خواہش پرستوں کی صحبت سے بچنا چاہیے

265۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ ؔۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۷﴾

’’وہی تو ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں وہی کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہات، یعنی ملتی جلتی ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انھیں معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان کے حقیقی معنی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، ہاں جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں: ہمارا ان پر ایمان ہے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق تو صرف دانش مند ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (آل عمران: 7:3)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ آیت کی تلاوت فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((فَإِذَا رَأَيْتِ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهُ مِنْهُ فَأُولٰئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللهُ فَاحْذَرُوهُمْ)) (أخرجه البخاري:  4547، ومسلم: 2665)

’’جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کریم کی متشابہ آیات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے اصحاب زیغ (ٹیڑھے دل والے) رکھا ہے۔ ایسے لوگوں سے اجتناب کرو۔‘‘

266۔سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْيَنْأْ مِنْهُ… ثَلَاثًا يَقُولُهَا… فَإِنَّ الرَّجُلَ يَأْتِيهِ يَتَّبِعُهُ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ بِمَا يُبْعَثُ بِهِ مِنَ الشَّبُهَاتِ)) (أَخْرَجَهُ أَحمد: 19968، وأبوداؤد:4319، والحاكم: 531/4 وابن أبي شيبة: 129/15، والبزار في مسنده 3590)

’’جو شخص دجال کے بارے میں سنے تو وہ اس سے دور رہے……. آپﷺ نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی…. اس لیے کہ جب بندہ اس کے پاس آئے گا تو اس کی پیروی کرے گا اور وہ یہی خیال کرتا ہوگا کہ یہ سچا ہے ان شبہات کی وجہ سے جو اس کی طرف اٹھائے جائیں گے۔‘‘

 توضیح و فوائد:  مطلب یہ ہے کہ جو لوگ واضح آیات کے بجائے متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں، ان سے دوستی نہ کرو بلکہ ان سے بچ کر رہو کیونکہ ان کی صحبت تمھارا دین بھی بگاڑ سکتی ہے۔ انسان کا عقیدہ کتنا ہی پختہ ہو ایسے برے لوگوں کی صحبت سے دور رہنے ہی میں عافیت ہے۔

267۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:

((الرَّجُلُ عَلٰى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ)) (أخرجه أبو داود:4833، والترمذي:2378)

’’انسان اپنے محبوب ساتھی کے دین پر ہوتا ہے۔ تو تمھیں چاہیے کہ غور کرو تم کس سے دوستی کر رہے ہو۔‘‘

268۔سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا:

((لا تُصَاحِبُ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِي)) ( أخرجه أحمد: 11337، و أبوداؤد:4832، الترمذي: 2395)

’’تم صرف مومن آدمی کی صحبت اختیار کرو اور تمھارا کھانا بھی متقی لوگ ہی کھائیں۔ ‘‘

169۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((إِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِيسِ السَّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيرِ. فَحَامِلَ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً،

وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً)) (أخرجه البخاري:5534، ومسلم:2628)

’’نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی پھو لکھنے والے (لوہار) کی سی ہے۔ کستوری بیچنے والا مجھے ہدیہ دے گا یا تو اس سے خرید لے گا یا کم از کم تو اس کی عمدہ خوشبو سے محفوظ ہوگا۔ اور بھٹی پھونکنے والا (لوہار)  تیرے کپڑے جلا دے گا یا کم از کم تجھے اس کے پاس بیٹھنے سے ناگوار ہو اور دھواں ضرور پہنچے گا۔‘‘

توضیح و فوائد:  ایک دوسرے سے ملنا جلنا ہر انسان کی ضرورت ہے۔ ظاہر بات ہے ملنے والے اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہاں مقصود صرف ملتا نہیں بلکہ دوستی مقصود ہے۔ اسی طرح حدیث نمبر 268 کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی کسی برے انسان کو کھانا کھلا ہی نہیں سکتا۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ خصوصی عزت و احترام کے ساتھ ضیافت کا کھانا صرف متقی کو کھلانا چاہیے اور دوستی بھی صرف مومن سے کرنی چاہیے۔ برے آدمی کی دوستی بہر حال مضر ہے۔

………………….