کفار کی مشابہت
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤی اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ﴾ [آل عمران:149، 150]
’اللہ رب العزت نے کتاب مجید میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کو خبردار کیا ہے کہ کفار کے عقائد و اعمال اور رسم و رواج نہ اپناؤ اہل کفر کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ عقیدہ و عمل لباس و حجامت خوشی تھی اور سیرت و کردار میں کافروں کی تقلید نہ کرو۔ اور کفار کی مشابہت اور تقلید کو انتہائی خطرناک اور مہلک قرار دیا ہے۔
سورة البقرة میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ﴾ [البقرة:120]
’’اگر تم تعلم آ جانے کے باوجود کافروں کی خواہشات کی پیروی کرو گے تو اللہ کے مقابلے میں تمہارا کوئی دوست اور حمایتی نہیں ہو گا۔‘‘
سورة آل عمران میں فرمایا:
﴿يا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِنْ تُطِيْعُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا﴾ [آل عمران:149]
’’ایمان والو! اگر تم کافروں کا کہا مانو گے وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پھیر دیں گے (یعنی نہیں مرید بنا دیں گے) پھر تم بہت بڑا خسارہ پاؤگئے۔‘‘
سورة المائدة میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۵۷وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًا ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ۵۸﴾ [المائدة: 57]
غور کیجئے! اہل ایمان کی ایمانی غیرت وحمیت کو ابھارتے ہوئے فرمایا:
’’ایمان والو! وہ یہود و نصاری اور دوسرے کافر جو تمہارے دین کا تمسخر اڑاتے ہیں اُنہیں دوست نہ بناؤ (اُن کی تقلید و مشابہت نہ کرو) اگر تم مؤمن ہو تو اللہ سے ڈر جاؤ اور ان کی دوستی اور مشابہت سے باز آ جاؤ) وہ تو اتنے بے وقوف اور احمق ہیں کہ جب تم اللہ کی عبادت نماز کے لیے اذان کہتے ہو (لوگوں کو خالق و مالک کی بارگاہ میں قیام رکوع اور سجود کے لیے بلاتے ہو) وہ تمہاری اذان کا مذاق اُڑاتے ہیں (اس لئے قطعاً اُن کی پیروی نہ کرو اور اُن کے دام قریب میں نہ آؤ۔‘‘
سورۃ آل عمران میں ایک مقام پر تو بڑے زبردست انداز میں کافروں کی دوستی اور اطاعت و مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ وہاں اللہ رب العزت نے دو اہم نکتے بیان فرمائے ہیں۔
دوسرا نکته:
﴿هٰاَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ﴾ [آل عمران:119]
’’تم اُن سے جتنی مرضی محبت کرو وہ قطعاً تم سے محبت نہیں کریں گے۔‘‘
اور یہ حقیقت ہے ہر دور میں کافروں کی ایجنٹی کرنے والوں کا انجام خطرناک ہوتا ہے کافر اس سے مطلب نکال کر اس کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔
بہر حال کفار کی مشابہت و تقلید دنیا و آخرت میں ناکامی اور ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔ حدیث میں بھی ہے:
(مَنْ تَشَبَّهُ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) [سنن ابی داود (4031) و صحیح ابی داود (3401) تحفة الأشراف (375/6)]
’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہو گا۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ نے انداز بدل بدل کر کفار کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ شکل وصورت عقل و فکر لباس و حجامت اور قوی و عمل میں اُن کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا۔ لیکن اتنی وضاحت و صراحت کے باوجود آج مسلمانوں میں بہت ساری چیزیں کافرقوموں والی سرایت کر گئی ہیں۔
ماہ صفر اور بدشگونی:
دور قدیم سے ہی کافرقوموں میں مختلف چیزوں کے منحوس ہونے کا تصور پایا جاتا ہے جو تو ہم پرستی کے سوا کچھ نہیں، بعض مسلمان بھی غیر مسلموں سے متاثر ہو کر اس تو ہم پرستی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ بعض دنوں اور مہینوں کو شادی یا سفر کے حوالے سے منحوس سمجھا جاتا ہے۔ بعض ایام کو کاروبار کے حوالے سے منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ صبح صبح ادھار مانگنے یا اُدھار پر سودا خریدنے کو منحوس تصور کیا جاتا ہے۔ اُلو کا بولنا بلی کا راستہ کاٹنا وغیرہ۔
مسلمانوں میں یہ تمام توہمات یہود و ہنود سے سرایت کر گئے ہیں۔ آج بہت سارے مسلمان منگل اور بدھ کو کاروبار یا سفر کے حوالے سے منحوس خیال کرتے ہیں۔ اور ماہ صفر کو نکاح کے حوالے سے منحوس کہتے ہیں۔ ماہ صفر چونکہ اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے اور اُس کی ابتداء ہو چکی ہے۔ اس مناسبت سے میں نے اس مضمون کو منتخب کیا ہے تا کہ قرآن وسنت کی رو سے بدشگونی اور نحوست کے متعلق عام لوگوں کی راہنمائی کر دی جائے۔
قرآن مجید میں بدشگونی اور نحوست کو کافروں کا عقیدہ کہا گیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں فرعونیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَ مَنْ مَّعَهٗ ؕ﴾ [الأعراف:131]
’’اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی تو اُسے موسیٰ علیہ اور اُن کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔‘‘
سورۃ یسین میں اُس بستی کا واقعہ پڑھیے جس کی طرف تین پیغمبر مبعوث کیے گئے تھے۔ اس بستی کے لوگوں نے بھی اپنے پیغمبروں سے کہا:
﴿إِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْ﴾ [يس: 18)
’’ہم تو تمہیں منحوس سمجھتے ہیں۔‘‘
غرضیکہ نحوست اور بدشگونی کافر قوموں کا شیوہ و شعار ہے اس لیے رسول اللہﷺ نے اپنے ارشادات گرامی میں اس کی تردید فرمائی ہے۔ صحیح البخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لا عدوى وَلَا هَامَّةً وَلَا صَفَرَ) [صحیح البخاري، كتاب الطب، باب لا صفر وهو ده ياخذ البطن (5717)]
’’کوئی متعدی بیماری نہیں اور انو کی نحوست نہیں اور ما و صفر کی نحوست نہیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ ارشاد گرامی میں جاہلی توہمات میں سے تین کی تردید فرمائی ہے۔
1۔ بیماری کا متعدی ہونا:
آپ ﷺ نے کسی بھی بیماری کے متعدی ہونے کی نفی فرمائی ہے حتی کہ ایک دیہاتی نے عرض کیا: ہم دیکھتے ہیں کہ اونٹوں کے باڑے میں تمام اونٹ ہرنوں کی طرح صاف اور چمکدار ہوتے ہیں پھر ایک اونٹ کو خارش پڑتی ہے تو رفتہ رفتہ تمام اونٹ خارش زدہ ہو جاتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا: ’’پہلے کو خارش کس نے لگائی ہے؟‘‘[صحيح البخاري، كتاب الطب، باب لا عددي، وقمغ 5775]
آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح پہلے اونٹ میں ابتداء (کسی سے متعدی ہوئے بغیر) خارش پڑی ہے اسی طرح تمام اونٹوں میں ابتداء خارش پڑی ہے ایک دوسرے سے خارش زدہ نہیں ہوئے۔
2۔ الو کا منحوس ہونا:
عرب کے لوگ اُلو کو منحوس قرار دیتے تھے آپﷺ نے اس کی نفی کر دی۔
3۔ ماہ صفر کا منحوس ہونا:
جاہلیت میں ماہ صفر کو منحوس خیال کیا جاتا تھا۔ جس طرح آج بھی لوگ کہتے ہیں: جو صفر میں شادی کرلے گا وہ سفر میں ہی پڑا رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تردید فرمادی اور واضح کر دیا کہ ماہ صفر کی کوئی نحوست نہیں۔
صحیح البخاری کی ایک اور حدیث میں ہے: (ولا طیرہ) اس میں ہر قسم کی نحوست اور بدشگونی کی نفی کر دی گئی ہے۔
حقیقت ہے دین اسلام کسی مہینے ان گھڑی اور پرندے وغیرہ کو منحوس قرار نہیں دیتا اس لئے ہمیں اللہ تعالی پر ایمان اور توکل مضبوط اور پختہ کر کے ان تمام جاہلی توہمات اور مشرکانہ تصورات سے پرہیز کرنا چاہئے۔
﴿رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ اَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيْرُ﴾ [الممتحنة: 4]
اسی طرح موجودہ دنوں میں کھیلا جانے والا کھیل جسے بسنت اور جشن بہاراں کا نام دیا جاتا ہے یہ بھی در حقیقت ہندوؤں کا تہوار ہے اور ہندو عقیدہ و اخلاق میں دنیا کی بدترین قوم ہے اور مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ ایسے دشمنوں کی نقل اُتارنا دانشمندی اور ہوشمندی نہیں ہے اور یہ ایک ایسا تہوار ہے جس میں صرف ہندوؤں کی مشابہت ہی نہیں بلکہ بہت بڑا جانی و مالی نقصان بھی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہونے والی ہلڑ بازی آتش بازی اور بے پردگی اور بخش ریکارڈنگ اندھیرے پر اندھیرا ہے۔ ہر سال یہ تہوار کتنے معصوم بچوں کو نگل لیتا ہے اور کئی غافل بالغ بھی چھت سے گر کر یا بجلی سے لگ کر بدترین موت مرتے ہیں۔ دین اسلام تو ایسے فضول کام کرنے سے بھی روکتا ہے جن کاموں میں انسان کا نقصان بھی نہیں لیکن فائدہ بھی نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
(مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ)[جامع الترمذي، وتحفة الأشراف (381/9) (313/11) حسن]
’’آدمی کے اچھا مسلمان ہونے کی علامت ہے کہ وہ لایعینی اور فضول کام بھی چھوڑ دے۔‘‘
جبکہ بسنت میں کتنے سارے اخلاقی دینی اور مالی و جانی نقصانات ہیں لیکن اس کے باوجود ہر وقت معاشی زوال اور کاروباری نقصان کا رونا رونے والی یہ قوم اس تہوار کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔
امت مسلمہ کو تو دنیا کی راہنمائی و قیادت کا عظیم منصب سونپا گیا تھا:
﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ﴾ [آل عمران: 110]
ہم نے لوگوں کو اچھائی پر لگانا تھا، کافرقوموں کو سیدھی راہ پر کھڑا کرنا تھا برائیوں سے باز کرنا تھا، لیکن ہم خود نیکی کو خیر باد کہنے والے اور برائی کا ارتکاب کرنے والے بن گئے اور ہندوانہ تہواروں اور دیگر کھیل تماشوں میں مشغول ہو گئے۔ اور اسلام کا امتیاز کھو بیٹھے۔ اور جو فضیلت ہمیں ملی ہے اُس سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اللہ تعالی ہماری عظمت رفتہ بحال کرے اور ہمیں اپنا مقام پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)