خطبہ عید الاضحٰی
ان الحمد للہ و الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ
أما بعد
قال اللہ تعالیٰ :
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔
الأنعام : 162
لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ
اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔
الأنعام : 163
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قربانی اور اس کے ساتھ تین مزید باتوں کا حکم دیا ہے
نماز
قربانی
ساری زندگی
اور موت
سب کے سب اللہ رب العزت کے لیے
مگر
عوام الناس کی اکثریت کا یہ عالم ہے کہ قربانی والا فریضہ تو یاد ہے مگر آگے پیچھے والے تینوں احکام بھول چکے ہیں
قربانی تو کرتے ہیں مگر نماز کم ہی پڑھتے ہیں
قربانی تو کرتے ہیں مگر اپنی زندگی اللہ کے لیے نہیں گزارتے
قربانی تو کرتے ہیں مگر اپنی موت کو اللہ کے لیے بنانے کا نہیں سوچتے
مطلب یہ ہے کہ صرف جانور کی قربانی ہی نہیں زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کے لیے قربان کر دیں
جانور کے گلے پر چھری چلانے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ قربان کرنے کی ضرورت ہے
اصل قربانی تو کچھ اور تھی
جیسا کہ کسی نقطہ دان نے بہت کمال کی بات لکھی ہے
کہ اصل قربانی تو باپ بیٹے کی گفتگو تھی دنبہ تو فدیے میں ملا تھا ہمیں دنبہ یاد رہا گفتگو بھول گئے
سبحان اللہ امتحان و آزمائش کی بھی انتہا تھی کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو حکم ملا کہ اپنے ہاتھ سے اپنے خوبصورت بیٹے کو ذبح کر دو مگر وہ بھی اللہ کا بندہ صبر و ثبات کا پہاڑ تھا کہ ذرہ برابر بھی نہ ڈگمگایا آسمان کی نیلی چھت اور زمین کی پشت عجیب منظر دیکھ رہی تھی باپ نے بیٹے کو زمین پر لٹا دیا تیز چھری گلے پر رکھ دی
اس سے بڑھ کر کوئی قربانی نہیں ہوسکتی
پھر گھر چھوڑا، وطن کو الوداع کہا لوگوں نے آگ میں پھینکنے کا پروگرام بنایا تو اس آزمائش کا سامنا بھی کیا حد ہو گئی جب دشمن کی صف اول میں سگے باپ کو کھڑے دیکھا ایک طرف بھڑکتی آگ تھی دوسری طرف دشمن کھڑے تھے اپنی طرفداری میں ایک بھی ذی روح انسان نظر نہیں آ رہا تھا مگر حیرت ہے کہ زبان پر حسبنا اللہ ونعم الوكيل
کا کلمہ جاری تھا
قربانی اسے کہتے ہیں
جو قربانیاں ابراهيم علیہ السلام سے طلب کی گئیں ہم سے بھی انہی کا مطالبہ ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ
یقینا تمھارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اس کے ساتھ تھے ایک اچھا نمونہ تھا
الممتحنة :4
ہمیں بھی یہ قربانی کرنا ہے
لھذا اپنے دنبے کے ساتھ ساتھ دیگر قربانیاں بھی کرتے رہیں
ضرورت پڑے تو اللہ تعالیٰ کی توحید کی خاطر گھر بار چھوڑنے کی قربانی، قوم کے بتوں کو توڑنے کی قربانی، قوم کی رسومات سے منہ موڑنے کی قربانی، رب کے حکم پر بیوی بچے کو صحراء میں چھوڑنے کی قربانی، جلتی چخا میں کودنے کی قربانی، بادشاہ وقت کے سامنے کلمہ حق کہنے کی قربانی، اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے وطن چھوڑ کر ہجرت کر جانے کی قربانی
نسکی کا معنی ہے جانور کو ذبح کرنے کی قربانی
اور محیای کا معنی ہے اپنی انا کو ذبح کرنے کی قربانی
بھائیو!
اپنی اپنی ضد کی گردن پر چھری چلا دیں
ہٹ دھرمی، غصہ اور انا کو قربان کردیں
دلوں میں دشمنیاں نہ پالیں
حسد بغض کینے نکال باہر پھینکیں
محبتیں بانٹیں
ہم نے کوئی یہاں صدیاں نہیں بیٹھ رہنا اپنے ہاتھوں سے کتنے لوگوں کو دفن کیا ہے، کتنوں کی وفات کے اعلان سنے ہیں، کتنوں کو کفن میں لپٹا دیکھ چکے ہیں، کتنے جنازے پڑھ چکے ہیں، کتنوں کو قبر میں اتار چکے ہیں، کتنی قبروں پر مٹی ڈال چکے ہیں
سچی بات ہے کہ ایک دن ہمارا بھی اعلان ہوگا، ہمیں بھی سفید کفن میں لپیٹا جائے گا، ہمارے جنازے کو بھی کندھا دیا جائے گا، ہمیں بھی قبر میں اتار کر مٹی برابر کردی جائے گی
تو
پھر کیوں بات بات پہ غصہ کرتے ہیں، لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، قتل و غارت گری پہ آتے ہیں
یہ غصہ ہے یہ ضد ہے یہ جاہلیت ہے اسے تھوک دیں، ذبح کر دیں، پھینک دیں
ایک لمحے کا غصہ کئی سالوں کی اذیت بن جاتا ہے
دشمنی انسان کا سکون چھین لیتی ھے. کبھی دشمنی والوں کو دیکھا ہے
بندوقیں اور پستول پکے پکے ہی کندھوں اور کمروں کا بوجھ بن جاتے ہیں گلے پڑ جاتے ہیں پھر انسان بھاگتا ھے یہ بوجھ برداشت نہیں ہوتا پھر قسمت والے ہی اس سے بچتے ہیں
یہ جان لے کر یا جان دے کر ہی ساتھ چھوڑتا ہے. نہیں یقین تو یہ دکھ کسی دشمنی والے سے پوچھیں ۔
بات بات پہ پستول تان لینے والے چھوٹی باتوں کو بڑھاوا دینے والے زندگی کی قیمت قبرستان والوں اور آزادی کی قیمت جیل والوں سے پوچھو کیسے دن رات جیل کی سلاخیں دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں .
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے غصے میں آکر غلط قدم اٹھانے والے بڑے بڑے جوان، جیل کی سلاخوں کے ایک طرف خود تو دوسری طرف ان کے چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے ہوتے ہیں
بھائیو!
زندگی جینے کا نام ہے.
خود بھی جیو دوسروں کو بھی جینے دو محبتیں بانٹو ، نفرتیں تو پہلے ھی بہت ہیں.
لھذا صرف جانور ہی قربان مت کریں
عید پر اپنی ضد, انا, حسد اور بدگمانی کو بھی قربان کیجیئے