خوشگوار زندگی کے چند اصول

﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۝﴾(الانعام:161۔ 162)
دنیا کی یہ زندگی اللہ تعالی کی اک بہت بڑی نعمت ہے، یہ زندگی بہت میٹھی، بہت رنگین بہت خوبصورت اور بہت پرکشش ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ اک بہت بڑا امتحان بھی ہے۔ اتنا بڑا کہ اس کے امتحان کے لیے زندگی کے اوقات میں سے کوئی وقت مخصوص نہیں کیا گیا، بلکہ ساری کی ساری زندگی ہی امتحان بنا دی گئی ہے اس کا ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ امتحان ہے۔ حتیٰ کہ موت بھی امتحان ہے۔
﴿ ِ۟الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ؕ﴾(الملك:2)
’’اللہ کہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ۔‘‘
اور حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ))
’’دنیا میٹھی اور سبز ہے۔‘‘
((وَإِنَّ اللهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ)) (مسلم:2742)
’’اور اللہ تعالی تمہیں گزری ہوئی قوموں کا جانشین بنانے والا ہے تا کہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔“
زندگی امتحان ہے، یہ تو سب جانتے ہیں مگر موت کیسے امتحان ہوتی ہے ! شاید اکثر لوگ اس کو نہ سمجھتے ہوں۔
موت اک حقیقت ہے، زندگی کے امتحان میں کامیابی سے گزرنے کے لیے موت کو یاد رکھنا ضروری ہے، تو موت کو یاد رکھنا اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنا اک امتحان ہے اور موت کی حقیقت کو نظر انداز کرنا اور فراموش کر دینا امتحان میں ناکامی کا باعث اور سبب ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ موت لا محالہ ہے ہر ایک کو اس سے گزرنا ہے۔ اور زندگی اور موت دونوں کا اللہ کے لیے ہونا مطلوب ہے۔ ﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝﴾مطلوب ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی کے لیے ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی قربان کر دینے سے دریغ نہ کرے۔ مگر موت فطری طور پر انسان کو ناپسند ہے، اور جب اللہ کی راہ میں زندگی قربان کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کچھ لوگوں پر گراں گزرتی ہے یہ بات۔
﴿ فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّ ذُكِرَ فِیْهَا الْقِتَالُ ۙ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ ؕ فَاَوْلٰی لَهُمْۚ۝۲۰
طَاعَةٌ وَّ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ ۫ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ ۫ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰهَ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْۚ﴾ (محمد:20۔21)
’’اور جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی کہ جس میں قتال کا ذکر تھا تو آپ نے دیکھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری تھی وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھے رہے ہیں جیسے کسی پر موت کے خوف سے بخشی طاری ہو گئی ہو تو ان کے لیے بہتر ہے حکم ماننا اور اچھی بات کہنا پھر جب حکم لازم ہو جائے تو اگر وہ سچے رہیں اللہ سے تویقینًا ان کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘
زندگی کی حقیقت کیا ہے اور زندگی کیسے گزارنی چاہیے، لوگ اس سے لاعلم و بے خبر بھی ہیں اور بے پروا و بے فکر بھی۔ بہت سے لوگ زندگی کی حقیقت صرف اتنی سمجھتے ہیں، جیسا کہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے کہا تھا
بابر بہ عیش کوش که عالم دوباره نیست
’’با بر بس حصول عیش کی سعی و جہد میں لگا رہ کہ دنیا دوبارہ نہیں ہے۔‘‘
اور کچھ لوگ زندگی کا مقصد بس یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی میں کوئی بڑا کام کر کے نام پیدا کیا جائے، جیسا کہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں، لیکن نہیں جانتے کہ یہاں سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی۔
تو اصل کام زندگی گزارتا ہے، اور زندگی کیسے گزاری جائے ؟ اس کے لیے اللہ تعالی نے با قاعدہ ایک مکمل نظام دیا ہے جسے اسلام کہتے ہیں۔
اسلام زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، طریقہ بتاتا ہے، اسلام کے مطابق زندگی گزاری جائے تو اطمینان نفس ملتا ہے اور سکون قلب حاصل ہوتا ہے اور معاشرے میں امن وامان پیدا ہوتا ہے۔
تو زندگی کیسے گزاری جانی چاہیے، یعنی زندگی کیسے خوشگوار، پر سکون، پر امن، بے خوف بے تکلف اور سادہ بنائی جاسکتی ہے؟
یوں تو ہر لحاظ سے اچھی اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے، جسے قرآن پاک نے حیات طیبہ کے نام سے تعبیر کیا ہے مکمل طور پر قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونا ہوگا ، اور یقینی طور پر اسلام کے بنیادی مطالبات کو بائی پاس نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ چند باتیں ایسی ضرور ہیں کہ جن میں خصوصی توجہ دینے سے اور ان پر عمل پیرا ہونے سے بہت سی پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے اور ایک مثالی اور خوشگوار زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یقینًا یہ نہیں کہ پھر اس پر کوئی مصیبت اور کوئی پریشانی نہیں آئے گی اور اسے ہرگز کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی نے زندگی کو ایسا ڈیزائن ہی نہیں کیا، بلکہ فرمایا:
﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍؕ۝﴾ (البلد:4)
’’یقینًا ہم نے انسان کو مشقت میں رہنے والا پیدا کیا ہے۔‘‘
اور یہ بات اللہ تعالی نے قسمیں کھانے کے بعد فرمائی۔
﴿ لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ۝ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ۝﴾(البلد:1۔2)
’’ نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی اور حال یہ ہے کہ اے نبی آپ اس شہر کے مکین ہیں ۔‘‘
﴿وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَۙ۝﴾ (البلد:3)
’’اور قسم کھاتا ہوں باپ کی اور اس کی اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی۔ (یعنی آدم اور اولاد آدم علیہ السلام کی)‘‘
﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍؕ۝﴾ (البلد:4)
’’یقینًا ہم نے انسان کو مشقت میں رہنے والا پیدا کیا ہے۔‘‘
اس کی تفصیل تو بہت طویل ہے کہ انسان رحم مادر کے وقت سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک قدم قدم پر تکلیف اور مشقت میں رہتا ہے۔
اس دنیا میں انسان کو جن مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس کی متعدد انواع و اقسام ہیں، وہ مصیبتیں اور پریشانیاں قدرتی آفات کی صورت میں ہوتی ہیں کبھی اعزاء واقارب میں سے کسی قریبی اور عزیز کی موت کے صدمے کی صورت میں، کبھی بیماری اور حوادث کی شکل میں، کبھی فقر وفاقہ اور غربت و افلاس کی شکل میں اور کبھی اپنی ہی جنس کے لوگوں کی طرف سے آپس کے اختلافات، رہائشی، کھینچا تانی ، کشیدگی اور اندرونی اور بیرونی معاملات میں تناؤ کی صورت میں، وہ قریب کے ہوں یا بعید کے۔
اگر صرف اس ایک قسم کو ہی لیں کہ انسانوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف اور پریشانی کی مشقت کو تو حقیقت یہ ہے کہ اس سے بھی کسی بھی صورت میں نہیں بچا جا سکتا۔
امام ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَجَدتُّ بِخَطِ شَيْخَنَا ، ابنُ قُنْدُس
کہ میں نے اپنے شیخ ابن قندس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی یہ عبارت دیکھی کہ:
أَنَّ أَبَا جَعْفَرِ الْهَرَوِي قَالَ:
ابو جعفر الہروی کہتے ہیں:
كُنتُ مَعَ حاتم الأصم وقد أَراد الحج .
’’میں امام حاتم الاصم رحمہ اللہ کے ساتھ تھا کہ وہ حج کے لیے عازم سفر تھے۔“
فَلَمَّا وَصَل بَغْدَادَ، قَالَ لِي: يَا أَبَا جَعْفَرٍ أَحِبُّ أَنْ الْقَى أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلَ
’’جب بغداد پہنچے تو فرمانے لگے: اے ابو جعفر! میں احمد بن حنبل سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
فسأَلْنَا عَنْ مَنْزِلِهِ وَمَضَيْنَا إِلَيْهِ .
’’ہم نے ان کے گھر کا پتہ پوچھا اور اس طرف چل دیے۔“
فطَرَقْتُ عَلَى أَحْمَدَ البابَ
’’میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔‘‘
فَلَمَّا خَرَجَ ، قُلْتُ يَا أَبَا عَبْدَ اللَّهِ أَخُوكَ حَاتِمٌ.
’’جب وہ باہر تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا: اے ابو عبد اللہ ! یہ آپ کے بھائی حاتم الاصم ہیں۔‘‘
قَالَ: فَسَلَّمَ عَلَيْهِ ، وَ رَحَّبَ بِهِ .
’’انہوں نے ان کو سلام کہا اور خوش آمدید کہا۔‘‘
وَقَالَ لَهُ: بَعْدَ بَشَاشَتِهِ فِيمَ التَّخَلُّصَ مِنَ النَّاسِ يَا حَاتِمُ؟
’’ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے خوشی اور بشاشت بھرے خیر مقدمی الفاظ اور کلمات کے بعد ان سے کہا:
فِيمَ التَّخَلُّصَ مِنَ النَّاسِ يَا حَاتِمُ ؟؟
’’اے حاتم لوگوں کی اذیت سے کسی طرح چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے؟‘‘
قَالَ يَا أَحْمَدُ فِي ثَلَاثِ خِصَالٍ
’’ کہا: اے احمد! تین صفتوں اور خوبیوں کے ذریعے ۔‘‘
قَالَ: وَمَا هُنَّ؟
’’کہا اور وہ کیا ہیں؟‘
قَالَ بِأَن تُعْطِيهُم مَالَكَ ، وَلَا تَأْخُذُ مِنْ مَالِهِمْ شَيْئًا
’’کہا: ایک یہ کہ تم اپنا مال لوگوں کو دور مگر ان کے مال میں سے کچھ نہ لو۔‘‘
وَتَقْضِى حُقُوقَهُم ، وَلَا تَسْقَضِي أَحَدًا مِنْهُمْ حَقًّا لَكَ
’’ اور دوسرے یہ کہ لوگوں کو ان کے حقوق ادا کرو، مگر اپنا حق ان میں سے کسی سے نہ مانگو‘‘
وَتَحَمَّل مَكْرُوهَهُمْ، وَلَا تُكْرِهَ أَحَدًا مِنْهم عَلَى شَيْءٍ
’’اور تیسرے یہ کہ ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف اور سختی کو برداشت کرو، اور خود ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاؤ۔‘‘
فَأَطْرَقَ اَحْمَدُ ، فَنَكَتَ بِإِصْبَعِهِ الْأَرْضَ
’’تو امام احمد نے یہ سن کر خاموش ہو گئے، اور انگلی سے زمین پر لکیریں کھینچنے لگے یعنی سوچ میں ڈوب گئے۔‘‘
ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ .
’’پھر سر اٹھایا اور ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:‘‘
يا حَاتِمُ إِنَّهَا لَشَدِيدَةٌ ، إِنَّهَا لَشَدِيدَةٌ
’’اے حاتم ! یہ تو بہت سخت معاملہ ہے، یہ تو بہت سخت ہے۔‘‘
فقال حاتم:
’’تو امام حاتم فرمانے لگے:‘‘
وَلَيْتَكَ تَسْلَمُ، وَلَيْتَكَ تَسْلَمُ، وَلَيْتَكَ تَسْلَمُ. (کتاب، مراقی الجنان بالسخاء وقضاء حوائج الاخوان / لابن عبد الهادي)
’’اور کاش تم پھر بھی بچ جاؤ، کاش تم پھر بھی بچ جاؤ، کاش تم پھر بھی بچ جاؤ۔ ‘‘
یعنی کاش یہ تین مشکل ترین کام انجام دینے کے بعد بھی تم بچ سکو۔
یہ دنیا کا مزاج ہے، اس سے کسی شخص کو کسی صورت مفر نہیں ہے۔ تو سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ دنیا پھولوں کی سیج نہیں ہے، یہاں دنیا کا کوئی بھی شخص تکلیفوں، پریشانیوں اور مصیبتوں سے نہیں بچ سکتا، فرق صرف اتنا ہے کہ لوگوں کی پریشانیاں عمومًا ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔
زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے اصول:
تو اب آئیے چند ایسے موٹے موٹے اصولوں کا ذکر کرتے ہیں کہ اگر ان پر خصوصی توجہ دی جائے تو زندگی تمام تر مشکلات کے باوجود آسان ہو جاتی ہے اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔
ان میں سے سب سے پہلی چیز ہے صبر صبر کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ معاملہ دنیا کا ہو یا آخرت کا، اس میں صبر درکار ہوتا ہے، یوں تو صبر کا موضوع اک مستقل اور طویل موضوع ہے، تاہم اس سلسلے میں ایک دو باتیں عرض کرتا چلوں۔
صبر کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ اس آیت کریمہ سے لگائیے جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
وَ الْعَصْرِۙ۝۱
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ۝۲
﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْ۠رِ۝۳﴾ (العصر:1۔3)
’’زمانے کی قسم ! انسان یقینًا خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘
یہاں اللہ تعالی نے قسم کھا کر جو بات ارشاد فرمائی وہ یہ کہ کامیابی کے لیے جن چار مستقل صفات کا انسان میں پایا جانا ضروری ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتا۔
ظاہر بات ہے جب وہ دوسرے کو صبر کی تلقین کرے گا تو خود بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے ہو گا۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر صبر کے فوائد اور اس کی ضرورت واہمیت اور اس کی فضیلت کا ذکر یوں فرمایا:
﴿وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ ؕ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ﴾(حم السجدة:34)
’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔‘‘
﴿ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝۳۴﴾(حم السجدة:34)
’’تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ گویا کہ جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘
﴿ وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ۚ وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۝﴾(حم السجدة:35)
’’اور یہ صفت انہی کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے صرف وہی حاصل کر پاتا ہے جو بڑے نصیب والا ہو ۔‘‘
٭ خوشگوار زندگی کے اصولوں میں سے ایک بنیادی اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ زبان کا صحیح استعمال ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ مَا النَّجَاةُ)
’’کہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺکیا چیز نجات کا باعث ہے؟‘‘
اصل نجات اور کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، مگر آپ ﷺنے جو نسخہ تجویز فرمایا وہ دونوں کا میابیوں کے لیے یکساں مفید اور ضروری ہے۔ فرمایا:
(( أَمسِكَ عَلَيْكَ لِسَانَكَ ، وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ ، وَابْكِ عَلٰى خَطِيْئَتِكَ)) (ترمذی:2406)
’’اپنی زبان کو روک لو، اپنے گھر میں رہو، اور اپنے گناہوں پر آنسو بہاؤ۔‘‘
زبان پر ضبط اور کنٹرول کتنا ضروری ہے، اس کی تفصیل احادیث میں بہت بیان ہوئی ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ)) (بخاری: 6018)
’’جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ یا تو اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے ۔‘‘
اب جو اس قاعدے پر عمل پیرا ہو گا کیا اسے دنیا یا آخرت میں اپنی زبان کی وجہ سے کوئی خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے، کیا اسے زبان کے استعمال کی وجہ سے کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے؟ ہرگز نہیں۔
دوسری بات ارشاد فرمائی: ((وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ)) ’’تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہو‘‘
یعنی بغیر اشد ضرورت کے گھر سے نہ نکلو۔ یہ حکم اصل میں فتنوں کے دور کے لیے ہے، جیسا کہ آج کل بھی قریب قریب فتنوں کا دور ہی ہے۔ اور فتنوں کے دور میں کہ جب ہر طرف فتنے سر اٹھائے کھڑے اپنے شکار کا انتظار کر رہے ہوں، اس وقت لوگوں کی اصلاح کی فکر چھوڑ کر اپنا ایمان بچانے کی فکر کرو۔ ورنہ عام حالات میں حکم یہی ہے کہ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہو انہیں نصیحت و موعظت کرتے رہو اور ان کی خیر خواہی کے لیے کوشاں رہو۔ اور گھل مل کر رہنے کی یوں ترغیب دی ، فرمایا:
((اَلمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسِ، وَيَصْبِرُ عَلٰى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِّنَ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلٰى أَذَاهُمْ))
’’وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی تکلیفیں سہتا ہے، اس شخص سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ گھل مل کر نہیں رہتا اور ان کی تکلیفیں نہیں سہتا۔‘‘
مگر فتنوں کے دور میں لوگوں سے دور، کنارہ کش ہو کر رہنے کا حکم ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانِ أَوْ يُوشِكُ أَنْ يَّأْتِي زَمَانٌ ، يُغَرْ بَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةِ، وَيَبْقٰى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ، قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ، فَاخْتَلَفُوا فَكَانُوا هٰكَذَا، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعَهُ)) (ابن ماجة:4032)

’’ فرمایا: تمہارا کیا حال ہو گا جب ایسا وقت آئے گا کہ نیک لوگ چھان کر پرے لوگوں سے الگ کر دیے جائیں گے، ان کے وعدے اور امانت داریاں خلط ملط ہو جائیں گی، انہیں وعدوں کا پاس نہیں رہے گا اور امانتوں میں خیانت کی پروا نہیں ہوگی۔ اور لوگوں میں بس اک بھو سا ہی رہ جائے گا، اور برے لوگ آپس میں یوں گھل مل جائیں گے اور پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈال کر دکھا ئیں ۔‘‘
((قَالُوا: كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولُ اللهِ إِذَا كَانَ ذٰلِكَ‘‘
’’عرض کیا اگر ایسا وقت آجائے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘
قَالَ: ((تَأْخُذُونَ مَا تَعْرِفُونَ))
’’فرمایا جسے صحیح سمجھو اس پر عمل کرنا ۔‘‘
((وَتَذَرُونَ مَا تُنْكِرُونَ))
’’اور جسے برا سمجھو اسے چھوڑ دینا۔‘‘
((وَتُقْبِلُونَ عَلٰى أَمْرٍ خَاصَّتِكُمْ، وَتَذْرُونَ أَمْرَ عَامَّتِكُمْ)) (ابوداؤد:4342)

’’اور تم اپنے خاص خاص لوگوں کے پاس چلے آتا، اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دینا۔‘‘
اور تیسری چیز فرمائی:
((وَابْكِ عَلَى خَطِيتِكَ))
’’اور اپنے گناہوں پر آنسو بہاؤ ۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ جسے حساب کی فکر لاحق ہو جائے وہ دنیا کے کسی معاملے میں بھی کوئی بے راہ روی اختیار نہیں کرتا، اس کے تمام معاملات صاف اور شفاف ہوں گے، اسے دنیا کی کشش اپنا شکار نہ بنا سکے گی۔
یہ تھے خوشگوار زندگی کے چند اصول، کچھ مزید ان شاء اللہ اگلے خطبہ جمعہ میں عرض کریں گے۔
اقول قولي هذا واستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم .
……………….