کامیابی کے اسباب
پہلا خطبہ:
بیشک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اور اس سے معافی طلب کرتے ہیں اور اس کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
حمد وثناء کے بعد: میں آپ سب کو اور خود کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے درمیان حفاظت کا ذریعہ بنائیں: واجبات کو ادا کرنے، حرام چیزوں سے بچنے، اور نیکیوں میں جلدی کرنے کے ذریعے؛ ﴿فَاتَّقُوا اللهَ يَا أُولِي الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾سورۃ المائدة، آیت 100 پس اے عقلمندو! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہاری نجات ہو۔
اللہ کے بندو: یہ نبی اکرم ﷺ کی تین وصیتیں ہیں، جو کامیابی کے اصولوں کو جمع کرتی ہیں اور کامیابی کے اسباب کو مختصر کرتی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ (کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا، اور اسے اتنی روزی دی گئی جو اسے کافی ہو، اور اللہ نے اسے جو عطا کیا اس پر اسے مطمئن کر دیا)۔ رواه مسلم (1054).
اس عظیم حدیث میں کامیابی کی بشارت ہے، ان تین چیزوں کو حاصل کرنے والے کے لیے! اور کامیابی: جامع نام ہےجس کا مطلب ہے کہ ہر محبوب چیز کا حاصل ہونا اور ہر ڈر اور خوف سے بچ جانا۔ بهجة قلوب الأبرار، السعدي (167)
کامیابی کے پہلے سبب کا آغاز: دینِ اسلام کی ہدایت سے ہے؛ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ (کامیاب ہو گیا وہ جو اسلام لایا)۔ پس اسلام: آپ کا اصل سرمایہ ہے، آپ کی نجات کی بنیاد ہے، اور یہ انسانیت کا دستور اور دارالسلام تک پہنچنے کا اجازت نامہ ہے! ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الخاسِرِينَ﴾ سورۃ آل عمران، آیت 85 – اور جو کوئی اسلام کے سوا اور کوئی دین چاہے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
جو شخص اسلام کی کشتی پر سوار ہو گیا: وہ نجات پا گیا اور سلامت رہا، اور جو اس سے پیچھے رہ گیا؛ وہ ہلاک اور پشیمان ہوا! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ﴾سورۃ الحجر، آیت 2۔ کافر بڑی حسرت کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہو جاتے۔
مجاہدرحمہ اللہ نے کہا: (یہ اُس وقت ہے جب وہ جہنم میں ہوں گے، اور اہل اسلام کو اپنے اسلام کے ذریعے جہنم سے نکلتا دیکھیں گے!)۔ البعث والنشور، البيهقي (77).
جس نے اسلام کو پا لیا؛ اس نے کیا کھویا؟! اور جس نے اسلام کو کھو دیا؛ اس نے کیا پایا؟! نبی ﷺ نے فرمایا: إِنَّ اللهَ يُعْطِي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ وَمَنْ لا يُحِبُّ، وَلا يُعْطِي الدِّينَ إِلَّا لِمَنْ أَحَبَّ؛ فَمَنْ أَعْطَاهُ اللهُ الدِّينَ؛ فَقَدْ أَحَبَّهُ! (اللہ تعالیٰ دنیا کو اُس کو بھی دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور جس سے محبت نہیں کرتا، لیکن دین کو صرف اُسے دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے؛ پس جس کو اللہ نے دین دیا؛ اس سے محبت کی ہے!)۔ رواه أحمد (3490)، امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو السلسلة الصحيحة صحیح کہا ہے (714).
کامیابی کا دوسرا سبب: کفایت ہے؛ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: وَرُزِقَ كَفَافًا (اور اسے اتنی روزی دی گئی جو اسے کافی ہو)۔ کفایت: یہ ہے کہ انسان کو اتنی روزی ملے جو اس کی ضرورت کو پورا کرے، اور اسے سوال کی ذلت سے بچا لے۔ مرقاة المفاتيح، علي القاري (8/3234).
قرطبی رحمہ اللہ نے کہا: (یہ وہ چیز ہے جو حاجات کو دور کرے، اور تکلیف کو ختم کرے، اور عیش کرنے والوں کی طرح نہ بنا دے)۔ مزید دیکھئے امام سیوطی صحیح مسلم پر شرح (الديباج: 3/137).
کفایت ایک سبب ہے جو انسان کو مال کی آزمائش کی برائی اور فقر کی آزمائش کے شر سے بچاتا ہے۔ بعض علماء نے کہا: (کفایت کی حالت: وہ حالت ہے جو فخر کرنے والے مالدار کی سرکشی اور تکلیف دہ فقر سے محفوظ رکھتی ہے)۔ فتح الباري، ابن حجر (11/275).
النَّفْسُ تْجزَعُ أَنْ تَكُونَ فَقِيرَةً جان گھبرا جاتی ہے کہ وہ فقیر ہو جائے
والفَقْرُ خَيرٌ مِنْ غِنًى يُطْغِيهَا فقر بہتر ہے اس غنا سے جو اسے سرکش بنا دے
وغِنَى النُّفُوسِ هُوَ الكَفَافُ فَإِنْ أَبَتْ اور اصل غنا نفس کی کفایت ہے، پس اگر یہ (نفس) نہ مانے
فَجَمِيعُ مَا في الأَرْضِ لا يَكْفِيْهَا! تو زمین کی سب چیزیں بھی اسے کافی نہ ہوں گی!
کامیابی کا تیسرا سبب: قناعت ہے؛ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ (اور اللہ نے اسے جو دیا اس پر مطمئن کر دیا)۔
قناعت: حقیقی خزانہ ہے، اور اس کا مالک سب سے غنی ہے، چاہے وہ ننگے پاؤں ہی کیوں نہ ہو! نبی ﷺ نے فرمایا: لَيْسَ الغِنَى عَنْ كَثْرَةِ العَرَضِ-أي المال-، ولَكِنَّ الغِنَى: غِنَى النَّفْس (مالداری کثرتِ مال میں نہیں، بلکہ حقیقی مالداری دل کی مالداری ہے)۔ رواه البخاري (6081)، ومسلم (1051)
کتنے ہی مالدار لوگ ہیں جن کے دل فقیر اور حسرت زدہ ہیں، اور کتنے ہی ہاتھوں کے فقیر ہیں جن کے دل غنی اور اللہ کی روزی پر راضی ہیں! بهجة قلوب الأبرار، السعدي (167). ابن حزم رحمہ اللہ نے کہا: (جو شخص اپنی قلیل چیز سے اس کثیر پر قناعت کرتا ہے جو تیرے پاس ہے؛ تو اس نے تجھے غنا میں برابر کر دیا، اگرچہ تُو قارون ہی کیوں نہ ہو!)۔ مداواة النفوس (94)
مؤمن حرام کو ناپسند کرتا ہے، چاہے وہ کثیر ہو، اور حلال پر قناعت کرتا ہے، چاہے وہ کم ہو، اور اس کی قناعت اسے روزی تلاش کرنے سے نہیں روکتی! کیونکہ قناعت کا مطلب سستی کرنا یا کام چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ اسباب اختیار کرنا اور اللہ کے تقسیم پر راضی رہنا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: إنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ؛ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ: بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ: لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وكان كالَّذِي يَأْكُلُ ولاَ يَشْبَعُ! (یہ مال سبز و شیریں ہے؛ جو اسے خوش دلی سے لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی، اور جو اسے حرص سے لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، اور وہ اس کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا)۔ رواه البخاري (1472)، ومسلم (1035)
قناعت غنی اور فقیر دونوں کو درکار ہے؛ کیونکہ یہ دل سے تعلق رکھتی ہے، ہاتھ سے نہیں! ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا: (جب مال تیرے ہاتھ میں ہو اور تیرے دل میں نہ ہو: تو یہ تجھے نقصان نہیں پہنچائے گا، چاہے کثیر ہو، اور جب مال تیرے دل میں ہو: تو یہ تجھے نقصان دے گا، چاہے تیرے ہاتھ میں کچھ نہ ہو!)۔ مدارج السالكين (1/463)
اور جو اللہ کے دیے پر قناعت کرے: اس کا دل مطمئن ہوتا ہے، اور اس کی زندگی خوشحال ہو جاتی ہے؛ اور اگر قناعت میں صرف دل کا سکون ہی ہوتا؛ تو وہی کافی تھا! روضة العقلاء، ابن حبان (150).اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً﴾سورۃ النحل، آیت 97 جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ہم اسے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے۔حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: (یہ قناعت ہے)۔ تفسير البغوي (5/42)
تھوڑا جو تجھے کافی ہو، بہتر ہے اُس زیادہ سے جو تجھے سرکش بنا دے! عدة الصابرين، ابن القيم (202). اور حدیث میں آیا ہے:مَا قَلَّ وكَفَى؛ خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ وأَلهَى (جو کم ہو اور کافی ہو؛ وہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے)۔ رواه أحمد (21721)، وصحَّحه الحاكم في المستدرك (3662).
مال کی کمی اور زیادتی فضیلت کا معیار نہیں ہے، اور نہ ہی یہ خوشی کا پیمانہ ہے؛ کیونکہ کبھی فاجر کو مال کی کمی سے سزا دی جاتی ہے، اور کبھی اسے مال کی کثرت سے عذاب دیا جاتا ہے! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا في الحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾سورۃ التوبة، آیت 55 (سو تو ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کر، اللہ یہی چاہتا ہے کہ ان چیزوں کی وجہ سے دنیا کی زندگی میں انہیں عذاب دے)۔
میں یہ بات کہتا ہوں، اور اپنے اور آپ کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ہر گناہ سے؛ پس اُس سے مغفرت مانگو، بیشک وہی بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
اللہ کی حمد ہے اس کی مہربانیوں پر، اور اس کا شکر ہے اس کی توفیق اور بخشش پر، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ کے بندو: یہ تین نبی اکرم ﷺ کی وصیتیں (اسلام، کفایت، اور قناعت)؛ کامیابی اور فلاح کو جمع کرتی ہیں؛ جیسا کہ سعدی رحمہ اللہ نے کہا: (یہ تین چیزیں دین اور دنیا کی بھلائی کو جمع کرتی ہیں؛ کیونکہ جب بندے کو اسلام کی ہدایت ملی، اور اس کے لیے اتنی روزی مہیا ہوئی جو اسے کافی ہو، اور پھر اللہ نے اسے اپنے دیے پر قناعت عطا کی؛ تو اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی)۔ بهجة قلوب الأبرار (167)
اور اگر تیری جیب دنیا سے خالی ہو جائے؛ تو ہوشیار رہ کہ تیرا دل دین اور یقین سے خالی نہ ہو! اور جیسے تُو دنیا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ اسی طرح آخرت سے غافل نہ ہو! ﴿وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقى﴾سورۃ طٰہٰ، آیت 131 – اور تیرے رب کا رزق بہتر اور دیرپا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: (نبی ﷺ کی سب سے زیادہ دعا یہ تھی: اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا في الدُّنْيَا حَسَنَةً، وفي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وقِنَا عَذَابَ النَّار "اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا”)۔ رواه البخاري (6026)
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔
• اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
• اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
• اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
• اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
• پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
• مترجم: محمد زبیر کلیم
• داعی ومدرس جمعیت ھاد
• جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب