لوگوں کو لڑانا بھڑانا شیطان کا بدترین ہتھکنڈا
﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
تین جمعوں کے وقفے کے بعد ایک بار پھر ہم اپنے اسی پرانے موضوع پر گفتگو کرنے جارہے ہیں اور وہ موضوع جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انسان کے سب سے بڑے، جھگڑالو، متعصب، ضدی، ہٹ دھرم، گھٹیا، نیچے اور شدید انتظام رکھنے والے دشمن شیطان ابلیس اور اس کی ذریت کی چالوں سے آگاہی حاصل کرنے کا اک سلسلہ ہے۔ شیطان انسان سے یقینًا ہر قسم کے گناہ کروانے کی ہر ممکن اور بھر پور کوشش کرتا ہے، جس میں سر فہرست شرک ہے۔ آپ سلام کی بعثت کے بعد شیطان جزیرہ العرب میں تمام کے تمام نمازیوں کو شرک میں مبتلا کرنے سے مایوس ہو گیا۔ البتہ اس کے پاس دیگر بے شمار بڑے بڑے گناہ کروانے کا آپشن تا حال موجود ہے کہ جن میں وہ کامیابی کی امید کر سکتا ہے، اور کافی حد تک اسے کامیابی حاصل ہوئی بھی ہے، جیسے والدین کی نافرمانی، بدعت اور سود جیسے بڑے بڑے گناہ ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ والدین کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے، جیسا کہ احادیث سے اور قرآن پاک کی متعدد آیات سے ظاہر ہے۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾ (الأسرا:23)
’’ اور تیرا رب فیصلہ کن حکم جاری فرما چکا ہے، کہ تم لوگ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں واضح طور پر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے حقوق میں سے سب سے پہلا اور بنیادی حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کروں کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
اور انسانوں کے حقوق میں سے سب سے مقدم حق والدین کا ہے، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور ان کی نافرمانی نہ کرو، اور والدین کے ساتھ بدسلوکی کو اس قدر شدید حساس الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد والدین کی نافرمانی اور بدسلوکی کی کسی بھی صورت میں کوئی گنجائش نکلتی ہی نہیں۔
جیسا کہ فرمایا:
﴿مَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۲۳
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ﴾ ( الأسرا:23 اور 24)
یہ فرمانے کے بعد کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو فرمایا: ’’اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی حالت میں موجود ہوں، تو انہیں آف تک نہ کہو! یعنی اپنی تکلیف کا اظہار بھی نہ کرو اور نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے ادب و احترام کے ساتھ بات کرو اور رحمت و شفقت کے ساتھ عاجزی اور تواضع کا بازوان کے سامنے پست رکھو اور دعاء کیا کرو کہ اے میرے رب ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے رحمت و شفقت کے ساتھ بچپن میں پالا ۔‘‘
والدین کے ساتھ حسن سلوک کا موضوع ایک مستقل اور تفصیلی موضوع ہے جس پر ان شاء اللہ پھر گفتگو ہوگی۔
اس وقت اس کا ذکر کرنے کا مقصد والدین کے ساتھ بدسلوکی کے جرم کی سنگینی بتلانا ہے کہ شرک کی سنگینی سب کو معلوم ہے کہ وہ کتنا بڑا گناہ ہے، تو اللہ تعالی نے شرک کا ذکر کرنے کے متصل بعد والدین کے ساتھ بدسلوکی کے جرم کا ذکر فرمایا، جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی اور اس کے ساتھ بدسلوکی ہے۔ اب شیطان ابلیس جب جزیرۃ العرب میں نمازیوں کو شرک میں مبتلا کرنے سے مایوس ہوا، یا تمام امت کو شرک میں مبتلا کر دینے سے مایوس ہوا۔ تو پھر اس کے بعد منطقی طور پر اسے جس گناہ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تھی وہ ہے والدین کی نافرمانی، کہ وہ یوں سوچتا کہ ٹھیک ہے اگر میں شرک نہ کروا سکوں گا تو پھر اس کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے، میں لوگوں کو والدین کی نافرمانی پر اکساؤں گا، لیکن اس کے بجائے اس نے ایک دوسرے جرم پر اکتفا کر لیا اور اس پر راضی ہو گیا جیسا کہ احادیث میں ہے اور وہ ہے۔
((وَلٰكِن فِي التَّحْرِيْشِ بَيْنَهُم))
’’البتہ لوگوں کو آپس میں لڑانے اور ایک دوسرے کے خلاف اکسانے اور بھڑ کانے سے وہ مایوس نہ ہوا، یا اس پر اکتفا کر لیا اور راضی ہو گیا۔‘‘
آپ جانتے ہیں کہ عموماً لوگوں کی نظر میں یہ جرم کوئی بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا ، شرک کے بعد جو بڑے گناہ سمجھے جاتے ہیں وہ سود ہے، بدکاری ہے، قتل و خونریزی اور لوٹ کھسوٹ ہے۔ مگر شیطان کی نظر میں جو کہ اپنے کام میں بڑا ماہر ہے، بڑا گھاگ اور خرانٹ ہے، انسان کی کمزوریوں کو اپنے تجربات کی روشنی میں خوب سمجھتا ہے، اس کے نزدیک سب سے خطر ناک اور سنگین جرم لوگوں میں پھوٹ ڈالنا ہے، انہیں آپس میں لڑانا اور بھڑ کاتا ہے۔
لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑائے ، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور بغض پیدا کرنے، اور ان میں آپس میں عداوت اور دشمنی پیدا کرنے کے لیے اس کے پاس بہت سی چالیں، تدبیریں، گر اور حربے ہیں۔ ان کا خلاصہ اگر ایک بات میں بیان کیا جائے تو یہ ہے کہ جس جس بات سے اسلام نے منع فرمایا ہے وہ اسے مزین کر کے اور خوشنما بنا کے پیش کرتا ہے اور لوگوں کو اس پر لگاتا ہے۔
اب مثلاً تکبر اور فخر سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے، عاجزی اور انکساری کی ترغیب دی ہے، لیکن شیطان فخر و غرور اور تکبر کو ایسا خوشنما بنا کے پیش کرتا ہے کہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف لپکتے ہیں اور صرف تکبر پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے بے شمار راہیں نکال رکھی ہیں کہ لوگ غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر اس میں چھنتے چلے جاتے ہیں۔ مال و دولت پر اترانا، حسب و نسب اور قبیلہ و برادری پر فخر کرتا ، عہدے اور منصب پر تکبر کرنا کسی بڑے آدمی سے جان پہچان پر اترانا حتی کہ نوکر چاکر اور خاکروب بھی بڑے آدمی کی نوکری پر فخر کرتے اور اتراتے نظر آتے ہیں اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں اور یہ چیز لوگوں میں حسد، بغض، نفرت اور دشمنی کا باعث بنتی ہے اور اس طرح کے بہت سے کام اس کے پاس ہیں کہ جن کے ذریعے وہ لوگوں میں نفرت اور ناچاقی پیدا کرتا ہے۔ اور ایسے بہت سے کاموں میں سے کہ جن کے ذریعے وہ لوگوں میں ناراضی اور اختلاف پیدا کرتا ہے، ایک لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا بھی ہے کہ جس سے اسلام نے منع فرمایا ہے۔ حدیث میں ہے:
((مِنْ حُسْنِ إِسْلَام المَرْءِ تَرَكَهُ مَا لَا يَعْنِيْهِ))
(صحيح ابن ماجه:3226)
’’آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو ترک کر دے ۔‘‘
اور وہ اس معصیت اور گناہ کے کام کو ایسا مزین کر دیتا ہے کہ لوگ اسے گناہ نہیں بلکہ فن سمجھنے لگتے ہیں، شیطان انہیں احساس ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ کوئی گناہ کر رہے ہیں اور پھر اس گناہ کے ذریعے شیطان دو مسلمان بھائیوں میں کیسے اختلاف ڈالتا ہے، وہ بھی ایک حیران کن اور قابل توجہ بات ہے۔ مثلاً: ایک شخص دوسرے شخص کے معاملات کو کریدتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے، کیوں کرتا ہے، کیسے کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اور آپ جانتے ہیں کہ اسلام جس بات سے منع کرتا ہے تو بے سبب نہیں کرتا، انسان کو فطرتا اس بات سے اذیت پہنچتی ہے کہ کوئی اس کی جاسوسی کرے، اس کی ٹوہ میں رہے، اس کے معاملات کو کریدے مگر شیطان اس سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اس حربے کو انسان کے خلاف خوب استعمال کرتا ہے۔
شیطان کے پاس صرف یہ کوئی دو چار چاہیں ہی نہیں ہیں کہ تکبر، حسد، بغض، ودخل اندازی وغیرہ ، بلکہ اس کے پاس ایسی ڈھیروں چالیس ہیں کہ جن کے ذریعے وہ انسان کو پریشان کرتا ہے، وہ تو خواب میں بھی انسان کو نہیں چھوڑتا، چہ جائیکہ جیتے جاگتے انسان کو وہ خوش ہوتا دیکھ کر برداشت کرلے۔ یہ باتیں اپنی جگہ پر کہ شیطان کسی کسی راستے سے انسان کو پریشان کرتا ہے اور لوگوں کو آپس میں لڑاتا ہے، ان کا ذکر ان شاء اللہ ہوتا رہے گا ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ شیطان نے بڑے بڑے گناہ چھوڑ کر آخر اس گناہ کو کیوں پسند کیا، اس کو اپنا مرکز توجہ کیوں بنایا ؟ تو اصل بات یہ ہے کہ شیطان انسان کو غمگین کر کے، حزن و ملال میں مبتلا کر کے اور پریشان کر کے خوش ہوتا ہے، لوگوں کو آپس میں لڑا کر خوش ہوتا ہے، اور اس پریشانی اور اختلاف کے دور رس نتائج ہوتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ شیطان کو لڑانے کی حد تک محنت کرنا پڑتی ہے اور پھر اس کے بعد باقی کا کام وہ خود کر لیتے ہیں، بسا اوقات کوئی معمولی سا جھگڑ انسل در نسل قتل و غارت کا سبب بن جاتا ہے اور اگر کبھی وہ جھگڑا ٹھنڈا پڑنے لگے تو شیطان کسی چنگاری کو ہوا دے دیتا ہے اور وہ
چنگاری بھڑک کر شعلہ جوالہ بن جاتی ہے اور پھر تلواریں نکل آتی ہیں ۔
دوسرے بڑے سے بڑے گناہوں کا اثر زیادہ تر کسی ایک فرد یا چند افراد تک محدود ہوتا ہے، مگر تجریش اور افساد بین الناس قبیلوں اور برادریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پھر یہ کسی اختلاف پر بس نہیں ہوتی، صلح جو انسان تو خاموشی اختیار کر لیتا ہے، مگر اکثر و بیشتر لوگ انتقام کی آگ میں جلنے لگتے ہیں اور جب تک وہ اپنے حریف کو جان، مال اور عزت میں کوئی نقصان نہیں پہنچا لیتے، تڑپتے رہتے ہیں اور بے سکون رہتے ہیں، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور بے سبب پریشان رہتے ہیں تو اس طرح لڑائی جھگڑا نفرت، بغض، عداوت نتیجتًا معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتا ہےاسلامی معاشرے کا جو حسن و جمال ہے: اخوت و محبت ، ہمدردی ، خیر خواہی ، ایثار اور قربانی کہ جس کی اسلام بہت زیادہ ترغیب دیتا اور تاکید کرتا ہے، مفقود ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ نفرت و عداوت لے لیتی ہے۔
اور یہ خوبی جو صرف اسلامی معاشرے کا خاصہ ہے اس کے فقدان سے اسلامی معاشرہ جاہلی معاشرے کی تصویر بن جاتا ہے اور شیطان خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ باتیں صرف عام لوگوں یا دوستوں کے مابین ہی نہیں ہوتیں بلکہ نہایت ہی قریبی رشتہ داروں میں ہوتی ہیں جہاں آدمی دشمنی کا تصور بھی نہیں کر سکتا، مگر شیطان وہاں بھی اپنا کام دکھا دیتا ہے ہے۔ اسلام مسلم معاشرے میں اخوت و محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے، دشمنی اور عداوت کو ختم کر کے لوگوں کو آپس میں بھائی بھائی دیکھنا چاہتا ہے، اس کی اہمیت پر غور فرمائیے، اللہ تعالی نے کس طرح اس نعمت کو احسان کے طور پر ذکر فرمایا:
﴿وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا ﴾ (آل عمران:103)
’’اور اللہ تعالی کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ، پس اس کے فضل سے تم بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے، تو اس نے تمہیں بچا لیا۔‘‘
اسلام سے پہلے اہل عرب بالکل ایسی ہی صورت حال سے دوچار تھے، اس کی تفصیلات آپ کو معلوم ہیں۔ تو گویا لڑائی جھگڑے اور نفرت و عداوت کے سبب پورا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے، بے سکونی اور پریشانی چھا جاتی ہے، قطع رقمی معاشرے میں عام ہو جاتی
ہے۔ اللہ کی ناراضی معاشرے کو گھیر لیتی ہے۔ (اعاذنا الله منها) اس لیے لوگوں میں اختلاف ڈالنا شیطان کا محبوب مشغلہ اور پسندیدہ کام ہے، اس کی زد دور دور تک پڑتی ہے اور اس طرح وہ ایک تیر سے بیک وقت کئی کئی شکار کر لیتا ہے۔ شیطان کن کن طریقوں سے لوگوں میں اختلاف ڈالتا ہے، اس کے مزید پہلوؤں کا ان شاء اللہ ذکر کریں گے، یہ باتیں کوئی نئی نہیں، ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں اور ان سے گزرتے ہیں مگر کبھی اس انداز سے سوچا نہیں کہ یہ بھی شیطان کی چال ہو سکتی ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين