خوشگوار زندگی کا ضابطہ  بے مقصد کاموں سے اجتناب

﴿ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا۝﴾ (الاسراء:36)
’’اور کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو،یقینًا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہوگی ۔‘‘
گزشتہ خطبات میں خوشگوار، پاکیزہ اور پرسکون زندگی گزارنے کے چند بنیادی اصولوں کا ذکر ہو رہا تھا، آج کی گفتگو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، مگر آج ہم خوشگوار زندگی کے جس قاعدے اور ضابطے کا ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ ہے: اپنے کام سے کام رکھنا، اور دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی، تجسس ، کھوج، ٹوہ اور کرید سے باز رہنا۔
یوں تو آپﷺ کی تمام تر گفتگو اور تمام فرامین نہایت ہی جامع اور پر مغز ہیں، کیونکہ آپ ﷺ جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:
((أُوتِيْتُ جَوَامِعَ الْكَلَمِ)) (مسند احمد، ج:2، ص:250، رقم:7397)
’’میں جوامع الکلم عطا کیا گیا ہوں ۔‘‘
اور جوامع الکلم کا معنی ہے کہ ایسے کلمات جو الفاظ میں مختصر مگر معانی میں نہایت وسیع اور کامل اور شامل ہوں۔ تو دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی سے اجتناب، پر سکون، خوشگوار اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا ایک ایسا قاعدہ اور ضابطہ ہے جو بہت سے اصولوں اور ضابطوں کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:
((مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَالَايَعْنِيْهِ))(ترمذی:2318)
’’آدمی کے اچھے اسلام کی نشانی یہ ہے، آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کو ترک کر دے، ان سے باز رہے۔‘‘
دعوٰی اسلام کے لحاظ سے لوگ دو طرح کے ہیں: ایک وہ جو اسلام پر اچھی طرح عمل پیرا ہیں اور اس پر بہتر سے بہتر طور پر عمل پیرا ہونے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اور دوسرے وہ ہیں جو اسلام پر خوش اسلوبی اور عمدگی سے عمل پیرا ہونے کی فکر نہیں رکھتے محض دعوٰی اسلام کو ہی اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں ۔ وہ اسلام کے احکام و اوامر کو خوش اسلوبی ، عمدگی ، وحسن و خوبی کے ساتھ ادا نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ وہ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لحاظ سے بد اسلوبی اور بے ڈھنگا پن کا شکار ہوتے ہیں۔ تو جو لوگ اسلام پر عمدگی اور خوش اسلوبی سے عمل پیرا ہوتے ہیں ان کی ایک بڑی نشانی یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ لا یعنی کاموں میں ملوث نہیں ہوتے ، وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، انہیں اپنی ہی فکر دامن گیر رہتی ہے۔
خوشگوار زندگی کے متعلق حدیث میں بیان کیا گیا یہ قاعدہ اور ضابطہ کتنا اہم ہے، اور علماء امت، ائمہ کرام کے نزدیک احکام دین میں اس حدیث کو کیا اہمیت اور مقام حاصل ہے: اندازہ کیجیے ۔ حدیث کی کتاب سنن ابی داود کے مؤلف امام ابو داد رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
كتبت عن رسول الله ﷺ خمس مائة الف حديث .))
’’میں نے آپ ﷺکی پانچ لاکھ احادیث لکھی ہیں۔‘‘
((انتخبت منها ما ضمنته هٰذا الكتاب یعنی کتاب السنن))
’’میں نے ان پانچ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کر کے اس کتاب یعنی سنن ابی داود میں جمع کی ہیں۔‘‘
(جمعت فيه اربعة آلاف وثمان مائة حديث))
’’میں نے اس کتاب میں منتخب شدہ چار ہزار آٹھ سو احادیث جمع کی ہیں ۔‘‘
((ذكرت الصحيح وما يشبهه ويقاربه))
’’میں نے اس کتاب میں صحیح اور اس سے ملتی جلتی احادیث ذکر کی ہیں ۔‘‘
یعنی صحیح اور حسن درجے کی اور جو ضعیف ہیں وہ بیان کر دی ہیں کہ یہ ضعیف ہیں۔
((ويكفي الانسان لدينه من ذلك اربعة احاديث))
’’احادیث کے اس منتخب مجموعہ سے بھی کہ جس کی تعداد چار ہزار آٹھ سو ہے آدمی کو اپنے دین کے لیے صرف چارا حادیث ہی کافی ہیں۔‘‘
احدها: قوله عليه السلام الاعمال بالنيات. ان میں سے ایک حدیث ہے: ((انما الأَعْمَالُ بِالنياتِ)) کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
((والثاني: قوله: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرَكَهُ مَا لَا يَعْنِيْهِ))
’’اور دوسری حدیث: آپ ﷺ کایہ فرمان کہ: ((من حسن اسلام المرء تركه مالا يعنيه))
’’ آدمی کے اسلام کی اچھائی، خوبی اور حسن میں سے یہ ہے کہ دو ایسی باتوں کو ترک کر دے جن کا اس سے کوئی واسطہ اور تعلق نہ ہو۔‘‘
((وَالثَّالِثُ قَوْلُهُ: لَا يَكُوْنُ المُؤْمِنُ مُؤْمِنًا حَتّٰى يَرْضٰى لِأَخِيْهِ مَا يَرْضَاهُ لِنَفْسِهِ))
’’تیسری حدیث ، آپ ﷺ کا یہ فرمان: آدمی اس وقت تک حقیقی مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہ کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔‘‘
((والرابع: قوله: اَلْحَلَالُ بَيِّنُ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَ بَيْنَ ذٰلِكَ أَمُورٌ مُشْتَبِهَات . .)) (تاریخ بغداد: ج:9، ص:57)
’’اور چوتھی حدیث ہے: حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور جو ان کے درمیان کی چیزیں ہیں وہ مشتبہ ہیں ۔‘‘
تو یہ حدیث جس میں پر سکون زندگی کا ایک نہایت ہی اہم قاعدہ اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے ائمہ کرام کے نزدیک وہ دین کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ اور اگر ہم اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بھی اس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی پریشانیوں کا، اس کے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کا ، لوگوں کی آپس میں نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کا ایک بہت بڑا سبب دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا، اور ان کی ذاتی زندگیوں کی ٹوہ اور کھوج لگانا ہے، اور تعجب ہے کہ یہ عمل اس قدر قبیح، سنگین اور گھناؤنا ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے میں بکثرت پایا جاتا ہے۔
یہ عمل اللہ تعالی کے ہاں اتنا نا پسندیدہ اور مکروہ ہے کہ اس کے مرتکب کے لیے اس دنیا میں بھی ایک سزا رکھ دی گئی ہے اور آدمی اس سے بچ نہیں سکتا۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((يَا مَعْشَرَ مَنْ قَدْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ ، وَلَمْ يُفْضِ الإِيمَانُ إِلٰى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ، وَلَا تُعَیِّرُوهُمْ، وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ))
’’اے وہ لوگو ! جو صرف زبان سے اسلام لائے ہیں اور ایمان ان کے دلوں تک نہیں پہنچا، مسلمانوں کو اذیت نہ دو، انہیں طعنے نہ دو، اور ان کی عیب جوئی نہ کرو‘‘
((فَإِنَّهُ مَنْ تَتَّبَعَ عَوْرَة أَخِيهِ الْمُسْلِمِ ، تَتَّبَعَ اللهُ عَوْرَتَهُ))
’’اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرے گا، اللہ تعالی اس کی عیب جوئی کرے گا۔‘‘
((وَمَنْ تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ))( ترمذی:2023)
’’اور جس کی عیب جوئی اللہ تعالی نے کی ، اس کو ذلیل و رسوا کر کے رکھ دے گا۔ اگر چہ کوئی اپنے گھر کے دامن میں ہی کیوں نہ چھپا بیٹھا ہو۔‘‘
غور فرمائیے کہ کس قدر شدید تنبیہ اور تہدید ہے، لیکن لوگ پھر بھی بڑے زور وشور سے اور بڑے شوق ورغبت سے اس میں گھسے چلے جاتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ آخر اس میں کیا لذت اور چاشنی ہے کہ اس قدر شدید تنبیہ، دھمکی اور وارنگ کے باوجود انسان اس سے باز نہیں آتا، بلکہ بصد شوق مرتکب ہوتا ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ ایک تو یہ انسان کی فطری کمزوریوں میں سے ایک ہے کہ وہ زیادہ دیر تک سنجیدہ نہیں رو سکتا، پھر وہ لغو اور فضولیات میں مشغول ہو جاتا ہے، مگر انہیں فضولیات اور لغو سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ کچھ دوسرے ناموں سے انہیں متعارف کروا کے اور ان کا جواز مہیا کر کے شریک ہو جاتا ہے۔
مثلاً: ہمدردی اور خیر خواہی اور اصلاح کے نام سے دوسروں کے عیب اچھال اچھال کر مزے لیتا ہے، اور آخر میں ایک دو لفظ ایسے بول دیتا ہے کہ جس سے لگے کہ وہ یہ سب کچھ از راہ ہمدردی کہہ رہا ہے جیسے اچھا اللہ تعالی اس کو ہدایت دے، یا ایسے کر لیتا تو اچھا ہوتا اس کا فائدہ ہو جاتا، وغیرہ۔ مگر حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے، اس کو سب معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
اور بھی Curiosity (کیوری آسی ٹی) کے نام سے تجسس، شوق تحقیق ، اور شوقِ دریافت کے نام سے، وہ لوگوں کی ذاتی زندگی کو کرید رہا ہوتا ہے، اور جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ فلاں شخص کیا کرتا ہے کہاں جاتا ہے، کیا کھاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اور کبھی دل لگی اور گپ شپ کے نام سے، کسی کو مجلس میں ننگا کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ لیکن جو بھی نام رکھ لیں، حقیقت نہیں بدلتی، حقیقت وہی رہے گی کہ وہ لوگوں کی عیب جوئی کر کے مزے لیتا ہے اور یہ عمل صرف مکروہ اور ناپسندیدہ ہی نہیں بلکہ حرام ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ نے فرمایا:
((فَإِنَّ دِمَاءَ كُمْ ، وَأَمْوَالَكُمْ ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرُمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هٰذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا))( بخاری: 27)
’’فرمایا: لوگوسن لو! بے شک تمہارے خون تمہارے مال تمہاری عزتیں تم پر اس طرح حرام ہیں ، جیسے تمہارا آج کا یہ دن یوم الحج الاکبر حرمت والا ہے، تمہارا یہ شہر اور تمہارا یہ مہینہ حرمت والا ہے۔‘‘
جانا! کہ ایک مسلمان کی عزت و حرمت کا اللہ تعالی کے ہاں کیا مقام و مرتبہ ہے، جسے سر بازار رسوا کر دیا جاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک روز بیت اللہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
((مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ))
’’ جانتا ہوں کہ تم ایک عظمت والے اور عظیم حرمت والے گھر ہو۔‘‘
((وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرمَةً عِنْدَ اللهِ مِنْكِ))(ترمذی:2032)
’’مگر ایک مومن اللہ تعالی کے ہاں تجھ سے زیاد ہ حرمت رکھتا ہے ۔‘‘
لہٰذا کسی مسلمان کی عزت سے کھیلنا، اسے رسوا کرنا، اس کی عیب جوئی کرنا، اس کا مذاق اڑانا، جہاں ایک طرف حرام ہے وہاں دوسری طرف اس بری خصلت سے بچنا مومنوں کی صفت بھی قرار دیا گیا ہے۔
﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۝۱
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ۝۲
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ۝﴾ (المومنون:1۔3)
’’یقینًا فلاح پائی ایمان والوں نے، جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں، اور جو لغو بات سے دور رہتے ہیں؟‘‘
اور لغو ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول اور لایعنی ہو، جس کا دین کے لحاظ سے فائدہ ہو نہ دنیا کے لحاظ سے۔ اور لغویات سے بچنا صرف اس حد تک ہی نہیں کہ کسی کے عیب اچھالنے سے بچا جائے بلکہ ادویات کی ایک طویل فہرست ہے، لغویات سے بچنے کا ایک انداز ملاحظہ فرمائیے ، اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَإِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾ (الفرقان:72)
’’اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ۔‘‘
جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں، یا لغو کام ہو رہے ہوں، وہاں سے باعزت اور مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں یعنی اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے ، ان میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔
یاد رہیں کہ لوگوں کے عیوب اور خامیوں پر نظر رکھنے والا، انہیں کریدنے اور اچھالنے والا شخص ہرگز عقلمند نہیں ہو سکتا، جو شخص خود مجموعہ عیوب ہو، وہ کسی اور کی عیب جوئی کر کے خوش ہو اور لذت پائے، اس سے بڑھ کر نادان کون ہوگا ؟
انبیاء علیہم السلام کے سوا ہر انسان میں بیسیوں عیب ہو سکتے ہیں بلکہ اگر سینکڑوں بھی کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا مگر اللہ تعالی نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ لیکن جب کوئی کسی کے عیب اچھالے تو اللہ تعالی اس اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے شخص کی عزت کو نگلیوں اور بازاروں میں گردش کرنے والے قصے کہانیاں بنا دیتا ہے۔
عقلمندی یہ ہے کہ انسان اپنی اصلاح کی فکر کرے، جیسا کہ شاعر کہتا ہے۔
أَقْبِلْ عَلَى النَّفْسِ وَاسْتَكْمِلْ فَضَائِلَهَا
فَأَنْتَ بِالنَّفْسِ لَا بِالْجِسْمِ إِنْسَانُ
’’اپنے آپ پر توجہ دو اور اپنی خوبیوں ، اپنی صفات اور اپنے اخلاق کی تکمیل کرو، کہ تم جسم نہیں بلکہ نفس کے ساتھ انسان بنتے ہو۔‘‘
یعنی جسم تو جانور بھی رکھتے ہیں، اصل چیز خوبیوں والا نفس ہے، جو انسان کی اصل پہچان ہے۔ عقلمند آدمی فائدے والے کام کرتا ہے، گھاٹے کا سودا نہیں کرتا چنانچہ آپ ﷺ نے اس کی ترغیب دلائی اور فرمایا:
((اِحْرِصْ عَلٰى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ)) (مسلم:2664)
’’جو چیز تمہارے فائدے کی ہے اس کا اہتمام کرو، یعنی جو زیادہ فائدے کی ہے اس کو ترجیح دو۔ اور اس پر اللہ تعالی کی مدد چاہو‘‘اور عزیت سے کام لو، عجزو کسل مندی اور سستی نہ دکھاؤ۔‘‘
اور ایسے علم سے اللہ تعالی کی پناہ مانگی جو فائدہ مند نہ ہو۔
((وأعوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ))( (مسلم:2722)
’’اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو فائدہ مند نہ ہو ۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اپنے کام سے کام رکھنا اور دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا ، فلاح و کامیابی ہے، عزت اور سکون اور پر وقار و خوشگوار زندگی کا راز ہے۔
یاد رکھیں دوسروں کی خامیوں کو کریدنے والا بھی سکون نہیں پاسکتا، اور انجام بد سے نہیں بچ سکتا۔ بسا اوقات وہ غیر شعوری طور پر اس کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((مِنْ عَلَامَةِ إِعْرَاضِ الله عَنِ الْعَبْدِ أَنْ يَجْعَلَ شُغْلَهُ فِيمَا لَا يَعْنِيْهِ))( جامع العلوم والحكم لابن رجب ، ج:1، ص:294)
’’اللہ تعالی کے اپنے بندے سے اعراض کر لینے کی یہ علامت ہے کہ وہ اس کی مصروفیت لایعنی کاموں میں رکھ دے۔‘‘
فضولیات میں مصروفیات اور لایعنی امور میں دخل اندازی کا ایک انداز ملاحظہ کیجئے:
((دَخَلَ رَجُلٌ عَلٰى عَبْدِ اللهِ بن عُمرَ رضی الله رضي الله تعالي عنهما وَهُوَ يَخْصِفُ نَعْلَيه))
’’ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله تعالی عنهما کے پاس آیا اور وہ اپنے جوتے درست کررہے تھے۔‘‘
((فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمٰنَ لَوْ اَلْقَيْتَ هٰذا النَّعَلَ وَأَخَذْتَ آَخَرَجَدِيْدًا!))
’’کہا: اے ابو عبد الرحمن ! بہتر ہوگا اگر آپ یہ جوتے پھینک کرنئے جوتے لے آئیں۔‘‘
((فَقَالَ: نَعْلِي جَاءَتْ بِكَ هَا هُنَا أَقْبِلْ عَلٰى حَاجَتِكَ))(المنتقى شرح المؤطا، ج:2، ص:212)
’’تو فرمایا: میرے جوتے تمہیں یہاں تک لے آئیں ہیں! جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘
تو دخل اندازی ایک ایسی معاشرتی کوتاہی اور خامی ہے کہ بسا اوقات آدمی بے ساختہ اور غیر شعوری طور پر دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کر جاتا ہے۔
آج اغیار نے امت مسلمہ کو ایسی فضولیات میں دھکیل دیا ہے کہ جس میں نہ صرف یہ کہ دنیا کا کوئی فائدہ نہیں، دین کا فائدہ نہیں، امور آخرت کا فائدہ نہیں بلکہ دن بدن دین سے دور انسان کی صلاحیتیں بڑی محدود ہیں، قوت و طاقت محدود ہے، جب کوئی انسان فضولیات میں وہ قو تیں اور صلاحیتیں صرف کر لیتا ہے تو پھر مفید کاموں کے لیے ہمت نہیں رہتی۔
………………