کون سا جہاد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے؟
386۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((اللَهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِهِ، وَاللهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِهِ))
’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔“(ذكره البخاري في الترجمة قبل الحديث:2898، وقوله: والله أعلم بمن يكلم في سبيله جزء من حديث أبي هريرة عند مالك:461/2، والبخاري: 2803، ومسلم: 1876، 105، وأحمد:7302، وابن حبان: 4652،
والحميدي: 1092، وسعيد بن منصور في سننه: 2571 و 2572، والنسائي:29، 28/6 والبيهقي في السنن: 164/9، وفي المعرفة:2099، والبغوي في شرح السنة:2613، والطبراني في الأوسط: 2417.)
387۔سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مشرکین سے مڈ بھیڑ ہو گئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر رسول اللہ ﷺ جب اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف روانہ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے ساتھ ایک شخص تھا جو مشرکین میں سے الگ ہونے والے یا اکیلے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس (الگ ہونے والے) کا پیچھا کرتا اور اپنی تلوار سے وار کر کے اس کا کام تمام کر دیتا۔ سیدنا سہل ﷺ نے اس کے متعلق کہا: آج جس قدر بے جگری سے فلاں شخص لڑا ہے ہم میں سے کوئی بھی اس طرح نہیں لڑ سکا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا:
((أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ)) ’’وہ تو اہل جہنم میں سے ہے۔‘‘ (أَخْرَجَهُ اليُخَارِي: 2898، وَمُسْلِمٌ:112)
مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں اس کا پیچھا کروں گا۔ یہ شخص بھی اس کے ساتھ نکلا، جہاں وہ رک جاتا یہ اس کے ہمراہ ٹھہر جاتا اور جب وہ جلدی چلتا تو یہ بھی اس کے ہمراہ جلدی چلتا۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ آخر وہ شخص شدید زخمی ہو گیا اور زخموں سے تنگ آکر اس نے جلد ہی موت کو دعوت دی کہ تلوار کا پھل تو اس نے زمین پر رکھ دیا اور اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابلے میں کر لیا، پھر اپنی تلوار پر جھک کر اپنے آپ کو قتل کر لیا۔ اب وہ (پیچھا کرنے والے) صحابی رسول الله ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
آپ نے پوچھا: ((وَمَا ذَاكَ؟)) ’’کیا بات ہے؟“
اس نے کہا: وہ شخص جس کے متعلق آپﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اور لوگوں پر آپ کا یہ فرمان بہت گراں گزرا تھا، میں نے ان سے کہا کہ میں تم سب لوگوں کی طرف سے اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں، چنانچہ میں اس کے پیچھے ہولیا۔ اس کے بعد وہ شخص شدید زخمی ہوا اور جلد ہی موت کو دعوت دی کہ اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا، پھر اس پر خود کو گرا کر اپنے آپ کو قتل کر لیا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ))
’’ایک شخص زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے سے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔ ‘‘
توضیح و فوائد: ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اندھا دھند غازی اور شہید کے القاب دینے میں احتیاط برتی جائے کیونکہ حقیقت حال سے صرف اللہ تعالی ہی واقف ہے۔
………………..