کسی سے دنیاوی چیز مانگنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دینا حرام ہے، تاہم آخرت سے متعلقہ کام میں جائز ہے

548۔سیدنا معاویہ بن حیدہ  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا:  اللہ کے رسول! میں آپ سے اللہ کے چہرے کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ کو ہمارے رب نے کسی چیز کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا:

((بالإسلام)) ’’اسلام کے ساتھ۔‘‘

میں نے کہا:  اللہ کے نبی! اسلام کی نشانی کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((أَنْ تَقُولَ:  أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ)) (أخرجه الحاكم:600/4)

’’(اسلام) یہ ہے کہ تم کہو میں نے اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع کر دیا اور نماز قائم کرو اور زکاة ادا کرو۔‘‘

549۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَا يُسْأَلُ بِوَجْهِ اللهِ إِلَّا الْجَنَّةُ)) (أخرجه أبو داود:1071، بإسناد ضعيف، ففيه سليمان بن معاذ قد تكلم فيه غير واحد.)

’’اللہ کے چہرے کا واسطہ دے کر صرف جنت ہی کا سوال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

550۔ یحیی بن سعید رحمۃ اللہ علیہ  سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا:  رسول اللہﷺ کو اسراء کرائی گئی،  (وہاں) آپ نے جنوں میں سے ایک دیو دیکھا، وہ آگ کا ایک شعلہ لے کر آپ ﷺ کا تعاقب کر رہا  تھا، رسول اللہﷺ جب بھی التفات فرماتے تو اسے دیکھتے، جبریل علیہ السلام نے آپﷺ سے فرمایا:  کیا میں آپ کو چند ایسے کلمات نہ سکھاؤں جو آپ پڑھیں، جب آپ وہ کلمات پڑھیں گے تو اس کا شعلہ بجھ جائے گا اور وہ منہ کے بل گرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ((بَلٰی)) ’’کیوں نہیں۔‘‘

جبریل علیہ السلام نے فرمایا  (تو یہ کلمات پڑھیے):

((أَعُوذُ بِوَجْهِ اللهِ الكَرِيمِ، وَبِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ اللَّاتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ، مِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ، وَشَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا، وَشَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَشَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، وَمِنْ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَمِنْ طَوَارِقِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، إِلَّا طَارِقًا يَّطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ)) (أخرجه مالك في المؤطا: 950، 951/2)

’’میں اللہ عز وجل کے معزز چہرے کی پناہ میں آتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ان کلمات تامہ کی پناہ حاصل کرتا ہوں جن سے کوئی نیکوکار نہ فاجر ہی تجاوز کر سکتا ہے، اس چیز کے شر سے جو آسمان سے اترتی ہے اور اس چیز کے شر سے جو آسمان میں چڑھتی ہے اور اس چیز کے شر سے جو اس نے زمین میں پھیلائی ہے اور اس چیز کے شر سے جو زمین سے نکلتی ہے اور دن رات کے فتنوں سے اور لیل و نہار میں پیش آنے والے حوادث و واقعات  (کے شر) سے، مگر اے رحمان! رات کو آنے والی وہ چیز جس کی آمد بھلائی اور خیر کےساتھ ہو۔‘‘

551۔ سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ پر جب  (سورہ انعام کی) یہ آیت

نازل ہوئی:  ﴿قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰى أَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ﴾  (الأنعام65:6)

’’کہہ دیجیے وہی  (اللہ) تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیجنے پر قادر ہے۔‘‘

 تو آپﷺ نے دعا کی:

((أَعُوذُ بِوَجْهَكَ)) ’’اے اللہ ! میں تیرے با عظمت چہرے کی پناہ نہیں آتا ہوں۔‘‘ ﴿أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ﴾ ’’یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے  (عذاب آ جائے)‘‘

اس مرتبہ، پھر آپ ﷺ نے دعا کی:

((أَعُوذُ بِوَجْهِكَ))

’’اے اللہ! میں تیرے مبارک چہرے کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

پھر جب اس سے اگلے الفاظ نازل ہوئے: ﴿أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ﴾

یا تمھیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور تمھارے بعض کو بعض کی لڑائی  (کا مزہ) چکھائے۔‘‘

تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((هَاتَانِ أَهْوَنُ، أَوْ أَيْسَرُ )) ’’یہ دونوں (سزائیں پہلے کی نسبت) آسان اور سہل ہیں۔‘‘

(أَخْرَجَهُ البُخَارِي:4628، 7313، 7406)

552 سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَلْعُونٌ مَنْ سَأَلَ بِوَجْهِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ، وَمَلْعُونٌ مَنْ سُئِلَ بِوَجْهِ اللهِ ثُمَّ مَنَعَ سَائِلَهُ مَا لَمْ يُسْأَلْ هُجْرًا))

’’وہ شخص لعنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر مانگے اور وہ شخص بھی ملعون ہے جس سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا گیا لیکن اس نے سائل کو کچھ نہ دیا، ہاں اگر سائل بے ہودہ طریقے سے مانگے تو اسے رد کیا جا سکتا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد:  دینی مسئلہ دریافت کرنے کے لیے کسی کو اللہ کا واسطہ دینا جائز ہے، اسی طرح اللہ تعالی کے عذاب سے پناہ مانگنے کے لیے اللہ تعالی کو اس کی ذات کا واسطہ دینا بھی جائز ہے۔ کسی سے اللہ کا واسطہ دے کر دنیا کا مال طلب کرنا ناجائز ہے کیونکہ جس سے مانگا جا رہا ہے اگر وہ نہیں دیتا تو سوال کرنے والا اور جس سے مانگا جا رہا ہے دونوں گناہ گار ہوں گے کیونکہ کسی نے بھی اللہ کے نام کی لاج نہیں رکھی۔ اگر کوئی اللہ کا واسطہ دے کر مانگے تو اسے خالی لوٹانا جائز نہیں کیونکہ اللہ کے نام کی لاج رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے، تاہم اگر مانگنے والا کوئی شرکیہ کلمات ہوتا ہے، یعنی غیر اللہ کے نام کا مانگتا ہے یا کسی حرام چیز کا سوال کرتا ہے یا پیشہ ور بھکاری ہے اور دولت جمع کرنے کے لیے مانگ رہا ہے تو اسے نہیں دینا چاہیے۔

(أخرجه الطبراني في الكبير:943/33، وفي الدعاء:  2112، ورواه الدولابي في الكنى:43/1)