ہے جیسا کہ عرب کی ایک بیوقوف عورت کا تھا جو سوت کات کات کر کھو دیتی یا ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی۔ جھوٹی قسم کھا کر کسی دوسرے کے مال پر دعوی کرنا خدا کے نام پر جھوٹ بولنا ہے اور یہ ایک کے بجائے دو گناہوں کا مجموعہ ہے یعنی غصب اور جھوٹ اور وہ بھی خدا کے پاک اور مقدس نام پر۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا ۙ اُولٰٓىِٕكَ مَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۱۷۴﴾ (آل عمران : 8)
’’بے شک جو لوگ خدا کے اقرار اور اپنی قسموں پر (دنیا کا) تھوڑا سا مال خریدتے ہیں آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں، نہ اللہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا قیامت میں۔ اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘
ابن جریر کی بعض روایتوں میں ہے کہ یہ آیت ان سوداگروں کی شان میں ہے جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنا سامان بیچتے ہیں۔[1]
اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے تین دفعہ فرمایا تین آدمی ہیں ہیں جن کی طرف خدا قیامت کے دن نہ دیکھے گا نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ صحابی کہتے ہیں میں نے کہا یہ لوگ جو ناکام ہوئے اور نقصان میں پڑے ہیں وہ کون ہیں یارسول اللہﷺ؟ فرمایا: جو اپنا لباس ٹختوں تک لٹکاتا ہے (کیونکہ غرور کی علامت ہے) اور جو احسان جتاتا ہے اور جو جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال بیچتا ہے۔‘‘[2]
بہرحال جیسا کہ معلوم ہے کہ شان نزول سے مراد واقعہ ہے جس پر کوئی آیت پوری طرح صادق آ جائے اس لیے ان تمام واقعات پر آیت کا حکم یکساں جاری ہوگا۔ صحیح مسلم[3] میں کہ آپﷺ نے فرمایا جو کسی مسلمان کے حق کو جھوٹی قسم کھا کر لینا چاہے گا تو خدا اس پر دوزخ کی آگ کو واجب کرے گا۔ صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا اگرچہ کوئی معمولی سی چیز ہوا؟ فرمایا: پیلو کے درخت کی ڈالی ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بڑے بڑے گناہ یہ میں خدا کا شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی بے گناہ کی جان لینا اور جھوٹی قسم کھانا۔[4]
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جس شخص سے قسم کھلوائی جائے اور وہ جھوٹی قسم کھائے تو وہ اپنا چہرہ لے کر دوزخ میں ٹھکانا پائے گا۔[5]
چہرہ کی خصوصیت شاید اس لیے ہے کہ اس نے انسانی عزت و آبرو کے خلاف کام کیا اور بڑی ڈھٹائی دکھائی جس کا اثر چہر و پر نمایاں ہوگا۔ عموما تاجر اور سوداگر چیزوں کی قیمت اور مال کی اصل حقیقت بتانے میں جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اس لیے خاص طور سے رسول اللہﷺ نے ان کو اس سے بچنے کی ہدایت کی ہے فرمایا جھوٹی قسم مال کو بکوا دیتی ہے لیکن نفع (کی برکت) کو گھٹا دیتی ہے۔[6]
روحانی حیثیت سے جو برکت گھٹتی ہے وہ تو ہے ہی لیکن ظاہری حیثیت سے بھی ایسے شخص کی تجارت کو آخر میں چل کر اس کی عام بے اعتباری سے جو نقصان پہنچتا ہے وہ بھی ظاہر ہے۔ چنانچہ اس کی تشریح ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، كتاب البيوع باب ما یكرہ من الحلف في البيع
[2] مسلم: كتاب الإيمان باب بیان غلط تحريم اسباب الأوزار والمن۔
[3] مسلم: كتاب الإيمان باب وعید من اقتطع حق مسلم۔
[4] مسلم: كتاب الإيمان باب الكبائر و اكبرها
[5] ابو داود: كتاب الايمان والنذور باب التغليظ في اليمين213/3-
[6] بخاري: كتاب البيوع باب يمحق الله الرباء، مسلم كتاب المساقاة باب النهي عن الحلف في البيع۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری روایت میں ہے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تجارت میں بہت قسمیں کھانے سے بچو کیونکہ اس طرح پہلے کامیابی ہوتی ہے پھر بے برکتی ہو جاتی ہے۔[1]
وعدہ خلافی
وعدہ خلافی بھی ایک قسم کا جھوٹ ہے اس سے بچنا بہت ضروری ہے اور یہ نفاق کی نشانی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی تین علامتیں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾ (بني اسرائيل: 34)
’’اور وعدہ کو پورا کرو۔ کیونکہ وعدے کی باز پرس ہوگی۔‘‘
بهتان
بہتان بھی ایک قسم کا جھوٹ ہے۔ کیونکہ بہتان کا مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو گنہ گار ٹھہرایا جائے یا اس کی طرف کوئی ناکردہ گناہ یا کوئی برائی منسوب کی جائے یہ بھی بہت تکلین جرم ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓئَةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓـًٔا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠۱۱۲﴾(نساء: (16)
’’اور جو کوئی خطا یا گناہ کرے پھر وہ اس کی تہمت کسی بے گناہ پر دھرے، اس نے طوفان اور کھلا گناہ اپنے سر اٹھایا۔‘‘
اور فرمایا
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ۲۳ یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۲۴ یَوْمَىِٕذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ۲۵﴾ (سورة نور: 23 – 25)
’’جو لوگ پاکدامن عورتوں پر (زنا کی تہمت لگاتے ہیں جو بیچاریاں ایسی باتوں سے محض) بے خبر ہیں اور ایمان رکھتی ہیں ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں ملعون ہیں۔ اور (قیامت کے دن )
۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب المساقاة باب النهي عن الخلف في البيع۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کو بڑا سخت عذاب ہو گا جب کہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے عملوں کی گواہی دیں گے اور اس دن اللہ ان کو پورا پورا واجب بدلہ دے گا اور جان لیں گے کہ اللہ ہی سچا اور سچ کو سچ کر دکھانے والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا۵۷ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠۵۸﴾ (الاحزاب: 56 – 58)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو کسی طرح کی ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت دونوں میں خدا کی پھٹکار ہے اور خدا نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بے اس کے کہ انہوں نے قصور کیا ہو (ناحق کی تہمت لگا کر) ایذا دیتے ہیں تو (وہ جھوٹ) طوفان اور صریح گناہ کا بوجھ (اپنی گردن پر لیتے ہیں۔‘‘
چغل خوری
چغل خوری بھی جھوٹ کی ایک بدترین قسم ہے کیونکہ چغل خوری کا یہ مطلب ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان ادھر ادھر کی جھوٹی باتیں بیان کر کے ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جائے اور اپنا رسوخ قائم کیا جائے ایسے لوگ بڑے فتنہ انگیز ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ۶﴾ (الحجرات: (6)
’’اے ایمان والو! اگر کوئی گنہگار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرو۔ کہیں کسی قوم پر نادانی سے نہ جا پڑو۔ پھر اپنے کئے پر پچھتانے لگو۔‘‘
اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جھوٹی بات پھیلانے والے فاسق ہیں جو بڑے مفسد ہیں۔
صحیحین میں ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ ایک قبرستان کے پاس سے گذرے تو فرمایا کہ ان میں سے ایک کو اس لئے عذاب ہو رہا ہے کہ وہ چغلی کھاتا پھرتا تھا۔ [1]
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الوضوء باب من الكبائر ان لا يستتر من بوله۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( أَلَا أُنَبِّئُكُمْ مَا الْعَضْةُ هِيَ النَّمِيمَةُ الْقَالَةُ بَيْنَ النَّاسِ)[1]
’’کیا میں تم کو بتاؤں کہ عضہ کیا ہے۔ یہ چغل خوری ہے جو لوگوں کے درمیان کی جاتی ہے۔‘‘
چغل خوری سے بہت بڑا فساد برپا ہو جاتا ہے اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ)
’’چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
چغل خوروں کے فساد سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ان باتوں کا ہرگز خیال نہ کیا جائے جس طرح اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِیْم﴾ (القلم: 10-11)
’’جھوٹی قسموں کے کھانے والوں لوگوں پر آوازیں کسنے والوں اور چغل خوروں کا کہا نہ مانیے۔ ‘‘
دو رخاپن
یہ چغلی کی بدترین قسم ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کا دوست بن کر ایک کی بات دوسرے تک پہنچائے اور دونوں کے تعلقات کو خراب کرے اور ایک دوسرے کو بدگمان کرے اس سے بہت بڑا فتنہ پیدا ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کو ذی الوجہین اور ذیی اللسانین کہتے ہیں یہ ایسا شخص ہے جو ایک شخص کے پاس بیٹھ کر تعریف کرتا ہے اور اس کے پاس سے باہر نکل کر اس کی برائی کرنے لگاتا ہے۔ یہ بھی منافقین میں شمار ہوتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔
﴿ وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِهِمْ ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ۱۴﴾ (البقره: 14)
’’اور جب ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے۔ تو کہتے ہیں ہم (بھی تو) ایمان لا چکے ہیں اور جب تنہائی میں اپنے شیطانوں، سرداروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف مسلمانوں سے مذاق کرتے ہیں۔‘‘
حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ امیروں و حاکموں کے پاس جاتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں اور جب ان کے یہاں سے نکل آتے ہیں تو ان کے خلاف کچھ اور کہتے ہیں عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: کتاب الادب باب تحريم النميمة (325/2) [2] بخاري: کتاب الادب باب ما يكره من
النميمة، ومسلم کتاب الايمان باب بيان غلط تحريم النميمة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(كُنَّا نَعْدُّ هَذَا نِفَاقًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ)[1]
’’ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس کو نفاق سمجھتے تھے۔‘‘
نبی ﷺ نے فرمایا:
(وَ تَجِدُونَ شَرَّ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجُهِ وَ هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ)[2]
’’سب سے بدتر دو رخاپن والوں کو پاؤ گے جو اس کے پاس ایک منہ لے کر آتا ہے اور دوسرے کے پاس دوسرا منہ لے کر آتا ہے۔‘‘
یعنی ایک شخص کے پاس آتا ہے تو اور بات کہتا ہے مثلا اس کی تعریف کرتا ہے اور جب دوسرے شخص کے پاس جاتا ہے تو پہلے کی برائی کرتا ہے جس کی اس نے تعریف کی تھی اور جس کے پاس بیٹھا ہے اس کی تعریف کرتا ہے اس کو دوغلا پن بھی کہتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ كَانَ لَهُ وَجْهَانِ فِي الدُّنْيَا كَانَ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ لِسَانَانِ مِنْ نَّارٍ)[3]
’’فرمایا کہ جو دنیا میں دو رخا ہو گا قیامت کے دن اس کی آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔‘‘
ان روایتوں سے ثابت ہوا کہ دو رخ والے دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہیں اور آخرت میں سزا یافتہ ہیں۔ دورخا بھی منافق ہے۔
بے جا تعریف اور چاپلوسی
یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے کہ کسی کی حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر تعریف کی جائے جس کے وہ لائق نہیں ہے اس سے تعریف کرنے والا اپنے مدوح کو خوش کر کے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے اور ممدوح خوش ہو کر غرور اور شیخنی میں آ جاتا ہے تو بے جا تعریفوں سے ممدوح میں دو برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک ضرور دوسرے اپنے نسبت غلط تعریفیں سن کر خوش ہوتا ہے اور اپنے مفروضہ کمال اور مبالغہ آمیز بیان پر مغرور ہو کر دوسروں کو حقیر جانتا ہے۔ اس لئے ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو دوسرے کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا تم نے اس کو برباد کر دیا[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الاحکام باب ما يكره من ثناء السلطان۔
[2] بخاري: کتاب الاحكام باب ما يكره من ثناء السلطان و مسلم كتاب البر والصلة باب ذم ذي
الوجهين۔
[3] ابو داود: كتاب الأدب باب في ذي الوجهين۔
[4] بخاري: كتاب الشهادات باب ما يكره من الأطناب في المدح وليقل ما يعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور موقع پر ایک صاحب نے کسی کی حد سے زیادہ تعریف کی تو فرمایا: تم نے اپنے ساتھی کی گردن ماردی اگر تم کو کسی کی تعریف ہی کرنا مقصود ہے تو یوں کہو کہ میں یہ گمان کرتا ہوں بشرطیکہ اس کے علم میں وہ واقعی ایسا ہو اور قطعیت کے ساتھ علم نہ لگایا جائے۔[1]
مقصود یہ ہے کہ اگر کسی کی حد سے زیادہ تعریف کی جائے تو وہ اس کو سن کر مغرور ہو جائے گا۔ اس کے بعد اس کا سارا کیا دھرا برباد ہو جائے گا۔ اسی طرح کسی کی نسبت قطعیت کے ساتھ اس لیے بھی حکم نہیں لگانا چاہتے کہ کسی کو دوسرے کا اندرونی حال اور غیب کی خبر نہیں معلوم، ایک بات اور یہ ہے کہ ایسی تعریفیں جو لوگوں کے منہ پر کی جاتی ہیں ان کو سن کر ان کے نفس موٹے ہو جاتے ہیں اور ان کے عیب و ہنر پر نظر ڈالنے والی آنکھوں کی روشنی زائل ہو جاتی ہے ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے منہ پر ان کی تعریف کی تو حضرت مقداررضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے منہ میں خاک جھونک دی اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمُ التَّرَابَ)[2]
’’مداحی کرنے والوں کو جب دیکھو تو ان کے منہ میں خاک جھونک دو۔‘‘
ادب المفرد میں ہے کہ ایک دفعہ آپ مسجد میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے آپ نے کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو اس نے اس کی بڑی تعریفیں شروع کیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اس کو سنا کرمت کہو کہ اس کو بر باد ہی کردو۔[3]
اللہ ہمیں ہمیشہ کی بولنے کی توفیق دے اور جھوٹ کی برائی سے محفوظ رکھے۔ آمین
(وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الشهادات باب ما يكره من الاطناب في المدح وليقل ما يعلم
[2] مسلم: كتاب الزهد باب النهي عن المدح اذا كان فيه الفراط و حيف منه فتنة على الممدوح
[3] مسلم كتاب الزهد باب النهي عن المدح اذا كان فيه افراط و خيف الخ۔
[3] مسند احمد: 32/5۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔