خسارہ پانے والے لوگ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ۝۱۰۳

اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱﴾ [الكهف: 103-104]

جس طرح ایمان کے مختلف درجات ہیں، کسی کا ایمان انتہائی مضبوط اور قوی ہوتا ہے کہ اسے ایمان میں جبل استقامت کا لقب دیا جا سکتا ہے اور کسی کا ایمان درمیانہ ہوتا ہے اور کوئی انتہائی ضعیف الایمان ہوتا ہے۔

اسی طرح گمراہی و ضلالت کے بھی مختلف درجے ہیں۔ کسی کی گمراہی اس درجے کی ہوتی ہے کہ وہ گناہ اور نافرمانی کے کام کرتا ضرور ہے لیکن وہ دل سے اعتراف کرتا ہے اور زبان سے اقرار و اظہار کرتا ہے کہ میں گناہ کر رہا ہوں۔ اس کا ضمیر اسے ٹھوکر لگاتا ہے۔ اس لیے وہ وقتا فوقتا گناہ چھوڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے اگرچہ ایسے شخص کی گمراہی بھی معمولی نہیں۔ لیکن اس کی اصلاح جلدی ممکن ہے اور اس کے بارے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ تائب ہو جائے گا۔ کیونکہ اس کا احساس زندہ ہے اور اس کا ضمیر بیدار ہے یہ آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں بھی بدل سکتا ہے اور سچی توبہ کر کے اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔

گمراہی کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان صراط مستقیم اور راہ حق سے ایسا بھٹکے کہ بدعات و خرافات اور ذنوب و آثام کو نیکی اور عمل صالح سمجھنے لگ جائے یہ گمراہی کی انتہائی خطرناک اور مہلک صورت ہے جس کی گمراہی اس خطرناک حد تک پہنچ جائے اس کی واپسی اور ہدایت جلدی کے ممکن نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایسا شخص اپنے آپ کو راہ راست اور صراط مستقیم پر گامزن تصور کرتا ہے آج مسلم معاشرے کے بہت سارے لوگ اس خطرناک گمراہی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ شیطان نے لوگوں کو توبہ و اِصلاح سے محروم رکھنے کے لیے اس دور کی گمراہی میں ڈال دیا ہے۔ آج کسی گناہ کو گناہ نہیں سمجھا جا رہا اور بدعات اور خرافات کو ارکان اسلام سے بھی اہم اور افضل قرار دیا جا رہا ہے۔ میں اس بات کو چند مثالوں سے واضح کرتا ہوں۔

آج اس خطرناک گمراہی کا نتیجہ ہے کہ سود کو بزنس کا نام دے کر حلال ٹھہرایا جا رہا ہے جوئے کو انعام کا نام دے کر جائز کہا جا رہا ہے رشوت کو تحفے اور ہدیے کا نام دے کر حلال کیا جا رہا ہے۔ شراب کو کسی اور مشروب کا لیبل لگا کر جائز اور مباح گردانا جا رہا ہے۔ گانے بجانے اور ناول افسانے کو نصیحت آموز کہانی اور تفریح و ثقافت کا نام دے کر جائز اور درست کہا جا رہا ہے بے پردگی جنسی آزادی اور مردوزن کے اختلاط کو روشن خیالی کا نام دے کر صرف جائز ہی نہیں بلکہ بہتری اور بھلائی کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ آج گناہ کو گناہ سمجھنا تو کجا لوگ گناہ کو کار ثواب سمجھ کر کر رہے ہیں۔ داڑھی رکھنا عیب بن گیا اور داڑھی منڈھوانا فیشن اور خوبی بن گیا۔ شرعی پردے کو منافقت کا نام دے دیا گیا اور بے پردگی و آوارگی کو اعتدال پسندی اور خود اعتمادی کا لیبل لگا دیا گیا۔ حلال و حرام میں امتیاز کرنا اور رزق حرام سے بچتا ہے کبھی اور حماقت تھیرا اور دھو کا وفراڈ اور باطل ذرائع سے مال کمانے کو کاروباری مہارت اور ذہانت و قابلیت کا لقب دے دیا گیا۔

اسی خطرناک گمراہی کا ہی نتیجہ ہے: نمازیں طعنہ بن گئیں۔ دینی کاموں پر پابندی و استقامت بنیاد پرستی اور انتہاء پسندی بن گئی اور کافروں کی غلامی اور نوکری سیاست و قابلیت بن گئی۔

اللہ رب العزت نے اپنی کتاب مجید میں اس بدترین گمراہی سے بار بار خبر دار کیا ہے اور اس کا جو نقصان ہے وہ بیان فرمایا ہے۔

سورۃ الکہف کے آخری رکوع میں رب ارض و سماء نے ارشاد فرمایا ہے۔

﴿ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ۝اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝﴾ [الكهف: 103-104]

’’کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتادوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں وہ کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔‘‘

غور کیجئے اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کو سب سے زیادہ خسارے والے لوگ قرار دیا ہے۔ جو گمراہی کے اس درجے میں پہنچ جاتے ہیں کہ انہیں اپنی برائیاں اچھی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ انہیں اپنے سیاہ کرتوت کارنامے دکھلائی دینے لگتے ہیں۔

 پھر سورۃ الزخرف میں خالق کائنات نے ارشاد فرمایا:

﴿ وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ۝۳۶

وَ اِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ۝۳﴾ [الزخرف:36،37]

’’اور جو شخص رحمن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے اور وہ انہیں راہ سے روکتے ہیں اور یہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

یہاں اللہ رب العزت نے وضاحت فرمائی ہے کہ یہ شیطانوں کے حملے اور وسوسے کا نتیجہ ہے کہ لوگ برے عمل کر کے اپنے آپ کو ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں۔

آج عوام، خواص اور رعایا و حکمران اکثر اس بدترین گمراہی کا شکار ہو چکے ہیں۔

اللہ کے احکامات، اوامر و نواہی، فرائض و واجبات اور عبادات و حسنات کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور منہیات و ممنوعات اور بدعات وخرافات پر پہرہ دیا جا رہا ہے۔ اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں کہا جا رہا ہے اور اپنے مفادات کی خاطر کافر آقاؤں کے اشارے پہ بے گناہ مسلمانوں، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کا بے دردی سے خون بہایا جا رہا ہے۔ بے حیائی کے مراکز اور فحاشی کے اڈے حکومتی سرپرستی میں آباد ہو رہے ہیں۔ اور قرآن وسنت کے مراکز، مساجد اور مدارس کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ کر کے یہی سمجھا جا رہا ہے کہ ہم صحیح اور درست کر رہے ہیں وہی بات:

﴿وَيَحْسَبُوْنَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُوْنَ ﴾ [الزخرف: 37]

کہ شیاطین ایسی مت مار دیتے ہیں کہ انسان برائی کر کے داد اور ثواب کا امیدوار بن بیٹھتا ہے۔

شریعت اسلامیہ میں بعض دنوں، مہینوں اور راتوں کے حوالے سے بہت سمارے احکامات دیئے گئے ہیں ان احکامات میں بھی ہمارا کردار یہی ہے کہ دنوں، مہینوں اور راتوں کے حوالے سے اللہ تعالی کے احکامات کو نظر انداز کر رکھا ہے اور مختلف دنوں مہینوں اور راتوں کے حوالے سے جو خود رسوم و رواج اور بدعات و خرافات ایجاد کر رکھی ہیں ان پر پابندی سے عمل کیا جارہا ہے۔

موجودہ مہینہ رجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے۔ لوگوں نے اس مہینے میں اپنی طرف سے بہت کچھ بنا رکھا ہے۔ کہیں بائیس رجب کے کونڈے ہیں۔ جنہیں امام جعفر صادق کے کونڈے کہا جاتا ہے اور ان کونڈوں کے متعلق ایسی کہانیاں جوڑ رکھی ہیں جن میں ایسا تضاد پایا جاتا ہے کہ پڑھتے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ صریح جھوٹ ہے۔ بلکہ تحقیق کرنے والوں نے تحقیق کی ہے دراصل بائیس رجب عظیم صحابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی  عنہ کی وفات کا دن ہے۔ دشمنان صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے اس دن خوشی کے طور پر حلوہ منڈا پکایا لوگوں میں بانٹا اور اسے حضرت جعفر کے کونڈوں کا نام دے دیا۔ بدعات وخرافات کے رسیا لوگوں نے اصل حقیقت نہ دیکھی اور یہ کونڈے بھرنے شروع کر دیئے۔ یہ تو دراصل امیر معاویہ کی وفات کی خوشی ہے۔ حالانکہ امیر معاویه رضی اللہ تعالی عنہ وہ عظیم صحابی ہیں کہ دور فاروقی میں کوئی گورنر کسی علاقے میں 2 سال سے زیادہ گورنر نہیں رہا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی حساس حکمران تھے۔ معمولی شکایت پر معزول کر دیتے تھے۔ لیکن تنہا امیر معاویہ وہ گورنر ہیں کہ پورے دور فاروقی میں ایک ہی علاقے میں گورنر رہے اور کبھی شکوہ و شکایت کا موقع نہیں ملا۔ جناب عبد الرحمان بن ابی عمیرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں دعا کی:

(اللهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، وَاهْدِ بِهِ) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب مناقب معاوية بن أبي سفیان رضی اللہ تعالی عنہ (3842) (3843)]

’’اے اللہ! اس کو راہ ہدایت دکھانے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعے لوگوں کو بھی ہدایت عطا فرما۔

اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا آیت اور حدیث سنتے ہی عمل کرنا اور لوگوں کو بھی عمل پر ابھارنا کتب حدیث میں بکثرت مذکور ہے بیسیوں واقعات آپ کے اس عظیم کردار پر دلالت کرتے ہیں اور یہ رسول اللہﷺ کی اس دعا کا نتیجہ ہے۔

بہر حال وہ جشن جو دشمنان صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ’’مرگ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ‘‘کے نام پرمنایا۔ اس کو حضرت جعفر صادق کے کونڈوں کا نام دیا گیا ہے حالانکہ حضرت جعفر صادق کا ماہ رجب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ ان کی پیدائش ماہ ربیع الاول میں اور وفات ماہ شوال میں ہوئی۔ پھر کونڈے سے بھرنے والوں کے بہت بڑے پیر جماعت علی شاہ کا خاص مصطفی علی خان اپنے کتابچے جواہر المناقب میں لکھتا ہے کہ کونڈوں کی ابتداء 1906ء میں ریاست رام پور یوپی سے ہوئی۔ غور کیجئے! جس رسم کی ابتداء کو ابھی 100 سال ہوا ہو وہ دین کیسے بن سکتی ہے لہذا یہ رسم بد بدعات و خرافات میں سے ہے دین کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔

دوسری رسم جو لوگوں نے اس مہینے میں ایجاد کر رکھی ہے وہ جشن معراج  النبی ﷺ ہے جہاں تک واقعہ معراج ہے وہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو روح مع الجسد بحالت بیداری ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر جو ایک ماہ میں طے ہوتا تھا۔ اور پھر ساتوں آسمانوں کی سیر….؟

جبکہ ایک آسمان کا دوسرے آسمان تک فاصلہ 500 سال کی مسافت میں طے ہوتا ہے لیکن اتنا طویل سفر آپﷺ نے صرف ایک رات میں طے کیا۔ گئے بھی اور واپس بھی تشریف لائے۔ اور راستے میں بہت کچھ دیکھا بھی۔ اور جس سواری پر زمینی سفر کیا وہ سواری براق تھی وہ سواری بھی معجزہ تھی۔ دنیا کی تمام سواریاں نگاہ سے پیچھے ہوتی ہیں لیکن وہ سواری اس قدر برق رفتار تھی کہ جہاں نگاہ ہوتی وہاں اس کا قدم ہوتا۔ یہ واقعہ معراج عظیم الشان معجزہ ہے۔ اور ہمارے پیغمبرﷺ کی رفعت شان اور بلندی مقام پر دلالت کرتا ہے لیکن اس کا سال مبینہ اور تاریخ متعین نہیں۔ مشہور تاریخ 27 رجب نبوت کا دسواں سال ہے۔ لیکن اسے بھی اکثر سیرت نگاروں علامہ صفی الرحمان مبارک پوری وغیرہ نے دلائل کے ساتھ غلط ثابت کیا ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات نماز پنجگانہ کی فرضیت سے پہلے ہوئی اور اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ نماز پنجگانہ کی فرضیت معراج کی رات ہوئی اور اس پر بھی سارے متفق ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوئی لہٰذا ثابت ہوا کہ واقعہ معراج کی مذکورہ تاریخ (نبوت کا دسواں 27 رجب) غلط ہے۔

اس لیے معراج کی رات کو اپنی طرف سے متعین کرنا اور اس کو فضیلت والی قرار دینا اور اس رات کو طرح طرح کی عبادات کرنا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مجوسیوں کی مشابہت کرتے ہوئے آتش بازی کرنا یہ سب بدعات وخرافات ہیں۔ معراج کی رات ملنے والا تحفہ نماز کا تو احساس نہیں کلمہ پڑھنے والوں کی اکثریت بے نماز ہے۔ لیکن ان بدعات و خرافات کی بڑی پابندی ہے۔

 یاد رکھیے کسی عمل یا عظیم واقعہ کی وجہ سے ہم اپنی طرف سے کسی دن یا رات کو فضیلت والی قرار نہیں دے سکتے۔ کوئی مہینہ دن رات یا گھڑی تب ہی فضیلت والی ہو سکتی ہے جب اس کی فضیلت قرآن یا حدیث سے ثابت ہو ماہ رجب کا فضیلت والا ہوتا حدیث رسول سے ثابت ہے لیکن وہ فضیلت واقعہ معراج کی وجہ سے نہیں۔

پھر اس مہینے میں جو اللہ کا حکم ہے وہ ہم نے بری طرح نظر انداز کیا ہوا ہے وہ یہ کہ ماہ رجب حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ صحیح البخاری میں حدیث ہے: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا:

 (إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ عَلٰى هَيْئَتِهِ)

’’سال گھوم گھما کے اپنی اصلی شکل وصورت پر آ گیا ہے۔‘‘

(کیونکہ دور جاہلیت میں لوگوں نے سال کا حلیہ بگاڑ دیا تھا حرمت والے مہینوں میں تقدیم و تاخیر کرتے تھے اب دوبارہ وہی مہینے حرمت والے ہوں گے جو اللہ نے مقرر فرمائے):

(ثلٰث مُتَوَالِيَاتٌ ذُو القَعْدَةِ وَذُو الْحَجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ)

تین مہینے اکٹھے ہیں: ذو القعدہ ذو الحجہ اور محرم۔

(وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ). [صحيح البخاري، كتاب المغازي باب حجة الوداع، رقم: 4406، و مسلم رقم: 4383]

’’اور (چوتھا) رجب ہے جو جمادی اخری اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘

اس کے احترام کا مطلب کیا ہے ان مہینوں کے احترام کا مطلب یہ ہے کہ ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کا مزید اہتمام کیا جائے، خصوصاً لڑائی جھگڑنے گالی گلوچ غیبت و چغلی سے بہت پرہیز کیا جائے کیونکہ ان مہینوں میں گناہ کی خطرنا کی بڑھ جاتی ہے جس طرح مسجد کی حدود میں گناہ کی خطرناکی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

بہر حال اس مہینے میں کرنے کا کام ہم نے نہیں کیا۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں نے بتلایا تھا، لیکن اپنی مرضی سے ہم بہت کچھ کر رہے ہیں اور اسے دین قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ بدعات و خرافات دین نہیں ہوا کرتی۔

رسول اللہ ﷺ ہر خطبہ میں فرمایا کرتے تھے: (أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْىُ

مُحَمَّدٍ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ) [صحیح مسلم، كتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، رقم: 2005.]

’’یعنی اللہ کی حمد اور رسول اکرم پر درود بھیجنے کے بعد (سب سے اہم بات یہ ہے کہ) تمام کلاموں سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور تمام کاموں سے بدترین کام وہ ہیں جنہیں (دین اسلام میں) ایجاد کیا گیا ہے اور تمام بدعات گمراہی ہیں۔‘‘

بخاری و مسلم کی روایت ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌ) [صحيح البخاري، رقم: 2697. وصحيح مسلم، كتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور، رقم: 4492.]

’’جس شخص نے ہمارے اس دین میں نئی بات کو ایجاد کیا جو دین اسلام سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘

جناب ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبٰى قِيلَ وَمَنْ يَأْبٰي؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى)

’’میری تمام امت جنت میں داخل ہو گی البتہ وہ جس نے انکار کیا۔ دریافت کیا گیا کون ہے جس نے انکار کیا؟ آپﷺ نے فرمایا:  ’’جس شخص نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار مانے کیا‘‘[صحيح البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة، والي الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ (7285)]