ماہ رجب اور اس کی شرعی حیثیت

الحمد لله الذي أتم لنا الدين وأكمله، ومن علينا باتباع محمد خير خلقه وأفضل رسله، أحمده سبحانه وأشكره على سوابغ نعمه، وأسأله أن يدفع عنا أسباب سخطه ونقمه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، لا خير إلا دل الأمة عليه. ولا شر إلا حذرها منه، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك سيدنا محمد وعلى آله وصحبه.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جس نے ہمارے لئے دین کی تکمیل فرمائی اور افضل المرسلین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کی توفیق بخشی میں اللہ کی بے شمار نعمتوں پر اس کی تعریف کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور اس کے غضب و انتظام کے اسباب سے پناہ مانگتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور محمد – صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جنہوں نے اپنی امت کو ہر خیر کی تعلیم دی اور ہر شر سے ڈرایا اور متنبہ کر دیا۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل واصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ تعالی سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنا چاہئے اور آخرت کے لئے تقویٰ کا توشہ تیار کرو اور یہ بات بخوبی سمجھ لو کہ بہتر عمل وہی ہے۔ جو کتاب اللہ کے موافق اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہو آپ کی اتباع ہی میں سعادت و کامرانی ہے۔ اور مخالفت میں شقاوت وضلالہ اللہ رب العالمین نے اپنے رسول و خلیل محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو سارے جہان کے لئے رحمت اور تمام جن و انسان کے لئے ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا اور تمام مفید علوم عطا کئے، جن کے ذریعہ آپ نے انسانیت کو جہالت کے بعد علم سے روشناس کر لیا ضلالت کے بعد ہدایت کی راہ دکھائی۔ دین کے اصول و فروع میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جسے آپ نے بیان نہ کر دیا ہو اور شریعت کا کوئی قاعدہ ایسا نہیں جسے واضح نہ فرما دیا ہو، صحیح علم وہی ہے۔ جس کی دلیل موجود ہو اور مفید علوم و معارف وہی ہیں۔ جن کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثبوت ہو آپ کی لائی ہوئی شریعت کاملہ نے گذشتہ تمام شریعتوں کی تکمیل کر دی اور آپ کی سنت و ہدایت نے دین ودنیا کے سارے امور واضح کر دیئے کیسی شریعت عدل و انصاف اور عمدگی و بہتری کی انتہا ہے۔
﴿وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوقِنُونَ﴾ (المائدة: 50)
’’جو لوگ یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لئے اللہ سے اچھا کس کا حکم (شریعت) ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنت کی پیروی کا ہمیں حکم دیا ہے۔ اور اس کے مخالف ہرکام سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:
(عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ، وَإِيَّاكُم وَمُحْدَثَاتِ الأمور، فإن كل محدثة بدعة) [مسند احمد: 126/4 (17145،17144) و سنن ابی داؤد، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، و جامع ترمذي، ابواب العلم، باب ما جاء فی الاخذ بالسنة (2676)]
’’تم میری سنت کو اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور اس پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہو اور دین کے اندر نئے ایجاد شدہ امور سے بچو کیونکہ ہر نئی ایجاد بدعت ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
(من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد)[ حوالہ کے لئے دیکھئے خطبہ اتباع سنت کا بیان۔]
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر ( ہماری شریعت ) نہ ہو تو وہ کام مردود ہے۔‘‘
لہٰذا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ اپنے جملہ عبادات و اعمال میں سنت رسول کا اتباع اور صحابہ کرام کی سیرت و ہدایت کی اقتدا کرے، تھوڑا عمل جو سنت کے مطابق انجام دیا جائے اس عمل کثیر سے بہتر ہے۔ جس میں بدعت کی آمیزش ہو لوگوں نے شریعت کے اندر جو بے بنیاد چیز میں ایجاد کیں ان میں سے ماہ رجب – کے اندر عمل کی فضیلت کا اعتقاد اور یہ باطل خیال بھی ہے۔ کہ اعمال کے سلسلہ میں یہ مہینہ دیگر مہینوں پر فوقیت رکھتا ہے۔
سال کے دیگر مہینوں کے مابین ماہ رجب کو روزوں کے لئے خاص کرنا یا اس میں قیام کرنا یا اس مہینہ میں خصوصی طور پر کوئی عبادت کرنا سب کا سب بدعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سلسلہ میں کوئی حدیث ہے۔ نہ صحابہ کرام سے کوئی عمل ثابت ہے۔ اس مہینہ کی تخصیص یا اس کے کسی متعیین دن یا متعین رات میں کوئی مخصوص عبادت کرنا خلفائے راشدین اور ان کے علاوہ کسی بھی صحابی سے منقول نہیں بلکہ اس کے بر خلاف مصنف ابن ابی شیبہ میں امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کہ وہ ماہ رجب میں لوگوں کی ہتھیلیوں پر مارتے یہاں تک کہ وہ اپنی ہتھیلیاں برتنوں میں رکھ رکھ۔ لیتے اور کہتے:
(كلوا فإنما هو شهر يعظمه أهل الجاهلية) [مصنف ابن ابی شیبه: 102/3۔ اس میں یہ مذکور ہے۔ کہ حضرت انس اور ابن عمر رضی اللہ مقسم ماہ رجب کے لئے تیاری کرنے کو مکروہ گردانتے تھے اور اس کا روزہ رکھنا اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اور ابن ماجہ میں ابن عباس سے مروی ہے۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رجب کے روزے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن اس کی سند میں داؤد بن عطاء ہیں جو بالاتفاق ضعیف ہیں۔ ملاحظہ ہو: ابن ماجہ: (554/1)]
’’کھاؤ کیونکہ اس ماہ کی تعظیم اہل جاہلیت کرتے ہیں۔‘‘
بعض کتابوں کے اندر ماہ رجب کی فضیلت و تعظیم کے سلسلہ میں جو روایتیں مذکور ہیں۔ وہ اہل علم کی تحقیق کے مطابق یا تو موضوع ہیں۔ یا حد درجہ ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ماہ رجب کی فضیلت یا اس ماہ کے کسی مخصوص دن کا روزور رکھنے اور کسی متعین رات کو قیام کرنے کے سلسلہ میں کوئی ایسی صحیح حدیث مروی نہیں جو لائق حجت ہو۔
حافظ ابن حجر ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ کہ اس بات کی صراحت امام حافظ ابو اسماعیل ہروی مجھ سے پہلے کر چکے ہیں۔ اور ان کے علاوہ بعض دیگر حضرات کا بھی میں خیال ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ کہ رجب کے روزے کے سلسلہ میں نہ تو کوئی ممانعت ثابت ہے۔ نہ استحباب۔
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ کہ رجب کے روزے اور اس ماہ کی بعض راتوں کی نماز کے سلسلہ میں ذکر کی جانے والی ہر حدیث سراسر جھوٹ اور گھڑی ہوئی ہے۔
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے۔ کہ رجب کے سلسلہ میں کوئی صحیح یا حسن یا معمولی درجہ کی ضعیف حدیث موجود نہیں، بلکہ اس سلسلہ میں جتنی بھی روایتیں ہیں۔ وہ یا تو موضوع ہیں۔ یا انتہائی درجہ ضعیف ہیں۔
رہی یہ بات کہ رجب کے مہینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سفر معراج پیش آیا تھا تو جہاں تک سفر معراج کا مسئلہ ہے۔ وہ نص قرآن اور حدیث رسول سے ثابت ہے۔ اور یہ سارے مسلمانوں کو بدیہی طور پر معلوم و مسلم بھی ہے۔ کوئی صاحب ایمان اس سے انکار نہیں کر سکتا۔
لیکن اختلاف اس مسئلہ میں ہے۔ کہ سفر معراج کسی مہینہ میں پیش آیا تھا؟ بعض علماء کا خیال ہے۔ کہ وہ رجب کی ستائیس تاریخ تھی، بعض نے کہا کہ رمضان کی سیرہ تاریخ تھی اور بعض کی رائے ہے۔ کہ یہ سفر مادر بیع الاول میں پیش آیا تھا۔ بہر حال اگر یہ تعین ہو بھی جائے کہ یہ مبارک سفر رجب میں پیش آیا تھا یا غیر رجب میں، تو اس سے اس مہینہ یا اس دن کی تعظیم اور کسی عبادت کے لئے اس کی تخصیص اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتی جب تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم موجود نہ ہو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن کی تعظیم نہیں کی نہ تعظیم کرنے کا ہمیں حکم دیا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا کوئی اہتمام کیا۔ تو پھر ہمارے لئے ہرگز یہ روا نہیں کہ بطور عبادت اس دن کوئی ایسا عمل کریں جس کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے لئے مشروع کیا ہے۔ اور نہ ہی خلفائے راشدین نے انجام دیا ہے۔ بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے۔ کہ رجب اور غیر رجب ہر مہینہ میں اللہ کی کثرت سے عبادت کریں اور صرف اپنی اوقات دایام کو دوسرے اوقات و ایام کے بالتقابل خصوصیت دیں جن کی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تخصیص فرما دی ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس دن سے ڈرو جبکہ اللہ کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا۔
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔