ماہِ صفر اور بد شگونی
اہم عناصرِ خطبہ :
1۔ نفع ونقصان کا مالک کون ؟
2۔ ماہِ صفر وغیرہ سے بد شگونی لینا
3۔ ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا
4۔ نجومیوں کے پاس جانا
5۔ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہونے والے خوش نصیبوں کی صفات
پہلا خطبہ
برادران اسلام ! ہر مسلمان کو اِس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ نفع ونقصان کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ اُس کے سوا یہ اختیار کسی کے پاس نہیں ۔ نہ کسی ولی کے پاس اور نہ کسی بزرگ کے پاس ۔ نہ کسی پیر ومرشد کے پاس اور نہ کسی نبی کے پاس ، حتی کہ سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام بنو آدم کے سردار اور سارے انبیاء ورسل علیہم السلام کے امام ہیں وہ کسی کے نفع ونقصان کے مالک تو کجا اپنے نفع ونقصان کے مالک بھی نہ تھے ۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿١٨٨﴾
’’ آپ کہئے کہ میں تو اپنے نفع ونقصان کا مالک بھی نہیں سوائے اُس کے جو اللہ چاہے ۔ اور اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔ میں تو صرف ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کیلئے جو ایمان لائے ہیں ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں غور کیجئے کہ جب امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفع ونقصان کے مالک بھی نہیں تو ان سے کم تر کوئی ولی یا کوئی بزرگ یا کوئی پیر جن کی قبروں کی طرف لوگ قصدا جاتے ہیں ‘ وہ کسی کو نفع ونقصان پہنچانے کا اختیار کیسے رکھتے ہیں ؟
اور جن سے لوگ حصولِ نفع کی امید رکھتے اور ان کی طرف سے نقصان پہنچنے کا خوف کھاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ أَفَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿٣٨﴾
’’ آپ کہہ دیجئے کہ تمھارا کیا خیال ہے جن معبودوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا وہ اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نقصان کو دور کردیں گے ؟ یا وہ مجھے اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک لیں گے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے ، بھروسہ کرنے والے صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ میں گویا اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا ہے کہ اگر کسی بھی غیر اللہ کے پاس نفع ونقصان کا اختیار ہے تو جس کو اللہ تعالیٰ نقصان پہنچانا چاہے ، وہ اسے اُس نقصان سے بچا کر دکھائیں،یاجس کو اللہتعالیٰ اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو وہ اس سے اُس رحمت کو روک کر دکھائیں ! یعنی وہ ایسا نہیں کر سکتے ۔ اور جب وہ ایسا نہیں کر سکتے تو اِس کا معنی یہ ہے کہ وہ کسی کو نفع ونقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٢﴾
’’ ﷲ جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ۔ اور جسے وہ روک دے اس کے بعد اسے کوئی جاری رکھنے والا نہیں۔ اور وہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے ۔‘‘
اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ کسی اور کو پکارنے سے منع فرمایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٠٦﴾وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿١٠٧﴾
’’ اور ﷲ کو چھوڑ کر کسی اورکو مت پکارنا جو تجھے نہ نفع پہنچا سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے ۔ اور اگر آپ کو ﷲ تعالیٰ کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے علاوہ اسے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ آپ کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں ۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے ۔ اور وہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ میں جہاں اللہ تعالی نے غیر اللہ کو ’جو نفع ونقصان کا مالک نہیں ‘ پکارنے سے منع فرمایا اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ ایسا کریں گے تو ( نعوذ باللہ ) ظالموں میں سے ہو جائیں گے ، وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر وہ اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اُسے کوئی دور نہیں کر سکتا اور اگر وہ اسے اپنے فضل سے نوازنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ یہ اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ اختیار ہے ہی صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ۔ اور ذرا سوچیں ! اگر امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے اللہ کے اور کوئی نقصان سے بچانے والا نہیں تو عام مسلمانوںمیں سے کسی شخص کو سوائے اللہ کے کون نقصان بچا سکتا ہے ؟
لہٰذا کسی بھی غیر اللہ سے نہ نفع کی امید رکھنی چاہئے اور نہ ہی اُس سے کسی نقصان کا خوف کھانا چاہئے، کیونکہ غیر ﷲ سے اس بات کا خوف کھانا کہ وہ اپنے ارادے اوراپنی قدرت سے جس کو چاہے اور جو چاہے نقصان پہنچا سکتا ہے یہ شرک اکبر ہے ۔ اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا :
﴿وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿٨٠﴾ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا﴾
’’ اور میں ان معبودوں سے نہیں ڈرتا جنہیں تم ﷲ کا شریک ٹھہراتے ہو مگر یہ کہ میرے رب کی ہی کوئی مشیت ہو ۔ میرے رب کا علم ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔ کیا تم نصیحت نہیں حاصل کرتے ؟ اور ان سے میں کیسے ڈروں جنہیں تم ﷲ کا شریک بناتے ہو حالانکہ تم ان باتوں سے نہیں ڈرتے کہ تم نے ﷲ کا شریک ایسی چیزوں کو بنا رکھا ہے جن کی ﷲ نے تم پر کوئی دلیل نہیں اتاری ۔ ‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی پیر ،فقیر اور بزرگ سے قطعًا خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے اور اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کوئی کسی کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ ایسا خوف صرف ﷲ تعالیٰ ہی سے ہونا چاہئے کیونکہ ﷲ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو اپنے ارادے سے نقصان پہنچانے پر قادر ہے ۔ اور اگر وہ نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ کرے تو دنیا کا کوئی بزرگ یا پیر یا سجادہ نشین ہرگز نقصان نہیں پہنچاسکتا ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٥١﴾
’’آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے جو ﷲ نے ہمارے حق میں لکھ رکھی ہے ۔ وہی ہمارا کارساز ہے۔ اور مومنوں کو تو ﷲ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے ۔ ‘‘
اسی طرح رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( وَاعْلَمْ أَنَّ الْأمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَّنْفَعُوْكَ بِشَیْئٍ،لَمْ یَنْفَعُوْكَ إِلَّا بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَكَ ، وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْكَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْكَ إِلَّا بِشَیْئٍی قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْكَ ))
’’ اور اس بات پر یقین کرلو کہ اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو ﷲ نے تمھارے حق میں لکھدیا ہے ۔ اوراگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو ﷲ نے تمھارے حق میں لکھدیا ہے ۔ ‘‘
برادران اسلام ! نفع ونقصان کے متعلق ہم نے جو بنیادی عقیدہ ذکر کیا ہے اِس کی مناسبت یہ ہے کہ یہ جو ماہِ صفر ہے اِس کو کئی لوگ منحوس مہینہ کہتے ہیں اور اِس میں کسی کام کی ابتداء کرنا درست نہیں سمجھتے کیونکہ ان کا اعتقاد یہ ہوتاہے کہ جو کام اِس مہینہ میں شروع کیا جائے گا اُس میں کوئی خیر وبرکت نہیں ہوگی اور وہ آخر کار ناکام ہی ہوگا۔ یعنی وہ اِس مہینہ سے خائف ہوتے ہیں کہ اِس میں تو خسارہ اور نقصان ہی ہوگا جبکہ جو عقیدہ ہم نے ابھی قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا ہے اُس کی رو سے یہ بالکل غلط ہے کہ کسی مہینہ کو منحوس تصور کرتے ہوئے اس میں کوئی کام شروع کرنے سے خوف کھایا جائے ۔ مہینے سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کے ہیں اور ہر مہینہ میں نفع ونقصان اللہ ہی کی طر ف سے ہوتا ہے ۔
اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَةَ وَلَا صَفْرَ ))
’’ کوئی بیماری خود بخود متعدی نہیں ہوتی ۔ نہ بد شگونی لینا درست ہے اور نہ کسی پرندے کو منحوس سمجھنا درست ہے ۔ اور نہ ہی ماہِ صفرسے بد شگونی لینا صحیح ہے ۔ ‘‘
لہٰذا مسلمانوں کو یہ جاہلانہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہئے ۔ اِس کے بر عکس محض اللہ تعالیٰ پر ہی اعتماد اور بھروسہ ہونا چاہئے کہ ہر قسم کا نفع ونقصان اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ اور نفع ونقصان کا کسی مہینے سے کوئی تعلق نہیں ۔
بد شگونی کیا ہوتی ہے ؟ بد شگونی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی کام کرنے کا پختہ عزم کرچکا ہو ، پھر کوئی چیز دیکھ کر یا کوئی بات سن کر وہ کام نہ کرے۔ جاہلیت کے زمانے میں کوئی شخص جب کسی کام کے لئے گھر سے روانہ ہونا چاہتا تو وہ ایک پرندے کو اڑا کر دیکھتا ، اگر وہ دائیں طرف اڑتا تو روانہ ہوجاتا ۔ اوراگر بائیں طرف اڑتا تو اس سے بد شگونی لیکر واپس آجاتا ۔ شریعت نے اِس طرح کی بد شگونی سے منع کیا ہے ، بلکہ بد شگونی لینے اور فال نکالنے کو شرک قرار دیا ہے۔کیونکہ جو شخص اس طرح کرتا ہے وہ گویا ﷲ پر توکل نہیں کرتا بلکہ وہ اس چیز پر توکل کرتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
حضرت عبد ﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِهِ فَقَدْ أَشْرَكَ))
’’ جس شخص کو بدشگونی کسی کام سے روک دے تو اس نے یقینا شرک کیا ۔ ‘‘
بعض لوگ کسی شخص سے بد شگونی لیتے ہیں ۔ مثلا صبح سویرے اپنے کارو بار کیلئے کہیں جاتے ہوئے اگر کوئی مسکین یا مانگنے والا مل جائے تو کہتے ہیں یہ صبح سویرے ہی ٹکر گیا ، آج خیر نہیں ہے۔یا گھر میں اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کہتے ہیں یہ اِس منحوس عورت کی وجہ سے ہوا ہے یا اپنی اولاد میںسے کسی ایک سے بد شگونی لیتے ہوئے کہیں گے کہ اِس نقصان کا سبب یہ ہے ! تو اِس طرح کسی شخص سے بد شگونی لینا درست نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں پہلی قوموں کا ذکر کیا ہے وہاں کئی اقوام کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے انبیاء سے بد شگونی لیتے تھے اور جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تو وہ کہتے کہ یہ اسی نبی کی وجہ سے آئی ہے ۔
مثلا حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٣١﴾
’’ پس جب انھیں کوئی اچھی چیز ملتی تو کہتے کہ ہم تو ہیں ہی اس کے حقدار ۔ اور اگر ان کا کوئی نقصان ہو جاتا تو موسی اور ان کے ساتھیوں سے بد شگونی لیتے حالانکہ ان کی شومیٔ قسمت تو اللہ کی جانب سے ہے ۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ کچھ نہیں جانتے ۔ ‘‘
اسی طرح دیگر کئی اقوام کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کا یہی طرز عمل ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے نبیوں سے اور ان پر ایمان لانے والوں سے بد شگونی لیتے اور انہیں منحوس سمجھتے تھے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ نقصان ہونے کی صورت میں کسی سے بد شگونی لے یا کسی کو منحوس تصور کرے ۔ بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ اسے نقصان ہو نے سے پہلے بھی اس بات پر پختہ یقین ہو کہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نقصان نہیں ہو سکتا ۔ اور نقصان ہو جانے کے بعد بھی وہ یہی کہے کہ یہ اللہ کی طرف سے لکھا ہوا تھا اور یہ ہو کر رہنا تھا ۔
بعض لوگ ستاروں کے ذریعے فال نکالتے اور شگون لیتے ہیں ۔ مثلا کسی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ تمھارا ستارہ فلاں ہے اور وہ آج کل گردش میں ہے ، اِس لئے تم جو کاروبار اب شروع کروگے اس میں خسارہ ہو گا یا اگر تم اب شادی کرو گے تو اس میں برکت نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ کسی کی قسمت یا اس کے مستقبل کے امور کا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
(( أَرْبَعٌ فِیْ أمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجَاھِلِیَّةِ لَا یَتْرُکُوْنَہُنَّ : اَلْفَخْرُ فِیْ الْأحْسَابِ ، وَالطَّعْنُ فِیْ الْأنْسَابِ،وَالْإِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُوْمِ،وَالنِّیَاحَةُ))
’’جاہلیت کے کاموں میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہونگے جنہیں وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے : حسب (قومیت ) کی بنیاد پر فخر کرنا ، کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا ، ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا ( یا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا ) اور نوحہ کرنا ۔ ‘‘
اِس حدیث شریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنے کو جاہلیت کے امور میں شمار کیا ۔ یعنی اِس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو اِس سے بچنا چاہئے ۔
اسی طرح حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی ، پھر آپ نے فرمایا :
(( ہَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ ))
’’ کیا تمھیں معلوم ہے کہ آج تمھارے رب نے کیا کہا ہے ؟ ‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔
تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( قَالَ :أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤْمِنٌ بِیْ وَکَافِرٌ ۔ فَأَمَّا مَنْ قَالَ:مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰہِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِیْ وَکَافِرٌ بِالْکَوَاکِبِ،وَأَمَّا مَنْ قَالَ:مُطِرْنَا بِنَوْءِ کَذَا وَکَذَا فَذَلِكَ کَافِرٌ بِیْ مُؤْمِنٌ بِالْکَوَاکِبِ))
’’ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ آج میرے بندوں میں سے کسی نے حالت ایمان میں صبح کی ہے اور کسی نے حالت کفر میں ۔ پس جس نے یہ کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش نازل ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں کی تاثیر سے انکار کرنے والا ہے ۔ اور جس نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے تو اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لے آیا ۔ ‘‘
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص موسمی حالات میں ستاروں کی تاثیر کا قائل ہو وہ اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والا ہے ۔ اسی طرح وہ شخص ہے جو کسی کی قسمت پر ستاروں کی تاثیر کا قائل ہو۔
نجومیوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ان لوگوں کا اسلام اورمسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔اسی طرح وہ بھی جو ان لوگوں کے پاس جائے اور ان کے سامنے اپنی مشکلات بیان کرے تاکہ وہ ستاروں وغیرہ کے ذریعے ان کا حل ڈھونڈیں ۔
اِرشاد ہے:
(( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطِیِّرَ لَہُ،أَوْ تَکَہَّنَ أَوْ تُکِہِّنَ لَہُ،أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَہُ))
’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بد شگونی لے یا جس کیلئے بد شگونی لی جائے ۔ یا جو ( علم نجوم کے ذریعے ) کہانت کرے یا جس کیلئے کہانت کی جائے ۔ یا جو جادوکرے یا جس کیلئے جادو کا عمل کیا جائے ۔ ‘‘
اور اسی لئے اُن لوگوں کے پاس جانا اور ان سے قسمت کے احوال کے بارے میں سوال کرنا حرام بلکہ شرک اصغرہے جو ستاروں کے ذریعے یا ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ کر قسمت کے احوال کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے پاس جانا اور ان سے اِس طرح کے سوالات کرنا اتنا سنگین جرم ہے کہ ایسا کرنے والے کی چالیس دن کی نمازیں اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوتیں ۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَیْئٍی لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلاَ ۃُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَةٌ ))
’’ جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تواس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی ۔ ‘‘
اور ایسے لوگوں کے پاس جا کر ان سے سوال کرنے اور وہ جو کچھ کہیں اس کی تصدیق کرنے والا شخص ایسے ہے جیسے اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پراتری ہوئی شریعت سے انکار کردیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
(( مَنْ أَتٰی عَرَّافًا أَوْ کَاہِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ))
جو شخص کسی کاہن ( علمِ غیب کا دعویٰ کرنے والے کسی عامل ) کے پاس جائے ، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارے گئے دین ِ الٰہی سے کفر کیا ۔ ‘‘
لہٰذا ایسے لوگوں کے پاس جا کر اپنے دین کا سودا ہرگز نہیں کرنا چاہئے ۔ اور دین کے تحفظ کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم نہ ایسے لوگوں کے پاس جائیں اور نہ ان سے کوئی سوال کریں ۔ بلکہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھیں اور نفع ونقصان کا مالک اکیلئے اللہ تعالیٰ کو تصور کریں ۔ یہ اسلامی عقیدہ کا بڑا اہم مسئلہ ہے جس میں آج بہت سارے مسلمان بھٹک چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے اور ہمیں عقیدہ وعمل کی اصلاح کی توفیق دے۔ آمین
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھنا اور محض اسی کو نقع ونقصان کا مالک تصور کرنا اتنا بڑا عمل ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جن خوش نصیبوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو بھی شمار کیا جو دم وغیرہ کروانے کیلئے کسی کے پاس نہیں جاتا اور وہ خود ہی قرآنی آیات اور مسنون دعاؤں کو پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیتا ہے ۔ وہ بد شگونی نہیں لیتا اور محض اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھتا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ مجھ پر ( سابقہ ) امتیں پیش کی گئیں ۔چنانچہ میں نے ایک نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ محض چند افراد (دس سے کم ) ہیں ۔ ایک نبی کے ساتھ صرف ایک دو آدمی ہیں ۔ اور ایک نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے ۔ پھر اچانک مجھے ایک بہت بڑی جماعت دکھلائی گئی ۔ میں نے گمان کیا کہ شاید یہی میری امت ہے ۔ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ہے ۔ آپ ذرا اس افق کی جانب دیکھئے ۔ میں نے دیکھا تو ایک سوادِ عظیم ( لوگوں کا بہت بڑا گروہ ) نظر آیا ۔ پھر مجھے کہا گیا کہ اب آپ دوسرے افق کی جانب دیکھیں ۔ میں نے دیکھا تو ایک اور سوادِ عظیم نظر آیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو ئے اور اپنے گھر میں چلے گئے ۔ تو لوگ ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) ان سترہزار افراد کے متعلق غور وخوض کرنے لگے جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہو نگے ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں ، ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام کی حالت میں ہوئی اور انھوں نے کبھی شرک نہیں کیا ۔ کچھ لوگوں نے کچھ اور آراء بھی ظاہر کیں ۔ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تم کس چیز کے بارے میں غور کر رہے ہو ؟ تو لوگوں نے آپ کو بتایا کہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ وہ ستر ہزار افراد کون ہو نگے جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہو ں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ہُمُ الَّذِیْنَ لَا یَرْقُوْنَ ، وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ،وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ))
’’ یہ وہ لوگ ہو نگے جو نہ دم کرتے ہیں اور نہ دم کرواتے ہیں ۔ اورنہ وہ بد شگونی لیتے ہیں اور وہ صرف اپنے رب تعالیٰ پر ہی توکل کرتے ہیں ۔ ‘‘
یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور کہا : آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم انہی میں سے ہو ۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا : میرے لئے بھی دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کردے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( سَبَقَكَ بِہَا عُکَاشَةُ)) ’’عکاشہ رضی اللہ عنہ تم سے سبقت لے گئے ہیں ۔ ‘‘
مسلم کی ایک روایت میں ہے جس کے راوی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر ہزار افراد کی صفات یوں بیان فرمائیں:
(( ہُمُ الَّذِیْنَ لَا یَسْتَرْقُوْنَ، وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ،وَ لَا یَکْتَوُوْنَ،وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ))
’’ وہ دم نہیں کرواتے ، شگون نہیں لیتے ، آگ سے اپنا جسم نہیں داغتے اور صرف اپنے رب تعالیٰ پر ہی توکل کرتے ہیں ۔‘‘
لہٰذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بغیر حساب کے جنت میں داخل کرے تو پھر ہمیں بھی یہی عظیم صفات اختیار کرنا ہوں گی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ذکر کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق دے ۔
آج کا خطبہ ہم اس دعا کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مرتے دم تک صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین