جرم اذیت مسلم کی چند صورتیں اور ان کی سنگینی
﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠۵۸﴾ (الاحزاب:58)
گذشتہ خطبہ جمعہ میں اللہ تعالی کی مخلوقات کو، بالخصوص انسان کو اور انسانوں میں سے مسلمانوں کو اور مسلمانوں میں سے بالخصوص نیک متقی اور پرہیز گار بندوں کو اذیت پہنچانے کی حرمت اور ممانعت کا ذکر ہو رہا تھا، آج ان شاء اللہ اذیت کی چند صورتوں کا ذکر کریں گے۔ کسی کو اذیت اور تکلیف پہنچانا ایک نہایت ہی شدید اور سنگین جرم ہے، اس کی سنگینی قرآن و حدیث میں مختلف پہلوؤں اور مختلف پیرایوں میں بیان ہوئی ہے، جس کا تذکرہ گذشتہ خطبات میں بھی ہوا اور جس کا ایک انداز یہ بھی ہے، حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُولُ))
’’میں نے دیکھا کہ آپ ﷺکعبہ کا طواف کر رہے تھے اور کعبہ کو مخاطب کر کے فرمارہے تھے۔‘‘
((مَا أَطِيبكِ وَأَطيب ريحك))
’’تو کتنا اچھا ہے اور کتنی اچھی تیری خوشبو ہے۔‘‘
((مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ ))
’’تو کتنا عظمت والا ہے اور تقنی عظمت والی تیری حرمت ہے ۔‘‘
((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ))
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ۔‘‘
((لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ))
’’بنده مؤمن کی عظمت و حرمت اللہ تعالی کے ہاں تیری حرمت سے زیادہ عظمت والی ہے۔‘‘
((مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نُظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرا)) (سنن ابن ماجه ، کتاب الفتن:3932 – السلسلة الصحيحية ، رقم:3420)
’’ اس کے مال کی اللہ تعالی کے ہاں حرمت ہے، اس کا تقدس ہے، اور اس کے خون کی بھی حرمت ہے اور یہ کہ اس کے بارے میں ہم اچھا گمان رکھیں ۔‘‘
یعنی کسی مسلمان سے متعلق بدگمانی کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔
اور اذیت مسلم کی سنگینی ایک اس انداز میں بھی بیان کی گئی ہے: حدیث میں ہے،
آپﷺ نے فرمایا:
))لَزَوَالَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ))
(سنن ترمذی ، کتاب الديات:1395)
’’پوری دنیا کا ختم ہو جانا اور اس کی تباہی و بربادی، کسی مسلمان کے قتل کی نسبت سے بہت ہلکی اور معمولی بات ہے ۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کو، بالخصوص کسی مسلمان کو اذیت اور تکلیف پہنچانا ایک سنگین جرم ہے، اذیت کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات بہت واضح ، بہت سخت اور کامل وشامل ہیں۔ پہلے تو کسی کو اذیت دینے کی کسی مسلمان سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی، کیونکہ یہ بات اُس کے شایان شان نہیں ہے، اس کے اخلاق اور اس کی صفات میں سے نہیں ہے، ایک مسلمان کے اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ)) (صحيح البخاری ، کتاب الایمان:10)
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
(لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعانِ وَلَا اللَّعَانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا البذيء)) (سنن ترمذی ، کتاب البر والصلة:1977) ’’مسلمان طعنے دینے والا العنتیں بھیجنے والا بخش گفتگو کرنے والا اور بد زبان نہیں ہوتا۔‘‘
تو معنوی اذیت کی یہ چند شکلیں ہیں ، اور معنوی اذیت زبان سے اور اشاروں کنایوں سے سرزد ہوتی ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ اسلام مسلمانوں کو اذیت سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور تاکید کرتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((عُرِضَتْ عَلَىَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَ سَيْتُهَا))
’’میری امت کے اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے ۔‘‘
((فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ))
’’تو میں نے اس کے اچھے اعمال میں یہ چیز بھی پائی کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا۔‘‘
((وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ ، لا تدفن )) (صحيح مسلم ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة:553)
’’اور میں نے ان کے کمرے اعمال میں مسجد میں کھنگار اور بلغم کا موجود ہونا اور اسے دفن نہ کیا جانا پایا۔‘‘
اور تیسرے یہ کہ کسی مسلمان کو اذیت دینے کے خطرناک نتائج اور انجام سے خبر دار کیا، جیسا کہ متعدد آیات واحادیث سے واضح ہے۔
اسلام یوں تو تمام مخلوقات کو اذیت پہنچانے سے منع کرتا ہے، وہ انسان ہوں یا حیوانہوں اور پھر انسانوں میں سے مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مگر اس وقت چونکہ اذہب مسلم کے حوالے سے بات ہو رہی ہے اس لیے اس کا ذکر کرتے ہیں۔
اسلام کسی مسلمان کی جسمانی یا ذہنی اذیت کی سختی سے ممانعت کرتا ہے، اس کا ایک انداز ملاحظہ کیجئے ، کہ کسی مسلمان کی دل آزاری چاہے وہ معاشرے میں کسی لحاظ سے کم درجے کا ہی کیوں نہ ہو، اس قدرختی سے منع ہے کہ حدیث میں ہے، کہ
((أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَتَى عَلَى سَلْمَانَ وَصُهَيْبٍ وَبِلَالٍ فِي نَفَرٍ))
’’ابو سفیان ایک مجمعے میں کہ جہاں حضرت سلمان ، حضرت حبیب اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم موجود تھے ، آئے ۔‘‘
اور ابو سفیان صلح حدیبیہ کے بعد جنگ بندی کے ایام میں آئے ، اور ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
((فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا أَخَذَتْ سُيوفُ اللَّهِ مِن عُنْقِ عَدُوٌّ الله مأخَذَهَا))
’’تو انھوں نے ابو سفیان کو دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! اللہ تعالی کی تلواروں کو اللہ تعالی کے دشمن کی گردن تک پہنچنے کا موقع نہیں ملا۔‘‘
((فَقَالَ أَبُو بَكرٍ: أَتَقُولُونَ هَذَا لِشَيخِ قُرَيْشٍ وَسَيِّدِهِمْ؟))
’’تو حضرت ابو بکر بھی نہ نے ان سے فرمایا: کیا تم یہ بات قریش کے بزرگ اور سردار کے بارے میں کہہ رہے ہو ؟‘‘
(((فَأَتَى النَّبِيَّ فَأَخْبَرَهُ))
’’پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے وہ واقعہ بیان کیا ۔‘‘
((فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ لَعَلَّكَ أَغْضَبْتَهُمْ ، لَيْن كُنْتَ أَغْضَبْتَهُمْ لَقَدْ أَغْضَبْت رَبَّكَ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اے ابوبکر! شاید کہ تم نے انھیں ناراض کر دیا ہو، اور اگر تم نے انھیں ناراض کر دیا ہو تو تم نے اللہ تعالی کو ناراض کر دیا ۔‘‘
((فَأَتَاهُمْ أَبو بَكْرٍ ، فَقَالَ: يَا إِخْوَتَاهُ أَغْضَبْتُكُمْ؟))
’’تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: اے میرے بھائیو! کیا میں نے تمھیں ناراض کر دیا ہے ؟‘‘
((قَالُوا: لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَخِي)) (صحيح مسلم ، كتاب فضائل الصحابة:2504)
’’تو انھوں نے کہا: ہرگز نہیں! اللہ تعالی آپ کو معاف فرمائے ، اے ہمارے بھائی ۔‘‘
اس واقعے کی روشنی میں اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں اور اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو شرم بھی آتی ہے اور ڈر اور خوف کے مارے رونگٹے بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آج کے اس دور میں کسی غریب آدمی کی بالخصوص جب کہ وہ دین دار بھی ہو، عزت کا لحاظ نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کو عزت کا حق دار ہی سمجھا نہیں جاتا۔
عزت کا حق دار صرف دولت مند کو سمجھا جاتا ہے چاہے وہ پرلے درجے کا بے دین ہی کیوں نہ ہو۔
بہت سے دولت مند ، بلکہ اگر اکثر بھی کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا ، کہ اکثر دولت مند یا چوہدری قسم کے لوگ غریب کی تو ہین اور دل آزاری کرنا نہ صرف یہ کہ جائز سمجھتے ہیں بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور چو ہدراہٹ کا ایک لازمی حصہ سمجھتے ہیں کہ اگر غریب آدمی کو اوئے کرکے اور گالی دے کر اور بے عزتی کے ساتھ نہیں بلائیں گے تو چو ہدراہٹ قائم نہیں رہتی، ان پر رعب اور دبد بہ قائم نہیں رہتا۔
یہ سوچ اور یہ انداز دین سے متصادم ہے اور نہایت خطرناک نتائج کا حامل ہے۔ حضرت ابوبکر الصدیق بیاہ کے مقام و مرتبے سے کون مسلمان واقف نہیں ہے، اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام میں سب سے افضل حضرت ابوبکر الصدیق یا اللہ ہیں، قرآن وحدیث میں اس کے دلائل موجود ہیں، اور یہ عقیدہ حتی کہ کبار صحابہ کرام کا بھی ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے طرز عمل سے بھی واضح ہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں کوفہ اور بصرہ سے ایک وفد ان کی ملاقات کے لیے آیا، جب وہ مدینہ منورہ پہنچے تو بیٹھے بیٹھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے یہ بحث چل نکلی کہ امت میں سب سے افضل کون ہے ابو بکر یا عمر رضی اللہ تعالی عنہما ؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر سب سے افضل اور کچھ نے کہا کہ حضرت عمر سب سے افضل ہیں۔
جب حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اپنا دُرَّہ، اپنا کوڑا لے کر اُن لوگوں کے پاس آئے اور جنھوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ پر فضیلت دی تھی انھیں ایک ایک کر کے مارنا شروع کر دیا۔ تو پھر ان میں سے ایک شخص ’’الجَارُودُ بْنُ الْمُعَلَّى‘‘ کہ جنھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو افضل سمجھا تھا کہا کہ اے امیر المؤمنین بس کیجئے! معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نہیں چاہتے کہ ہم کسی اور کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر فضیلت دیں، تو پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خوش ہو گئے۔
((فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَشِي، صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عليه))
’’پھر جب شام ہوئی، تو منبر پر چڑھے ، اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی ۔‘‘
ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّ أَفْضَلَ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيهَا أَبُو بَكْرٍ ، مَنْ قَالَ غير ذلِكَ ، بَعْدَ مَقَامِي هَذَا، فَهُوَ مُفْتَرِي وَعَلَيْهِ مَا عَلَى المفتري )) (مسند الفاروق ، ج:2 ، ص:396 ، أسد الغابة ، ج:3، ص:219)
’’پھر فرمایا: خبردار رہو! نبی سلام کے بعد اس اُمت کی سب سے افضل شخصیت ابو بکر (ن ) ہیں ، اور جس کسی نے میرے یہاں کھڑے ہو کر بتانے کے بعد بھی اس کے علاوہ کچھ اور کہا ، کسی اور کو فضیلت دی تو وہ مفتری اور کذاب ہے، اور اس کی وہی سزا ہو گی جو مفتری کی ہے۔‘‘
تو حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا اتنا بڑا مقام مگر انھیں کسی غریب اور کسی کمزور کی دل آزاری کی اجازت نہ تھی بلکہ آپﷺ نے فرمایا:
((لَئِنْ كُنتَ أَغْضَبْتَهُمْ لَقَدْ أَغْضَبْتَ رَبَّكَ))
’’اے ابو بکر! اگر تم نے ان لوگوں کو ناراض کر دیا تو تم نے اللہ تعالی کو ناراض کر دیا۔‘‘
آج ہمیں لوگوں کی تو ہین ان کی بے عزتی اور دل آزاری کرنے کا سرٹیفکیٹ کس نے دے دیا!
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ کسی کی دل آزاری بالخصوص کسی دین دار آدمی کی دل آزاری چاہے وہ غریب اور کمزور ہی کیوں نہ ہو، بہت بڑا جرم ہے۔
دین دار کا مفہوم یہ ہے کہ جو دین پر کار بند ہو اور اس کی بڑی اور ظاہری علامات میں سے سب سے بڑی علامت نماز پنجگانہ کا پابند ہونا ہے، نماز با جماعت کا اہتمام کرتا ہو، یہ نہیں کہ وقت ملا تو پڑھ لی، جب نیند پوری ہوگئی یا کام سے فارغ ہو گئے تو پڑھ لی، بلکہ اہتمام کر کے نماز باجماعت ادا کرتا ہو، اور ان میں سے بھی بالخصوص نماز فجر کا اہتمام کرتا ہو۔ نماز فجر باجماعت ادا کرنے کا دنیا میں کیا اجر و انعام ہے، اور ایسے شخص کا اللہ تعالی کے ہاں کیا مقام ہے، ملاحظہ کیجئے، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ حَتَّى يُمْسِي)) (معجم الأوسط:3464)
’’جس نے فجر کی نماز ادا کی وہ شام تک اللہ تعالی کی پناہ میں ہے۔‘‘
یعنی اللہ کی طرف سے اسے امان حاصل ہے، اللہ تعالی اس کی حفاظت کرتا ہے۔
فجر کی نماز ادا کرنے کی فضیلت اور برکت پر ایک عجیب و غریب اور حیران کن واقعہ ملاحظہ کیے:
((عَنِ الْأَعْمَشِ: ((كَانَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَاعِدًا عِنْدَ الحجاج))
’’اعمش بیان کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ بن عمر اللہ حجاج کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ الْحَجَّاجُ ، قُمْ فَاضْرِبْ عُنْقَ هَذَا))
’’تو حجاج نے انھیں کہا: اُٹھیں اور اس شخص کی گرن مار دیں ۔‘‘
((فَأَخَذَ سَالِمُ السَّيْفَ وَأَخَذَ الرَّجُلَ ، وَتَوَجَّهَ بَابَ الْقَصْرِ))
’’چنانچہ سالم نے تلوار پکڑی اور آدمی کو پکڑا اور باب القصر کی طرف رخ کیا۔‘‘
((فَنَظَرَ إِلَيْهِ أَبُوهُ، وَهُوَ يَتَوَجَّهُ بِالرَّجُلِ فَقَالَ: أَتْرَاهُ فَاعِلا،
فَرَدَّهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا))
’’حضرت سالم کے والد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی طرف دیکھا کہ وہ آدمی کو لے کر جا رہا ہے تو دل ہی دل میں کہا کیا خیال ہے وہ ایسا کرنے جا رہا ہے، یہ بات انھوں نے دو یا تین بار دہرائی ۔‘‘
((فَلَمَّا خَرَجَ بِهِ قَالَ لَهُ سَالِمٌ: صَلَّيْتَ الْغَدَاةَ؟))
’’جب حضرت سالم رضیاللہ تعالی عنہ اسے لے کر باہر گئے تو اس شخص سے پوچھا: کیا تم نے فجر کی نماز پڑھی ہے ؟‘‘
((قَالَ: نَعَمْ))
’’اس نے کہا: جی ہاں۔‘‘
قَالَ: ((فَخُذْ أَي الطَّرِيقِ شِئْتَ))
’’تو سالم نے کہا: جا کوئی بھی راستہ اختیار کرلے۔ یعنی جدھر کو چاہے نکل جا۔‘‘
((ثُمَّ جَاءَ فَطَرَحَ السَّيْفَ))
’’ پھر وہ آئے اور تلوار رکھ دی ۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ الْحَجَّاجُ أَضَرَبْتَ عُنُقَهُ ؟))
’’حجاج نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اس کی گردن مار دی ہے؟‘‘
((قال: لا))
’’کہا نہیں‘‘
قَالَ: ((وَلِمَ ذَاكَ ؟))
’’ کہا: اور وہ کیوں؟‘‘
((قَالَ: ((إِنِّي سَمِعْتُ أَبِي هٰذَا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ حَتَّى يُمْسِي)) (معجم الأوسط:3464)
’’سالم نے کہا: میں نے اپنے ان والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے فجر کی نماز پڑھی (ایک حدیث میں جماعت کے الفاظ ہیں کہ باجماعت فجر کی نما ز پڑھی) پس وہ شام ہونے تک اللہ تعالی کے حفظ وامان میں ہے ۔‘‘
اندازہ کریں! اللہ تعالی نے کس طرح اس کی حفاظت فرمائی ایک ایسی جگہ سے جہاں نرمی، درگزر اور معافی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
تو نماز فجر کے دنیوی فوائد و منافع میں سے یہ ایک ہے کہ وہ اللہ تعالی کی امان میں ہوتا ہے۔
تو مسلمان کی تکلیف ، اذیت اور دل آزاری کی بات ہو رہی تھی کہ بہت بڑا جرم ہے۔
کسی کو جسمانی اور ذہنی اذیت دینا تو بہت بڑی بات ہے، ان کے جذبات اور احساسات کا یہاں تک خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کی کسی بات سے غیر ارادی طور پر بھی دل آزاری نہ ہو جائے۔
جب آپ ﷺ اپنی امت کے لوگوں کی عزت کا اس حد تک لحاظ فرماتے کہ کہیں انھیں شرمندہ نہ ہونا پڑے، دل آزاری نہ ہو تو ہمیں کسی طرح اجازت مل سکتی ہے، ہمارے لیے کیسے جائز ہو سکتا ہے۔
حدیث میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
((كَانَ النَّبِيُّ إِذَا بَلَغَهُ عَنِ الرَّجُلِ شَيْءٍ لَمْ يَقُلْ: مَا بَالُ فَلَان يَقُولُ))
’’جب آپﷺ کو کسی شخص کے بارے میں کوئی بات پہنچتی تو آپﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ فلاں شخص کو کیا ہے کہ وہ یہ کہتا ہے ۔‘‘
((وَلَكِنْ يَقُولُ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا)) (ابو داود، كتاب الأدب:4788)
’’بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ یوں یوں کہتے ہیں؟‘‘
یہ تو آپ ﷺکے اخلاق کریمہ تھے اور آپ ﷺکے اخلاق عالیہ کی تو کیا ہی بات ہے ان کی گواہی تو خود اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾
’’ آپ (ﷺ) یقینًا اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں ۔‘‘
ہمارے اسلاف نے آپ ﷺکے نقش قدم پر چلنے اور آپ سے کام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی پوری پوری کوشش کی اور دنیا میں ایک مثال قائم کر دی۔ اس کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
مسلمان قائدین میں سے ایک شخصیت حضرت قتیبہ بن مسلم البابلی رحمہ اللہ کی گزری ہے۔ ایک شخص ان کے پاس اپنے کسی کام سے حاضر ہوا اور ان سے بات کرنے لگا، اور اپنی تلوار کی نوک کو زمین پر لگا کر کھڑا ہو گیا۔
مگر وہ تلوار کی نوک زمین پر نہیں بلکہ اتفاق سے حضرت قتیبہ رحمہ اللہ کے پاؤں پر جاپڑی، ان کے پاؤں سے خون بہنے لگا، درد بھی یقینًا ہوئی ہوگی، مگر برداشت کرتے رہے جب وہ شخص بات کر کے فارغ ہوا اور واپس لوٹا تو پھر اپنے پاؤں کو پٹی کروائی۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کو بتایا کیوں نہ کہ تمھاری تلوار زمین پر نہیں بلکہ میرے پاؤں پر ہے۔
فرمایا: میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس کو اپنی ضرورت بیان کرنے سے پہلے اس کی بات کاٹ دوں۔ اور وہ شرمندگی سے اپنی بات ہی پوری نہ کر پائے۔
(مختصر تاریخ دمشق ، ج:10 ،ص:100)
…………………..