خطبة الجمعة يوم العيد

﴿ وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ؕ﴾(النحل:92)
’’اور تم اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت اسے مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیا‘‘
ہر مسلمان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزے فرض کرنے کا مقصد تقویٰ جتلایا گیا ہے۔ تزکیہ و تربیت قرار دیا گیا ہے، گناہوں کی مغفرت اور بخشش کا ذریعہ بیان کیا گیا ہے اور قرب الہی کا باعث ٹھہرایا گیا ہے۔
اللہ کے فضل و کرم، اس کے انعام و احسان اور اس کی توفیق سے ہر ایک نے اپنی اپنی ہمت و طاقت اور استطاعت کے مطابق یہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ کون کتنا کامیاب ہوا ہے، اور کس نے کیا پایا؟ اور کیا مقام حاصل کیا؟، کوئی کسی قدر مغفرت و بخشش حاصل کر سکا؟ اور کتنا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں اقبال مند اور بختاور رہا؟ یہ تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے مگر کچھ نہ کچھ سعی و جہد تقریبا ہر شخص نے ضرور کی ہوگی۔
تھوڑی اور زیادہ کی بات نہیں ہو رہی، مگر جس نے جتنی بھی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش اور پیش قدمی کی، کم از کم اس پر تو قائم رہے، اس سے تو پیچھے رہے۔
کسی نے نماز کی پہلے سے زیادہ پابندی کی کسی نے نوافل کا پہلے سے زیادہ اہتمام کیا، کسی نے صدقہ و خیرات میں پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کسی نے قرآن پاک کی پہلے سے زیادہ تلاوت کی۔ جو تقریبا ہر ایک شخص نے اپنے اس سفر میں کہ جو شعوری یا غیر شعوری طور پر اللہ تعالی کی جانب طے کر رہا ہے مستعدی اور تیز رفتاری دکھائی اور شوق سے قدم پڑھائے ، وہ سفر کہ جس پر انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر پیہم رواں دواں ہے۔
جس کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں
﴿ یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰی رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ۝﴾(الانشقاق:6)
’’ اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے۔ بالآخر اس سے جارہا ملاقات کرنے والا ہے۔‘‘
کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے، کوئی اپنی مرضی اور حاجت سے اس سفر پر رواں ہو یا دھکیلا جا رہا ہو، اسے ہر حال میں یہ سفر طے کرتا ہے اور بالآخر اپنی منزل پر پانی کے رہتا ہے اور ایک دن اپنے رب کے حضور پیش ہوتا ہے۔ اور اوریقینًا اس سفر میں کہ جس پر انسان دھکیلا جا رہا ہو اور اس سفر میں کہ جو وہ شوق اور رغبت سے طے کر رہا ہو اور ﴿ وَ عَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰی۝﴾ (طه:84) اور میں جلدی کر کے تیرے حضور حاضر ہو گیا ہوں اے میرے رب تا کہ تو راضی ہو جائے ۔ کا منظر پیش کر رہا ہو بہت فرق ہے، اور قدر دانی اسی سفر کی ہوتی ہے جس پر انسان شوق اور خواہش سے رواں دواں ہو اور اس کی قدردانی یوں ہوتی ہے، حدیث میں ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتے ہیں:
((إِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ إِلَىِّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا))
’’بندہ جب ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں ۔‘‘
اور ذراع کہنی تک ہاتھ کو کہتے ہیں۔
((وَإِذَا تَقَرَّبَ إِلَى ذِرَاعًا تَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ بَاعًا))
’’اور جب وہ ایک ہاتھ میری طرف آتا ہے تو میں ایک بازو پھر اس کے قریب ہو جاتا ہوں ۔‘‘
((وَإِذَا أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً))(بخاري:7405)
’’اور جب وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں تیزی سے چلتا ہوا اس کی طرف جاتا ہوں ۔‘‘
تو انسان کے اللہ کی طرف اس سفر کی مختلف حالتیں اور کیفیتیں ہوتی ہیں، کبھی وہ نماز کی طرف چل کر جاتے ہوئے یہ سفر طے کرتا ہے، کبھی جہاد میں اپنی ایمانی قوت و طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اپنی مہارت کے جوہر دکھاتے ہوئے اللہ تعالی کی طرف بڑھتا ہے۔ کبھی وہ نماز میں قیام کی صورت میں اللہ تعالی کی طرف سفر پر گامزن ہوتا ہے اور کبھی رکوع وجود، اور صدقات و خیرات کی شکل میں راہ رو منزل ہوتا ہے۔
تاہم ہر شخص نے رمضان المبارک میں عام دنوں کی نسبت کچھ نہ کچھ بہتری کی طرف ہی قدم بڑھایا ہے۔ لہٰذا اب اس کے ان تمیں دنوں کی محنت اور کوشش کے حوالے سے اس پر اتنی بات تو لازم ٹھہرتی ہے جو کہ عقلمندی کا تقاضا ہے، اور قبول اعمال کی علامات میں سے ہے کہ کم تقاضا ہے، اور قبول اعمال کی علامات میں سے ہے کہ ہم از کم اس پر ضرور قائم رہے، اس کی حفاظت کرے اور ریورس گیئر نہ لگائے۔ ورنہ اس کی مثال اس احمق عورت کی کسی ٹھہرے گی جس کا اللہ تعالی نے قرآن پاک میں یوں ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ؕ﴾(النحل:92)
’’اور تم اس عورت کی طرح نہ ہو جاتا جس نے بڑی محنت سے موت کا تا اور پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکرے کر دیا۔‘‘
چنانچہ ان تیس دنوں کی محنت پر خود ہی پانی پھیرنے والا اس عورت کی مثل ٹھہرے گا۔ لہٰذا ایک بری مثال بنے سے بچیں، حدیث میں بھی بری مثال بننے سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بھی رضی اللہ تعالی عنہ یان کرتے ہیں کہ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ ((يَا عَبْدَ اللَّهِ لَا تَكُنْ مِثْلَ فُلَانَ كَانَ يَقُوْمُ اللَّيْلَ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ))(بخاري:1152)
’’اے عبداللہ ! فلاں شخص کی طرح نہ ہو جاتا جو رات کو تہجد پڑھا کرتا تھا، پھر اس نے تہجد چھوڑ دی۔‘‘
لہٰذا اس محنت سے کاتے ہوئے سوت کو اپنے ہی ہاتھ سے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی عورت کی طرح ہو جانے سے بچنے کے لیے آپ ﷺکی سکھائی ہوئی دعا ضرور پڑھا کریں:
يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلٰى دِيْنِكَ))(ترمذي:2140)
’’اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھے۔‘‘
((وَ يَا مُصِّرفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قَلْبِي عَلٰى طَاعَتِكَ))(مسلم:2654)
’’اور اے دلوں کو پھیر دینے والے میرے دل کو اپنی طاعت کی طرف پھیر دے۔‘‘
اور قرآن پاک میں سکھائی گئی دعا بھی ورد زباں رہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۝﴾ (ال عمران:8)
’’اے ہمارے رب جب تو ہمیں سیدھے رستے پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دینا، تیڑ ھے نہ کر دینا۔‘‘
اور اس دعا کو علم میں پختہ لوگوں کی دعا بتلایا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو دلوں کی کبھی سے محفوظ فرمائے۔ آمین
اقول قولى هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم .
…………….