ماہ ربیع الاول اور میلاد

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ۝۱ هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ۝۲ ﴾ (سورة الجمعة)
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ’’آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ تعالی کی پاکی بیان کرتی ہے جو بادشاہ غالب و حکمت والا ہے وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے یقینًا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا﴾ (سوره احزاب:56)
اور فرمایا: ’’تحقیق اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی پر درود و سلام بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو‘‘ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ
﴿ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيْراً﴾ (سوره احزاب: 45)
اور ارشاد باری ہے: ’’اے نبی ! ہم نے یقینًا آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا اور اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
یہ سراج منیر اور آفتاب نبوت ربیع الاول کے مہینے میں عرب کی سرزمین مکہ مکرمہ سے طلوع ہوا اور صرف عرب ہی کی سرزمین کو نہیں بلکہ اپنے نور سے سارے عالم کو منور کیا ۔
(اللهُمَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلَّمْ)
اس آفتاب نبوت کے طلوع ہونے سے پہلے دنیا کا گوشہ گوشتہ تاریک تھا حق و صداقت کی روشنی سے محروم تھا رشد و ہدایت کا چراغ گل اور تہذیب و تمدن کا ستارہ غروب ہو چکا تھا نیز دنیا حق پرستی کے نام سے بالکل نا آشنا ہو چکی تھی باطل اور ظلم پرستوں کی سلطنت عروج پر تھی اور فسق و فجور کا بازار گرم تھا، جگہ جگہ زنا کاری شراب خوری اور قمار بازی ہورہی تھی اور دختر کشی کا عام رواج تھا خاندانی تنازعات اور دشمنی کا بد انسل بعد نسل چلتا رہتا تھا ہر جگہ جہالت اور بربریت پھیلی ہوئی تھی خدا پرستی کا بھول کر بھی تصور نہ آتا تھا ایسی حالت میں رب العالمین کی غیرت وحمیت کو حرکت ہوئی اور دریائے رحمت جوش میں آیا روئے زمین میں تو حید الہی کی اشاعت کے لئے اور لوگوں میں اخلاق فاضلہ پیدا کرنے اور خصائل حمید و کی روح پھونکنے کے لئے ایک ماہر معلم کی ضرورت پیدا ہوئی، جو اخلاق و سیاست و اصول حکمرانی و قواعد سلطنت و ضوابط رعایا پروری و معدلت گستری کی عملی تعلیم دینے والا اور ہر کام کے محاسن و نقائص سے آگاہ کرنے والا نیز و نیاو آخرت کی صحیح سچی اور خیر وشر کی جزا و سزا کی خبر دینے والا مصلح اور بے غرض محسن اعظم ہو اور امین صادق ہو۔
چنانچہ عرب کی سرزمین میں اللہ تعالی نے اپنی رسالت اور نبوت کا بیش بہا خلعت عنایت فرما کر داعی الی اللہ اور شاہد حق نذیر و بشیر اور سراج منیر کے القاب سے مشرف فرما کر مبعوث فرمایا جیسا کہ آیت نمبر تین میں گزر چکا ہے۔
اس روشن چراغ کی روشنی چاند اور سورج سے زیادہ ہے مخلوق خدا جس طرح آفتاب اور ماہتاب کی روشنی کی محتاج ہے اس سے کہیں زیادہ اس سراج منیر کی روشنی کی محتان ہے اس چاند اور سورج سے دوسرا چاند اور سورج روشن نہیں ہو سکتا، لیکن اس سراج منیر سے بے شمار چراغ روشن ہوئے اور انشاء اللہ ہوتے رہیں گئے۔
آفتاب صرف رات کی تاریکی کو دور کر سکتا ہے لیکن نبوت کا چراغ کفر و شرک اور عقائد باطلہ و اخلاق ذمیمہ کی ظلمتوں کو مناتا ہے اور بنا دیتا ہے یہ آفتاب غروب ہو کر تاریکیوں میں چھپ جاتا ہے لیکن چراغ نبوت کی روشنی رات دن میں برابر رہتی ہے ليْلُهَا كَنَهَارِهَا.[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[1]ابن ماجه المقدمه باب اتباع السنة رقم الحديث: (5.)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آفتاب محدود وقت میں زمین کے ایک حصہ کو روشنی پہنچاتا ہے لیکن چراغ رسالت شب و روز اپنی نورانی نیا پاشیوں سے روشنی پہنچاتا ہے اور غیر فانی شعاعوں سے جہالت، ظلمت الحاد کفر و شرک کی تاریکیوں کو دور کرتا رہتا ہے نیز لوگوں کے دلوں اور دمانھوں کو حیح عقائد کی چمک سے منور کرتا رہتا ہے اس کی چمک سے دنیا نے تمدنی معاشی و سیاسی اور اقتصادی روشنی حاصل کی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ربیع الاول کا مہینہ نہایت خیر و برکت کا مہینہ ہے اس کی نویں تاریخ نہایت ہی سعید و مسرت آمیز ہے اور دوشنبہ کا دن بھی فیض و نور سے لبریز ہے کیونکہ اس دن مصلح اعظم، رہبرعالم، سیدوالآخرين، شفیع المذنبين، خاتم النبی،ن رحمة للعالمين، احمد مجتبیٰ، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
در حقیقت یہ دن تمام کائنات عالم کے لئے خیر و برکت و سعادت کا دن ہے اس دن جتنا بھی خوشی و مسرت کا اظہار کیا جائے کم ہے لیکن اس ظاہری جشن سے ہم اپنے منصبی فرائض سے سبکدوش نہیں ہو سکتے اور نہ ان کی محفلوں اور مروجہ میلا د خوانیوں سے شفیع المذنبین ﷺ ہی خوش ہو سکتے ہیں جب تک ہم آپ کے اسوہائے حسنہ پر عمل نہ کریں اور آپ کی سچی تابعداری نہ کریں رسول اللہﷺ کی یہی محبت نہیں کہ سال میں ایک دن روشنی کر کے آپ کی ولادت شریفہ کا ذکر سن لیں نہ صوم وصلوٰۃ کے پابند ہوں اور نہ دیگر اسلامی ارکان و احکام کے متبع ہوں آپ کی سچی محبت آپ کی سچی تابعداری سے ہوتی ہے اور اس اطاعت میں آپ کی خوشی ہے حضرت عبد الرحمن بن ابی قرار سے راویت ہے کہ:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّاً يَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَتَمَسَّحُونَ بِوَضُونئهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَذَا قَالُوا حُبُّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّہُ أَنْ يُّحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أَوْ یُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَلْيَصْدُقُ حَدِيثَهُ وَلِيُؤَدِّ أَمَانَتَهُ إِذَا انْتَمِنَ وَلْيُحْسِنْ جَارَہُ مَنْ جَاوَرَہ).[1]
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے آپ کے وضو کے پانی کو تبرکا اپنے جسموں پر ملنا شروع کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا: کس چیز نے تم کو اس کام پر آمادہ کیا۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس کام پر آمادہ کیا اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھے یا اللہ اور اس کا رسول اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] شعب الایمان للبیهقی: 201/1، رقم الحديث 1533-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سے محبت کریں تو اسے چاہئے کہ جب بولے تو سچ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرے اور ہمسایوں کے ہمسائیگی کا حق ادا کرے۔‘‘
پس عاشق رسول ﷺ کے دعویدار جن نا جائز کاموں سے آپ نے منع فرمایا ہے ان سے باز رہے جہاں یہ مہینہ مسرت و شادمانی کا ہے اس کے ساتھ یہ رنج و غم اور افسوس کا بھی مہینہ ہے یعنی اس ماہ ربیع الاول کی بارھویں تاریخ کو دو شنبہ کے دن میلاد شریف کے تریسٹھ سال بعد رسول الله ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے رحلت فرمانے سے کچھ ہی پہلے مزارات پرستی سے روکنے کے لیے فرمایا:
(لَعَنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ)
’’یہود و نصاری پر خدا کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘
ان شعروں میں آپ ﷺ کی ذات مقدس ہی کی طرف اشارہ ہے۔
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم نہ کرنا میری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
آخری وصیت:
(الصلوةُ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ).[2]
نماز پڑھتے رہنا اور اپنے زیر دستوں کا خیال رکھنا
(اَللّٰهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى)[3] کہتے کہتے آپ کی روح مبارک جسم اطہر سے پرواز کر کے عالم قدس میں پہنچ گئی (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)
بہر حال اس ماہ میں خوشی بھی ہے اور غم بھی، مسرت بھی ہے اور شادمانی بھی، اور افسوس و صدمہ بھی ہے آپ کی ذات شریف میں دونوں حیثیتیں ہیں، محب رسول ﷺ کے لئے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے افراط و تفریط ٹھیک نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا:
(لَا تَطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ).[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]صحیح بخاری:177/1، کتاب الجنائز، باب ما يكره من اتخاذ المساجد على القبور، رقم
الحديث: 1330.
[2] ابن ماجه: کتاب الجنائز، باب مرض رسول الله ﷺ رقم الحديث 1625.
[3]بخاري، 641/2، كتاب المغازي باب اخر ما تكلم النبيﷺ – رقم الحديث 4463.
[4] بخاری: 488/1، کتاب احادیث الانبياء، باب و اذكر في الكتاب مريم …..3445.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کا ترجمہ مولانا حالی مرحوم نے یوں کیا ہے:
تم اوروں کی مانند دھوکہ نہ کھانا کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
میری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں جس طرح داں سرفگنده اسی طرح ہوں میں بھی ایک اس کا بندہ
میلاد شریف اور رسول اللہ سلیم کا قرآن وحدیث کے مطابق ذکر خیر کرنا اور صحیح روایات کے موافق آپ کی سیرت مقدسہ کا بیان کرنا اور اس پر عمل کرنا ایمان کا ایک بہت بڑا جزو ہے لیکن مروجہ میلاد کو اس عقیدے کے مطابق کرنا کہ رسول اللہ صلی کی یہ سنت ہے اور رسول ﷺ ایسی محفل میں تشریف لاتے ہیں اور آپ کی تشریف آوری کی وجہ سے محفل والے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ کو حاضر و ناظر سمجھتے ہیں تو اس قسم کے میلاد کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں ہے بلکہ یہ ساتویں صدی میں مروج ہوا جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے اب آپ موجودہ مروجہ میلاد کے بارے میں سنئے:
تاریخ ایجاد میلاد:
پیغمبر خدا ﷺ اپنی نبوت کے بعد دنیا میں تمھیں سال تک زندہ رہے ہر سال ربیع الاول آتا رہا اور ہر ربیع الاول میں بارھویں تاریخ بھی آتی رہی لیکن نہ تو آپ نے کوئی مجلس مروجہ منعقد کی نہ اس کا حکم دیا اور رحلت سے پہلے فرما گئے کہ میرے بعد میرے اس دین میں جو نیا کام نکلے میں اس سے بیزار ہوں اور اس کام اور اس کے نکالنے والے کو مردود کہتا ہوں۔[1]
اور یہ میلاد ساتویں صدی یعنی604ھ میں ایجاد ہوا۔ ملاؤں میں سے ایجاد کرنے والا شیخ عمرو بن محمد ہے جو ایک مجہول شخص ہے نہ محدثین میں سے ہے، نہ فقہا میں سے نہ ائمہ مجتہدین میں سے۔ بادشاہوں میں سب سے پہلے اسے رواج دینے والا ابو سعید کوکبوری بن ابوالحسن علی بکتگین ترکمانی ہے جس کا لقب ملک المعظم مظفر الدین تھا جسے 581ھ میں سلطان صلاح الدین نے بابل شہر کا جو موصل کے قریب ہے گورنر مقرر کیا تھا اور جس کا انتقال 630ھ جے میں ہوا (تاریخ ابن خلکان به قاموس)
پس چونکہ یہ آپ کے بعد ی چیز ہے اور مروجہ میلاد کو دینی کام سمجھا جاتا ہے اس لئے بدعت ہے صحابہ کبارو آل اطہار سے بھی بعد از وصال نبی مجلس مروجہ میلاد منقول نہیں ہوئی اس کی وجہ یا تو یہ چھنی چاہئے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور …. رقم الحديث: 2697
—————–
وقت ربیع الاول کا مہینہ آتا ہی نہ ہو یا آتا ہو مگر اس میں بارھویں تاریخ نہ آتی ہو یا آتی ہو لیکن ان سرات کو ہم جیسی محبت و عقیدت آنحضرت ﷺ سے نہ ہو، یا ہو لیکن بخیلی کی وجہ سے یا کام کے ڈھنگ نہ جننے کی وجہ سے اس کار خیر سے وہ محروم رہ گئے ہوں یا پھر ان بزرگوں نے اس کام کو بدعت اور ناجائز سمجھا ہو اور باوجود اس ماہ اور تاریخ کے آنے کے اور باوجود بخیلی اور لاعلمی نہ ہونے کے بھی ان حضرات نے دیدہ و دانستہ اس کام سے احتراز کیا ہو اور اسے پسند نہ فرمایا ہو۔ اب ظاہر بات ہے کہ وہ پہلی وجہیں بالکل باطل ہیں توے یہی بات حق ہے کہ باوجود عقیدت اور محبت کے اندر بڑھے ہوئے ہونے کے نیکوں اور بھلے کاموں کی رف پوری طرح راغب ہونے کے اس نئی چیز یعنی بدعت نکالنے سے وہ بچے رہے تو جس کام کو ان بزرگوں سے اپنے اجتماع سے برا جانا پچھلے والے کوئی حق نہیں رکھتے کہ ان حضرات کے بعد اس طرح کی باتیں ایجاد کر کے ﴿وَمَنْ يَتَّبِعُ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ میں داخل ہو کر غضب خداوندی کے مستحق ہوں۔
اور تابعین اور تبع تابعین اور چاروں اماموں کا بھی زمانہ گزر جاتا ہے لیکن نہ یہ بزرگان دین اس کام کو کرتے ہیں ان حضرات کی کتابیں اور ان کے منقول ارشادات اس سے بالکل خالی نظر آتے ہیں تو گویا اس سانے میں بھی اس فعل کے کم از کم ترک پر تو اجماع رہا ہے، غرض چاروں اماموں کے نزدیک یہ عمل باطل ہے۔ اسی واسطے امام احمد بصری اپنی کتاب ’’قول معتمد‘‘ میں لکھتے ہیں:
(قَدِ اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةِ عَلَى ذَمِ الْعَمَلِ بِهِ)
’’یعنی چاروں مذاہب کے علما کا مجلس میلاد کی برائی پر اجتماع ہے۔‘‘
اب ظاہر کہ سوائے اس کے کہ مجلس میلا د مروجہ نا جائز ہے اور اس کو کرنے کے لئے کوئی صورت باقی نہیں۔ اسی لئے علمائے سلف اسے کھلم کھلا بدعت مکروہ حرام اور ممنوع لکھتے ہیں:۔
اور اقوال بھی ملاحظہ فرمائیں، شیخ تاج الدین فاکہانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:۔
(هُوَ بِدْعَةٌ أَحْدَثَهَا الْبَطَّالُونَ وَشَهْوَةُ نَفْسٍ اعْتَنَى بِهَا الْأَكَّالُونَ)
’’یعنی مجلس مروجہ باطل پرست لوگوں کی ایجاد کر وہ بدعت سے اور پیٹ کے پجاریوں کی نفس پرستی کو پورا کرنے کی ایک مشین ہے ۔‘‘
تحفہ القضاة میں ہے:
(لَا يَنْعَقِدُ لِأَنَّهُ مُحْدَثٌ وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ)
’’یعنی یہ مجلس میلاد منعقد نہ کی جائے اس لیے کہ یہ دین میں ایک نئی گھڑت ہے اور ہر نئی بات گمراہی اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذخیرۃ السالکین میں ہے کہ ’’چیزے کہ نام آن مولود نامند بدعت است‘‘ یعنی مولود بدعت ہے
نور الیقین میں حضرت مجدد الف ثانی اپنے دو سو تہترویں مکتوب میں لکھتے ہیں کہ:۔
’’اگر فرضًا حضرت ایشان در می اواں در دنیا زنده می بودند، واین مجلس و اجتماع منعقد می شد آیا بایں امر راضی می شدند و این اجتماع رامی پسندیدند یا نه، یقین فقیر آن است که هرگز این معنی را تجویز نه می فرمودند، بلکه انکار می نمودند‘‘
’’یعنی بالفرض اگر نبی کریمﷺ اس زمانے میں زندہ موجود ہوتے اور میلاد کی ان مجلسوں کو ملاحظہ فرماتے ہیں تو ہرگز اسے پسند نہ فرماتے، بلکہ آپ قطعا اس سے روک دیتے۔‘‘
حافظ ابو بکر بغدادی الشهير بابن نقطہ اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں:۔
(إِنَّ عَمَلَ الْمَوْلُودِ لَمْ يُنْقَلْ عَنِ السَّلْفِ وَلَا خَيْرَ فِي مَا لَمْ يَعْمَلِ السَّلْفُ)
’’یعنی مجلس مولود سلف سے منقول نہیں اور اس کام میں بھی خیر و برکت نہیں ہو سکتی جسے سلف نے نہ کیا ہو۔‘‘
حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی یہ اپنی کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ میں لکھتے ہیں
’’روز تولد ہیچ نبی عید گردانیدن‘‘ کسی پیغمبر کی وفات یا تولد کے دن کو عید کی طرح منانا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح علمائے متاخرین میں سے مولانا رشید احمد گنگوہی فتاوی مولود عرس میں لکھتے ہیں:۔
’’ایسی مجلس ناجائز اور اس میں شریک ہونا گناہ ہے اور خطاب فخر عالم علیہ السلام کو کرنا، اگر حاضر ناظر جان کر کرے، تو کفر ہے اور ایسی مجلس میں جانا اور شریک ہونا ناجائز ہے اس پر مولانا محمود صاحب دیو بندی اور مولوی محمد ناظر صاحب دیو بندی اور مولوی محمد عبد الخالق صاحب دیو بندی وغیرہ کے دستخط ہیں۔
جب خود مجلس مولود ثابت ہوگئی کہ یہ بدعت ہے تو قیام جو کہ اس کے ضمن میں تھا، وہ بھی بدعت اور ممنوع ثابت ہو گیا، علاوہ ازیں قرآن پاک میں صاف موجود ہے۔
﴿قَوْمُوا لِلّٰهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرة:238)
’’یعنی قیام با ادب صرف خدا ہی کے لئے کیا کرو۔‘‘
آنحضرت ﷺ نے اپنے لئے اپنی زندگی میں اپنے اصحاب کرام کو قیام کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ لکڑی ہاتھ میں لئے ہوئے ہمارے مجمع میں تشریف لائے۔ ہم آپﷺ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے تو آپ ﷺٰ ناراض ہوئے فرمایا
(لَا تَقُوْمُوا كَمَا يَقُومُ الأعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا) (ترمذى)
یعنی مجھے دیکھ کر کھڑے نہ ہو جایا کرو جیسے بد دین لوگ ایک دوسرے کے لیے کھڑے ہوا کرتے ہیں۔
ہربان شرح مواہب الرحمن میں ہے۔
(تُكْرَهُ الْقِيَامُ لِتَعْظِيم)
’’یعنی تعظیم کے طور پر کھڑا ہونا مکروہ ہے ۔‘‘
چلپی شرح وقایہ میں ہے۔
(لَمْ يُذْكَرِ الْقِيَامُ تَعْظِيمًا لِغَيْرِ).
’’یعنی کسی کی تعظیم کے لئے قیام کرنا مذکور نہیں ہے ۔‘‘
تعظیم وہ کرتا ہے جو حاضر ہو اور اسکے سامنے کوئی بہت بڑا جلیل القدر شخص آ جائے کیا ولادت کے وقت بھی کوئی موجود ہوتا ہے یعنی جس وقت بچہ پیدا ہوتا ہے کیا اس کی پیدائش پر دیکھنے کے لئے کوئی جماعت وہاں حاضر ہوتی ہے۔ اگر نہیں، سچ مچ ولادت کے وقت جب قیام نہیں ہوا تو اب اس کے ذکر کے وقت کیوں قیام کیا جائے؟ فقیر محمد شامی نے اپنی کتاب سیرت شامی تہنیئہ دوم باب ششم میں لکھا ہے۔
(جَرَتْ عَادَةُ كَبِيرٍ مِّنَ الْمُحِينَ إِذَا سَمِعُوا بِذِكْرٍ وَضْعِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَيُسَلَّمَ أن يَّقُومُوا لَهُ وَهَذَا الْقِيَامِ بِدْعَةٌ لَّا أَصْلَ لَهُ)
’’یعنی لوگوں کی عادت ہے کہ حضرت ﷺ کی ولادت کا بیان سن کر کھڑے ہو جایا کرتے ہیں یہ قیام بدعت ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘
تحفہ القضاة میں ہے
(وَيَقُومُونَ عِنْدَ تَوَلَّدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ يَزْعُمُونَ أَنَّ رُوحَهُ تَجْيَ وَحَاضِرَةٌ فَرَعْمُهُمْ بَاطِلٌ بَلْ هَذَا الْإِعْتِقَادُ شِرْكٌ وَقَدْ مَنَعَ الْأَئِمَّةُ عَنْ مِثْلِ هَذَا).
’’یعنی لوگ آپ کی ولادت کا ذکر سن کر کھڑے ہو جایا کرتے ہیں جانتے ہیں کہ آپ کی روح تشریف لائی ہے اور آپ اس وقت حاضر ہوتے ہیں یہ عقیدہ باطل سے بلکہ یہ اعتقاد شرک ہے اور چاروں ماموں نے ان جیسی باتوں سے منع فرمایا ہے۔‘‘
بہر حال مروجہ میلاد کا ثبوت نہیں ہے اب بجائے لفظ میلاد کے سیرت النبی کے جلسہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے سیرت کے جلسے دراصل میلاد النبی کے جلسے جن میں ناموں کا فرق ہے کام ایک ہی ہے عوام بڑے ذوق شوق سے شرکت کرتے ہیں اور علمائے کرام و شعراء عظام بھی خوب داد تحسین وصول کرتے ہیں سیرت مقدسہ کے جلسوں کا انعقاد فی ذاتہ بغیر رسم ورواج اور بغیر تخصیص مادو دن کے بہت ہی نیک عمل ہے بشرطیکہ صحیح صحیح باتیں بیان کی جائیں کیونکہ اس میں اللہ اور رسول اللہﷺ کا ذکر خیر ہوتا ہے جو عبادت میں داخل ہے۔ اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو بدعتوں سے بچائے اور کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
(وَاخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)