ماہِ رجب کی بدعات
اہم عناصر خطبہ :
1۔ ماہِ رجب حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے
2۔ رجب کی بعض بدعات
3۔ صلاۃ الرغائب
4۔ رجب کے مخصوص روزے
5۔ رجب کی ستائیسویں رات کی عبادت یا اگلے دن کا روزہ
6۔کیا رجب میں عمرہ کرنا افضل ہے ؟
7۔ رجب کے کونڈے
برادرانِ اسلام !
رجب کا مہینہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ‎﴾
’’بے شک مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک لوح محفوظ میں بارہ ہے ۔ اور یہ اس دن سے ہے جب سے اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے چار مہینے حرمت وادب کے ہیں ۔ یہی مضبوط دین ہے ، لہٰذا تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔‘‘
یعنی ابتدائے آفرینش سے ہی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔
حرمت والے چار مہینے کونسے ہیں ؟
اس کی وضاحت صحیح بخاری کی ایک حدیث میں یوں کی گئی ہے :
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اَلسَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا مِنْہَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ:ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِیَاتٌ:ذُوالْقَعْدَۃ، وَذُوالْحِجَّة، وَالْمُحَرَّم،وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادٰی وَشَعْبَان ))
’’ سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں چار حرمت والے ہیں ، تین پے در پے ہیں اور وہ ہیں : ذوالقعدۃ ، ذوالحجہ ا ور محرم ا ور چوتھا مہینہ رجبِ مضرہے جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان آتا ہے ۔‘‘
اِس حدیث ِ مبارک میں رجب کی نسبت ’ مضر ‘ قبیلہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ اِس قبیلے کے لوگ دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت رجب کی تعظیم میں نہایت مبالغہ کرتے تھے ۔
عزیزان گرامی ! اﷲ تعالیٰ نے سورۃ التوبۃ کی آیت میں جو ہم نے ابھی ذکر کی ہے ‘حرمت والے چار مہینوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے : ﴿فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ‎﴾ یعنی ’’ ان میں (خصوصی طور پر ) تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔‘‘
ظلم تو سال کے بارہ مہینوں میں ممنوع ہے لیکن ان چار مہینوں کی عزت وحرمت اور ان کے تقدس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پران میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرمادیا ۔
اس ظلم سے مراد کیا ہے ؟
اس سے ایک تو یہ مراد ہے کہ ان مہینوں میں جنگ وجدال اور قتال نہ کیا کرو ۔
جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
‎﴿‏ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ
’’ لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے۔ ‘‘
زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ ان چار مہینوں کی حرمت کا خیال رکھتے تھے اور آپس کی جنگ اور لڑائی کو ان میں روک دیا کرتے تھے۔عربی زبان میں لفظ ’ رجب ‘ ترجیب سے ہے اوراس کا معنی بھی تعظیم ہے ۔ اور اس مہینے کو اسی لئے ’ رجب ‘ کہا گیا کہ عرب لوگ اس کی تعظیم کرتے تھے اور اس میں بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے اور اس رسم کو ’ عتیرہ ‘ کا نام دیتے تھے ۔ پھر جب اسلام آیا تو اس نے بھی ان حرمت والے مہینوں کے احترام وتقدس کوبرقرار رکھا اور ان میں لڑائی کو کبیرہ گناہ قرار دیاتاہم رجب کے مہینے میں ادا کی جانے والی رسم ’ عتیرہ ‘کو حرام قرار دے دیا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا فَرَعَ وَلَا عَتِیْرَۃَ)) ’’ اسلام میں نہ ’ فرع ‘ ہے اور نہ ’ عتیرہ ‘ ہے ۔ ‘‘
’ فرع ‘ سے مراد اونٹ ، گائے اور بکری کا وہ پہلا بچہ ہے جس کو جاہلیت میں لوگ اپنے بتوں کیلئے ذبح کرتے تھے ۔ اور ’ عتیرہ ‘ سے مراد وہ جانور ہے جس کو لوگ رجب کے مہینہ میں بتوں کے نام پرذبح کرتے تھے ۔
اِس رسم کو رجبیہ بھی کہا جاتا تھا ۔
عزیز بھائیو ! اِس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا حرام اور شرک اکبر ہے جو انسان کو ملت ِ اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ﴾‏

’’ تم پر مردہ جانور ، (بہتا ہوا) لہو ، سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کرمر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں ۔ اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو ۔ اور وہ جانور بھی جسے آستانوں پر ذبح کیا جائے ۔ اور یہ بھی (حرام ہے کہ ) تم پانسوں سے قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔‘‘

اِ س آیت کریمہ میں ﴿مَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِفرما کر ہر اُس جانور کو حرام قرار دیا گیا جس کو غیر اللہ کیلئے ذبح کیا جائے ۔ اور ﴿وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ فرما کر ہر اس جانور کو حرام قرار دیا گیا جس کو آستانوں یا ان درباروں اور مزاروں پر ذبح کیا جائے جن میں شرک کا ارتکاب کیا جاتا ہو ۔
بلکہ اسلام میں تو وہ جانور بھی حرام ہے جس کو کسی ایسے مقام پر ذبح کیا جائے جہاں شرک کیا جاتا ہو خواہ اس کو ذبح کرتے ہوئے اُس پر اللہ کانام کیوں نہ پکار اگیا ہو ۔
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا : کیا میں اپنی نذر پوری کر لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّةِ یُعْبَدُ ؟))
’’ کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کسی بت کی پوجا کی جاتی تھی ؟ ‘‘
انھوں نے کہا : نہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أَعْیَادِہِمْ))
’’ کیا وہ لوگ وہاں کوئی جشن یا عرس مناتے تھے ؟ ‘‘
انھوں نے کہا : نہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَوْفِ بِنَذْرِكَ فَإِنَّہُ لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَةِ اللّٰہِ،وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ ))
’’ تم اپنی نذر پوری کر لو کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں نذر پوری نہیں کی جاتی اور نہ ہی ایسی نذر جس کو پورا کرنے کا انسان اختیار نہ رکھتاہو ۔ ‘‘
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ جہاں کوئی عرس وغیرہ منایا جاتا ہو یا غیر اللہ کی پوجا کی جاتی ہو وہاں اللہ کے نام پر بھی کوئی جانور ذبح نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی وہاں جا کر کوئی نذر پوری کی جا سکتی ہے ۔کیونکہ جس صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ وہ ’بوانہ ‘ مقام پر جا کر اپنی نذر پوری کر نے کیلئے اونٹ ذبح کرسکتا ہے یا نہیں ، یقینا وہ اللہ کے نام پر ہی اسے ذبح کرنے والا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک اس سے یہ پوچھ نہیں لیا کہ وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں کی جاتی تھی اور وہاں کوئی عرس / میلہ تو نہیں لگتا تھا ‘ اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہاں جاکر نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ یعنی اگر وہاں غیر اللہ کی پوجا کی جاتی ہوتی یا وہاں کوئی عرس وغیرہ منایا جاتا ہوتا تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اجازت نہ دیتے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے مقام پر اللہ کے نام سے بھی کوئی جانور ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس سے قطعی طور پر پرہیز کرنا چاہئے ۔
برادران اسلام !
اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴾ میں ظلم سے مراد یہ بھی ہے کہ تم ان چار مہینوں میں خصوصی طور پر اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو ، کیونکہ ان میں نافرمانی کرنے کا گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ظلم کو سال کے بارہ مہینوں میں حرام قرار دیا ہے ، پھر ان میں سے چار مہینوں کو خاص کردیا ہے کیونکہ ان میں برائی اور نافرمانی کا گناہ زیادہ ہوجاتا ہے اور نیکی اور عمل صالح کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے ۔اور امام قتادۃرحمہ ﷲ ﴿ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴾کے بارے میں کہتے ہیں :
’’ حرمت والے مہینوں میں ظلم کا گناہ اور بوجھ دوسرے مہینوں کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔اور ظلم کا گناہ اگرچہ ہر وقت بڑا ہوتا ہے لیکن اﷲ جس مہینے کو چاہے اس میں ظلم کا گناہ اور بڑا کردے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں میں سے پیامبر فرشتوں کو چن لیا ۔ کلام میں سے قرآن مجید کو چن لیا ۔ پوری سرزمین میں سے مساجد کو چن لیا ۔ اسی طرح مہینوں میں سے ماہ رمضان اور حرمت والے چار مہینوں کو چن لیا ، دنوں میں سے یومِ جمعہ کو چن لیا اور راتوں میں سے لیلۃ القدر کو چن لیا ۔ اﷲ تعالیٰ جسے چاہے عظمت دے دے ، لہٰذا تم بھی اسے عظیم سمجھو جسے اﷲ تعالیٰ عظیم قرار دے ۔‘‘
اِس مختصر سی تمہید کا خلاصہ یہ ہے کہ رجب حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے لہٰذا اس کا احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے خاص طور پر اس میں گناہوں سے بچنا چاہئے ۔جبکہ اِس دور میں بعض مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ انھوں نے اِس مہینہ میں کئی بدعات ایجاد کر لی ہیں جنھیں وہ کارِ خیر اور دین کا حصہ سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبۂ حاجت میں ارشاد فرماتے تھے:

(( أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ ، وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا ،وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ))
’’حمد وثناء کے بعد ! یقینا بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ اور سب سے برے امور وہ ہیں جنھیں دین میں نیا ایجاد کیا جائے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))
’’ جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں تھا ، وہ مردود ہے ۔‘‘
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
(( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ))
’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ، وہ مردود ہے۔ ‘‘
اِن احادیث ِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین میں ہر نیا کام بدعت اور ہر نیا طریقہ مردود اور ناقابل قبول ہے ۔
اب ہم رجب میں ایجاد کی گئی بعض بدعات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
1۔ صلاۃ الرغائب
رجب کے مہینے میں ایک بدعت ’’صلاۃ الرغائب‘‘ کے نام سے لوگوں میں مروج ہے ۔ سب سے پہلے اس کی کیفیت جس کو لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ‘ہم اسے ذکر کرتے ہیں ، پھر اس کے بارے میں محدثین رحمہ اللہ کے اقوال آپ کی خدمت میں پیش کریں گے ۔
جو حدیث ’’ صلاۃ الرغائب ‘‘ کے بارے میں بیان کی جاتی ہے اس کے شروع میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( رَجَبُ شَہْرُ اللّٰہِ وَشَعْبَانُ شَہْرِیْ وَرَمَضَانُ شَہْرُ أُمَّتِی))
’’رجب اللہ کا مہینہ ہے ، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ ‘‘
اِس کے بعدحدیث میں رجب کے کچھ جھوٹے فضائل ذکر کئے گئے ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کا یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ ’’ جو شخص رجب کی پہلی جمعرات کے دن کا روزہ رکھے ، پھر جمعہ کی رات کو مغرب وعشاء کے درمیان بارہ رکعات دو دو کرکے اِس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد تین مرتبہ سورۃ القدر اور بارہ مرتبہ سورۃ الاخلاص کی تلاوت کرے۔ جب نماز سے فارغ ہو تو مجھ پر ستر مرتبہ یہ درود شریف پڑھے :(اللہم صل علی محمد النبی الأمی وعلی آلہ ) پھر سجدہ میں چلا جائے اور یہ دعا ستر مرتبہ پڑھے:(سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَئِکَةِ وَالرُّوْحِ) اس کے بعد سر اٹھا کر یہ دعا ستر مرتبہ پڑھے :(رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْأعْظَمُ) بعد ازاں وہ دوسرا سجدہ بھی اسی طرح کرے ۔ اس کے بعد وہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگے گا اس کی ہر حاجت پوری کی جائے گی۔ ‘‘
اس جھوٹی حدیث کے بارے میں محدثین کے اقوال کچھ یوں ہیں :
1۔ ابن الجوزی اس حدیث کو ’’ الموضوعات ‘‘ میں روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں :
’’ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑی گئی ہے اور محدثین نے اس کا الزام ابن جہضم پر لگایا ہے جو ان کے نزدیک جھوٹ بولتا تھا ۔ اور میں نے اپنے شیخ عبد الوہاب الحافظ سے سنا تھا کہ اس کے رجال مجہول ہیں ۔ اور خود میں نے بھی تمام کتب میں تفتیش کی تو مجھے ان کے بارے میں کچھ نہ ملا ۔‘‘
اور ذہبی ابن الجوزی کے مذکورہ قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:(لَعَلَّہُمْ لَمْ یُخْلَقُوْا) یعنی اس حدیث کو روایت کرنے والے رجال شاید پیدا ہی نہیں ہوئے۔
اسی طرح ابن الجوزی ’الصلاۃ الألفیة‘ کے بارے میں موضوع حدیث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
’’ اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اِس کے زیادہ تر راوی مجہول ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو بالکل ضعیف ہیں اور اِس طرح کی حدیث کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونا نا ممکن ہے ۔ اور ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو یہ نماز پڑھتے ہیں ،جب چھوٹی راتیں ہوتی ہیں تو وہ اِس کے بعد سو جاتے ہیں اور ان کی فجر کی نماز بھی فوت ہو جاتی ہے ۔ جبکہ جاہل ا ائمۂ مساجد نے اِس نماز کو اور اسی طرح ’’صلاۃ الرغائب‘‘ کو لوگوں کو جمع کرنے اور کسی بڑے منصب تک پہنچنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور قصہ گو لوگ اپنی مجالس میں اسی نماز کا تذکرہ کرتے ہیں حالانکہ یہ سب حق سے بہت دور ہیں ۔ ‘‘
2۔ ابن رجب کہتے ہیں : ’’ ماہِ رجب کے پہلے جمعہ کی رات میں صلاۃ الرغائب پڑھنے کے متعلق جو احادیث مروی ہیں وہ سب کی سب جھوٹی ، باطل اور غیر صحیح ہیں ۔اور یہ نماز جمہور علماء کے نزدیک بدعت ہے جو چوتھی صدی کے بعد ظاہر ہوئی ۔‘‘
3۔ امام نووی کہتے ہیں: ’’ وہ نماز جو صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف ہے اور جس کی بارہ رکعات رجب کی پہلی رات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہیں ، و ہ اور اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات کی سو رکعات نماز یہ دونوں نمازیں بہت بری بدعت ہیں ۔ لہٰذا ’قوت القلوب‘ اور ’ احیاء علوم الدین ‘ میں ان کے تذکرہ سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے ۔ اور نہ ہی ان کے بارے میں روایت کی گئی حدیث سے دھوکہ کھانا چاہئے کیونکہ وہ پوری کی پوری باطل ہے ۔‘‘
4۔ محمد بن طاہر الہندی کہتے ہیں:( صَلَاۃُ الرَّغَائِبِ مَوضُوعٌ بِالْاِتِّفَاقِ ) ’’ صلاۃ الرغائب بالاتفاق من گھڑت ہے ۔ ‘‘
5۔ امام شوکانی کہتے ہیں:(قَدِ اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی أَنَّہَا مَوضُوعَةٌ ۔۔۔وَوَضْعُہَا لَا یَمْتَرِیْ فِیہِ مَنْ لَہُ أَدْنٰی إِلْمَامٌ بِفَنِّ الْحَدِیثِ،وَقَالَ الفَیْرُوزآبَادِی فِی الْمُخْتَصَرِ:إِنَّہَا مَوضُوعَةٌ بِالْاِتِّفَاقِ،وَکَذَا قَالَ الْمَقْدِسِیُّ)
یعنی تمام حفاظِ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نماز من گھڑت ہے ۔ اوراس کے من گھڑت ہونے میں فن حدیث میں ادنیٰ سا علم رکھنے والے شخص کو بھی شک وشبہ نہیں ۔ فیروز آبادی اور اسی طرح مقدسی نے بھی صراحتاً کہا ہے کہ یہ حدیث باتفاقِ محدثین موضوع ہے ۔
6۔ مولانا عبد الحی لکھنوی کہتے ہیں:(إِنَّ حَدِیْثَ صَلَاۃِ الرَّغَائِبِ مَوضُوعٌ بِاتِّفَاقِ أَکْثَرِ الْمُحَدِّثِیْنَ أَو کُلِّہِمْ،وَ لَاعِبْرَۃَ بِمَنْ خَالَفَہُمْ کَائِنًا مَنْ کَانَ )
یعنی ’’ صلاۃ الرغائب ‘‘ والی حدیث من گھڑت ہے اور اس پر اکثر محدثین یا سب محدثین کا اتفاق ہے ۔ اور ان کی مخالفت کرنے والے کا کوئی اعتبار نہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
اس کے علاوہ سیوطی ، ابن عراق اور الکرمی المقدسی نے بھی اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔
2۔ رجب کے مخصوص روزے
ماہِ رجب کی بدعات میں سے ایک بدعت ہے اس میں روزے کی مخصوص فضیلت کا اعتقاد رکھتے ہوئے مخصوص روزے رکھنا ۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس مہینہ کے روزوں کے بارے میں کچھ بھی صحیح ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ سکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر اِس مہینے میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے ۔
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے امام الساجی الحافظ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ امام عبد اللہ الأنصاری رجب میں روزہ نہیں رکھتے تھے اور اس سے منع بھی کرتے تھے ۔ نیز وہ کہتے تھے :
( مَا صَحَّ فِی فَضْلِ رَجَب وَفِی صِیَامِهِ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم شَیٌْ )
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجب کی فضیلت یا اس میں روزوں کی فضیلت کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔ ‘‘
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
(لَمْ یَرِدْ فِی فَضْلِ شَہْرِ رَجَبٍ وَ لاَ فِی صِیَامِهِ وَلاَ فِی صِیَامِ شَیْئٍ مِنْہُ مُعَیَّنٍ وَلاَ فِی قِیَامِ لَیْلَةٍ مَخْصُوصَةٍ فِیْہِ حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ یَصْلُحُ لِلْحُجَّةِ،وَقَدْ سَبَقَنِی إِلَی الْجَزْمِ بِذَلِكَ الْإِمَامُ أبُو إِسْمَاعِیلَ الْہِرَوِیُّ)
’’ ماہِ رجب کی فضیلت ، یااس کے روزوں کی فضیلت ، یا اس میں کسی متعین دن کے روزہ کی فضیلت ، یا اس کی کسی متعین رات کے قیام کی فضیلت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے جو قابلِ حجت ہو ۔ اور مجھ سے پہلے یہی یقینی بات امام ابو اسماعیل الہروی نے بھی کہی ہے ۔ ‘‘
اِس کے بعد کہتے ہیں :(وَأَمَّا الْأحَادِیْثُ الْوَارِدَۃُ فِی فَضْلِ رَجَبٍ أَوْ فِی فَضْلِ صِیَامِهِ أَوْ صِیَامِ شَیْئٍ مِنْہُ صَرِیْحَةٌ فَہِیَ عَلٰی قِسْمَیْنِ : ضَعِیْفَةٌ وَمَوْضُوْعَةٌ)
’’ رجب کی فضیلت یا اس کی روزوں کی فضیلت یا اس کے کسی متعین دن کے روزہ کی فضیلت کے بارے میں جتنی صریح حدیثیں وارد ہیں وہ دو قسم کی ہیں : یا وہ ضعیف ہیں یا وہ موضوع ( من گھڑت ) ہیں ۔ ‘‘
امام شوکانی نے علی بن ابراہیم العطار سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا :
(إِنَّ مَا رُوِیَ مِنْ فَضْلِ صِیَامِ رَجَبٍ فَکُلُّہُ مَوْضُوْعٌ وَضَعِیْفٌلاَ أَصْلَ لَہُ)
’’رجب کے روزوں کے متعلق جو کچھ بھی روایت کیا گیا ہے وہ سب من گھڑت ، ضعیف اور بے بنیاد ہے۔‘‘
لہٰذا جب ایک حدیث بھی صحیح سند سے ثابت نہیں تو پھر جھوٹی اور من گھڑت احادیث کی بناء پر یہ اعتقاد رکھنا سراسر غلط ہے کہ رجب میں مخصوص روزوں کی کوئی فضیلت ہے ۔
ماہ ِ رجب میں روزوں کی فضیلت میں جو جھوٹی احادیث بیان کی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے :
(إِنَّ شَہْرَ رَجَبٍ شَہْرٌ عَظِیْمٌ،مَنْ صَامَ مِنْہُ یَوْمًا کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ صَوْمَ أَلْفِ سَنَةٍ، وَمَنْ صَامَ یَوْمَیْنِ کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ صِیَامَ أَلْفَی سَنَةٍ ، وَمَنْ صَامَ مِنْہُ ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ کَتَبَ لَہُ ثَلاَثَةَ آلاَفِ سَنَةٍ ، وَمَنْ صَامَ سَبْعَةَ أَیَّامٍ أُغْلِقَتْ عَنْہُ أَبْوَابُ جَہَنَّمَ ، وَمَنْ صَامَ مِنْہُ ثَمَانِیَةَ أَیَّامٍ فُتِحَتْ لَہُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِیَةُ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّہَا شَاءَ، وَمَنْ صَامَ خَمْسَةَ عَشَرَ یَوْمًا بُدِّلَتْ سَیِّئَاتُہُ حَسَنَاتٍ،وَنَادٰی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ:قَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَكَ،فَاسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ،وَمَنْ زَادَ زَادَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ)
’’بے شک رجب کا مہینہ عظمت والا مہینہ ہے ، جو شخص اس میں ایک دن کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اس کیلئے ایک ہزار سال کے روزے لکھ دیتا ہے ۔ اور جو شخص دو دن کے روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کیلئے دو ہزار سال کے روزے لکھ دیتا ہے ۔ اور جو شخص تین دن کے روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کیلئے تین ہزار سال کے روزے لکھ دیتا ہے ۔ اور جو شخص سات دن کے روزے رکھے اس سے جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں ۔ اور جو شخص آٹھ دن کے روزے رکھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، وہ جس میں سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے ۔ اور جو شخص پندرہ دن کے روزے رکھے اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور ایک منادی آسمان سے اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مغفرت کردی ہے ، اب تم نئے سرے سے عمل شروع کردو ۔ اور جو شخص اس سے زیادہ روزے رکھے اللہ تعالیٰ اسے اور زیادہ عطا کرتا ہے ۔‘‘
اس حدیث کو ابن الجوزی نے ’’ الموضوعات ‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ اسی طرح ذہبی نے بھی اس میں دو راویوں ( علی بن یزیداور ہارون بن عنترۃ ) کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ اورسیوطی نے بھی ان دونوں کی موافقت کی ہے ۔ جبکہ ابن عراق نے ایک اور راوی (اسحاق بن ابراہیم الختلی) کی نشاندہی کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ حافظ ابن حجر نے اسی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور اس کے بارے میں کہا ہے (ہو موضوع بلا شک)’’یہ بلا شبہ موضوع ہے۔‘‘
اسی طرح یہ حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنْ رَجَبٍ وَصَلّٰی فِیْہِ أَرْبَعَ رَکْعَاتٍ یَقْرَأُ فِی أَوَّلِ رَکْعَةٍ مِائَةَ مَرَّۃٍ آیَةَ الْکُرْسِیِّ وَفِی الرَّکْعَةِ الثَّانِیَةِ مِائَةَ مَرَّۃٍ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یَرَی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّةِ)
’’ جو آدمی رجب میں ایک دن کا روزہ رکھے اور اس میں چار رکعات اس طرح پڑھے کہ پہلی رکعت میں سو مرتبہ آیۃالکرسی اور دوسری رکعت میں سو مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھے تو اس کی موت نہیں آئے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے ۔‘‘
اِس کے بارے میں ابن الجوزی کہتے ہیں:
(ہَذَا مَوضُوعٌ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم وَأَکْثَرُ رُوَاتِہِ مَجَاہِیْلُ)
’’ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑی ہوئی حدیث ہے اور اس کے اکثر راوی مجہول ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجب کے روزوں کے حوالے سے منسوب کی جاتی ہے ، یہ ہے :

(مَنْ صَامَ ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ مِنْ رَجَبٍ کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ صِیَامَ شَہْرٍ ۔۔۔وَمَنْ صَامَ نِصْفَ رَجَبٍ کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ رِضْوَانَہُ،وَمَنْ کَتَبَ لَہُ رِضْوَانَہُ لَمْ یُعَذِّبْہُ،وَمَنْ صَامَ رَجَبَ کُلَّہُ حَاسَبَہُ اللّٰہُ حِسَابًا یَّسِیْرًا)
’’ جو شخص رجب میں تین دن کے روزے رکھے گا اللہ اس کیلئے پورے مہینے کے روزوں کا ثواب لکھ دے گا اور جو پندرہ دن کے روزے رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کیلئے اپنی رضا مندی لکھ دے گا اور جس کیلئے رضامندی لکھ دے گا اسے عذاب نہ دے گا ۔اورجو پورے مہینے کے روزے رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ آسان حساب لے گا ۔ ‘‘
اِس کے بارے میں ابن الجوزی کہتے ہیں:
(ہَذَا حَدِیْثٌ لاَ یَصِحُّ،فَفِی صَدْرِہٖ أَبَانُ ،قَالَ شُعْبَةُ:لَأَنْ أَزْنِیَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ أَبَان )
’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، کیونکہ اس کے شروع میں أبان نامی راوی ہے جس کے بارے میں شعبہ کہتے ہیں کہ میں اگر زنا کرلوں تو یہ میرے لئے اِس سے بہتر ہے کہ میں أبان سے روایت کروں ۔ ‘‘
اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جنھیں رجب کے مہینے میں منبر ومحراب پر بیان کیا جاتا ہے یا قلم وقرطاس کے ذریعے ان کی نشر واشاعت کی جاتی ہے ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
(( مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ))
’’ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے تو وہ یقین کر لے کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔‘‘
یہ حدیث متواتر ہے اور ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ یہ ۹۸ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، جبکہ ابن الصلاح نے بعض محدثین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسے ۶۲ صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے جن میں عشرۃ مبشرۃ بھی شامل ہیں ۔اور ملا علی قاری نے سیوطی سے نقل کیا ہے کہ یہ ایک سو سے زیادہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔
اسی لئے امام نووی کہتے ہیں :
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑنا حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں جو سب سے بڑے گناہ ہیں ان میں سے ایک ہے۔ اور بڑی برائیوں میں سے ایک برائی ہے ، چاہے یہ افتراء پردازی احکام میں ہو یا ترغیب وترہیب میں ہو اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے سوائے کرامیہ کے جو ایک مبتدع گروہ ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع ِ حدیث سے سختی سے منع فرمایا ہے اور اس پر جہنم کی وعید سنائی ہے۔
ارشاد ہے : (( َلا تَکْذِبُوا عَلَیَّ ، فَإِنَّہُ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَلِجِ النَّارَ ))
’’ تم مجھ پر جھوٹ نہ گھڑنا ، کیونکہ جو شخص مجھ پر جھوٹ گھڑے گا وہ یقینا جہنم میں جائے گا۔ ‘‘
نیز فرمایا :(( مَنْ یَّقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ ، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ))
’’ جو آدمی میری طرف وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو اس کا ٹھکانا یقینا جہنم ہے۔ ‘‘
موضوع حدیث کو روایت کرنا بھی حرام ہے
حدیث ِ موضوع کویہ تنبیہ کئے بغیر کہ یہ حدیث موضوع ہے ‘روایت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اسے وضع کرنا ہے۔ اور ایسا کرنے والے دونوں اشخاص ( وضاع اور راویٔ حدیث ِ موضوع ) اُس وعید کی زد میں آتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدا وضعِ حدیث کرنے والے شخص کو سنائی ہے۔ اور اس سلسلے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل واضح ہے :
(( مَنْ حَدَّثَ عَنِّی بِحَدِیْثٍ یَرَی أَنَّہُ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ ))
’’ جو شخص مجھ سے وہ حدیث روایت کرے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ یہ جھوٹی ہے ، تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام رحمہ اللہ نے روایت ِ حدیث ِ موضوع کو بالاجماع حرام قرار دیا ہے ۔ خواہ وہ حدیث احکام ومسائل میں ہو یا ترغیب وترہیب میں ہو۔ چنانچہ الخطیب البغدادی کہتے ہیں:(یَجِبُ عَلَی الْمُحَدِّثِ أَنْ لَّا یَرْوِیَ شَیْئًا مِنَ الْأخْبَارِ الْمَصْنُوعَةِ وَالْأحَادِیْثِ الْبَاطِلَةِ الْمَوضُوعَةِ،فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ بَاءَ بِالْإِثْمِ الْمُبِیْنِ،وَدَخَلَ فِی جُمْلَةِ الْکَذَّابِیْن)
یعنی ’’ محدث پر واجب ہے کہ وہ من گھڑت ، باطل اور موضوع احادیث میں سے کوئی حدیث روایت نہ کرے ۔ اور جو شخص ایسا کرے وہ واضح گناہ کا مرتکب ہے اور کذابین کے گروہ میں داخل ہے ۔‘‘
امام نووی کہتے ہیں: (یَحْرُمُ رِوَایَةُ الْحَدِیْثِ الْمَوضُوعِ عَلٰی مَنْ عَرَفَ کَونَہُ مَوضُوعًا أَوْ غَلَبَ عَلٰی ظَنِّہِ وَضْعُہُ،فَمَنْ رَوَی حَدِیْثًا عَلِمَ أَوْ ظَنَّ وَضْعَہُ وَلَمْ یُبَیِّنْ حَالَ رِوَایَتِہِ وَضْعَہُ فَہُوَ دَاخِلٌ فِی ہَذَا الْوَعِیْدِ،مُنْدَرِجٌ فِی جُمْلَةِ الْکَاذِبِیْنَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم ) ’’ جس شخص کو یہ معلوم ہو یا اس کا ظن ِ غالب ہو کہ یہ حدیث موضوع ہے ، پھر وہ یہ بتائے بغیر اسے روایت کرے کہ یہ موضوع ہے تو یہ اس پر حرام ہے اور وہ اِس وعید کی زد میں آتا ہے ۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والوں کے گروہ میں شامل ہے۔ ‘‘
لہٰذا رجب کے متعلق یا دیگر مہینوں کے متعلق جھوٹی اور من گھڑت احادیث کو بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور اِس طرح کی مروجہ احادیث کی حقیقت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئے ۔
3۔ رجب کی ستائیسویں رات کی عبادت اور اگلے دن کا روزہ
لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء ومعراج کا جو معجزہ ہے یہ رجب کی ستائیسویں رات کو پیش آیا تھا ۔اسی لئے وہ اِس رات میں خصوصی عبادت کے قائل ہیں اور اگلے دن روزہ رکھنا مستحب سمجھتے ہیں !
اِس سلسلہ میں پہلی بات یہ ہے کہ واقعۂ اسراء و معراج کی تاریخ کے بارے میں اہلِ علم کے مابین شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں دس سے زیادہ اقوال نقل کئے ہیں ۔ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ ہجرت سے ایک سال قبل ( ماہ ربیع الاول ۱۲ ؁ نبوی ) میں پیش آیا۔یہ ابن سعد وغیرہ کا قول ہے اور یہی بات نووی رحمہ اللہ نے بھی بالیقین کہی ہے ، جبکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جو درست نہیں ہے۔اسکے علاوہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ نے بھی اسی تاریخ ( ہجرت سے ایک سال قبل ) کو بالجزم ذکر کیا ہے ۔
اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ( ماہ رجب ۱۲ ؁ نبوی ) میں پیش آیا۔تیسرا قول یہ ہے کہ یہ ہجرت سے چھ ماہ قبل اور چوتھا قول یہ ہے کہ یہ ہجرت سے گیارہ ماہ قبل پیش آیا ۔ اور کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ کہا۔
مولانا صفی الرحمن مبارکفوری رحمہ اللہ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’ الرحیق المختوم ‘‘ میں اہلِ سِیَر کے چھ اقوال ذکر کئے ہیں، ان میں سے ایک قول علامہ منصورپوری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ نبوت کے دسویں سال ۲۷ رجب کو پیش آیا ۔ پھر انھوں نے اسے اِس بناء پر صحیح ماننے سے انکار کیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نماز پنجگانہ کی فرضیت سے پہلے ہوئی ، یعنی نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ۔ جبکہ نمازیں معراج کی رات فرض کی گئیں ۔ لہٰذا معراج کا زمانہ ان کے بقول اِس کے بعد کا ہو گا اس سے پہلے کا نہیں ۔ اسی طرح انھوں نے وہ دو اقوال بھی غیر صحیح قرار دئیے جو اِس سے بھی پہلے کی تاریخ بتاتے ہیں ۔ رہے باقی تین اقوال(نبوت کے بارہویں سال ماہ رمضان میں، نبوت کے تیرہویں سال ماہ محرم میں اور نبوت کے تیرہویں سال ماہ ربیع الأول میں ) تو ان کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کیلئے کوئی دلیل نہیں مل سکی ۔ تاہم ان کے بقول سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے ۔
تاہم ہمیں جو بات اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ عظیم الشان واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل یعنی ماہ ربیع الاول ۱۲ ؁ نبوی میں پیش آیا ۔ اس کی دلیل امام زہری رحمہ اللہ اور حضرت عروۃ بن زبیر رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ بیت المقدس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اسراء کرایا گیا یہ آپ کی مدینہ روانگی سے ایک سال قبل تھا ۔ ان کا یہ قول موسی بن عقبہ نے اپنی مغازی میں ذکر کیا ہے جو صحیحین کے رواۃ میں سے ہیں اور ان کی اس کتاب کے بارے میں ابن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں : (کِتَابُ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ مِنْ أَصَحِّ ہَذِہِ الْکُتُبِ )
’’ سیرت کی کتابوں میں موسی بن عقبہ کی کتاب جو انھوں نے زہری سے روایت کی ہے صحیح ترین کتابوں میں سے ہے ۔ ‘‘
اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ان کی کتاب کی توثیق کی ہے۔
اور اسی بات کو حافظ عبد الغنی المقدسی رحمہ اللہ نے اپنی سیرت کی کتاب میں ترجیح دی ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔
اور شاید حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ انھوں نے زاد المعاد میں زھری رحمہ اللہ کا یہ قول سب سے پہلے نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل پیش آیا ۔
لہٰذاجو بات عام لوگوں میں مشہور ہے کہ یہ واقعہ ماہ رجب کی ستائیسویں رات کو پیش آیا ‘ درست نہیں کیونکہ کسی معتمد روایت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض اگر یہ بات درست بھی ہو کہ اِس رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرایا گیا تھا تو اِس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اِس میں خصوصی طور پر عبادت کا اہتمام کیا جائے یا اس سے اگلے دن کا روزہ رکھا جائے ! اِس سلسلے میں ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ اگر خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رات میں کوئی خاص عبادت کی تھی تو پھر ہمیں بھی کرنی چاہئے ۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی تو پھر ہمیں بھی نہیں کرنی چاہئے ۔ یا اگر کسی کے پاس اِس بات کا ثبوت ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم معراج کے واقعہ کے بعد اِس رات میں خصوصی طور پر عبادت کا اہتمام کرتے تھے تو وہ ثبوت پیش کرے تاکہ ہم بھی اُن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خصوصی طور پر اِس رات میں عبادت کریں ، لیکن اگر اِس کا کوئی ثبوت نہیں اور یقینا نہیں ہے تو پھر ہمیں من گھڑت خرافات کو ترک کردینا چاہئے اور خالص دین پر ہی عمل کرنا چاہئے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ستائیسویں رات کی عبادت یا ستائیسویں دن کے روزہ کی فضیلت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جاتاہے وہ سب جھوٹ ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
مولانا عبد الحی لکھنوی کہتے ہیں:(وَمَا اشْتَہَرَ فِی بِلَادِ الْہِنْدِ وَغَیْرِہٖ أَنَّ صَوْمَ صَبَاحِ تِلْكَ اللَّیْلَةِ یَعْدِلُ أَلْفَ صَوْمٍ فَلاَ أَصْلَ لَہُ)
یعنی یہ جو بلادِ ہند وغیرہ میں مشہور ہے کہ شبِ معراج کی صبح کو روزہ رکھنا ایک ہزار روزوں کے برابر ہے تو یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔
آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں دین ِ خالص پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ اسی دین پر فرمائے ۔ اور ہمیں بدعات ایجاد کرنے یا ایجاد شدہ بدعات پر عمل کرنے سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
دوسرا خطبہ
رحب کی بدعات کے حوالے سے مزید یہ بھی سن لیجئے کہ بعض لوگ اِس مہینے میں عمرہ کرنا افضل گردانتے ہیں لیکن ان کا یہ اعتقاد اِس لئے درست نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ماہ میں عمرہ کرنے کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ۔ اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس میں عمرہ کیا ہو ۔عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ میں اورحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس بیٹھے تھے ، میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں عمرہ کیا تھا؟ تو انھوں نے کہا : ہاں۔
پھرمیں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتائی تو انھوں نے کہا :
’’ اللہ تعالیٰ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مغفرت کرے ، اللہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رجب کے مہینے میں عمرہ نہیں کیا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی عمرہ کیلئے گئے ہر مرتبہ ابن عمر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ ہی ہوتے تھے ۔ ( پھر بھی وہ یہ بات بھول گئے ہیں ! )
جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کی یہ بات سن رہے تھے ۔ چنانچہ وہ خاموش ہو گئے ۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے تھے اور وہ سب ذو القعدہ کے مہینہ میں تھے سوائے اس عمرہ کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا تھا ۔ پہلا عمرہ حدیبیہ سے ماہ ِذو القعدہ میں ، دوسرا عمرہ اگلے سال ،وہ بھی ذو القعدہ میں ، تیسرا ’ جعرانہ ‘ سے جہاں آپ نے حنین کی غنیمت کو تقسیم کیا تھا اور وہ بھی ذو القعدہ کے مہینہ میں ہی تھا ۔ جبکہ چوتھا عمرہ حج کے ساتھ تھا۔
اِس سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینہ میں قطعا عمرہ نہیں کیا تھا۔ لہٰذا یہ اعتقاد رکھنا غلط ہے کہ اس میں عمرہ کرنا افضل ہے ۔
رجب کے کونڈے
ایک اور بدعت جس پر رجب کے مہینہ میں عمل کیا جاتا ہے وہ ہے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام پر ’ رجب کے کونڈے ‘ کرنا ۔کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے ایک شخص نے ’’ داستان عجیب ‘‘کے نام سے ایک کہانی شائع کی جس میں حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا کہ انھوں نے کہا : جو شخص ۲۲ رجب کو میرے نام کی نیاز کے طور پر ’کونڈے ‘ کرے اور میرے ذریعے اپنی حاجت مانگے تو ضرور پوری ہو گی اور اگر پوری نہ ہوئی تو قیامت کے روز میرا دامن ہو گا اور اس کا ہاتھ ۔
غور کیجئے ‘ وہ رسم جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چودہ سو سال بعد ایجاد کیا گیا وہ کیسے دین کا حصہ ہو سکتی ہے؟ اور کیا امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی اِس وصیت کا انکشاف چودہ سو سال بعد ہی ہونا تھا، پہلے کیوں نہ ہوا ؟ اور کیا یہ ہو سکتا ہے کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت نے اپنے نام کی نذر کے طور پر کونڈے کرنے کی وصیت کی ہو جبکہ غیر اللہ کے نام کی نذر ماننا حرام ہے ! کیونکہ نذر ایک عبادت ہے اور ہر عبادت کو اللہ کیلئے خاص کرنا ضروری ہے ۔ اور کسی بھی عبادت میں غیر اللہ کو شریک کیا جائے تو وہ شرک اکبر ہوتا ہے ۔ لہٰذا امام جعفر صادق رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایسا کام کرنے کی وصیت کریں جس میں شرک پایا جاتا ہو۔
پھر ذرا سوچیں کہ ۲۲ رجب کا امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے کیا تعلق ہے ؟ اس روز نہ ان کی ولادت ہوئی اور نہ وفات ! اصل بات یہ ہے کہ اس روز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور جو لوگ انھیں برا بھلا کہتے ہیں انھوں نے یہ خود ساختہ بات امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردی کہ اس روز کونڈے کئے جائیں ۔ بہر حال یہ ایک جھوٹی کہانی ہے اور قطعا قابل اعتماد نہیں ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو اِس رسم سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی توحید پر قائم ودائم رکھے اور مشرکانہ عقائد ونظریات سے دور رہنے کی توفیق دے ۔ آمین