کلمہ توحید کے اقرار تک لوگوں سے جہاد کرنے کا حکم

179۔سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ((أُمِرْتُ أَنْ أَقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰى يَشْهَدُوا أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوهُ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى الله)) (أَخْرَجَهُ البخاري: 25، ومُسْلِمٌ:  22)

’’مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ معبود حقیقی نہیں اور محمد (ﷺ)  اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔ جب وہ کے سوا کوئی معبود حق یہ سب کچھ کرنے لگیں تو انھوں نے اپنے مال و جان کو مجھ سے بچا لیا، سوائے حق اسلام کے۔ اور ان کاحساب اللہ کے سپرد ہے۔‘‘

180۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہتعالی عنہ سے مروی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:  ((لَا إِلٰهَ إِلَّا الله فَإِذَا قَالُوهَا، وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَذَبَحُوا ذَبِيحَتَنَا فقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا)) (أخرجه البخاري: 192)

’’مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ وہ کلمہ طیبہ کے قائل ہو جائیں، ہماری طرح نماز ادا کرنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف منہ کریں اور ہمارے ذبیحے کو کھائیں تو اس وقت ہم پر ان کے خون اور مال حرام ہو جائیں گے مگر حق (اسلام) کی صورت میں ان کی جان و مال سے تعرض درست ہو گا، باقی ان کا حساب اللہ کے حوالے ہے۔‘‘

181۔سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ مروان بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دنوں میں جب قریش نے رسول اللہ ﷺکو بیت اللہ میں داخلے سے روکا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأُقَاتِلَنَّهُمْ عَلٰى أَمْرِي هٰذَا حَتّٰى تَنْفَرِدَ سَالِفَتِي وَلَيُنْفِذَنَّ اللُه أَمْرَهُ)) (أخرجه البخاري: 2731، 2732)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تو اس دین پر ان سے لڑتا رہوں گا یہاں تک کہ میری گردن کٹ جائے اور یقینًا اللہ تعالی ضرور اپنے دین کو جاری کرے گا۔‘‘

 توضیح و فوائد:  اسلام کا مقصد قتل و غارت گری نہیں بلکہ یہ لوگوں کی جان و مال کا محافظ ہے۔ اسلام لڑائی کے آغاز یا قتل و غارت گری کی قطعا اجازت نہیں دیتا۔ تمام مسلمانوں کو دنیا کے کونے کونے میں اللہ کی توحید کا پیغام پہنچانے کا درس دیتا ہے، تاہم اس راہ میں حائل رکاوٹیں اگر جنگ و جدال کے بغیر دور نہ ہو سکیں تو پھر جہاد و قتال کی اجازت ہے اور اس کی حدود و قیود بھی مقرر ہیں۔ کسی پر زبردستی اپنے عقائد و نظریات ٹھونسنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام دلائل کے ذریعے سے قبول حق کی ترغیب دیتا ہے، پھر اگر کوئی شخص اسلام کا اقرار کر لیتا ہے، خواہ وہ مجبوری کی حالت میں کرے یا دکھلاوے کے لیے، اسلام اس کے ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے اسے مسلمانوں والے تمام حقوق دیتا ہے۔ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے بعد کسی شخص کو عملی کو تاہی کی بنیاد پر اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں جو راستہ اسلام میں داخل ہونے کا ہے وہی اس سے نکلنے کا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی کفار سے لڑنے کا حکم ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو کافر ملے اسے ایک دم قتل کر دو۔ یہ تشریح اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کا پیغام پہنچانے میں اگر کوئی رکاوٹ بنتا ہے تو اس سے لڑائی کرو۔

182۔ جبیر بن حیہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجاہدین کو بڑے بڑے شہروں میں مشرکین سے جنگ کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد سیدنا  عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جمع کیا اور سیدنا نعمان بن مقرن رضی اللہ تعالی عنہ  کو اس کا امیر مقرر کیا۔ جب یہ مجاہدین دشمن کی سرزمین میں پہنچے تو کسری کا ایک عامل چالیس ہزار فوج لے کر ان کے مقابلے میں آیا اور اس کی طرف سے ایک ترجمان کھڑا ہو کر کہنے لگا:  تم میں سے کوئی ایک شخص مجھ سے بات کرے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو!  اس نے کہا: تم کون ہو؟ سیدنا مغیرہ اللہ نے جواب دیا:

((نحْنُ أُنَاسٌ مِنَ العَرَبِ، كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وَبَلاَءٍ شَدِيدٍ، نَمَصُّ الجِلْدَ وَالنَّوَى مِنَ الجُوعِ، وَنَلْبَسُ الوَبَرَ وَالشَّعَرَ، وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالحَجَرَ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الأَرَضِينَ – تَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ – إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنْ نُقَاتِلَكُمْ حَتَّى تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ، أَوْ تُؤَدُّوا الجِزْيَةَ، وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا، أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ، وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَكَ رِقَابَكُمْ)) (أَخْرَجَهُ البخاري: 3159)

’’ہم عرب لوگ ہیں۔ ہم سخت بدبختی کا شکار اور انتہائی مصیبت میں مبتلا تھے، بھوک کے بارے چمڑا اور کھجور کی گٹھلیاں چوستے تھے۔ اونٹوں کی اون اور بکریوں کے بالوں سے بنے کپڑے پہنا کرتے تھے۔ درختوں اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے، ہم لوگ اس حالت میں مبتلا تھے کہ آسمانوں اور زمینوں کے رب نے جس کا ذکر اپنی تمام تر عظمت و جلال کے ساتھ بلند و برتر ہے۔ ہماری قوم کا ایک رسول ہمارے پاس بھیجا، جس کے والدین کو ہم جانتے تھے، پھر ہمارے پروردگار کے رسول اور ہمارے نبیﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس وقت تک تم سے جنگ کریں جب تک تم اکیلے اللہ کی عبادت نہ کرو یا جزیہ نہ دوں اور ہمارے نبی ﷺنے ہمارے پروردگار کا یہ پیغام ہمیں پہنچایا ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص مارا جائے گا تو وہ جنت کی ایسی نعمتوں میں پہنچ جائے گا جو اس نے کبھی نہ دیکھی ہوں گی اور جو شخص ہم میں سے زندہ رہے گا وہ تمھاری گردنوں کا مالک بنے گا۔‘‘

 توضیح و فوائد:  اللہ کی راہ میں جہاد و قتال کا مقصد اللہ کی توحید کا بول بالا کرنا اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتا ہے کسی دوسرے مقصد کے لیے قتال جائز نہیں، نیز دشمن سے جنگ کرنے سے پہلے اسے اسلام کی دعوت دینا اور دلائل سے اسلام کی سچائی واضح کرنا ضروری ہے۔

183۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ حرقہ کی طرف روانہ کیا۔ ہم نے ان لوگوں کو صبح صبح ہی جھا لیا اور انھیں شکست سے دوچار کر دیا، چنانچہ جنگ کے دوران میں ایک انصاری شخص اور میں دشمن کے ایک شخص تک پہنچے۔ جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے لا إِلهَ إِلَّا الله کہ دیا۔ اسامہ کہتے ہیں کہ انصاری نے تو (یہ سن کر) اپنا ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنے نیزے سے اس کا کام تمام کر دیا۔ اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ جب ہم واپس آئے تو نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا:

((يَا أُسَامَةَ أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا الله.)) ’’اسامہ! کیا تو نے اس کے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے بعد بھی قتل کر ڈالا؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اقرار کیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:  ((أَقَتَلْتَهُ بَعْدَمَا قَالَ:  لَا إِلٰهَ إِلَّا الله))

’’کیا تو نے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کر دیا؟‘‘

اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:  آپﷺ اس جملے کو بار بار دہراتے رہے حتی کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں آج کے دن سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔

 ایک دوسری روایت میں ہے: رسول اللہ ﷺ اللہ اسامہ بن زید سے مزید کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔ یہی کہہ رہے تھے:

((فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا الله إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))

’’جب قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا کلمہ (تمھارے سامنے) آئے گا تو تم اس کا کیا کرو گے؟‘‘

184۔  سیدنا  اوس بن ابی اوس ثفقی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں ثقیف کے وفد کے ہمراہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، ہم ایک خیمے میں بیٹھے ہوئے تھے تو (تھوڑی دیر کے بعد) میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا باقی تمام لوگ چلے گئے، اسی دوران میں آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور آپ سے آہستگی سے کوئی بات کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((اذْهَبْ فَاقْتُله)) ’’جاؤ اسے قتل کر دو۔‘‘

پھر آپ نے پوچھا: (أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا الله))

’’کیا وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ ‘‘

اس شخص نے کہا: جی ہاں! لیکن وہ صرف اپنے آپ کو بچانے کی خاطر یہ کلمہ کہتا ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ((رُدُّوْہُ)) ’’اسے واپس بلاؤ‘‘ اور پھر فرمایا: ((أُمِرْتُ أَنْ أَقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰى يَقُولُوا: لَا إِلٰهَ إِلَّا الله فَإِذَا قَالُوهَا حُرِّمَتْ عَلٰى دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا)) ( أخرجه أحمد:16160، والطيالسي:1110، وأبو يعلى: 6862)

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیں۔  تو جب وہ اس کلمے کا اقرار کر لیں تو ان کے خون اور مال حرام ہیں سوائے حق اسلام کے‘‘

185۔سیدنا مقداد بن عمرو کندی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ لڑائی میں میرا ایک ہاتھ اڑا دے، پھر وہ مجھ سے خوفزدہ ہو کر کسی درخت کی پناہ لے لے اور مجھے کہے: میں تو اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا ہوں تو کیا اللہ کے رسول! میں اسے قتل کروں جبکہ وہ ایسے کہتا ہے؟

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:  ((لَا تَقْتُلْهُ)) ’’اسے قتل نہ کرو۔‘‘

انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (پہلے) وہ میرا ایک ہاتھ کاٹ چکا ہے اور میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس نے یہ اقرار کیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((لَا تَقْتُلْهُ فَإِن قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَن تَقْتُلَهُ، وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَّقُولَ كَلِمَتُهُ الَّتِي قَالَ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:4019، وَمُسْلِمٌ95)

’’اسے ہر گز قتل نہ کرو ورنہ اسے وہ درجہ حاصل ہو گا جو تجھے اس کے قتل سے پہلے حاصل تھا اور تیرا حال وہ ہو جائے گا جو کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے اس کا تھا۔‘‘

186۔سیدنا  ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنوسلیم کا ایک آدمی اپنی بکریوں کو چراتے ہوئے نبی اکرم نام کے چند ساتھیوں کے پاس سے گزرا اور انھیں سلام کہا۔ صحابہ نے کہا: اس نے سلام صرف ہم  سے بچنے کی خاطر کیا ہے۔ انھوں نے حملہ کر کے اسے قتل کر دیا اور اس کی بکریوں پر قبضہ کر لیا اور بکریوں کو لے کر نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤی اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا﴾ (أخرجه أحمد:  2023 و 2462، والبخاري:4591 ومُسْلِمٌ:3025)

’’اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہوتو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام کہے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں۔ “

توضیح و فوائد:  مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ کلمہ گو مسلمان کتنا بھی برا ہو اور اس نے جس مقصد کے لیے بھی کلمہ پڑھا ہو۔ اسے قتل کرنا جائز نہیں۔ ہم ظاہر کے مکلف ہیں۔ دل کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے۔ کوئی شخص اگر زبان سے کلمے کا اقرار کرتا ہے تو اس کا حکم مسلمانوں والا ہے۔ عصر حاضر میں فتنہ تکفیر میں مبتلا افراد اگر غور کریں تو ان کے لیے یہ احادیث مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

187۔سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب کسی بڑے لشکر یا چھوٹے دستے پر کسی کو امیر مقرر کرتے تو خاص طور پر اسے اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی اور ان تمام مسلمانوں کے بارے میں، جو اس کے ساتھ ہیں، بھلائی کی تلقین کرتے، پھر فرماتے:

((اغْزُوا بِاسْمِ اللهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ، اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَمْثُلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ – أَوْ خِلَالٍ – فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْهَا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ، يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَسَلْهُمُ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللهِ، وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ، فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللهِ، وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّهِ، وَلَكِنِ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَّةَ أَصْحَابِكَ، فَإِنَّكُمْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَكُمْ وَذِمَمَ أَصْحَابِكُمْ أَهْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللهِ، فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللهِ، وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللهِ فِيهِمْ أَمْ لَا))(أخرجه مسلم:1731)

’’اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جو اللہ تعالی سے کفر کرتے ہیں ان سے لڑو، نہ مخیانت کرو، نہ بد عهدی کرو، نہ مثلہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو۔ اور جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ٹکراؤ تو انھیں تین باتوں کی دعوت دو، ان میں سے جسے وہ تسلیم کر لیں، (اس کو) ان کی طرف سے قبول کر لو اور ان (پر حملے) سے رک جاؤ، انھیں اسلام کی دعوت دو، اگر وہ مان لیں تو اسے ان (کی طرف) سے قبول کر لو اور (جنگ سے) رک جاؤ، پھر انھیں اپنے علاقے سے مہاجرین کے علاقے میں آنے کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں۔ اگر وہ وہاں سے نقل مکانی کرنے سے انکار کریں تو انھیں بتاؤ کہ پھر وہ بادیہ نشیں مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم نافذ ہوگا جو مومنوں پر نافذ ہوتا ہے اور غقیمت اور فے میں سے ان کے لیے کچھ نہ ہو گا مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔ اگر وہ ان باتوں کا انکار کریں تو ان سے جزیے کا مطالبہ کرو، اگر وہ تسلیم کر لیں تو ان کی طرف سے قبول کر لو اور (لڑائی سے) رک جاؤ اور اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑو اور جب تم کسی قلعے (میں رہنے) والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے چاہیں کہ تم انھیں اللہ اور اس کے نبی کا عہد و پیمان عطا کرو تو انھیں اللہ اور اس کے نبی کا عہدو پیمان نہ دو بلکہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے عہد و امان دو کیونکہ یہ بات کہ تم لوگ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کر بیٹھو، اس کی نسبت ہلکی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا عہد و پیمان توڑ دو۔ اور جب تم قلعہ بند لوگوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے چائیں کہ تم انھیں اللہ کے حکم پر (قلعے سے) نیچے اترنے دو تو انھیں اللہ کے حکم پر نیچے نہ اترنے دو بلکہ اپنے حکم پر انھیں نیچے اتارو کیونکہ تمھیں معلوم نہیں کہ تم ان کے بارے میں اللہ کے صحیح حکم پر پہنچ پاتے ہو یا نہیں۔‘‘

توضیح و فوائد:  اس حدیث میں اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے قواعد وضوابط بیان فرمائے گئے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام پر شدت پسندی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ آپ مل کر نے جو جنگی ضابطے مقرر کیے ان میں آج کے نام نہاد روشن خیال اور انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کے لیے، جو دن رات اسلام کو بدنام کرتے ہیں، سبق ہے۔ ذمے سے مراد عہد و پیمان ہے، مطلب یہ ہے کہ جب کوئی عہد و پیمان کرو تو یوں کہو کہ یہ ہماری صوابدید پر ہے اللہ کی ذات یا قسم کو درمیان میں نہ لاؤ کیونکہ اس طرح اگر تم نے دو عہد توڑا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ ان کے دلوں میں اللہ کی عظمت و کبریائی نہیں ہے، یوں ان دشمنوں کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شان کم ہوگی۔

188۔سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، جب ابن نواحہ قتل کیا گیا تو انھوں نے کہا: یہ (ابن

نواحہ)  اور ابن اُثال نبی ﷺکے پاس مسیلمہ کذاب کے قاصد بن کر آئے تھے۔ رسول ﷺنے ان سے کہا: ((أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللهِ)) ’’کیا تم دونوں گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟‘‘

ان دونوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((لَو كُنتُ قَاتِلًا رَسُولًا لَضَرَبَتْ أَعْنَاقَكُمَا))(أخرجه أحمد: 3708، 3761، و أبو يعلي: 5097، و الطيالسي: و البيهي: 212/9)

’’اگر میں کسی قاصد اور سفیر کا قتل جائز سمجھتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔‘‘

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد یہ طریقہ رائج ہو گیا کہ کسی سفیر کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ابن اثال کے لیے تو اللہ عزوجل ہم سے کافی ہو گیا۔ اور یہ (ابن نواحہ)  مسلسل اسی حالت میں رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اب ہمارے قابو میں دے دیا ہے۔

………………..