خبر دینے، صحیح شرعی یا حسی سبب بیان کرنے کے لیے لولا کا استعمال جائز ہے بشرطیکہ عقیدہ یہ ہو کہ اسباب پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے
904۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزِ اللَّحْمُ وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ اُنْثٰى زَوْجَهَا الدَّهْرَ)) (أخرجه البخاري« 3330، 3399)
’’اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو کبھی گوشت خراب ہو کر بد بودار نہ ہوتا اور اگر حواء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی۔‘‘
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل گوشت کے خراب ہونے کا سبب بنتے ہیں کیونکہ انھیں من و سلوی کا ذخیرہ کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن وہ باز نہ آئے تو وہ خراب ہو گیا۔ اصل اختیار تو اللہ تعالی کے پاس ہے۔ اور حواء کی خیانت یہ تھی کہ انھوں نے آرام کو اس درخت کا پھل کھانے پر اکسایا جس کا پھل کھانے سے انھیں منع کیا گیا تھا۔ وہ تو محل سبب بنی تھیں اور نہ اصل میں تو یہ محل النا کی تقدیر میں لکھا ہوا تھا۔
905۔ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول! کیا آپ نے ابو طالب کو کچھ نفع پہنچایا ہے؟ وہ ہر طرف سے آپ کا دفاع کرتے تھے اور آپ کی خاطر غضب ناک ہوتے تھے۔ آپ ﷺنے جواب دیا:
((نَعَمْ هُوَ فِي ضَحْضَاحِ مِنْ نَارٍ، وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ))(أخرجه البخاري: 6208، 6572، و مسلم: 209)
’’ہاں، وہ کم گہری آگ میں ہیں، جو ٹخنوں تک آتی ہے) اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔‘‘
توضیح و فوائد: یعنی دراصل اللہ ہی کے فضل سے اس کا عذاب ہلکا ہوا لیکن اس کا سبب میں بنا۔
906۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لْوَلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَءًا مِنَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتِ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَ الْأَنْصَارِ)) (أخرجه البخاري:7244)
’’اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد بننا پسند کرتا، اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار ایک دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا انصار کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا۔‘‘
907۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اللہ سے عز وجل کے ارشاد: ﴿فلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا﴾ (البقرة22:2)
’’لہٰذا تم اللہ کے ساتھ شریک مت ٹھہراؤ۔‘‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ انداد (کو اللہ کا شریک ٹھہرانے) سے مراد وہ شرک ہے جو تاریک رات میں سیاہ چٹان پر چلنے والی چیونٹی سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے، جیسے بندہ کہتا ہے:
اللہ اور تیری زندگی کی قسم، اے فلاں! میری زندگی کی قسم، اگر یہ کتا نہ ہوتا تو کل رات ہمارے ہاں چور آجاتے، اگر بطخ گھر نہ ہوتی تو چور لوٹ کر لے جاتے، اسی طرح آدمی اپنے ساتھی سے کہتا ہے: جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں اور یہ کہنا: اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتے۔ (أخرجه ابن أبي حاتم في التفسير: 62/1)
ان سب جملوں میں فلاں کا لفظ نہ لگائیے، اس لیے کہ یہ شرک ہے۔
توضیح وفوائد: اگر سبب کے از خود موثر ہونے کا عقیدہ رکھ کر یہ کہا جائے تو یہ واضح شرک ہے کیونکہ کتیا کے پاس اختیار نہیں، وہ صرف ایک سبب ہے۔ سب کو از خود موثر نہ مانا جائے جب بھی یہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے شرک کا اندیشہ اور باری تعالی کی بے ادبی ہے۔