۔ جن بھوتوں کے ظاہر ہونے کا بیان
853۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لا عدوى، وَلَا غُولَ، وَلَا صَفَرَ)) (أخرجه مسلم: 2222)
’’کسی سے کوئی مرض خود بخود نہیں چٹتا، نہ غول کوئی چیز ہے، اور نہ ماہ صفر کی (نحوست) کوئی حقیقت ہے۔“
854۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَاغَولَ)) ’’کوئی جن بھوت نہیں ( کہ وہ جنگلوں میں مختلف شکلیں اختیار کر کے لوگوں کو راہ سے بھٹکائے)‘‘ (أخرجه أبو داود: 3913)
توضیح و فوائد: عربوں کے ہاں یہ تصور تھا کہ غول جنگلوں اور صحراؤں میں ایک قسم کا شیطان ہوتا ہے جو مختلف شکلیں اختیار کر کے مسافر کو راستہ بھلا دیتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ جنات کی ایک قسم ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اس خیال کو باطل فرمایا اور بتلا دیا کہ غول کوئی چیز نہیں ہے۔ بعض نے کہا ہے غول کے وجود کی نفی مقصود نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ غول کچھ نہیں کر سکتا، یعنی کسی کو راستہ نہیں بھلا سکتا۔
855۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایک سٹور تھا جس میں خشک کھجوریں تھیں، غول (شیاطین اور جنات) آتے اور اس میں سے اٹھا کر لے جاتے، انھوں نے اس کی شکایت نبی اکرم ﷺسے کی۔
آپ نے فرمایا: ((اذْهَبْ، فَإِذَا رَأَيْتَهَا، فَقُلْ بِسْمِ اللهِ، أَجِيبِي رَسُولَ اللهِ)) (أخرجه أحمد: 23592، والترمذي:2880)
’’جاؤ، اب اگر تمھیں نظر آئیں تو کہنا: بسم اللہ، اللہ کے رسول کی بات سنو۔‘‘
وہ فرماتے ہیں: (وہ دوبارہ آیا تو) میں نے اسے پکڑ لیا۔ اس نے قسم اٹھائی کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گا تو میں نے اسے چھوڑ دیا اور رسول اکرمﷺ کی خدمت میں آکر ساری صورت حال عرض کی۔
آپﷺ نے فرمایا: ((مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟)) ’’تیرے قیدی کا کیا بنا؟‘‘
میں نے کہا: اس نے قسم اٹھائی ہے کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((كَذَبَتْ، وَهِيَ مُعَاوِدَةٌ لِلْكَذِبِ)) ’’اس نے جھوٹ بولا ہے اور دوبارہ بھی جھوٹ بولے گا۔‘‘
وہ فرماتے ہیں: میں نے اسے دوبارہ پکڑ لیا تو اس نے پھر قسم اٹھائی کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے پوچھا:
((مَا فَعَلَ أَسِيركَ؟)) ’’تیرے قیدی کا کیا بنا؟‘‘
میں نے کہا: اس نے پھر قسم اٹھائی ہے کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((كَذَبَتْ وَهِيَ مُعَاوِدَةٌ لِلْكَذِبِ)) ’’اس نے جھوٹ بولا ہے اور دوبارہ پھر جھوٹ بولے گا۔‘‘
فرماتے ہیں: وہ پھر آیا تو میں نے اسے پھر پکڑ لیا اور کہا: میں تمھیں کسی صورت نہیں چھوڑوں گا، آج ہر صورت تمھیں نبیﷺ کے پاس لے کر جاؤں گا۔
اس نے کہا: میں تمھیں ایک چیز،یعنی آیت الکرسی بتاتا ہوں تم اسے گھر میں پڑھا کرو تو کوئی شیطان وغیرہ تیرے قریب نہیں آئے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے پوچھا:
((مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ)) ’’تیرے قیدی کا کیا بنا؟‘‘
میں نے ساری بات آپ کو بتائی تو آپﷺ نے فرمایا:
((صَدَقَتْ وَهِيَ كَذُوبٌ)) ’’اس نے سچ کہا حالانکہ وہ بہت جھوٹا ہے۔‘‘(أخرجه أحمد: 23592، و الترمذي: 2880)