مدینہ منورہ میں رہنے والا ایک پراسرار لڑکا

علامہ ابنِ تاثیر النہایہ میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک یہودی تھا، یہود کے ساتھ ملا جلا رہتا تھا۔ اس کا نام صَافُ تھا۔
اور ابن صیاد کے نام سے مشہور تھا
اس کے پاس کہانت اور جادو کا علم تھا اور وہ اپنے وقت میں اللہ کے نیک بندوں کے لیے ایک امتحان تھا (جیسے ھاروت و ماروت ہیں) تاکہ جو ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔
اس کی بعض عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذہنوں میں یہ تاثر تھا کہ شاید یہ وہی دجال ہے

تیس جھوٹے منی دجال

سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ دَجَّالُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ
(ابو داؤد، كِتَابُ الْمَلَاحِمِ
بَابٌ فِي خَبَرِ ابْنِ صَائِدٍ4333)
” اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ تیس ( انتہائی جھوٹے ) دجال نہ آ جائیں ، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔ “

ابن صیاد کے دجال ہونے کے متعلق شک کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں ابن صیاد سے ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7360)

جابر بن عبداللہ اور عمر رضی اللہ عنہما قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے

محمد بن منکدرسے روایت ہے ،کہا:میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا،وہ اللہ کی قسم کھاکر کہہ رہے تھے کہ ابن صائد دجال ہے۔میں نے کہا:آپ(اس بات پر) اللہ کی قسم کھا رہے ہیں؟انھوں نے کہا:میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات پر قسم کھاتے ہوئے دیکھا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہیں فرمایا تھا۔
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7353)

ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی قسم کھا کر یہی بات کہا کرتے تھے

سیدنا ابن عمر ؓ کہا کرتے تھے
وَاللَّهِ مَا أَشُكُّ أَنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ ابْنُ صَيَّادٍ
(ابو داؤد، كِتَابُ الْمَلَاحِمِ
بَابٌ فِي خَبَرِ ابْنِ صَائِدٍ4330)
"اللہ کی قسم ! مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیح دجال ( یہی ) ابن صیاد ہی ہے ۔”

ابن صیاد کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عجیب گفتگو

عبداللہ(ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اور ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم چند لڑکوں کے پاس سے گزرے ،ان میں ابن صیاد بھی تھا،سب بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھ گیا،تو ایسا لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند کیا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
"تیرے ہاتھ خاک آلودہوں!کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟”
اس نے کہا:نہیں۔بلکہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟”
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7344)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا :
آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7346)
"میں اللہ پر،اس کےفرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر ایمان لایا ہوں

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کو قتل کردوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"چھوڑ دو، اگر یہ وہی ہے جو تمہارا گمان ہے تو تم اس کو قتل نہیں کرسکوگے۔”
"اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔”
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7344)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں کوئی بات چھپا کر ابن صیاد سے پوچھا بتا میرے دل میں کیا ہے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے کہ ہم ابن صیاد کے پاس سے گزرے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
"میں نے تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپائی ہے۔
( آپ نے سورہ دخان کی آیت کا تصور کیا۔ ﴿ فارتقب یوم تاتی السماءبدخان مبین ﴾
بخاری، 1354)
ابن صیاد نے کہا :
"وہ دُخَ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"دور دفع ہوجا!تو اپنی حیثیت سے کبھی نہیں بڑھ سکےگا۔
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7345)
یعنی تو کہانت سے آگے نہیں بڑھ سکتا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تجھے کیا نظر آتا ہے

"اس نے کہا:
مجھے پانی پر ایک تخت نظر آتا ہے
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم سمندر پر ابلیس کا تخت دیکھ رہے ہو،تجھے اور کیا نظر آتا ہے؟
"اس نے کہا:
میں دو سچوں اور ایک جھوٹے کویا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو دیکھتا ہوں۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"(اس کا معاملہ خود) اس کے سامنے گڈ مڈ کردیاگیا ہے۔اسے چھوڑ دو۔
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7346)

معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیطان ہی تھا جو ابن صیاد کے پاس آتا تھا کبھی کسی سچے کی شکل میں اور کبھی کسی جھوٹے کی شکل میں اور ابن صیاد سمجھتا تھا کہ شاید میرے پاس سچے اور جھوٹے الگ الگ آتے ہیں

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ
اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں
الأنعام 121

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :”جنت کی مٹی کیسی ہے؟”

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صائد سے فرمایا:
"جنت کی مٹی کیسی ہے؟”
اس نے کہا:
اے ابو القاسم( صلی اللہ علیہ وسلم )!باریک سفید،کستوری(جیسی) ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تو نے سچ کہا۔”
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7351)

ابن صیاد جب بلوغت کے قریب پہنچا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے ملاقات ہوئی

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے حتیٰ کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امییّن کے رسول ہو (امی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو)۔
پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا؟ اور فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7354)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر ابن صیاد سے کچھ سننے کی کوشش کرتے ہیں

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،وہ کہتے ہیں:اس(سابقہ واقعے) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابی ابن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھجوروں کے اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا،باغ میں داخل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے تنوں کی آڑ میں ہونے لگے تاکہ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھے آ پ اس کی کوئی بات سن لیں،وہ بستر پر ایک نرم چادر میں(اسے اوڑھ کر لیٹا ) ہوا تھا،اس کے اندر سے اس کی گنگاہٹ کی آوازآرہی تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں کی آڑلے رہے تھے تو ابن صیاد کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور وہ ابن صیاد سے کہنے لگی صاف!۔۔۔اور یہ ابن صیاد کا نام تھا۔یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (آئے ) ہیں۔ابن صیاد اچھل کرکھڑا ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر وہ اس کو(اُسی حالت میں) چھوڑ دیتی تو وہ (اپنا معاملہ) واضح کردیتا۔”(کہ وہ دجال ہے یا نہیں)
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7355)

ابوسعيد خدری رضی اللہ عنہ کی ابن صیاد سے ایک سفر میں ملاقات

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابوسعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا برا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابوسعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابوسعید! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں جانتے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لاولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کہاں ہے۔ کہا:میں نے اس سے کہا:باقی سارا دن تیرے لئے تباہی اور ہلاکت ہو!(تیرا اس سے اتنا قرب کیسے ہوا؟)
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7350)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ابن صیاد سے پیش آنے والا عجیب واقعہ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں ابن صیاد سے ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔
پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔
(صحیح مسلم ہی کی 7359 نمبر روایت میں ہے کہ
وہ اتنا پھول گیا کہ اس نے(پوری)گلی کوبھر دیا)
انھوں نے کہا:میرےساتھیوں میں سے ایک سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو ڈنڈا تھا میں نے اسے اس کے ساتھ اتنا مارا کہ وہ ڈنڈا ٹوٹ گیا لیکن واللہ!مجھے کچھ پتہ نہ چلا۔
نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ام المؤمنین (حفصہ رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اول چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے ۔
(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
بَابُ ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ7360)

ابن صیاد یوم حرہ کو فوت یا گم ہوا

سیدنا جابر ؓ بیان کرتے ہیں
فَقَدْنَا ابْنَ صَيَّادٍ يَوْمَ الْحَرَّةِ
(ابو داؤد، كِتَابُ الْمَلَاحِمِ
بَابٌ فِي خَبَرِ ابْنِ صَائِدٍ4332)
کہ ہم نے حرہ والے دن ابن صیاد کو گم پایا