لفظ لَو ( کاش) کے استعمال کی جائز صورتیں

901۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے روزوں میں وصال (ایک روزے کو افطار کیے بغیر دوسرے سے ملانے) سے منع فرمایا تو مسلمانوں میں سے کسی شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول!

آپ تو وصال کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((وَأَيُّكُمْ مِثْلِى إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ))

’’تم میں سے کون شخص میری طرح ہے! میں رات کو سوتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے۔‘‘

 لیکن جب وہ لوگ روزے میں وصال سے باز نہ آئے تو آپﷺ نے ان کے ہمراہ ایک دن کچھ نہ کھایا، دوسرے دن بھی کچھ نہ کھایا، پھر عید کا چاند طلوع ہو گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ((لوْ تَأَخَّرَ لَزِ دتُّكم)) (أخرجه البخاري:1965، 6851، 7242، 7299، ومسلم:1103)

’’اگر چاند ظاہر نہ ہوتا تو میں تم سے مزید وصال کے روزے رکھواتا۔‘‘

 گویا جب وہ وصال کے روزوں سے باز نہ آئے تو آپ نے انھیں سزا دینے کے لیےیوں فرمایا۔

902۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے حج کا احرام باندھا لیکن نبیﷺ اور سیدنا طلحہ کے علاوہ کسی کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ یمن سے تشریف لائے تو ان کے پاس بھی قربانی موجود تھی۔ انھوں نے کہا: میں نے نبیﷺ کے احرام جیسی نیت کی تھی، چنانچہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ حج کے احرام کو عمرے سے بدل لیں اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد سروں کے بال چھوٹے کرائیں اور احرام کھول دیں، ہاں جس کے پاس قربانی کا جانور ہے وہ احرام نہ کھولے۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے آپس میں گفتگو کی کہ ہم منی کی طرف اس حالت میں جائیں گے کہ ہمارے اعضائے تناسل منی ٹپکار رہے ہوں گے (یعنی جب احرام کھول دیں گے اور بیویوں سے مباشرت جائز ہو گی تو تازہ تازہ مباشرت کی وجہ سے دھیان اس طرف ہو گا) جب نبی ﷺ کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی یہ بات پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا:

((لوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا أَهْدَيْتُ، وَلَوْ لَا أَنَّ مَعِيَ الْهَدْىَ لَأَحْلَلْتُ)) (أخرجه البخاري:1651، و مسلم: 1216)

’’جس بات کا مجھے اب علم ہوا ہے اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‘‘

903۔ عبدالله بن شداد بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ ہوا تو ابن شداد نے پوچھا: کیایہی دونوں تھے جن کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا تھا:

((لوْ كُنْتُ رَاجِمًا أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَ جَمْتُهَا))؟ (أخرجه البخارِي: 6855، وَمُسْلِمٌ:1497(13)

’’اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرتا تو اس (عورت) کو رجم کرتا۔‘‘

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا: نہیں، وہ عورت علانیہ (برائی) کرتی تھی۔

توضیح و فوائد: اگر کس کو خبردار کرنا مقصود ہو تو لفظ کو (اگر) کا استعمال جائز ہے، مثلاً: یہ کہنا کہ ’’اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمھیں سزا ملے گی۔‘‘ اسی طرح اگر آدمی سے کوئی اچھا کام سستی کی وجہ سے رہ جائے تو اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کاش میں ایسا کر لیتا تو اس نیکی کے کام سے محروم نہ ہوتا۔ مزید بر آن کسی شرعی حکم کی وضاحت کے لیے اگر لفظ کاش استعمال کرنا پڑے تو یہ جائز ہے جیسا کہ حدیث مذکور میں ہے۔