کہیں دیر نہ ہو جائے

اہم عناصر :
❄ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننے میں کہیں دیر نہ ہو جائے۔
❄ والدین کی بات سننے میں کہیں دیر نہ ہو جائے
❄ بروقت نماز پڑھنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے
❄ بروقت جمعہ کی ادائیگی میں کہیں دیر نہ ہو جائے
❄ اللّٰہ کے راستے میں مال خرچ کرنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے
❄ قرض کی ادائیگی میں کہیں دیر نہ ہو جائے
❄ صلح کرنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے
❄ توبہ کرنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ [الانفال: 24] فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ [المائدہ: 48]
ذی وقار سامعین!
دنیا میں زندگی بسر کرنے والا ہر سمجھدار بندہ اپنا ہر کام وقت پر کرتا ہے تاکہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
ہر سمجھدار ماں صبح اٹھ کر وقت پر اپنے بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہے اور ان کو سکول جانے کے لیے تیار کرتی ہے اس لیے تاکہ میرے بچوں کو سکول سے کہیں دیر نہ ہو جائے۔
ہر سمجھدار بیوی وقت پر خاوند کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہے تاکہ میرے خاوند کو کام کاج یا آفس سے کہیں دیر نہ ہو جائے۔
ہم نے کہیں سفر پر جانا ہوتا ہے تو ہم وقت سے کچھ دیر پہلے ہی بس اسٹیشن پر یا ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں تاکہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
حج عمرہ کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے بیرون ملک سفر کرنا ہو تو ہم وقت سے پہلے ایئرپورٹ پر پہنچ جاتے ہیں تاکہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
سکول یا کالج کے امتحانات کے موقع پر طالب علموں کو وقت سے پہلے امتحان گاہ میں بلایا جاتا ہے تاکہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
یہ تو دنیا کے معاملات ہیں جن میں ہم میں سے ہر بندہ کوشش کرتا ہے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے
یاد رکھیے!
ان معاملات میں اگر کبھی دیر ہو بھی جائے تو کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن مسلمان اور مومن ہونے کے ناطے کچھ ایسے معاملات اور کچھ ایسی باتیں ہیں کہ جن میں اگر دیر ہو گئی تو ہمارا دنیاوی نقصان بھی ہوگا اور اخروی نقصان بھی ہوگا ، ان میں سے چند باتیں ہم آج کے خطبہ جمعہ میں سمجھیں گے اور سمجھنے کے بعد پوری کوشش کریں گے کہ ان معاملات میں کہیں دیر نہ ہو جائے۔
1۔ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننے میں کہیں دیر نہ ہو جائے:
اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حکم آجانے کے بعد اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اس کے تسلیم کرنے اور ماننے میں کہیں دیر نہ ہو جائے۔
عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُجِبْهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي فَقَالَ أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ
ترجمہ: سیدنا ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی حالت میں بلایا ، میں نے کوئی جواب نہیں دیا ( پھر بعدمیں ، میں نے حاضر ہوکر ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ اس پر حضور انے فرمایا ، کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے نہیں فرمایا ہے ۔ (( استجیبوا للہ وللرسول اذادعاکم )) ( اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو )
نبیﷺکا اشارہ اس آیت کی طرف تھا؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اور رسول کی دعوت قبول کرو، جب وہ تمھیں اس چیز کے لیے دعوت دے جو تمھیں زندگی بخشتی ہے اور جان لو کہ بے شک اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے اور یہ کہ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔” [الانفال: 24]
اسکی صرف دو مثالیں پیشِ خدمت ہیں: ❄کعب بن مالک نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، مسجد میں، ابن ابی حدرد سے قرض کا مطالبہ کیا جو ان کے ذمے تھا تو ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺوسلم نے گھر کے اندر ان کی آوازیں سنیں تو رسول اللہ ﷺ ان کی طرف گئے یہاں تک کہ آپ نے اپنے حجرے کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالک کو آواز دی:
«يَا كَعْبُ»، فَقَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، «فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ مِنْ دَيْنِكَ»، قَالَ كَعْبٌ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْ فَاقْضِهِ [مسلم: 3987]
"کعب!” انہوں نے عرض کی: حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنے ہاتھ سے انہیں اشارہ کیا کہ اپنے قرض کا آدھا حصہ معاف کر دو۔ کعب نے کہا: اللہ کے رسول! کر دیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے (دوسرے سے) فرمایا: "اٹھو اور اس کا قرض چکا دو
❄ عَنْ جَابِرٍ، قَال:َ لَمَّا اسْتَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَالَ: اجْلِسُوا، فَسَمِعَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَجَلَسَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَعَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ!.
ترجمہ: سیدنا جابر بیان کرتے ہیں کہ ( ایک بار ) جمعہ کے روز جب رسول اللہ ﷺ ( منبر پر ) تشریف فرما ہو گئے تو فرمایا ” بیٹھ جاؤ ! “ اسے سیدنا ابن مسعود ؓ نے سنا تو مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا تو فرمایا ” اے عبداللہ بن مسعود ! آگے آ جاؤ ۔ “ [ابوداؤد: 1091 صححہ الالبانی]
2. والدین کی بات سننے میں کہیں دیر نہ ہو جائے:
والدین جب آپ کو بلائیں تو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ان کی بات سننے میں کہیں دیر نہ ہو جائے۔
❄ سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور بد دعا کر گئیں، اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے ( جو جریج کے عبادت خانے کے پا س اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے پاس آئے اور ا ن کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔
فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلَامَ فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلَامُ قَالَ الرَّاعِي قَالُوا نَبْنِي صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ لَا إِلَّا مِنْ طِينٍ [مسلم: 6508]
لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا بچے! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ ( خدا کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا! (قوم خوش ہو گئی اور) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھرتو مٹی ہی سے بنے گا۔
3. بروقت نماز پڑھنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے :
نماز کا وقت ہو جانے کے بعد اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ نماز وقت پر پڑھنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے کیونکہ اللہ تعالی قران مجید میں فرماتے ہیں؛
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
ترجمہ:بے شک نماز ایمان والوں پر ہمیشہ سے ایسا فرض ہے جس کا وقت مقرر کیا ہوا ہے۔ [النساء: 103]
عصر اور فجرکی نماز کے بارے میں آتا ہے کہ ان نمازوں کے وقت فرشتے اکٹھے ہوتے ہیں۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛
” رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں ( ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا ) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ پوچھتے ہیں حالانکہ وہ ان سے زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انھیں چھوڑا تو وہ ( فجر کی ) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ ( عصر کی ) نماز پڑھ رہے تھے۔” [بخاری: 555]
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو فجر اور عصر کی نماز لیٹ پڑھتا ہے اس کے بارے میں فرشتے یہ نہیں کہتے کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ جو بندہ جان بوجھ کر نماز لیٹ پڑھتا ہے ، نبیﷺنے اس کی نماز کو منافق کی نماز کہا ہے؛
عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي دَارِهِ بِالْبَصْرَةِ، حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الظُّهْرِ، وَدَارُهُ بِجَنْبِ الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ، قَالَ: أَصَلَّيْتُمُ الْعَصْرَ؟ فَقُلْنَا لَهُ: إِنَّمَا انْصَرَفْنَا السَّاعَةَ مِنَ الظُّهْرِ، قَالَ: فَصَلُّوا الْعَصْرَ، فَقُمْنَا، فَصَلَّيْنَا، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا، لَا يَذْكُرُ اللهَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا»
ترجمہ: علاء بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ وہ نماز ظہر سے فارغ ہو کر حضرت انس کے ہاں بصرہ میں ان کے گھر حاضر ہوئے ، ان کا گھر مسجد کے پہلو میں تھا ، جب ہم ان کی خدمت میں پہنچے تو انھوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے ان سے عرض کی: ہم تو ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر لوٹے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: تو عصر پڑھ لو۔ ہم نے اٹھ کر (عصر کی )نماز پڑھ لی ، جب ہم فارغ ہوئے تو انھوں نےکہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ’’ یہ منافق کی نماز ہے ، وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ (جب وہ زرد پڑ کر) شیطان کے دو سنگوں کے درمیان چلا جاتا ہے تو کھڑا ہو کر اس (نماز)کی چار ٹھونگیں مار دیتا ہے اور اس میں اللہ کو بہت ہی کم یاد کرتا ہے۔‘‘ [مسلم: 1412]
4. بروقت جمعہ کی ادائیگی میں کہیں دیر نہ ہو جائے :
جمعہ کی ادائیگی میں یہ خیال رکھنا ہے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے کیونکہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔” [الجمعہ: 9]
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ کی اذان ہونے کے بعد تیاری شروع کرنی ہے بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ امام کے خطبہ دینے کے لیے منبر پر بیٹھنے سے پہلے پہلے مسجد میں پہنچنا ہے، کیونکہ اس کے بعد فرشتے اپنے دفاتر بند کردیتے ہیں اور بعد میں آنے والوں کا نام نوٹ نہیں ہوتا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ وَيَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام ( خطبہ دینے کے لیے ) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ [بخاری: 929]
جو بندہ جمعہ کی ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے ، وہ بہت بڑی خیر سے محروم ہوجاتا ہے ، وہ خیر کتنی بڑی ہے؟ اس کا اندازہ اس ایک روایت سے لگائیں۔
❄ عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:«مَنْ غَسَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ، ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ، وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا»
ترجمہ: سیدنا اوس بن اوس ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا فرماتے تھے ؛” جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور خوب اچھی طرح کیا اور جلدی آیا اور ( خطبہ میں ) اول وقت پہنچا ، پیدل چل کے آیا اور سوار نہ ہوا ، امام سے قریب ہو کر بیٹھا اور غور سے سنا اور لغو سے بچا ، تو اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کے عمل کا ثواب ہے ۔ “
[ابوداؤد345 صححہ الالبانی]
5۔ اللّٰہ کے راستے میں مال خرچ کرنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے:
اگر اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے اور اس کے خرچ کا صحیح مصرف موجود ہے تو اس کے خرچ کرنے میں خیال رکھنا ہے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ
:اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمھیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے، پھر وہ کہے اے میرے رب ! تو نے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا۔” [المنافقون: 10]
نبیﷺمال کو خرچ کرنے میں بڑی جلدی کرتے تھے؛
عَنْ عُقْبَةَ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْعَصْرَ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا فَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إِلَى بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِهِ فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَرَأَى أَنَّهُمْ عَجِبُوا مِنْ سُرْعَتِهِ فَقَالَ ذَكَرْتُ شَيْئًا مِنْ تِبْرٍ عِنْدَنَا فَكَرِهْتُ أَنْ يَحْبِسَنِي فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ
ترجمہ: سیدنا عقبہ بن حارث نے بیان کیا کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم ﷺ کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آپ اپنی کسی بیوی کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ ﷺ کی اس تیزی کی وجہ سے گھبراگئے۔ پھر جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو فرمایا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا ( تقسیم کرنے سے ) بچ گیاتھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔ [بخاری: 851]
6. قرض کی ادائیگی میں کہیں دیر نہ ہو جائے:
معاشرے میں رہتے ہوئے انسان کو کسی سے کبھی قرض لینا پڑتا ہے ، اگر کبھی قرض لینا پڑ جائے تو اس قرض کی ادائیگی جلدی کرنی ہے تاکہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
❄عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: تُوُفِّیَ رَجُلٌ فَغَسَّلْنَاہُ وَحَنَّطْنَاہُ ثُمَّ أَتَیْنَا بِہٖرَسُوْلَاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّیْ عَلَیْہِ، فَقُلْنَا: تُصَلِّیْ عَلَیْہِ، فَخَطَا خُطًی ثُمَّ قَالَ: ((أَعَلَیْہِ دَیْنٌ؟)) قُلْنَا: دِیْنَارَانِ، فَانْصَرَفَ فَتَحَمَّلَہَا اَبُوْ قَتَادَۃَ فَأَتَیْنَاہُ فَقَالَ اَبُوْ قَتَادَۃَ: الدِّیْنَارَانِ عَلَیَّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَحَقَّ الْغَرِیْمِ، وَبَرِیئَ مِنْھُمَا الْمَیِّتُ؟)) قَالَ: نَعَمْ، فَصَلّٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذٰلِکَبِیَوْمٍ: ((مَا فَعَلَ الدِّیْنَارَانِ؟)) فَقَالَ: إِنَّمَا مَاتَ أَمْسِ، قَالَ: فَعَادَ إِلَیْہِ مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: قَدْ قَضَیْتُہُمَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الْآنَ بَرَدَتْ عَلَیْہِ جِلْدُہُ۔)
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا، پس ہم نے اسے غسل دیا اور خوشبو لگائی، پھر ہم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، تاکہ آپ ﷺ اس کی نمازجنازہ ادا فرمائیں۔ ہم نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں، آپ چند قدم چل کررک گئے اور فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں، دودینار ہیں،یہ سن کر آپ ﷺ تو واپس چل پڑے،پھر سیدنا ابوقتادہ نے ان کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائی اور ہم دوبارہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ سیدنا ابوقتادہ نے دودیناروں کی ذمہ داری لے لی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اب قر ض خواہ تجھ سے یہ حق طلب کرے گا اور میت اس سے بری ہو گئی ہے؟ سیدنا ابوقتادہ نے کہا: جی ہاں، تب آپ ﷺ نے اس کی نمازجنازہ ادا کی۔ ایک دن کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا: وہ دیناروں کا کیا بنا؟ سیدناابوقتادہ نے کہا: ابھی کل تو وہ فوت ہوا ہے، پھر وہ لوٹے اور اگلے دن ان کی ادائیگی کر کے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ان کو ادا کر دیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب اس کی جلد ٹھنڈی ہوئی ہے۔ [مسند احمد: 6069 حسن]
❄عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ «يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ»
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "شہید کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے، سوائے قرض کے۔” [مسلم: 4883]
7. صلح کرنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے:
اگر کسی سے کبھی کوئی جھگڑا یا ناراضگی ہو جائے تو صلح کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے ، کیونکہ اگر صلح نہ ہوئی تو اعمال اور عبادتیں اللہ کے دربار میں قبول نہیں ہوتیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا، اس بندے کےسوا جس کی اپنے بھائی کے ساتھ عداوت ہو، چنانچہ کہا جاتا ہے:ان دونون کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں۔” [مسلم: 6544]
اور جو بندہ صلح کرلیتا ہے، اس کی بہت زیادہ فضیلت ہے؛
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ
ترجمہ: سیدنا ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میں ذمہ دار ہوں ایک محل کا ‘ جنت کی ایک جانب میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے ‘ اگرچہ حق پر ہو۔ اور ایک محل کا ‘ جنت کے درمیان میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے ‘ اگرچہ مزاح ہی میں ہو ‘ اور جنت کی اعلی منازل میں ایک محل کا ‘ اس شخص کے لیے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے۔“ [ابوداؤد: 4800 حسنہ الالبانی]
8. توبہ کرنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے :
انسان ہونے کے ناطے ہر بندے سے گناہ ہو جاتا ہے اگر کبھی گناہ ہو جائے تو یہ خیال رکھنا ہے کہ توبہ کرنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں؛
إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
ترجمہ: توبہ (جس کا قبول کرنا) اللہ کے ذمے (ہے) صرف ان لوگوں کی ہے جو جہالت سے برائی کرتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ پھر مہربان ہوجاتا ہے اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [النساء: 17]
یعنی توبہ ان کی قبول ہوتی ہے جو قریب یعنی جلدی توبہ کر لیتے ہیں اور جو گناہ پہ گناہ کئے جاتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے یہاں تک کہ موت کا وقت آجاتا ہے ، پھر ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی؛
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
ترجمہ: اور توبہ ان لوگوں کی نہیں جو برے کام کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجاتی ہے تو وہ کہتا ہے بے شک میں نے اب توبہ کرلی اور نہ ان کی ہے جو اس حال میں مرتے ہیں کہ وہ کافر ہوتے ہیں، یہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔ [النساء: 18]
جیسے فرعون نے ساری زندگی توبہ نہیں کی تو آخری وقت بھی توبہ قبول نہیں ہوئی نہیں۔جب فرعون ڈبکیاں لینے لگا تو اس نے موت و حیات کی کشمکش کے دوران دہائی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لاتے ہوئے مسلمان ہوتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں یہاں تک کہ اس نے اس کا بھی اقرار کیا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ کیا اب ایمان لاتا ہے؟ اس سے پہلے تو بار بار انکار کرچکا اور انتہا درجے کا فسادی تھا۔
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
ترجمہ:اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے پا لیا تو اس نے کہا میں ایمان لے آیا کہ بے شک حق یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرماں برداروں سے ہوں۔ کیا اب؟ حالانکہ بے شک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔ [یونس: 91-90] اور جس بندے سے گناہ ہو جاتا ہے تو اس کو فکر ہوتی ہے کہ مجھ سے گناہ ہو گیا ہے اور وہ جلدی توبہ کرتا ہے تو چاہے 100 بندوں کا قاتل ہو تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔
سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے پھر و ہ( نادم ہوا) مسئلہ پوچھنے نکلا۔
فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَهُ هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لَا فَقَتَلَهُ
وہ ایک درویش کےپاس آیا اوراس سے پوچھا ،کیا اس گناہ سےتوبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں ۔یہ سن کر اس نےاس درویش کوبھی قتل کردیا۔
پھر وہ ( دوسروں سے) پوچھنے لگا۔ آخر اس کوایک درویش نےبتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا( وہ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھاکہ) اس کوموت واقع ہوگئی ۔مرتےمرتے اس نے اپناسینہ اس بستی کی طرف جھکادیا۔ آخر رحمت کےفرشتوں اورعذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا۔ (کہ کون اسے لے جائے) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو(جہاں وہ توبہ کےلیے جارہاتھا) حکم دیا کہ وہ اس کی نعش سےقریب ہو جائے اوردوسری بستی کو(جہاں سے وہ نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سےدور ہوجا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سےفرمایا کہ
قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَهُ
اب دونوں کافاصلہ دیکھوں اور(جب ناپا تو) اس بستی کو(جہاں سے وہ توبہ کےلیے جارہا تھا) ایک بالشت نعش سےنزدیک پایا اس لیے وہ بخش دیاگیا۔ [بخاری:3407 ]
❄❄❄❄❄