جهاد فی سبیل اللہ – ایک اہم دینی فریضہ
الحمد لله القوي العزيز، يعز من يشاء ويذل من يشاء، بيده الخير. وهو على كل شيء قدير، أحمده سبحانه وهو أهل الحمد والثناء. واشكره على آلائه وإحسانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، أرسله الله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو طاقت والا اور غالب ہے جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے اس کے ہاتھ میں ہر طرح کی بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ میں اس رب پاک کی حمد و ثنا کرتا ہوں جو ہر طرح کی حمد و ثنا کا سزاوار ہے اور اس کے احسان و انعام پر شکر گذار ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں ہدایت اور دین حق دے کر اس لئے بھیجا کہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے۔ اللہ کا بے شمار درود و سلام ہو اس کے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر اور ان کے آل و اصحاب پر۔ اما بعد!
لوگو! اللہ سبحانہ و تعالی سے ڈرو اور اس کے احکام و اوامر بجا لاؤ اور نواہی سے اجتناب کرو اور یہ بات بخوبی جان لو کہ اسلام جملہ احوال و معاملات میں عدل و انصاف ضروری قرار دیتا ہے اور حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے، خواہ وہ حقوق اللہ کے ہوں یا بندوں کے۔
لہٰذا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے جملہ حقوق میں اس سے ڈرتار ہے اور ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی شہادت کے جو تقاضے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں عملی طور پر انہیں پورا کرے۔ کلمہ شہادت کا حاصل یہ ہے کہ بندے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے جملہ مامورات کا التزام کرے، عمل صرف اللہ کیلئے کرے۔ عبادت اسی کیلئے خاص رکھے۔ توکل اس کی ذات پر کرے اس کے سوا کسی سے نہ امید رکھے نہ لو لگائے۔ ایک مسلمان اللہ سبحانہ کو چھوڑ کر کسی اور سے کیسے لو لگاتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی اس کا خالق و رازق ہے وہی مارنے اور جلانے والا ہے وہی معبود بر حق اور سزاوار عبادت ہے اور وہی ہے جو مضطرب و پریشان حال کی پکار سنتا اور قبول کرتا ہے جیساکہ ارشاد ہے:
﴿أمنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْءَ وَيَجْعَلُكُمْ خلَفَاءَ الأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ (النمل:23)
’’بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین کا جانشین بناتا ہے (یہ سب اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو۔ اللہ کے سوا کوئی بھی ذات جب اپنے لئے نفع و نقصان کی مالک نہیں تو بھلا وہ دوسروں کو کیا نفع و نقصان پہنچا سکتی ہے اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ؕ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍؕ۱۳ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ؕ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ؕ وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠۱۴﴾ (فاطر: 13،14)
’’یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کی بادشاہی ہے اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو کسی چیز کے مالک نہیں، اگر تم ان کو پکار و تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کر سکیں اور قیامت کے روز تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور اللہ باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘
کلمہ شہادت کے دوسرے حصہ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام اوامر کی پیروی اور جملہ منہیات سے پرہیز کیا جائے آپ نے جن چیزوں کی خبر دی ہے ان کی تصدیق کی جائے۔ آپ کے احکام اور فیصلے سے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کی جائے اور اللہ رب العالمین کی عبادت و بندگی کے لئے نبی عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ مسنونہ کے علاوہ کسی اور کا کوئی طریقہ نہ اختیار کیا جائے اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر:7)
’’رسول جو چیز تم کو دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو‘‘
نیز فرمایا: ﴿قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ الله﴾ (آل عمران:31)
(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا۔‘‘
دین اسلام جو کل کا کل خوبیوں پر مشتمل ہے اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ تمام حالات میں اور ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے، خواہ ان کا تعلق آدمی کے اپنے اور والدین کے حقوق سے ہو یا بیوی بچوں کے حقوق سے اعزہ واقرباء کے حقوق کا معاملہ ہو یا معاشرہ میں بسنے والے کسی دوست یادشمن کے حقوق کا چنانچہ فرمان باری ہے:
﴿وإنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ﴾ (النحل:90)
’’اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔‘‘
مذہب اسلام اپنے ماننے والے ہر مسلمان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ اپنے دین سے ظلم وجور کو دفع کرے، بغاوت و سرکشی جہاں بھی ہو اسے مٹائے بلکہ اس کے اسباب و ذرائع ہی کا خاتمہ کر دے اپنے دین اپنے نفس اپنے مال اور اپنے وطن کی محافظت کرے لیکن روئے زمین کے اندر تعلی اور غلبہ و تسلط کی نیت سے نہیں بلکہ اس مقدس جذبہ کے تحت کہ اسلام کا کلمہ بلند ہو، مفر سرنگوں ہو اور عزت و غلبہ دین اسلام کو حاصل ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَقَاتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ﴾ (البقره:244)
’’مسلمانو! اللہ کی راہ میں لڑو اور جان رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
﴿وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جَهَادِهِ﴾ (الحج:78)
’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔‘‘
ان آیات کے اندر ’’سبیل اللہ‘‘ سے مراد ہر وہ راستہ ہے جو حق تک پہنچاتا ہو، کلمئہ اسلام کی سر بلندی کا باعث اور اللہ کے مومن بندوں کی نصرت و حمایت کا ضامن ہو۔
لہذا ہر وہ جنگ جو دین کی خاطر اور دین سے دفاع کے لئے ہو وہ فی سبیل اللہ ہے اسی طرح مسلمانوں کی ہر وہ لڑائی جو ظلم و تعدی مٹانے سرکشوں کے خلاف مظلوموں کی مدد کرنے عدل و انصاف کے قیام اور حق کی نصرت و تائید کے طور پر ہو وہ قتال فی سبیل اللہ میں شامل ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو متعدد مقامات پر اللہ کی راہ میں جہاد و قتال کرنے کا حکم دیا ہے لیکن یہ جہاد صرف اللہ کی راہ میں اور کلمئہ اسلام کی سربلندی کے لئے ہو اس میں کوئی مادی منفعت، دنیادی غرض اور کسی بھی طرح کی عصبیت کا جذبہ کار فرما نہ ہو۔ قرآن کریم نے قتال و جہاد کا حکم دینے کے ساتھ ہی اس کے مقصد اور اجر و ثواب کی وضاحت بھی کر دی ہے۔ فرمایا:
﴿فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ ؕ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ۙۚ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۚ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ ۚ اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا۠﴾ (النساء:74 تا 76)
’’جو لوگ آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو بیچنا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کریں اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ کرے پھر شہید ہو جائے یا غلبہ پائے تو ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے۔ اور تم کو کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار! ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔ جو مومن ہیں وہ تو اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ بتوں کے لئے لڑتے ہیں، سو تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو (اور ڈرومت) کیونکہ شیطان کا داؤ بودا ہوتا ہے۔‘‘
’’طغیان“ کہتے ہیں ظلم و سرکشی میں حد سے تجاوز کرنے کو لہٰذا جو شخص بھی اللہ اور اس کے بندوں پر ظلم و سرکشی کرنے میں حد سے تجاوز کرے وہی طاغوت ہے اور جب انسان حد سے تجاوز کر جائے اللہ کی زمین میں فساد مچائے لوگوں کو اپنا محکوم و غلام بنانا شروع کر دے اور ان کے شرعی حقوق چھینے لگے تو ایسے شخص کی حمایت میں لڑنے والا طاغوت کے لئے جنگ کر رہا ہے اور جو طاغوت کے لئے جنگ کرے تو اس کی جنگ شیطان کی راہ میں جنگ ہو گی اور وہ خود شیطان کا ولی اور مددگار ہو گا جس کے بارے میں اللہ عزو جل کا ارشاد ہے:
﴿فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا﴾
’’شیطان کے مددگاروں سے قتال کرو بیشک شیطان کا داؤ بودا ہوتا ہے۔‘‘
اسلامی بھائیو! اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرو، یعنی تمہاری نیست اور تمہارا جذبہ یہ رہے کہ پوری دنیا کے اندر الہی قانون اور عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور عزت و غلبہ اور شان و شوکت اللہ اس کے رسول اور مومن بندوں کو حاصل ہو اس جہاد سے زمین میں فتنہ و فساد، ظلم و تعدی اور کوئی ذاتی منفعت وابستہ نہ ہو ایسے ہی مومن بندوں کے لئے قرآن کریم نے یہ بشارت دی ہے:
﴿وتِلْكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ﴾ (القصص:83)
’’وہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے (تیار) کر رکھا ہے جو زمین میں ظلم و فساد کا ارادہ نہیں رکھتے اور انجام خیر تو پرہیز گاروں ہی کے لئے ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔