کامیابی کا معیار کیا ہے؟

﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ۝۸۸
اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ﴾(والشعراء:88-89)
’’جس دن کوئی مال اور نہ بیٹے نفع دیں گے مگر جو اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آیا۔‘‘
کامیابی و کامرانی اور فوز وفلاح اس دنیا میں ہر شخص کی ہمیشہ سے سب سے بڑی خواہش رہی ہے اور رہے گی،یقینًا کوئی شخص ناکام و نامراد ہونا پسند نہیں کرتا، تو گویا کہ تمام بنی آدم اس خواہش پر متفق و ہم خیال پائے جاتے ہیں۔
انسان زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کا خواہشمند ہوتا ہے، تجارت کا شعبہ ہو، تعلیم کا میدان ہو، معاشرتی زندگی کا معاملہ ہو، گھریلو اور ازدواجی زندگی کا مسئلہ ہو، ہر معاملے میں دو اپنے آپ کو کامیاب و کامران دیکھنا چاہتا ہے، اور یہ انسان کی فطری خواہش ہے، اس پر ہرگز کوئی قدغن نہیں ہے۔
اسلام کسی بھی جائز اور حلال، خیر اور بھلائی کی خواہش اور اس کی تکمیل اور اتمام پر نہ صرف یہ کہ کوئی قدغن نہیں لگاتا، بلکہ اسے کامیابی، کمال اور عمدگی کے ساتھ حاصل کرنے اور ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ یہ دعا فرمایا کرتے۔
((اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ المِسْأَلَةِ، وَخَيْرَ الدُّعَاء، وَخَيْرَ النَّجَاحِ، وَخَيْرَ العَمَلِ، وَخَيْرَ الثَّوَابِ، وَخَيْرَ الْحَيَاةِ، وَخَيْرَ الْمَمَاتِ)) (المعجم الأوسط للطبراني ، ج:1، ص:214 ، رقم:6218)
’’اے اللہ ! میں تجھ سے بہترین سوال کا اور بہترین دعا کا سوال کرتا ہوں جس میں دنیا و آخرت کی بھلائی مطلوب ہو ۔‘‘
یعنی ایسا سوال اور دعا جو جائز ہو، جامع ہو، ادب کے تقاضوں کے مطابق ہو جو قبولیت (وخیر النجاح) اور بہترین کامیابی کا سوال کرتا ہوں، یعنی ہر مطلوب تمام و کمال حاصل ہو، یعنی کامیابی ادھوری اور ناقص نہ ہو، اس میں کوئی تنگی نہ ہو۔( وخير العمل) اور تجھ سے بہترین عمل کی توفیق کا سوال کرتا ہوں، یعنی ایسا عمل جو افضل واحسن ہو، جو زیادہ اچھا ہو، جو اللہ تعالی کو محبوب ہو، جس کا ثواب زیادہ ہو۔ بہترین عمل کی خواہش اور بہترین عمل جاننے کی خواہش کتنی اہم ہے، اور کسی طرح آدمی کے عقیدہ و ایمان اور اس کے ذوق و شوق پر دلالت کرتی ہے یہ ایک الگ موضوع ہے۔
تا ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺسے بہترین عمل جاننے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((سَأَلْتُ النَّبِي أَيُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى الله))
’’میں نے آپ ﷺسے دریافت کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟‘‘
قَالَ: ((اَلصَّلَاُة عَلٰى وَقْتِهَا))
’’ تو فرمایا: نماز اپنے وقت پر پڑھنا ۔‘‘
((قال: ثم أي))
’’پھر پوچھا کہ پھر کون ساعمل ؟‘‘
((ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ))(بخاری:527)
’’پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک‘‘
اسی طرح مختلف مواقع پر اس طرح کے کیے گئے سوالات کے جواب میں آپ ﷺ نے کچھ دیگر اعمال کا ذکر بھی فرمایا۔ تو بات ہو رہی تھی کہ اسلام ہر کام میں کامیابی اور عمدگی حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، وہ کام دنیا سے متعلق ہو یا آخرت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ((إِنَّ اللهَ يُحِبُّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُكُمْ عَمَلًا أَنْ يُتْقِنَهُ)) (مسند ابو یعلی ، ج:7 ص:349، رقم:4386)

’’اللہ تعالی پسند کرتے ہیں کہ جب کوئی تم میں سے کوئی عمل کرے تو عمدگی، مضبوطی اور پختگی سے کرے، اتقان اور مہارت سے کرے۔‘‘
تو کامیابی کی خواہش انسان کی فطری اور جبلی خواہش ہے، البتہ کسی اچھی چیز میں کامیابی کی خواہش اچھی کہلائے گی اور بری چیز میں کامیابی کی خواہش بری کہلائے گی۔
اب اصل بات جاننے کی یہ ہے کہ کامیابی کا معیار کیا ہے؟
تو کامیابی کا معیار لوگوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہے، لوگ کامیابی کی خواہش میں اگر چہ متفق نظر آتے ہیں مگر اس کے معیار میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
کسی کے نزدیک کامیاب زندگی کا مطلب مال و دولت کی فراوانی ہے، کسی کے نزدیک شہرت و ناموری ہے، کسی کے نزدیک بچوں کے محفوظ مستقبل کا نام کامیابی ہے، کسی کے نزد یک خواہشات کی تسکین کا نام کا میابی ہے۔
تو اس طرح مختلف لوگ مختلف چیزوں کے حصول کو کامیابی سمجھتے ہیں۔
جہاں تک متاع دنیوی میں سے جائز چیزوں کے حصول کا تعلق ہے، تو وہ ایک جزوی کامیابی ضرور ہے، کہ اسلام دنیا کے حصول سے منع نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالی اسے دنیا مانگنے کا سلیقہ سکھاتا ہے کہ:
﴿فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ۝﴾(البقرة:200)
’’فرمایا: جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں ہی سب کچھ دے دے،ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘
﴿وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۝﴾(البقرة:201)
’’اور جو یہ کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘
﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۝﴾(البقرة:202)
’’ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق دونوں جگہ حصہ پائیں گے، اور اللہ تعالی بہت جلد حساب نمٹاتے ہیں۔‘‘
تو اللہ تعالی نہ صرف یہ کہ دنیا کے حصول سے منع نہیں فرماتے بلکہ دنیا سے یکسر اعراض اور کنارہ کشی سے منع فرماتے ہیں، فرمایا:
﴿وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا ﴾(القصص:77)
’’اور اللہ تعالی نے دنیا میں جو تمہارا حصہ رکھ رکھا ہے، اسے مت فراموش کرو۔‘‘
یعنی اسے حاصل کرنے کی سعی و جہد کرتے رہو۔
تو کامیابی کے معیار کی بات ہو رہی تھی کہ کامیابی کا معیار لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے سے مختلف اور اتنا مختلف ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایک بات جو کسی ایک فریق کے ہاں ناکامی کہلاتی ہے وہ دوسرے کے ہاں کامیابی ہوتی ہے۔ جیسا کہ حرام بن ملحان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص ابو البراء عامر بن مالک قبیلہ بنی عامر کا سردار، آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺنے اسے دعوت اسلام پیش کی، اس نے اسلام تو قبول نہ کیا، مگر اس سے بے رغبتی بھی ظاہر نہ کی اور کہا: اے محمدﷺ آپ کی دعوت تو اچھی ہے، اگر آپ چاہیں تو اپنے کچھ لوگ اہل نجد کے پاس بھیجیں، وہ ان کو دعوت دین پیش کریں، مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کر لیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اپنے صحابہ کے متعلق اہل نجد سے خطرہ ہے۔‘‘
ابوالبراء نے کہا: وہ میری پناہ میں ہوں گے، تو آپ ﷺ نے ستر فضلاء وقراء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھیج دیے۔
چلتے چلاتے جب وہ معونہ کے کنویں کے پاس پہنچے ، وہاں پڑاؤ ڈالا، اور وہاں سے انہوں نے اپنے ایک ساتھی حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ تعالی عنہ کو عامر بن طفیل کے پاس آپﷺ کا خط دے کر بھیجا۔ تعصب اور دشمنی میں اندھے اللہ کے اس دشمن نے آپﷺ کا خط دیکھا تک نہیں، اور اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا، اس نے پیچھے سے حضرت حرام بن ملحان بھی رضی اللہ تعالی عنہ کو اس زور سے نیز ہ مارا کہ آر پار ہوگیا، تو وہ نیزہ کھا کر حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان سے جو الفاظ جاری ہوئے وہ یہ تھے کہ:
((الله أكبر ، قُرْتُ وَ رَبِّ الكَعْبَةِ )) (بخاري:2801)
’’اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
اندازہ کریں ان الفاظ کی تہہ میں کتنا مضبوط ایمان، پختہ عقیدہ اور منفرد سوچ کارفرما ہے کہ دنیا جسے نا کامی سمجھتی ہے وہ اسے کامیابی قرار دے رہے ہیں اور وہ بھی رب کعبہ کی قسم کھا کر۔
وہ لوگوں سے کتنا مختلف معیار ہے کہ لوگ زندگی کو اور خوشحال زندگی کو کامیابی سمجھتے ہیں اور وہ اللہ کی راہ میں جان دے دینے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ اور تاریخ میں یہ کوئی تنہا واقعہ نہیں، بلکہ اس جیسے اور بھی بہت سے واقعات ہیں اور تھوڑے فرق کے ساتھ تو دنیا میں ایسے بے شمار واقعات ہیں۔
ہم اپنے گرد و پیش میں ہر روز ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف جہاں کچھ لوگ دنیا میں مگن جانوروں کی سی زندگی گزارنے کو کامیابی سمجھتے ہیں تو دوسری طرف کامیابی کا مختلف معیار رکھنے والے لوگ قدم قدم پر مشکلات سے دو چار ہوتے ہوئے ہوئے منزل رواں دواں ہیں۔ دین کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے انہیں بہت سی مشکلات، پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر وہ اپنے اس طرز زندگی پر قائم رہتے ہیں، کیونکہ ان کے ہاں کامیابی کا معیار مختلف ہے۔
تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، ہر آدمی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جو لوگ دنیا کے حصول کو کامیابی سمجھتے ہیں، وہ کس طرح بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں، انہیں نہ نماز کی گھر ہے، نہ دین کے دیگر احکامات پر عمل پیرا ہونے کا کوئی خیال، انہیں معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے، کاروبار کرنے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں، کوئی پابندی نہیں، وہ تو سوتے بھی ہیں تو خوب جی بھر کر سوتے ہیں کیونکہ نماز کی کوئی فکر نہیں ہوتی ۔
مگر دوسری طرف کامیابی کا ان سے مختلف معیار رکھنے والے، پہلے تو اپنے حلیے سے ہی نا پسندیدہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے تو ایسے جیسے کوئی گنوار اور اجڈ قسم کے لوگ ہوں، جنہیں دنیا کی کوئی خبر نہیں، جبکہ وہ لوگ زندگی کا ہر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں، ایک ایک چیز میں حلال اور حرام کی تمیز رکھتے ہیں، کھانے پینے اور سونے جاگنے میں وہ ایک نظام کے تابع ہوتے ہیں، اور انہیں فجر کی نماز کی ایسی فکر لاحق ہوتی ہے کہ جی بھر کر سو نہیں سکتے ، کیونکہ ان کے ہاں کامیابی کا معیار دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔
طرز زندگی میں اتنا بڑا فرق ، کامیابی کے معیار کے فرق کے بغیر ممکن نہیں۔ اور کامیابی کا معیار جب بدلتا ہے، تو آدمی کی زندگی بدل جاتی ہے، اس کے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور سونے جاگنے سے لے کر زندگی کے ہر ہر شعبے میں اس کا طرز عمل بدل جاتا ہے ہے۔ واقعہ اصحاب الاخدود تو آپ نے سنا اور پڑھا ہی ہوگا جو کہ سورہ بروج میں مذکور ہے، اور اس کی تفصیل مسلم شریف میں موجود ہے، وہ قصہ اختصار کے ساتھ کچھ یوں ہے ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ زمانے میں ایک بادشاہ کا ایک جادوگر اور کاہن تھا، جب وہ کاہن بوڑھا ہو گیا، تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے ایک ذہین لڑکا دو جسے میں یہ علم سکھا دوں۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک ذہین اور سمجھدار لڑکا اس کی تربیت میں دے دیا، وہ لڑکا روزانہ اس جادوگر کے پاس علم سیکھنے جاتا۔ اس کے راستے میں ایک راہب کا ڈیرہ بھی پڑتا تھا، وہ جاتے آتے اس راہب کے پاس بیٹھنے لگا، راہب کی باتیں سنتا، اسے پسند آتیں۔
ایک روز راستے میں اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑے جانور نے لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے، لڑکے کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ آج میں آزماؤں کہ ان دونوں میں سے کسی کا علم صحیح ہے۔
اس نے ایک پتھر پکڑا اور کہا: اے اللہ! اگر تیرے نزدیک راہب کا معاملہ جادوگر کے معاملے سے زیادہ اچھا اور پسندیدہ ہے تو اس جانور کو مار دے، تا کہ لوگوں کی آمد ورفت جاری ہو جائے ، یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا اور وہ جانور مر گیا۔ لڑکے نے یہ واقعہ راہب کو بتلایا، راہب نے کہا: جب تو اس مقام کو پہنچ گیا ہے تو سمجھ لے کہ اب تیری آزمائش شروع ہونے والی ہے، اور اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو میرا نام ظاہر نہ کرنا۔
وہ لڑکا اللہ کے حکم سے بڑی بڑی بیماریوں کا علاج بھی کرنے لگا اس شرط پر کہ وہ اللہ پر ایمان لے آئے۔ ایسے ہی بادشاہ کا ایک نابینا صاحب بھی تھا، لڑکے نے دعا کی اور اس کی بینائی لوٹ آئی۔ بادشاہ کو پتا چلا، وہ بہت پریشان ہوا، اس نے لڑکے کو قتل کرنا چاہا کئی کوششیں کیں مگرلڑ کا بچ جاتا۔ بالآخرلڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ تو لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کر اور (بسم الله رب الغلام) کہہ کر مجھے تیر مار۔
بادشاہ نے ایسا ہی کیا لڑکا تو مر گیا، مگر دیکھنے والے سب لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑ کے کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ بادشاہ اور پریشان ہو گیا، چنانچہ اس نے خندقیں کھدوائیں ان میں آگ بھری اور ایمان لانے والوں کو اس میں پھینکنا شروع کر دیا۔(مسلم:3005)
لوگوں نے آگ میں جل کر مرنا گوارا کر لیا، مگر ایمان سے منحرف نہ ہوئے ، سوال یہ ہے کہ: ان میں ایسی کیا تبدیلی آئی تھی کہ جس پر وہ اتنی بڑی آزمائش سے خندہ پیشانی کے ساتھ گزر گئے ؟ وہ تھی کامیابی کے معیار میں تبدیلی ۔
ان کے نزدیک کامیابی کا معیار اب دنیا کی دولت و ثروت اور آسائشیں اور سہولتیں ، تن آسانیاں، عہدے اور مناصب ، شہرت دری، خوشگوار اور خوشحال زندگی نہیں رہی تھی، بلکہ اس کے بجائے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی ، جہنم سے بچنا اور جنت کا حصول بن گیا تھا۔ چنانچہ انہیں اس معیار کو دل سے قبول کرنے کی دلیل، شہادت اور ثبوت پیش کرنا تھا، اور ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ۝﴾(البقرة:214)
’’کہا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ایسے سخت جھنجوڑے گئے کہ وقت کے رسول اور ان کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ چنانچہ اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
اسی طرح کا ایک اور واقعہ یاد کیجیے، جب فرعون کے جادو گر ایمان لے آئے۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا تو اس نے جادو گروں کی سب رسیاں دسیاں نگل لیں جو کہ محض نظر کا دھو کہ تھیں، تو جادو گر حقیقت کو بھانپ گئے کہ یہ جادو نہیں ہے، چنانچہ سب سجدے میں گر گئے۔
﴿قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَرُونَ وَمُوسٰى﴾ (طه:70)
’’اور اعلان کر دیا کہ ہم ہارون اور موسی کے رب پر ایمان لے آئے ہیں ۔‘‘
﴿قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ ؕ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۚ﴾
’’فرعون نے کہا: تم میری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے! معلوم ہوتا ہے یہ تمہارا سب کا گرو ہے، جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے۔‘‘
﴿فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ﴾(طه:71)
’’اچھا اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تمہیں سولی دیتا ہوں ۔‘‘
﴿قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰی مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَاۤ اَنْتَ قَاضٍ ؕ اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ۝﴾ (طه:72)
’’جادو گروں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، ہم روشن نشانیاں سامنے آنے کے بعد ہرگز تمہیں ترجیح نہیں دیں گے۔ تمہیں جو کچھ کرنا ہے کر لو، تم زیادہ سے زیادہ اس دنیا کی زندگی کا ہی فیصلہ کر سکتے ہو۔‘‘
جادو گروں کا ایمان لانے کے بعد اس قدر دو نوک اور جرأت مندانہ انداز میں بات کرنا کس بات کی غمازی کرتا ہے؟
اس بات کی کہ اب ان کے ہاں کامیابی اور ناکامی کا معیار بدل گیا ہے اور غور فرمائیے چند لمحے پہلے وہ فرعون سے کسی انداز میں بات کر رہے تھے ، سراسر چاپلوسانہ انداز میں۔
﴿قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ۝۴۱﴾(الشعراء:41)
’’جب جادوگر میدان میں آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ ہمیں انعام تو ملے گا نا اگر ہم غالب رہے۔‘‘
﴿قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۝۴۲﴾ (الشعراء:42)
’’کہا: ہاں اور پھر تو تم مقربین میں شامل ہو جاؤ گے ۔‘‘
یعنی دنیا کے اعتبار سے کسی انسان کے لیے سب سے بڑا عہدہ اور منصب یہ ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ کے خاص لوگوں میں شامل ہو جائے ، اس کے خاص حلقہ احباب میں اس کا شمار ہونے لگے، کوئی وزیر اور مشیر بن جائے۔ مگر جب کامیابی کا معیار بدلا تو اس طرح کی ہر قسم کی پیش کش کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے سرعام ٹھکرا دیا اور ہر طرح کی سزا جھیلنے کے لیے تیار ہو گئے ۔
تو آئیے ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ ہمارے نزد یک کامیابی کا معیار کیا ہے؟ ہم حقیقی کامیابی کے سمجھتے ہیں؟ اور کیا ہمارے قول اور فعل میں تضاد تو نہیں ہے؟ کہ ہم زبان سے تو کسی اور چیز کو کامیابی قرار دیتے ہوں مگر عملاً ہم کسی دوسری راہ پر گامزن ہوں۔
قیامت کے دن صرف سچائی کام دے گی۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ:
﴿قَالَ اللّٰهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ﴾(المائدة:119١١٩)
’’ اللہ فرمائیں گے یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے۔‘‘
اور اگر جھوٹ بولیں گے تو ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ فَضَحِكَ فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مِمَّا أَضْحَكُ؟ قَالَ قُلْنَا اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ: مِنْ مُخَاطَبَةِ العَبْدِ رَبَّهُ يَقُولُ: يَا رَبِّ أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ قَالَ: يَقُولُ: بَلٰى ، قَالَ فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أَجِيرُ عَلٰى نَفْسِي إِلَّا شَاهِدًا مِّنِّى فَيَقُولُ: كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيدًا وَ بِالْكِرَامِ الكَاتِبِيْنَ شُهُودًا. قال: فَيُخْتُمْ عَلٰى فِيهِ فَيُقَالُ لِاَرِكَانِهِ انْطِقِي. قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ ، قَالَ ثُمَّ يُخلّٰى بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَلَامِ.
قَالَ: فَيَقُولُ: بُعْدًا وَ سُحْقًا فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أَنَاضِلُ))(مسلم:2969)
’’سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے تو نہیں دیے، آپ ﷺنے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ میں کیوں ہنس رہا ہوں۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: بندے کے اپنے رب سے مخاطب ہونے سے کہ وہ کہے گا، اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے رکھی ۔ فرمایا: وہ فرمائے گا، کیوں نہیں: ضرور، فرمایا: وہ عرض کرے گا میں اپنے خلاف اپنے نفس کے سوا کوئی اور گواہ قبول نہیں کروں گا۔ فرمایا: اللہ تعالی فرمائے گا آج تیرا نفس ہی تیرے خلاف گواہی دینے کے لیے کافی ہے اور لکھنے والے فرشتے گواہ کافی ہیں۔ فرمایا: اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا کہ بولو۔ فرمایا: وہ اس کے اعمال کے بارے میں بولیں گے، فرمایا: پھر اسے بات کرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا تمھارے لیے دوری اور ہلاکت ہو، میں تو تمھاری ہی طرف سے جھگڑ رہا تھا۔‘‘
بلکہ اس سے بھی پہلے قبر میں جب سوال ہوں گے اور اگر بندے نے صحیح جواب دیا تو آسمان سے آواز آئے گی۔
((أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِى، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَالْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ ، فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيْبِهَا، وَيُفْسِحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ مُدَّ بَصَرِهِ))(أبوداؤد:4753)
’’کہ میرے بندے نے کیا کیا، لہٰذا اسے جنتی بچھونا بچھا دو، جنتی لباس پہنا دو اور جنت کی طرف اس کے لیے ایک دروازہ کھول دو تو پھر وہاں سے معطر باد نسیم اس کے پاس آتی ہے اور اس کی حد نگاہ تک اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے۔‘‘
اور اگر تضاد ہوا تو پھر معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔ اعاذنا الله منه
………………….