ماہِ محرم اور یومِ عاشوراء

اہم عناصرِ خطبہ:

01. ماہِ محرم کی اہمیت

02. حرمت والے چار مہینے اور ان کے خاص اَحکام

03. گناہوں کے آثار

04. ماہِ محرم میں نوحہ اور ماتم

05. حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت

06. ماہِ محرم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم

07. ماہِ محرم میں روزہ کی فضیلت

08. تاریخ قدیم میں یوم عاشوراء کی اہمیت

09. صومِ عاشوراء کی اہمیت وفضیلت

پہلا خطبہ:

محترم حضرات! ماہ محرم عظیم الشان اور مبارک مہینہ ہے۔ یہ ہجری سال کا پہلا مہینہ اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ﴾ (التوبة 9:36)

’’بے شک مہینوں کی گنتی ﷲ کے نزدیک لوح محفوظ میں بارہ ہے اور یہ اس دن سے ہے جب سے ﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت وادب کے ہیں، یہی مضبوط دین ہے۔ لہٰذا تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘

یعنی ابتدائے آفرینش سے ہی ﷲ تعالیٰ کے نزدیک سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ حرمت والے چار مہینے کون سے ہیں؟ اس کے بارے میں ایک حدیث سماعت فرمائیے: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( اَلسَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا مِنْہَا أَرْبَعَةُُ حُرُمٌ: ثَلاَثَةُ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُوْالْقَعْدَۃِ، وَذُوْالْحَجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَر اَلَّذِیْ بَیْنَ جُمَادیٰ وَشَعْبَانَ۔)) (صحیح البخاری، التفسیر باب سورۃ التوبة)

’’سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے در پے ہیں اور وہ ذوالقعدۃ، ذوالحجہ اور محرم ہیں اور چوتھا مہینہ رجبِ مضر ہے جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔‘‘

’’تین پے در پے اور چوتھا اکیلا ‘‘ اس میں کیا حکمت ہے؟ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ ذوالقعدہ میں جوکہ حج والے مہینے سے پہلے آتا ہے‘ وہ لوگ قتال بند کر دیا کرتے تھے۔ اور ذوالحجہ کے مہینہ میں وہ حج ادا کیا کرتے تھے، پھر اس کے بعد ایک اور مہینہ بھی حرمت والا قرار دے دیا تاکہ وہ امن وامان سے اپنے وطن کو لوٹ سکیں، پھر سال کے درمیان ایک اور مہینہ حرمت والا قرار دیا تاکہ وہ عمرہ اور زیارتِ بیت ﷲ کےلئے امن سے آجا سکیں۔ (تفسیر ابن کثیر:468/2)

عزیزانِ گرامی!

ﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں حرمت والے چار مہینوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ یعنی ’’ان میں (خصوصی طور پر) تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘

ظلم تو سال کے بارہ مہینوں میں ممنوع ہے لیکن ان چار مہینوں کی عزت وحرمت اور ان کے تقدس کی وجہ سے ﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرما دیا۔

اس ظلم سے مراد کیا ہے؟

ایک تو یہ مراد ہے کہ ان مہینوں میں جنگ وجدال اور قتال نہ کیا کرو۔ جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ﴾ (البقرۃ: 2 : 217)

’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے۔‘‘

زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ ان چار مہینوں کی حرمت کا خیال رکھتے تھے اور آپس کی جنگ اور لڑائی کو ان میں روک دیا کرتے تھے، پھر اسلام نے بھی ان کے احترام وتقدس کو برقرار رکھا اور ان میں لڑائی کو کبیرہ گناہ قرار دیا۔ اور ظلم سے مراد یہ بھی ہے کہ تم ان چار مہینوں میں خصوصی طور پر ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو، کیونکہ ان میں نافرمانی کرنے کا گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ ﷲ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے ظلم کو سال کے بارہ مہینوں میں حرام قرار دیا ہے، پھر ان میں سے چار مہینوں کو خاص کر دیا ہے، کیونکہ ان میں برائی اور نافرمانی کا گناہ زیادہ ہو جاتا ہے اور نیکی اور عمل صالح کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے۔

اور امام قتادۃ رحمہ ﷲ فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ کے بارے میں کہتے ہیں:

’’حرمت والے مہینوں میں ظلم کا گناہ اور بوجھ دوسرے مہینوں کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اور ظلم کا گناہ اگرچہ ہر وقت بڑا ہوتا ہے لیکن ﷲ جس مہینے کو چاہے اس میں ظلم کا گناہ اور بڑا کر دے، جیسا کہ ﷲ تعالیٰ نے فرشتوں میں سے پیامبر فرشتوں کو چن لیا، کلام میں سے قرآن مجید کو چن لیا اور پوری سرزمین میں سے مساجد کو چن لیا۔ اسی طرح مہینوں میں سے ماہ رمضان اور حرمت والے چار مہینوں کو چن لیا، دنوں میں سے یومِ جمعہ کو چن لیا اور راتوں میں سے لیلۃ القدر کو چن لیا۔ تو ﷲ تعالیٰ جسے چاہے عظمت دے دے، لہٰذا تم بھی اسے عظیم سمجھو جسے ﷲ تعالیٰ عظیم سمجھتا ہے۔‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر: 468/2)

میرے مسلمان بھائیو!

سال بھر میں عموماً اور ان چار مہینوں میں خصوصاً ہم سب کو ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے اجتناب کرنا چاہئے اور گناہوں سے اپنا دامن پاک رکھنا چاہئے، کیونکہ گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾ (المطففین83 :14)

’’یوں نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘

اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَةََ سَوْدَاءَ فِیْ قَلْبِهِ،فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہُ،وَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَہُ ،فَذَلِكَ الرَّیْنُ الَّذِیْ ذَکَرَ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ الْقُرْآنِ:{کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔ (سنن الترمذی:3334:حسن صحیح ، ابن ماجة 4244وحسنہ الألبانی)

’’مؤمن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے اور اس گناہ کو چھوڑ کر معافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کو دھودیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہ پر گناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتی ہے تو یہی وہ (رَین) ’’زنگ‘‘ ہے جس کا ﷲ تعالیٰ نے قرآن میں تذکرہ کیا ہے:

﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾ (المطففین83 :14)

اور یاد رکھیں! گناہوں کی وجہ سے زندگی پریشان حالی سے گذرتی ہے اور انسان کو حقیقی چین وسکون نصیب نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ‎﴿١٢٤﴾‏ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ‎﴿١٢٥﴾قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ﴾- (طٰــہ 20:126-124)

’’اور جو شخص میری یاد سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ وہ پوچھے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے نابینا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں توبینا تھا؟ ﷲ تعالیٰ جواب دے گا: اسی طرح ہونا چاہئے تھا کیونکہ تمہارے پاس ہماری آیات آئی تھیں لیکن تم نے انہیں بھلا دیا۔ اسی طرح آج تمہیں بھی بھلا دیا جائے گا۔‘‘

یعنی دین الٰہی سے اعراض کرنے، آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت نہ کرنے اور ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہر چہار جانب سے اسے تنگی گھیر لیتی ہے اور روزی کی کشادگی کے باوجود اس کا اطمینان وسکون تباہ ہو جاتا ہے۔ پھر مرنے کے بعد قبر بھی تنگ ہو جاتی ہے اور برزخ کی طویل زندگی تلخیوں اور بدبختیوں سے گذرتی ہے اور جب قیامت کے روز اسے اٹھایا جائے گا تو وہ بصارت اور بصیرت دونوں سے اندھا ہوگا۔ (والعیاذ باﷲ تعالیٰ) اور گناہوں اور برائیوں ہی کی وجہ سے موجودہ نعمتیں چھن جاتی ہیں اور آنے والی نعمتیں روک لی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ماں باپ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی ایک غلطی کی وجہ سے انہیں جنت کی نعمتوں سے محروم کر دیا گیا۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ‎﴿٣٥﴾‏ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ (البقرۃ2 :36-35)

’’اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جتنا چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ۔ تاہم اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔ پھر شیطان نے ان دونوں کو لغزش میں مبتلا کر دیا اور انہیں اس نعمت اور راحت سے نکلوا دیا جس میں وہ تھے۔‘‘

اسی طرح برائیوں کے برے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ (الأنعام 6:6)

’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر چکے ہیں، وہ جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔ پھر ہم نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا۔‘‘

اس آیت میں ذرا غور فرمائیں! اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تم سے پہلی امتوں کو وہ قوت اور سطوت عطا کی تھی جو تمہیں عطا نہیں کی اور ہم نے انہیں بھرپور نعمتوں سے نوازا، لیکن انہوں نے ناشکری کی تو ہم نے وہ ساری نعمتیں ان سے چھین لیں اور انہیں تباہ وبرباد کر دیا اور اگر تم بھی یہی روش اختیار کرو گے تو کیا تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے مشکل ہے؟ اس لئے ہمیں ﷲ تعالیٰ کی بےشمار نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم ﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن جائیں اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کریں۔

عزیزان گرامی!

اس خطبے کے شروع میں ہم یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے خصوصاً حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے اورماہ محرم کے حوالے سے یہاں دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔

01. ماہِ محرم اور نوحہ

آپ کو معلوم ہے کہ ماہ محرم میں کئی لوگ ماتمی لباس پہن کر نوحہ اور ماتم کرتے ہیں اور سینہ کوبی کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بھی ظلم ہی کی ایک قسم ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ اِن اعمال کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

((أَرْبَعٌ فِیْ أمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجَاھِلِیَّةِ لاَ یَتْرُکُوْنَہُنَّ: اَلْفَخْرُ فِیْ الْأحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِیْ الْأنْسَابِ، وَالْإِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُوْمِ، وَالنِّیَاحَةُ، وَقَالَ: اَلنَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَعَلَیْہَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرْبٍ۔)) (صحیح مسلم، الجنائز، باب التشدید فی النیاحة: 934)

’’جاہلیت کے کاموں میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہونگے جنہیں وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے: حسب (قومیت ) کی بنیاد پر فخر کرنا، کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا، ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا (یا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا) اور نوحہ کرنا۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہیں کرتی تو قیامت کے روز اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ اس پر تارکول کی ایک قمیص ہوگی اور خارش کی بیماری کے لباس نے اس کے جسم کو ڈھانپ رکھا ہوگا۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ وغیرہ کرنا جاہلیت کے امور میں سے ہے اور اس کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ وغیرہ کرنے والے شخص سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّة۔)) (صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منّا من شقّ الجیوب: 1294)

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخساروں پر طمانچے مارے، گریبانوں کو چاک کیا، جاہلیت کے دعوی کے ساتھ پکارا یعنی واویلا کیا اور مصیبت کے وقت ہلاکت اور موت کو پکارا۔‘‘

اور حضرت ابو بردۃ بن ابو موسیٰ الأشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ الأشعری رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ شدید تکلیف میں مبتلا ہوئے اور ان پر غشی طاری ہوگئی۔ آپ کا سر آپ کی ایک اہلیہ کی گود میں تھا۔ اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا لیکن آپ اسے کوئی جواب نہ دے سکے، پھر جب انہیں افاقہ ہوا تو انہوں نے کہا:

’’میں ہر اس شخص سے بری ہوں جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے براء ت کا اعلان کیا۔ بےشک رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے زور زور سے رونے والی، مصیبت کے وقت سر منڈوانے والی اور کپڑے پھاڑنے والی عورت سے براءت کا اعلان فرمایا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری، الجنائز باب ما ینھی عن الحلق عند المصیبة: 1296، صحیح مسلم الإیمان، باب تحریم ضرب الخدود وشقّ الجیوب: 167)

ان احادیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ماتم اور سینہ کوبی کرنا حرام ہے اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعمال سے اور ان اعمال کے کرنے والوں سے براءت اور لاتعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو اس سے باز آ جانا چاہئے اور فوری طور پر ان سے سچی توبہ کرنی چاہئے۔

معزز سامعین!

ماہ محرم میں نوحہ اور ماتم وغیرہ نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں کیا جاتا ہے اور کون ہے کہ جس کو ان کی شہادت پر غم اور افسوس نہیں ہوگا؟ یقیناً ہر مسلمان کو اس پر حزن وملال ہوتا ہے لیکن جس طرح ہر صدمہ میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر بھی صبر وتحمل کا ہی مظاہرہ کرنا چاہئے۔ نہ کہ نوحہ، ماتم اور سینہ کوبی جیسے جاہلیت والے اعمال وافعال کا۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ‎﴿١٥٥﴾‏ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ‎﴿١٥٦﴾‏ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرۃ 2 :155 157)

’’اور ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے، کچھ خوف وہراس اور بھوک سے، مال وجان اور پھلوں میں کمی سے اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے، جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے اجر دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (الزمر39: 10)

’’صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جاتا ہے۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ کی فضیلت کےلیے یہی کافی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور سب سے پیاری صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے اور اسی طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے شدید محبت تھی۔ عطاء بن یسار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا:

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا۔ (مسند أحمد:211/38 :23133،وإسنادہ صحیح ،ورواہ الترمذی عن البراء بن عازب: 3782 وصححہ الألبانی فی الصحیحة :2789)

یعنی ’’ اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے ۔ آپ کے ساتھ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے، ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کندھے پر اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے کندھے پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اِن سے پیار کرتے اور کبھی اُن سے۔ چنانچہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو ان سے محبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ أَحَبَّہُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِیْ،وَمَنْ أَبْغَضَہُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِیْ۔ (مسند أحمد: 211/38 : 23133، وإسنادہ صحیح، ورواہ الترمذی عن البراء بن عازب: 3782 وصححہ الألبانی فی الصحیحة: 2789)

’’ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ۔ ‘‘

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ان دونوں نواسوں سے کس قدر شدید محبت تھی اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانے کےلیے منبر سے نیچے اترتے، انہیں اٹھاتے اور پھر منبر پر جا کر اپنا خطبہ مکمل کرتے ۔

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نمودار ہوئے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ ان میں بار بار پھسل رہے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے، اپنا خطبہ روک دیا، انہیں اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اٹھائے ہوئے منبر پر چڑھے۔ اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ

إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَةٌ ۔ (رواہ أحمد: 420/15:9673، و260/13:7876، وسنن ابن ماجہ باختصار: 143 وحسنہ الألبانی)

’’ بے شک تمھارے اموال اور تمھاری اولاد آزمائش ہیں ۔‘‘ میں نے انہیں دیکھا تو مجھ سے رہا نہ جا سکا۔ ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔

اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ حالتِ احرام میں اگر کوئی آدمی ایک مکھی کو مار دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا : اہلِ عراق مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں حالانکہ وہ تو نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاتل ہیں ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

(( همَا رَیْحَانَتَایَ مِنَ الدُّنْیَا ))

’’ یہ ( حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دوپھول ہیں ۔ ‘‘

جبکہ سنن ترمذی میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اہلِ عراق میں سے ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ اگر مچھر کا خون کپڑے پر لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا : اس آدمی کو دیکھو ! یہ مچھر کے خون کے متعلق سوال کرتا ہے جبکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشے کو قتل کیا ۔اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :

(إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ ہُمَا رَیْحَانَتَایَ مِنَ الدُّنْیَا)

’’ بے شک حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ دنیا میں میرے دوپھول ہیں۔ ‘‘

اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( إِنَّ ہَذَا مَلَكٌ لَمْ یَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ ہَذِہِ اللَّیْلَةَ،اِسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یُسَلِّمَ عَلَیَّ وَیُبَشِّرَنِیْ بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ أَہْلِ الْجَنَّةِ وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّةِ )

’’ بے شک یہ فرشتہ آج رات زمین پر نازل ہوا ، اس سے پہلے یہ کبھی زمین پر نہیں آیا تھا ، اس نے اللہ تعالیٰ سے مجھے سلام کرنے اور مجھے یہ خوشخبری دینے کی اجازت طلب کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہونگی اور حسن اور حسین ( رضی اللہ عنہما ) نوجوانانِ جنت کے سردار ہونگے ۔ ‘‘

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔

ایک اور روایت میں ان کا بیان ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہ تھا ان دونوں روایات کو جمع کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حسن رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں او ر حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔

عزیزان گرامی ! ان تمام احادیث میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل ذکر کئے گئے ہیں۔اور انہی احادیث کے پیشِ نظر ہم ان دونوں سے محبت کرتے اور اس محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں اور ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ انتہائی المناک اور افسوسناک واقعہ ہے ، لیکن ہم اس پر نوحہ ، ماتم اور سینہ کوبی کرنے کو ناجائز بلکہ حرام تصور کرتے ہیں ، کیونکہ خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے افعال کو حرام قرار دیا ہے ، جیسا کہ ہم اس سے پہلے یہ بات احادیث کی رو سے ثابت کر چکے ہیں ۔ لہٰذا اس واقعہ پر سوائے صبر وتحمل کے اور کوئی چارۂ کار نہیں ۔

نیزیہ بات بھی یاد رہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں حضرت جبریل علیہ السلام نے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا تھا ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ میرے پاس تھے ، اچانک وہ ( حضرت حسین رضی اللہ عنہ ) رونے لگ گئے ، میں نے انہیں چھوڑا تو وہ سیدھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گئے ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا :

بے شک آپ کی امت انہیں عنقریب قتل کردے گی ۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس سر زمین کی مٹی دکھلا دوں جس پر انہیں قتل کیا جائے گا ۔ پھر انہوں نے اس کی مٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی اور یہ وہ سرزمین تھی جسے کربلاء کہا جاتاہے۔

چنانچہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سمجھتے ہیں جیسا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بقضاء وقدرِ الٰہی شہید ہوئے ۔ اور آپ اس وقت شہید ہوئے جب آپ ۴۰؁ ھ میں سترہ رمضان بروزجمعۃ المبارک کو فجر کی نماز ادا کرنے کیلئے جا رہے تھے ! اسی طرح ان سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی ظالموں نے انتہائی المناک انداز میں شہید کیا ۔ اور آپ ماہِ ذو الحجہ ۳۶ ھ؁ میں ایامِ تشریق کے دوران شہیدہوئے اور ان سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس وقت شہید ہوئے جب آپ فجر کی نماز میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے اور یہ سب یقینی طور پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے افضل تھے اور ان کی شہادت کے واقعات زیادہ المناک اور افسوسناک ہیں ، لیکن ایسے تمام واقعات پر ہم سوائے ( إنا لله وإنا إلیہ راجعون ) کے اور کیا کہہ سکتے ہیں !

(۲) ماہِ محرم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم

خصوصا ماہ محرم میں ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردان گرامی ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کو بُرا بھلا کہا جاتا اور انہیں سب وشتم کیا جاتا ہے۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا حرام ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے امام طحاوی رحمہ ﷲ کہتے ہیں :

’’ نحبّ أصحاب رسول ﷲ صلي الله عليه وسلم ،ولا نفرط فی حبّ أحد منھم،ولا نتبرأ من أحد منہم،ونبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم،ولا نذکرہم إلاّ بخیر،وحبّہم دین وإیمان وإحسان،وبغضہم کفر ونفاق وطغیان‘‘

’’ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک صحابی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں سے کسی صحابی سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں اور ہم ہر ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض رکھتا ہو اور انہیں خیر کے ساتھ ذکر نہ کرتا ہو ۔ ہم انہیں خیر کے ساتھ ہی ذکر کرتے ہیں اور ان کی محبت کو عین دین ، عین ایمان اور عین احسان سمجھتے ہیں، جب کہ ان سے بغض رکھنا کفر،نفاق اور سرکشی تصور کرتے ہیں۔ ‘‘

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ کفار کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے چڑ آتی ہے اور وہ ان کے بارے میں غضبناک ہوتے ہیں ، گویا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے چڑ اور بغض وعناد رکھنا کافروں کا شیوا ہے نہ کہ مسلمانوں کا۔

فر مان الٰہی ہے:

﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ‎﴿٢٩﴾

’’ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں۔ آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں ، ﷲ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کی نشانی ان کی پیشانیوں پر عیاں ہے ، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور انجیل میں بھی ان کی یہی مثال بیان کی گئی ہے ۔ اس کھیتی کی مانند جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی ، پھر اسے سہارا دیا تو وہ موٹی ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی ، وہ کھیت اب کاشتکاروں کو خوش کررہا ہے ( ﷲ نے ایسا اس لئے کیا ہے) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑ آئے ۔ ان میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا ان سے ﷲ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔ ‘‘

اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے سے منع فرمایا ہے۔آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(( لاَ تَسُبُّوْ أَصْحَابِیْ،فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلاَ نَصِیْفَہُ ))

’’ میرے ساتھیوں کو گالیاں مت دینا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ نہ ان کے ایک مُدّ کے برابر ہوسکتا ہے اور نہ آدھے مُدّ کے برابر ۔ ‘‘

اور حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :

(لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ، فَلَمُقَامُ أَحَدِہِمْ سَاعَةٌ خَیْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ عُمُرَہُ )

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو برا بھلا نہ کہناکیونکہ ایک گھڑی کے لئے ان کا ( رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) کھڑا ہونا تمہاری پوری زندگی کے عمل سے بہتر ہے۔ ‘‘

اور حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ یوں کہا کرتے تھے :

(لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ، فَلَمُقَامُ أَحَدِہِمْ سَاعَةٌ یَعْنِیْ مَعَ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم خَیْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ أَرْبَعِیْنَ سَنَةٌ)

’’ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو گالیاں نہ دیناکیونکہ ان میں سے ایک صحابی کا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھڑی کے لئے کھڑا ہونا تم میں سے ایک شخص کے چالیس سال کے عمل سے بہتر ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے اور ان کا ادب واحترام کرنے کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ :

محترم حضرات !پہلے خطبہ میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ محرم کا مہینہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، ﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ان مہینوں کے دوران اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے (یعنی ﷲ کی نافرمانی کرنے سے ) منع فرمایا ہے ۔ لہٰذا ہمیں ﷲ کی نافرمانی سے اجتناب کے ساتھ ساتھ اس ماہ کے دوران عمل صالح زیادہ سے زیادہ کرنا چاہئے ، خاص طور پر نفلی روزے زیادہ رکھنے چاہئیں ، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَہْرُ اﷲِ الْمُحَرَّمُ،وَأَفْضَلُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الْفَرِیْضَةِ صَلاَۃُ اللَّیْل))

’’ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں جو کہ ﷲ کا مہینہ ہے ۔ اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔‘‘

خاص طور پر یومِ عاشوراء ’ دس محرم ‘ کا روزہ ضرور رکھنا چاہئے ، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے مسلسل اس دن کا روزہ رکھتے رہے۔ پھر آپ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیا کرتے تھے۔اس کے بعد جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ جو چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘

اس بارے میں چند احادیث سماعت فرمائیے :

1۔عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال:مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم یَتَحَرّٰی صِیَامَ یَوْمٍ فَضَّلَہُ عَلیٰ غَیْرِہٖ إِلاَّ ہَذَا الْیَوْمَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ،وَہَذَا الشَّہْرَ یَعْنِیْ شَہْرَ رَمَضَانَ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کسی ایک دن کو دوسرے دنوں پر فوقیت دیتے ہوئے اس کے روزے کا قصد کرتے ہوں سوائے یومِ عاشوراء کے اور سوائے ماہِ رمضان کے۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے علاوہ باقی دنوں میں سے یومِ عاشوراء کے روزے کا جس قدر اہتمام فرماتے اتنا کسی اور دن کا اہتمام نہیں فرماتے تھے ۔

2۔ عن عائشة رضی اﷲ عنہا قالت:’’ کَانَتْ قُرَیْشُ تَصُوْمُ عَاشُوْرَاءَ فِیْ الْجَاہِلِیَّةِ،وَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وسلم یَصُوْمُہُ،فَلَمَّا ہَاجَرَ إِلَی الْمَدِیْنَةِ صَامَہُ وَأَمَرَ بِصِیَامِه،فَلَمَّا فُرِضَ شَہْرُ رَمَضَانَ قَالَ:مَنْ شَاءَ صَامَہُ،وَمَنْ شَاءَ تَرَکَہُ‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جاہلیت کے دور میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے ۔ پھر جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو بھی آپ اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیتے تھے ، اس کے بعد جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دے دیااور فرمایا :

’’ جس کا جی چاہے اس دن کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے اس کو چھوڑ دے ۔ ‘‘

3۔ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلي الله عليه وسلم نے مدینہ کے ارد گرد بسنے والی بستیوں میں یہ حکم بھیجا کہ بستیوں والے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھیں ۔ چنانچہ ہم خود بھی روزہ رکھتے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ۔اور جب کھانے کے لئے بچے روتے تو ہم انہیں کھلونے دے دیا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے ساتھ افطار تک دل بہلاتے رہیں۔

4۔حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ نے ان سے پوچھا : تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : یہ ایک عظیم دن ہے ، اس میں ﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھا ۔ اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا :

( فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلٰی بِمُوْسیٰ مِنْکُمْ )

’’ تب تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں اور تمہاری نسبت ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا ۔

یومِ عاشوراء کی اہمیت ۔۔۔۔۔قدیم زمانے میں

قدیم زمانے میں یومِ عاشوراء کی اہمیت کیا تھی ؟ اس بارے میں اگرچہ عام لوگوں میں بہت ساری باتیں مشہور ہیں، لیکن ہمیں صحیح روایات سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقِ آب فرمایا۔ اسی وجہ سے یہود اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ،جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے ، جسے ہم نے ابھی ذکر کیا ہے ۔

اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہود یومِ عاشوراء کو عید کا دن تصور کرتے تھے اور اہلِ خیبر ( یہود ) اس دن اپنی عورتوں کو خصوصی طور پر زیورات وغیرہ پہنا کر خوشیاں مناتے تھے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( فَصُوْمُوْہُ أَنْتُمْ)

’’ تم اس دن کا روزہ رکھا کرو ۔ ‘‘

باقی جہاں تک قصۂ نجاتِ موسی علیہ السلام وبنی اسرائیل اور غرقِ فرعون کا تعلق ہے تو وہ قرآن مجید میں تفصیلاً موجود ہے ۔ اسی طرح صحیح روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کے دور میں بھی لوگ اس دن کی تعظیم کرتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت جسے ہم ذکر کر چکے ہیں ‘ سے معلوم ہوتاہے ۔اس کے علاوہ اور کوئی بات صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔

تنبیہ : مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ

(وَہُوَ الْیَوْمُ الَّذِیْ اسْتَوَتْ فِیْہِ السَّفِیْنَةُ عَلَی الْجُوْدِیِّ فَصَامَہُ نُوْحٌ شُکْرًا)

’’ یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں کشتی ٔ نوح علیہ السلام جودی پہاڑ پر جا لگی تھی ، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا ۔ ‘‘

لیکن اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد الصمد بن حبیب ہے جو کہ ضعیف ہے۔ اور دوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جو کہ مجہول ہے۔

اسی طرح طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ

(وَفِیْ یَوْمِ عَاشُوْرَاءَ تَابَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلیٰ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ،وَعَلیٰ مَدِیْنَةِ یُوْنُسَ،وَفِیْہِ وُلِدَ إِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ )

’’یوم عاشوراء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی۔ اسی طرح یونس علیہ السلام کے شہر والوںپر بھی اللہ تعالیٰ نے اسی دن خصوصی توجہ فرمائی اور اسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔ ‘‘

لیکن اس کی سند کے متعلق الحافظ الہیثمی کا کہنا ہے کہ اس میں ایک راوی عبد الغفور ہے جو کہ متروک ہے ۔

یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت

حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے یومِ عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(یُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِیَةَ )

یعنی ’’پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ۔‘‘ اس حدیث کے پیش نظر ہر مسلمان کو یومِ عاشوراء کے روزے کا اہتمام کرنا چاہئے اور اتنی بڑی فضیلت حاصل کرنے کا موقعہ ملے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

لیکن افسوس صد افسوس ! اس دور میں معیار تبدیل ہوگیا ہے ، لوگوں نے اس دن کے حوالے سے کیا کیا بدعات ایجاد کرلی ہیں ، سنت بدعت بن گئی ہے اور بدعت کو سنت تصور کیا جانے لگا ہے ! بجائے اس کے کہ اس دن کا روزہ رکھا جاتا اور پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کروانے کا جو سنہری موقعہ ملا تھا اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ، اس کے بجائے لوگوں نے یہ دن کھانے پینے کا دن تصور کرلیا ہے ۔ لہٰذا خوب کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے ، خصوصی ڈشیں تیار کی جاتی ہیں ، پانی اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ نہیں معلوم یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم ہے یا ان کی شہادت کا جشن ہے جو منایا جاتا ہے !

صومِ عاشوراء میں یہود کی مخالفت

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی امر میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اہلِ کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے ۔

یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی مخالفت کرنے اور ان کی موافقت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بتلایا گیا کہ یہود ونصاری بھی دس محرم کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ان کی مخالفت کرنے کا عزم کر لیا ۔

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ اس دن کی تو یہود ونصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں !

توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ ، صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ ))

’’ جب آئندہ سال آئے گا تو إن شاء ﷲ ہم نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ ‘‘

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

’’ اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ۔‘‘

صومِ عاشوراء میں یہود ونصاری کی مخالفت کیسے ہو گی ؟ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ صومِ عاشوراء میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرنے کیلئے دس محرم کے روزے کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھنا چاہئے ، اور اسی کے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ قائل تھے ، جیسا کہ ان کا قول ہے:

(خَالِفُوْا الْیَہُوْدَ،وَصُوْمُوْا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ )

’’ یہود کی مخالفت کرو ، اور نو اور دس محرم کا روزہ رکھو ۔ ‘‘

اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ،وَخَالِفُوْا فِیْہِ الْیَہُوْدَ،وَصُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْمًا أَوْ بَعْدَہُ یَوْمًا))

’’ تم یومِ عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو ۔ اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا روزہ رکھو ۔ ‘‘

اسی حدیث کے پیشِ نظر بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ جو شخص نو محرم کا روزہ نہ رکھ سکے وہ دس محرم کا روزہ رکھنے کے بعدیہودونصاری کی مخالفت کرنے کیلئے گیارہ محرم کا روزہ رکھ لے۔

اور اسی حدیث کی ایک اورروایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں :

(( صُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْمًا، وَبَعْدَہُ یَوْمًا ))

’’ دس محرم سے ایک دن پہلے کا روزہ بھی رکھو اور اس سے ایک دن بعد کا بھی۔ ‘‘

اور شاید اسی روایت کے پیش ِ نظر علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ صوم عاشوراء کے تین مراتب ہیں:سب سے ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے ، پھر اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھا جائے اور اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ بھی رکھا جائے ، کیونکہ اس مہینے میں جتنے زیادہ روزے رکھے جائیں گے اتنا زیادہ اجر وثواب ہوگا ۔ واللہ اعلم

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حرمت والے مہینوں کا احترام کرنے اور ان میں اور اسی طرح باقی مہینوں میں اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق دے ۔ آمین

﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴾(التوبة 9:36)

’’بے شک مہینوں کی گنتی ﷲ کے نزدیک لوح محفوظ میں بارہ ہے اور یہ اس دن سے ہے جب سے اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت وادب کے ہیں، یہی مضبوط دین ہے۔ لہٰذا تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘

یعنی ابتدائے آفرینش سے ہی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ حرمت والے چار مہینے کون سے ہیں؟ اس کے بارے میں ایک حدیث سماعت فرمائیے: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَلسَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا مِنْہَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ: ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُوْالْقَعْدَۃِ، وَذُوْالْحَجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَر اَلَّذِیْ بَیْنَ جُمَادیٰ وَشَعْبَانَ۔ (صحیح البخاري، التفسیر باب سورۃ التوبة)

’’سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے در پے ہیں اور وہ ذوالقعدۃ، ذوالحجہ اور محرم ہیں اور چوتھا مہینہ رجبِ مضر ہے جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔‘‘

’’تین پے در پے اور چوتھا اکیلا ‘‘ اس میں کیا حکمت ہے؟ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ ذوالقعدہ میں جوکہ حج والے مہینے سے پہلے آتا ہے‘ وہ لوگ قتال بند کر دیا کرتے تھے۔ اور ذوالحجہ کے مہینہ میں وہ حج ادا کیا کرتے تھے، پھر اس کے بعد ایک اور مہینہ بھی حرمت والا قرار دے دیا تاکہ وہ امن وامان سے اپنے وطن کو لوٹ سکیں، پھر سال کے درمیان ایک اور مہینہ حرمت والا قرار دیا تاکہ وہ عمرہ اور زیارتِ بیت ﷲ کےلئے امن سے آجا سکیں۔ (تفسیر ابن کثیر:468/2)

عزیزانِ گرامی!

ﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں حرمت والے چار مہینوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ یعنی ’’ان میں (خصوصی طور پر) تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘

ظلم تو سال کے بارہ مہینوں میں ممنوع ہے لیکن ان چار مہینوں کی عزت وحرمت اور ان کے تقدس کی وجہ سے ﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرما دیا۔

اس ظلم سے مراد کیا ہے؟

ایک تو یہ مراد ہے کہ ان مہینوں میں جنگ وجدال اور قتال نہ کیا کرو۔ جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ﴾ (البقرۃ: 2 : 217)

’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے۔‘‘

زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ ان چار مہینوں کی حرمت کا خیال رکھتے تھے اور آپس کی جنگ اور لڑائی کو ان میں روک دیا کرتے تھے، پھر اسلام نے بھی ان کے احترام وتقدس کو برقرار رکھا اور ان میں لڑائی کو کبیرہ گناہ قرار دیا۔ اور ظلم سے مراد یہ بھی ہے کہ تم ان چار مہینوں میں خصوصی طور پر ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو، کیونکہ ان میں نافرمانی کرنے کا گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ ﷲ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ظلم کو سال کے بارہ مہینوں میں حرام قرار دیا ہے، پھر ان میں سے چار مہینوں کو خاص کر دیا ہے، کیونکہ ان میں برائی اور نافرمانی کا گناہ زیادہ ہو جاتا ہے اور نیکی اور عمل صالح کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے۔

اور امام قتادۃ رحمہ اﷲ فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ کے بارے میں کہتے ہیں:

’’حرمت والے مہینوں میں ظلم کا گناہ اور بوجھ دوسرے مہینوں کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اور ظلم کا گناہ اگرچہ ہر وقت بڑا ہوتا ہے لیکن ﷲ جس مہینے کو چاہے اس میں ظلم کا گناہ اور بڑا کر دے، جیسا کہ ﷲ تعالیٰ نے فرشتوں میں سے پیامبر فرشتوں کو چن لیا، کلام میں سے قرآن مجید کو چن لیا اور پوری سرزمین میں سے مساجد کو چن لیا۔ اسی طرح مہینوں میں سے ماہ رمضان اور حرمت والے چار مہینوں کو چن لیا، دنوں میں سے یومِ جمعہ کو چن لیا اور راتوں میں سے لیلۃ القدر کو چن لیا۔ تو ﷲ تعالیٰ جسے چاہے عظمت دے دے، لہٰذا تم بھی اسے عظیم سمجھو جسے ﷲ تعالیٰ عظیم سمجھتا ہے۔‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر: 468/2)

میرے مسلمان بھائیو!

سال بھر میں عموماً اور ان چار مہینوں میں خصوصاً ہم سب کو اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے اجتناب کرنا چاہئے اور گناہوں سے اپنا دامن پاک رکھنا چاہئے، کیونکہ گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾ (المطففین83 :14)

’’یوں نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘

اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءَ فِیْ قَلْبِه،فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہُ،وَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَہُ ،فَذَلِكَ الرَّیْنُ الَّذِیْ ذَکَرَ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ الْقُرْآنِ:{کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔ (سنن الترمذی:3334:حسن صحیح ، ابن ماجة 4244وحسنہ الألبانی)

’’مؤمن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے اور اس گناہ کو چھوڑ کر معافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کو دھودیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہ پر گناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتی ہے تو یہی وہ (رَین) ’’زنگ‘‘ ہے جس کا ﷲ تعالیٰ نے قرآن میں تذکرہ کیا ہے:

﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾ (المطففین83 :14)

اور یاد رکھیں! گناہوں کی وجہ سے زندگی پریشان حالی سے گذرتی ہے اور انسان کو حقیقی چین وسکون نصیب نہیں ہوتا۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ‎﴿١٢٤﴾‏ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ‎﴿١٢٥﴾قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ ‎﴿١٢٦﴾۔ (طٰــہ 20:126-124)

’’اور جو شخص میری یاد سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ وہ پوچھے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے نابینا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں توبینا تھا؟ ﷲ تعالیٰ جواب دے گا: اسی طرح ہونا چاہئے تھا کیونکہ تمہارے پاس ہماری آیات آئی تھیں لیکن تم نے انہیں بھلا دیا۔ اسی طرح آج تمہیں بھی بھلا دیا جائے گا۔‘‘

یعنی دین الٰہی سے اعراض کرنے، آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت نہ کرنے اور ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہر چہار جانب سے اسے تنگی گھیر لیتی ہے اور روزی کی کشادگی کے باوجود اس کا اطمینان وسکون تباہ ہو جاتا ہے۔ پھر مرنے کے بعد قبر بھی تنگ ہو جاتی ہے اور برزخ کی طویل زندگی تلخیوں اور بدبختیوں سے گذرتی ہے اور جب قیامت کے روز اسے اٹھایا جائے گا تو وہ بصارت اور بصیرت دونوں سے اندھا ہوگا۔ (والعیاذ باﷲ تعالیٰ) اور گناہوں اور برائیوں ہی کی وجہ سے موجودہ نعمتیں چھن جاتی ہیں اور آنے والی نعمتیں روک لی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ماں باپ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی ایک غلطی کی وجہ سے انہیں جنت کی نعمتوں سے محروم کر دیا گیا۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ‎﴿٣٥﴾‏ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ۔ (البقرۃ2 :36-35)

’’اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جتنا چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ۔ تاہم اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔ پھر شیطان نے ان دونوں کو لغزش میں مبتلا کر دیا اور انہیں اس نعمت اور راحت سے نکلوا دیا جس میں وہ تھے۔‘‘

اسی طرح برائیوں کے برے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ۔ (الأنعام 6:6)

’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر چکے ہیں، وہ جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔ پھر ہم نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا۔‘‘

اس آیت میں ذرا غور فرمائیں! ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تم سے پہلی امتوں کو وہ قوت اور سطوت عطا کی تھی جو تمہیں عطا نہیں کی اور ہم نے انہیں بھرپور نعمتوں سے نوازا، لیکن انہوں نے ناشکری کی تو ہم نے وہ ساری نعمتیں ان سے چھین لیں اور انہیں تباہ وبرباد کر دیا اور اگر تم بھی یہی روش اختیار کرو گے تو کیا تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے مشکل ہے؟ اس لئے ہمیں ﷲ تعالیٰ کی بےشمار نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم ﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن جائیں اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کریں۔

عزیزان گرامی!

اس خطبے کے شروع میں ہم یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے خصوصاً حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے اورماہ محرم کے حوالے سے یہاں دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔

01. ماہِ محرم اور نوحہ

آپ کو معلوم ہے کہ ماہ محرم میں کئی لوگ ماتمی لباس پہن کر نوحہ اور ماتم کرتے ہیں اور سینہ کوبی کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بھی ظلم ہی کی ایک قسم ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ اِن اعمال کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

((أَرْبَعٌ فِیْ أمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجَاھِلِیَّةِ لاَ یَتْرُکُوْنَہُنَّ: اَلْفَخْرُ فِیْ الْأحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِیْ الْأنْسَابِ، وَالْإِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُوْمِ، وَالنِّیَاحَةُ، وَقَالَ: اَلنَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَعَلَیْہَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرْبٍ۔)) (صحیح مسلم، الجنائز، باب التشدید فی النیاحة: 934)

’’جاہلیت کے کاموں میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہونگے جنہیں وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے: حسب (قومیت ) کی بنیاد پر فخر کرنا، کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا، ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا (یا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا) اور نوحہ کرنا۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہیں کرتی تو قیامت کے روز اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ اس پر تارکول کی ایک قمیص ہوگی اور خارش کی بیماری کے لباس نے اس کے جسم کو ڈھانپ رکھا ہوگا۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ وغیرہ کرنا جاہلیت کے امور میں سے ہے اور اس کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ وغیرہ کرنے والے شخص سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّة۔)) (صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منّا من شقّ الجیوب: 1294)

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخساروں پر طمانچے مارے، گریبانوں کو چاک کیا، جاہلیت کے دعوی کے ساتھ پکارا یعنی واویلا کیا اور مصیبت کے وقت ہلاکت اور موت کو پکارا۔‘‘

اور حضرت ابو بردۃ بن ابو موسیٰ الأشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ الأشعری رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ شدید تکلیف میں مبتلا ہوئے اور ان پر غشی طاری ہوگئی۔ آپ کا سر آپ کی ایک اہلیہ کی گود میں تھا۔ اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا لیکن آپ اسے کوئی جواب نہ دے سکے، پھر جب انہیں افاقہ ہوا تو انہوں نے کہا:

’’میں ہر اس شخص سے بری ہوں جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے براء ت کا اعلان کیا۔ بےشک رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے زور زور سے رونے والی، مصیبت کے وقت سر منڈوانے والی اور کپڑے پھاڑنے والی عورت سے براءت کا اعلان فرمایا ہے۔‘‘۔ (صحیح البخاری، الجنائز باب ما ینھی عن الحلق عند المصیبة: 1296، صحیح مسلم الإیمان، باب تحریم ضرب الخدود وشقّ الجیوب: 167)

ان احادیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ماتم اور سینہ کوبی کرنا حرام ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعمال سے اور ان اعمال کے کرنے والوں سے براءت اور لاتعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو اس سے باز آ جانا چاہئے اور فوری طور پر ان سے سچی توبہ کرنی چاہئے۔

معزز سامعین!

ماہ محرم میں نوحہ اور ماتم وغیرہ نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں کیا جاتا ہے اور کون ہے کہ جس کو ان کی شہادت پر غم اور افسوس نہیں ہوگا؟ یقیناً ہر مسلمان کو اس پر حزن وملال ہوتا ہے لیکن جس طرح ہر صدمہ میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر بھی صبر وتحمل کا ہی مظاہرہ کرنا چاہئے۔ نہ کہ نوحہ، ماتم اور سینہ کوبی جیسے جاہلیت والے اعمال وافعال کا۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ‎﴿١٥٥﴾‏ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ‎﴿١٥٦﴾‏ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ۔ (البقرۃ 2 :155 157)

’’اور ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے، کچھ خوف وہراس اور بھوک سے، مال وجان اور پھلوں میں کمی سے اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے، جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے اجر دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ (الزمر39: 10)

’’صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جاتا ہے۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ کی فضیلت کےلیے یہی کافی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور سب سے پیاری صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے اور اسی طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے شدید محبت تھی۔ عطاء بن یسار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا:

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا۔ (مسند أحمد:211/38 :23133،وإسنادہ صحیح ،ورواہ الترمذی عن البراء بن عازب: 3782 وصححہ الألبانی فی الصحیحة :2789)

یعنی ’’ اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے ۔ آپ کے ساتھ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے، ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کندھے پر اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے کندھے پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اِن سے پیار کرتے اور کبھی اُن سے۔ چنانچہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو ان سے محبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ أَحَبَّہُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِیْ،وَمَنْ أَبْغَضَہُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِیْ۔ (مسند أحمد: 211/38 : 23133، وإسنادہ صحیح، ورواہ الترمذی عن البراء بن عازب: 3782 وصححہ الألبانی فی الصحیحة: 2789)

’’ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ۔ ‘‘

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ان دونوں نواسوں سے کس قدر شدید محبت تھی اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانے کےلیے منبر سے نیچے اترتے، انہیں اٹھاتے اور پھر منبر پر جا کر اپنا خطبہ مکمل کرتے ۔

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نمودار ہوئے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ ان میں بار بار پھسل رہے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے، اپنا خطبہ روک دیا، انہیں اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اٹھائے ہوئے منبر پر چڑھے۔ اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ

إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَةٌ۔ (رواہ أحمد: 420/15:9673، و260/13:7876، وسنن ابن ماجہ باختصار: 143 وحسنہ الألبانی)

’’ بے شک تمھارے اموال اور تمھاری اولاد آزمائش ہیں ۔‘‘ میں نے انہیں دیکھا تو مجھ سے رہا نہ جا سکا۔  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔

اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ حالتِ احرام میں اگر کوئی آدمی ایک مکھی کو مار دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا : اہلِ عراق مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں حالانکہ وہ تو نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاتل ہیں ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

(( همَا رَیْحَانَتَایَ مِنَ الدُّنْیَا ))

’’ یہ ( حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دوپھول ہیں ۔ ‘‘

جبکہ سنن ترمذی میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اہلِ عراق میں سے ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ اگر مچھر کا خون کپڑے پر لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا : اس آدمی کو دیکھو ! یہ مچھر کے خون کے متعلق سوال کرتا ہے جبکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشے کو قتل کیا ۔اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :

(إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ ہُمَا رَیْحَانَتَایَ مِنَ الدُّنْیَا)

’’ بے شک حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ دنیا میں میرے دوپھول ہیں۔ ‘‘

اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( إِنَّ ہَذَا مَلَكٌ لَمْ یَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ ہَذِہِ اللَّیْلَةَ،اِسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یُسَلِّمَ عَلَیَّ وَیُبَشِّرَنِیْ بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ أَہْلِ الْجَنَّةِ وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّةِ )

’’ بے شک یہ فرشتہ آج رات زمین پر نازل ہوا ، اس سے پہلے یہ کبھی زمین پر نہیں آیا تھا ، اس نے اللہ تعالیٰ سے مجھے سلام کرنے اور مجھے یہ خوشخبری دینے کی اجازت طلب کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہونگی اور حسن اور حسین ( رضی اللہ عنہما ) نوجوانانِ جنت کے سردار ہونگے ۔ ‘‘

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔

ایک اور روایت میں ان کا بیان ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہ تھا ان دونوں روایات کو جمع کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حسن رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں او ر حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔

عزیزان گرامی ! ان تمام احادیث میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل ذکر کئے گئے ہیں۔اور انہی احادیث کے پیشِ نظر ہم ان دونوں سے محبت کرتے اور اس محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں اور ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ انتہائی المناک اور افسوسناک واقعہ ہے ، لیکن ہم اس پر نوحہ ، ماتم اور سینہ کوبی کرنے کو ناجائز بلکہ حرام تصور کرتے ہیں ، کیونکہ خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے افعال کو حرام قرار دیا ہے ، جیسا کہ ہم اس سے پہلے یہ بات احادیث کی رو سے ثابت کر چکے ہیں ۔ لہٰذا اس واقعہ پر سوائے صبر وتحمل کے اور کوئی چارۂ کار نہیں ۔

نیزیہ بات بھی یاد رہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں حضرت جبریل علیہ السلام نے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا تھا ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ میرے پاس تھے ، اچانک وہ ( حضرت حسین رضی اللہ عنہ ) رونے لگ گئے ، میں نے انہیں چھوڑا تو وہ سیدھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گئے ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا :

بے شک آپ کی امت انہیں عنقریب قتل کردے گی ۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس سر زمین کی مٹی دکھلا دوں جس پر انہیں قتل کیا جائے گا ۔ پھر انہوں نے اس کی مٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی اور یہ وہ سرزمین تھی جسے کربلاء کہا جاتاہے۔

چنانچہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سمجھتے ہیں جیسا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بقضاء وقدرِ الٰہی شہید ہوئے ۔ اور آپ اس وقت شہید ہوئے جب آپ ۴۰؁ ھ میں سترہ رمضان بروزجمعۃ المبارک کو فجر کی نماز ادا کرنے کیلئے جا رہے تھے ! اسی طرح ان سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی ظالموں نے انتہائی المناک انداز میں شہید کیا ۔ اور آپ ماہِ ذو الحجہ ۳۶ ھ؁ میں ایامِ تشریق کے دوران شہیدہوئے اور ان سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس وقت شہید ہوئے جب آپ فجر کی نماز میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے اور یہ سب یقینی طور پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے افضل تھے اور ان کی شہادت کے واقعات زیادہ المناک اور افسوسناک ہیں ، لیکن ایسے تمام واقعات پر ہم سوائے ( إنا لله وإنا إلیہ راجعون ) کے اور کیا کہہ سکتے ہیں !

(۲) ماہِ محرم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم

خصوصا ماہ محرم میں ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردان گرامی ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کو بُرا بھلا کہا جاتا اور انہیں سب وشتم کیا جاتا ہے۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا حرام ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے امام طحاوی رحمہ اﷲ کہتے ہیں :

’’ نحبّ أصحاب رسول ﷲ صلي الله عليه وسلم ،ولا نفرط فی حبّ أحد منھم،ولا نتبرأ من أحد منہم،ونبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم،ولا نذکرہم إلاّ بخیر،وحبّہم دین وإیمان وإحسان،وبغضہم کفر ونفاق وطغیان‘‘

’’ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک صحابی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں سے کسی صحابی سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں اور ہم ہر ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض رکھتا ہو اور انہیں خیر کے ساتھ ذکر نہ کرتا ہو ۔ ہم انہیں خیر کے ساتھ ہی ذکر کرتے ہیں اور ان کی محبت کو عین دین ، عین ایمان اور عین احسان سمجھتے ہیں، جب کہ ان سے بغض رکھنا کفر،نفاق اور سرکشی تصور کرتے ہیں۔ ‘‘

قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ کفار کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے چڑ آتی ہے اور وہ ان کے بارے میں غضبناک ہوتے ہیں ، گویا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے چڑ اور بغض وعناد رکھنا کافروں کا شیوا ہے نہ کہ مسلمانوں کا۔

فر مان الٰہی ہے:

﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ‎﴿٢٩﴾

’’ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں۔ آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں ، اﷲ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کی نشانی ان کی پیشانیوں پر عیاں ہے ، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور انجیل میں بھی ان کی یہی مثال بیان کی گئی ہے ۔ اس کھیتی کی مانند جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی ، پھر اسے سہارا دیا تو وہ موٹی ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی ، وہ کھیت اب کاشتکاروں کو خوش کررہا ہے ( ﷲ نے ایسا اس لئے کیا ہے) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑ آئے ۔ ان میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا ان سے ﷲ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔ ‘‘

اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے سے منع فرمایا ہے۔آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(( لاَ تَسُبُّوْ أَصْحَابِیْ،فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلاَ نَصِیْفَہُ ))

’’ میرے ساتھیوں کو گالیاں مت دینا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ نہ ان کے ایک مُدّ کے برابر ہوسکتا ہے اور نہ آدھے مُدّ کے برابر ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :

(لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ، فَلَمُقَامُ أَحَدِہِمْ سَاعَةٌ خَیْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ عُمُرَہُ )

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو برا بھلا نہ کہناکیونکہ ایک گھڑی کے لئے ان کا ( رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) کھڑا ہونا تمہاری پوری زندگی کے عمل سے بہتر ہے۔ ‘‘

اور حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ یوں کہا کرتے تھے :

(لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ، فَلَمُقَامُ أَحَدِہِمْ سَاعَةٌ یَعْنِیْ مَعَ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم خَیْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ أَرْبَعِیْنَ سَنَةٌ)

’’ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو گالیاں نہ دینا کیونکہ ان میں سے ایک صحابی کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھڑی کے لئے کھڑا ہونا تم میں سے ایک شخص کے چالیس سال کے عمل سے بہتر ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے اور ان کا ادب واحترام کرنے کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ :

محترم حضرات !پہلے خطبہ میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ محرم کا مہینہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ان مہینوں کے دوران اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے (یعنی اﷲ کی نافرمانی کرنے سے ) منع فرمایا ہے ۔ لہٰذا ہمیں اﷲ کی نافرمانی سے اجتناب کے ساتھ ساتھ اس ماہ کے دوران عمل صالح زیادہ سے زیادہ کرنا چاہئے ، خاص طور پر نفلی روزے زیادہ رکھنے چاہئیں ، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَہْرُ اﷲِ الْمُحَرَّمُ،وَأَفْضَلُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ صَلاَۃُ اللَّیْل))

’’ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں جو کہ اﷲ کا مہینہ ہے ۔ اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔‘‘

خاص طور پر یومِ عاشوراء ’ دس محرم ‘ کا روزہ ضرور رکھنا چاہئے ، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے مسلسل اس دن کا روزہ رکھتے رہے۔ پھر آپ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیا کرتے تھے۔اس کے بعد جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ جو چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘

اس بارے میں چند احادیث سماعت فرمائیے :

1۔عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال:مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم یَتَحَرّٰی صِیَامَ یَوْمٍ فَضَّلَہُ عَلیٰ غَیْرِہٖ إِلاَّ ہَذَا الْیَوْمَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ،وَہَذَا الشَّہْرَ یَعْنِیْ شَہْرَ رَمَضَانَ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کسی ایک دن کو دوسرے دنوں پر فوقیت دیتے ہوئے اس کے روزے کا قصد کرتے ہوں سوائے یومِ عاشوراء کے اور سوائے ماہِ رمضان کے۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے علاوہ باقی دنوں میں سے یومِ عاشوراء کے روزے کا جس قدر اہتمام فرماتے اتنا کسی اور دن کا اہتمام نہیں فرماتے تھے ۔

2۔ عن عائشة رضی اﷲ عنہا قالت:’’ کَانَتْ قُرَیْشُ تَصُوْمُ عَاشُوْرَاءَ فِیْ الْجَاہِلِیَّةِ،وَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وسلم یَصُوْمُہُ،فَلَمَّا ہَاجَرَ إِلَی الْمَدِیْنَةِ صَامَہُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ،فَلَمَّا فُرِضَ شَہْرُ رَمَضَانَ قَالَ:مَنْ شَاءَ صَامَہُ،وَمَنْ شَاءَ تَرَکَہُ‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جاہلیت کے دور میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے ۔ پھر جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو بھی آپ اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیتے تھے ، اس کے بعد جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دے دیااور فرمایا :

’’ جس کا جی چاہے اس دن کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے اس کو چھوڑ دے ۔ ‘‘

3۔ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلي الله عليه وسلم نے مدینہ کے ارد گرد بسنے والی بستیوں میں یہ حکم بھیجا کہ بستیوں والے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھیں ۔ چنانچہ ہم خود بھی روزہ رکھتے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ۔اور جب کھانے کے لئے بچے روتے تو ہم انہیں کھلونے دے دیا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے ساتھ افطار تک دل بہلاتے رہیں۔

4۔حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ نے ان سے پوچھا : تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : یہ ایک عظیم دن ہے ، اس میں ﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھا ۔ اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا :

( فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلٰی بِمُوْسیٰ مِنْکُمْ )

’’ تب تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں اور تمہاری نسبت ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا ۔

یومِ عاشوراء کی اہمیت ۔۔۔۔۔قدیم زمانے میں

قدیم زمانے میں یومِ عاشوراء کی اہمیت کیا تھی ؟ اس بارے میں اگرچہ عام لوگوں میں بہت ساری باتیں مشہور ہیں، لیکن ہمیں صحیح روایات سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقِ آب فرمایا۔ اسی وجہ سے یہود اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ،جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے ، جسے ہم نے ابھی ذکر کیا ہے ۔

اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہود یومِ عاشوراء کو عید کا دن تصور کرتے تھے اور اہلِ خیبر ( یہود ) اس دن اپنی عورتوں کو خصوصی طور پر زیورات وغیرہ پہنا کر خوشیاں مناتے تھے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( فَصُوْمُوْہُ أَنْتُمْ)

’’ تم اس دن کا روزہ رکھا کرو ۔ ‘‘

باقی جہاں تک قصۂ نجاتِ موسی علیہ السلام وبنی اسرائیل اور غرقِ فرعون کا تعلق ہے تو وہ قرآن مجید میں تفصیلاً موجود ہے ۔ اسی طرح صحیح روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کے دور میں بھی لوگ اس دن کی تعظیم کرتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت جسے ہم ذکر کر چکے ہیں ‘ سے معلوم ہوتاہے ۔اس کے علاوہ اور کوئی بات صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔

تنبیہ : مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ

(وَہُوَ الْیَوْمُ الَّذِیْ اسْتَوَتْ فِیْہِ السَّفِیْنَةُ عَلَی الْجُوْدِیِّ فَصَامَہُ نُوْحٌ شُکْرًا)

’’ یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں کشتی ٔ نوح علیہ السلام جودی پہاڑ پر جا لگی تھی ، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا ۔ ‘‘

لیکن اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد الصمد بن حبیب ہے جو کہ ضعیف ہے ۔اور دوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جو کہ مجہول ہے۔

اسی طرح طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ

(وَفِیْ یَوْمِ عَاشُوْرَاءَ تَابَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلیٰ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ،وَعَلیٰ مَدِیْنَۃِ یُوْنُسَ،وَفِیْہِ وُلِدَ إِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ )

’’یوم عاشوراء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی۔ اسی طرح یونس علیہ السلام کے شہر والوںپر بھی اللہ تعالیٰ نے اسی دن خصوصی توجہ فرمائی اور اسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔ ‘‘

لیکن اس کی سند کے متعلق الحافظ الہیثمی کا کہنا ہے کہ اس میں ایک راوی عبد الغفور ہے جو کہ متروک ہے ۔

یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت

حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے یومِ عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(یُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِیَةَ )

یعنی ’’پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ۔‘‘ اس حدیث کے پیش نظر ہر مسلمان کو یومِ عاشوراء کے روزے کا اہتمام کرنا چاہئے اور اتنی بڑی فضیلت حاصل کرنے کا موقعہ ملے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

لیکن افسوس صد افسوس ! اس دور میں معیار تبدیل ہوگیا ہے ، لوگوں نے اس دن کے حوالے سے کیا کیا بدعات ایجاد کرلی ہیں ، سنت بدعت بن گئی ہے اور بدعت کو سنت تصور کیا جانے لگا ہے ! بجائے اس کے کہ اس دن کا روزہ رکھا جاتا اور پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کروانے کا جو سنہری موقعہ ملا تھا اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ، اس کے بجائے لوگوں نے یہ دن کھانے پینے کا دن تصور کرلیا ہے ۔ لہٰذا خوب کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے ، خصوصی ڈشیں تیار کی جاتی ہیں ، پانی اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ نہیں معلوم یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم ہے یا ان کی شہادت کا جشن ہے جو منایا جاتا ہے !

صومِ عاشوراء میں یہود کی مخالفت

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی امر میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اہلِ کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے ۔

یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی مخالفت کرنے اور ان کی موافقت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بتلایا گیا کہ یہود ونصاری بھی دس محرم کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ان کی مخالفت کرنے کا عزم کر لیا ۔

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ اس دن کی تو یہود ونصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں !

توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ ، صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ ))

’’ جب آئندہ سال آئے گا تو إن شاء اﷲ ہم نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ ‘‘

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

’’ اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ۔‘‘

صومِ عاشوراء میں یہود ونصاری کی مخالفت کیسے ہو گی ؟ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ صومِ عاشوراء میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرنے کیلئے دس محرم کے روزے کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھنا چاہئے ، اور اسی کے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ قائل تھے ، جیسا کہ ان کا قول ہے:

(خَالِفُوْا الْیَہُوْدَ،وَصُوْمُوْا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ )

’’ یہود کی مخالفت کرو ، اور نو اور دس محرم کا روزہ رکھو ۔ ‘‘

اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ،وَخَالِفُوْا فِیْہِ الْیَہُوْدَ،وَصُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْمًا أَوْ بَعْدَہُ یَوْمًا))

’’ تم یومِ عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو ۔ اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا روزہ رکھو ۔ ‘‘

اسی حدیث کے پیشِ نظر بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ جو شخص نو محرم کا روزہ نہ رکھ سکے وہ دس محرم کا روزہ رکھنے کے بعدیہودونصاری کی مخالفت کرنے کیلئے گیارہ محرم کا روزہ رکھ لے۔

اور اسی حدیث کی ایک اورروایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں :

(( صُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْمًا، وَبَعْدَہُ یَوْمًا ))

’’ دس محرم سے ایک دن پہلے کا روزہ بھی رکھو اور اس سے ایک دن بعد کا بھی۔ ‘‘

اور شاید اسی روایت کے پیش ِ نظر علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ صوم عاشوراء کے تین مراتب ہیں:سب سے ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے ، پھر اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھا جائے اور اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ بھی رکھا جائے ، کیونکہ اس مہینے میں جتنے زیادہ روزے رکھے جائیں گے اتنا زیادہ اجر وثواب ہوگا ۔ واللہ اعلم

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حرمت والے مہینوں کا احترام کرنے اور ان میں اور اسی طرح باقی مہینوں میں اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق دے ۔ آمین