ماہ شعبان کی اہمیت و فضیلت
﴿ اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ ؕ﴾ (فاطر:10)
ماہِ شعبان شروع ہونے کو ہے، کل ماہ شعبان کا چاند طلوع ہونے کا امکان ہے، رمضان المبارک کے تعلق سے اور کچھ دوسرے پہلوؤں سے شعبان کے مہینے کو ایک خاص اہمیت اور فضیلت حاصل ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت سے تو آپ لوگ یقینًا کافی حد تک آگاہ ہوں گے، مگر شعبان کی فضیلت سے شاید اکثر لوگ واقف نہ ہوں۔ تو آئیے ماہ شعبان کی فضیلت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شعبان کی اہمیت آپﷺ کے اس عمل سے خوب واضح ہوتی ہے کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ روزے شعبان ہی میں رکھا کرتے تھے۔
جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ: ((فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَاماً مِنْهُ فِي شَعْبَانَ))(صحيح البخاري: 1969)
’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں ، اور کبھی نہیں دیکھا کہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھے ہوں۔ یعنی سب سے زیادہ نفلی روزے شعبان کے مہینے میں ہی رکھتے تھے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ماہ شعبان کی فضیلت یوں بیان ہوئی، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے آپ ﷺسے دریافت کیا اور کہا:
((يَارَسُولَ اللهِ لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْراً مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شعبان ))
’’عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ میں نے کبھی آپ کو دوسرے مہینوں میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں ؟‘‘
قَالَ: ((ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَ رَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تَرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ فَأَحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِم)) (سنن نسائی:2357)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: یہ مہینہ جو کہ رجب اور رمضان کے درمیان آتا ہے۔ اس سے لوگ غافل ہیں، یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی کی طرف اعمال اٹھائے جاتے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ تعالی کی طرف اٹھائے جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں ۔‘‘
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کے سوال کے جواب میں آپﷺ نے شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کا سبب بیان کرتے ہوئے جو بات بیان فرمائی اس میں تین چیزیں بیان فرمائیں: ایک تو یہ کہ یہ مہینہ جو رجب اور رمضان کے درمیان پڑتا ہے لوگ اس سے غافل ہیں، یعنی اس کی اہمیت سے غافل ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالی کی طرف لے جائے جاتے ہیں۔ اور تیسری چیز یہ کہ آپ سے امام کا اس بات کو پسند فرمانا کہ جب آپ کے اعمال اللہ تعالی کی طرف لے جائے جائیں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔
رجب اور رمضان کے درمیان پڑنے والے اس مہینے: ماہ شعبان سے غفلت اور عدم تو جہی کا سبب یہ ہے کہ رمضان المبارک میں تو لوگ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ قضیات کی بنا پر مصروف عبادت ہوتے ہیں، مگر رجب کی فضیلت قرآن وحدیث سے صرف اتنی ثابت ہے کہ یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ اس کے علاوہ اس مہینے کی کوئی فضیلت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
تو شعبان کی فضیلت ان دو مہینوں کے درمیان عدم توجہی کا شکار ہو کر رو گئی، حالانکہ یہ مہینہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اور دوسری چیز اس مہینے کی اہمیت کے حوالے سے آپﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ اس مہینے میں اعمال اللہ تعالی کی طرف لے جائے جاتے ہیں۔ ماہِ شعبان کی فضیات کے حوالے سے یہ ایک نہایت ہی اہم بات ہے کہ اس مہینے میں اعمال اللہ تعالی کی طرف لے جائے جاتے ہیں اور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ تو آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بندوں کے اعمال کسی طرح اللہ تعالی کے ہاں پیش ہوتے ہیں اور اس کا مقصد کیا ہے۔
تو اعمال اللہ تعالی کے ہاں تین طرح سے لے جائے جاتے ہیں: ایک تو ہر روز صبح و شام اعمال اللہ تعالی کے ہاں پیش ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
قَالَ: ((قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ))
’’کہا: ایک روز آپ سے ہم نے ہمیں پانچ باتیں ارشاد فرما ئیں ۔‘‘
((إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَ لَا يَنَامُ))
’’اللہ تعالی ہرگز نہیں ہوتا۔‘‘
((ولا ينبغي لَهُ أَنْ يَنَام))
’’اور نہ ہی اس کے لائق ہے کہ وہ سوئے ۔‘‘
((يَخْفِضُ القسط ويرفعه))
’’وه تر از و نیچے کرتا ہے اور اوپر کرتا ہے‘‘
((يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ))
’’رات کے اعمال دن سے پہلے پہلے اس کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔‘‘
((وَعَمل النَّهَارِ قَبْلَ عَمَل الليل .)) (صحيح مسلم:179)
’’اور دن کے عمل رات سے پہلے پہلے ۔‘‘
یعنی دن رات میں، چوبیس گھنٹوں میں دو بار عمل اس کے حضور پیش ہوتے ہیں، اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ ، وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ))
’’فرمایا: فرشتے تمھارے پاس دن میں اور رات میں باری باری آتے ہیں۔‘‘
((ويجتمعون في صلاة الفجر وصلاة العصر))
’’اور فجر اور عصر کی نماز میں وہ اکٹھے ہوتے ہیں۔‘‘
یعنی رات کے فرشتے ، رات کے عمل فجر کی نماز کے وقت لے جانے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں کہ دن کے فرشتے آجاتے ہیں اور ان کی جگہ لے لیتے ہیں دن کے اعمال لکھنے کے لیے۔
اسی طرح پھر دن کے فرشتے عصر کی نماز کے وقت دن کے عمل لے جانے والے ہوتے ہیں کہ رات کے فرشتے ان کی جگہ آجاتے ہیں اور چارج سنبھال لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ فرشتے ان فرشتوں سے الگ ہیں جو انسان کی حفاظت پر مامور ہیں، حفاظت کرنے والے اور
لکھنے والے الگ الگ ہیں۔
(ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ .))
’’پھر جن فرشتوں نے تم میں رات گزاری ہوتی ہے، وہ اعمال لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ۔‘‘
((فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي))
’’پھر اللہ تعالی ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے،وہ پوچھتا ہے کہ تم میرے بندوں کو کیسے چھوڑ کر آئے ہو یعنی کسی حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟‘‘
((فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَآتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ)) (صحيح البخاري:555)
’’تو وہ کہتے ہیں کہ ہم انھیں اس حال میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘
تو یہ تو ہے ڈیلی رپورٹ جو کہ دن اور رات میں دو دفعہ پیش ہوتی ہے۔ دوسری رپورٹ ہے ویکھی، اور وہ بھی ایک ہفتے میں دو دفعہ پیش ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((تُعْرَضُ أَعْمَالُ النَّاسِ فِي كُلِّ جُمْعَةِ مَرَّتَيْنِ ، يَوْمَ الاثنين
ويوم الخميس))
’’لوگوں کے اعمال ہفتے میں دوبار پیش ہوتے ہیں سوموار کو اور جمعرات کو۔‘‘
فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدِ مُؤْمِنٍ الا عبداً بينه وبين أخيه . شحناء فَيُقَالُ: أَتْرُكُوا هَذَيْنَ حَتَّى يَفيئَا)) (صحيح مسلم: 2565)
’’پس ہر مسلمان کو بخش دیا جاتا ہے، سوائے ان دو اشخاص کے کہ جن کے درمیان آپس میں عداوت ہوتی ہے تو اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑ دوستی کہ یہ آپس میں صلح کر لیں۔‘‘
اسی طرح اعمال پیش کئے جانے کا تیسرا وقفہ سالانہ ہے اور وہ ماہ شعبان میں ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہم نے سنا کہ جس میں آپﷺ نے فرمایا:
((وَهُوَ شَهْرٌ تَرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ)) (سنن نسائی:2357)
’’ماہِ شعبان وہ مہینہ ہے کہ جس میں اعمال اللہ تعالی کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ۔‘‘
تو شعبان کی اہمیت کے حوالے سے ہم نے یہ جانا کہ اس میں لوگوں کے اعمال کی سالانہ رپورٹ اللہ تعالی کے ہاں پیش ہوتی ہے۔
اب رہی بات کہ انسان کے اعمال لکھے جانے میں حکمت کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالی تو السميع البصير ہے، عليم بما في الصدور ہے، لا يخفى عليه شيء في الاض ولا في السماء ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں، پھر بنی آدم کے اعمال لکھنے اور ان کا ریکارڈ رکھنے میں کیا حکمت ہے؟ تو علماء کرام نے اس کی متعدد حکمتیں بیان کی ہیں اور ان میں ایک یہ ہے کہ انسان پر حجت قائم کرنے کے لیے ایک مادی اور محسوس دلیل لائی جاسکے، اگر چہ کوئی انسان اس کا بھی انکار کر دینے والا ہوگا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے مشہور حدیث ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((كُنَّا عِندَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَضَحِكَ))
’’ہم ایک بار آپﷺ کے پاس حاضر تھے کہ آپ ﷺمسکرائے ۔‘‘
((فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ ؟))
’’اور پھر آپ ﷺنے فرمایا جانتے ہو میں کیوں ہنسا ہوں ؟‘‘
((قَالَ: قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ))
’’حضرت انس رضی اللہ ت عالی عنہ کہتے ہیں: "ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺبہتر جانتے ہیں۔‘‘
(( قَالَ: ((مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: بندے کی اپنے رب سے گفتگو کی وجہ سے ۔‘‘
((يَقُولُ: يَارَبِّ أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ؟))
’’قیامت کے دن بندہ کہے گا، اے میرے رب! کیا تو نے مجھے قلم سے پناہ نہیں دے رکھی ۔‘‘
((قَالَ: يَقُولُ: ((بلي ))
’’آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی فرمائے گا: ہاں بالکل کیوں نہیں!‘‘
قَالَ: ((فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أُجِيزُ عَلَى نَفْسِي إِلَّا شَاهِداً مِنِّى))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: ” بندہ کہے گا، تو پھر میں اپنے خلاف اپنی ذات کے سوا کوئی گواہ قبول نہیں کروں گا۔‘‘
قَالَ: فَيَقُولُ: ((كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيدًا، وَبِالْكِرَامِ الكاتبين شُهُودًا))
’’آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی فرمائے گا، آج تیرا اپنا آپ اور کراما کاتبین ہیں تجھ پر گواہ کافی ہیں ۔‘‘
قَالَ: ((فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَأَرْكَانِهِ انْطِقِي، قَالَ: فَتَنْطِقُ بأعماله))
’’فرمایا: پھر اس کے منہ کو بند کر دیا جائے گا اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا کہ بولو! چنانچہ وہ اپنے اعمال بیان کر دیں گے۔‘‘
قَالَ: ((ثُمَّ يُخَلَّى بينه وبين الكلام))
’’پھر اسے بات کرنے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘
قال: فَيَقُولُ: ((بعداً لكن وسحقاً، فَعَنكُن كُنْتُ أَنَاضِلُ))(صحیح مسلم:2969)
’’وہ اپنے اعضاء سے مخاطب ہو کر کہے گا وقع دورا میں تمھارے دفاع میں ہی تو لڑ رہا تھا۔‘‘
تو بات ہو رہی تھی کہ بنی آدم کے اعمال لکھنے میں ایک حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان پر ایک مادی اور ٹھوس شکل میں حجت قائم کی جائے۔
اور ایک یہ ہے کہ اس سے لوگوں میں نیکی کی ترغیب اور معصیت سے ڈر اور خوف پیدا کیا جائے۔
رہا اللہ تعالی کے حضور اعمال پیش کئے جانے کا معاملہ تو اس میں بھی یقینًا حکمتیں ہیں۔ ایک حکمت یہ ہے کہ نیک اعمال اللہ تعالی کے حضور بندے کی شفاعت کرتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ((الَّذِينَ يَذْكُرُونَ مِنْ جَلَالِ اللَّهِ، مِنْ تسبيحه و تحمیده و تكبيره وتهليله، يتعاطفن حول العرش لَهُنَّ دَى كَدَوِي النَّحل النَّحْلِ يُذكِّرْنَ بِصَاحِبِهِنَّ ، أَلَا يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أن لا يَزَالَ لَهُ عِنْدَ اللهِ شَيْءٌ يُذْكَرُ به)) (مسند احمد:18362)
’’ جو لوگ اللہ تعالی کی عظمت و جلال کا ذکر کرتے ہیں، سبحان اللہ، الحمد لله، الله اکبر اور لا الہ الا اللہ کے کلمات سے تو یہ کلمات اللہ تعالی کے عرش کے گرد چکر کاٹتے رہتے ہیں اور کہنے والے کا ہلکی سی آواز سے ذکر کرتے رہتے ہیں، جس طرح شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ کیا تم میں سے یہ کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے لیے اللہ تعالی کے پاس کوئی چیز ہمیشہ اس کا ذکر کرتی رہے!‘‘
یعنی تم یہ تسبیحات پڑھا کرو، تاکہ اللہ تعالی کے پاس تمھارا ذکر کرتے رہیں، تو نیک اعمال کو بلندی اور رفعت حاصل ہوتی ہے، آسمانوں کی طرف بلند ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے حضور پیش ہو کر بندے کی سفارش کرتے ہیں۔
نیک لوگوں کا اعمال نامہ علیین کے نام سے موسوم ہے اور علیین کے دفتر میں ہوتا ہے،﴿كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَؕ۱۸﴾ (المطففین:18)
’’یقینًا نیک لوگوں کا نامہ اعمال علیین میں ہے۔‘‘
اور اس کا مقام آسمانوں کی بلندیاں ہیں جیسا کہ حضرت کعب بل اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ساتواں آسمان ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ) اسی طرح بدکار لوگوں کا اعمال نامہ سجین کے نام سے موسوم ہے جو قید خانے کے دفتر میں ہوتا ہے:
﴿كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍؕ۷﴾ (المطففين:7)
’’یقینًا بدکار لوگوں کا نامہ اعمال قید خانے کے دفتر میں ہے۔‘‘
کہ جس کا مقام اسفل السافلین ہے، نچلا ترین مقام ہے۔ اعاذنا الله منه ۔ تو نیک اعمال کے اللہ کے حضور پیش ہونے کی ایک حکمت یہ ہے، کہ وہ اعمال اللہ کے حضور پیش ہو کر بندے کی سفارش کرتے ہیں۔
ان تسبیحات کے علاوہ دیگر اعمال بھی ہیں جن کا بالخصوص نام لے کر ذکر کیا گیا ہے،
جیسا کہ سورہ ملک کے بارے میں حدیث میں آتا ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ سُورَةً مِنْ كِتَابِ اللهِ ، مَاهِي إِلَّا ثَلَاثُونَ آيَةً، شَفَعَتْ لِرَجُلٍ فَأَخْرَجَتْهُ مِنَ النَّارِ، وَأَدْخَلَتْهُ الْجَنَّةَ وَهِيَ سُورَةُ تَبَارَكَ)) (مستدرك حاكم:3838)
’’کتاب اللہ میں سے تیس آیتوں کی ایک سورت ہے، اس نے بندے کی شفاعت کر کے اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروا دیا۔‘‘
اور ایسے ہی حدیث میں آتا ہے کہ وہ عذاب قبر سے بھی بچاتی ہے اور وہ ہے، ’’سورۃ الملک ‘‘
تو جن اوقات میں ، جن ایام اور جس مہینے میں بندوں کے اعمال او پر لے جائے جاتے ہیں، ان کی یقینًا ایک فضیلت، ایک مقام اور ایک درجہ ہے، جن کے یقینًا کچھ فوائد ہیں، جن میں ایک سب سے اہم اعمال کا آسمانوں پر لے جا کر اللہ کے حضور پیش کرتا ہے، جس کی بنا پر آپﷺ نے فرمایا:
((فَأُحِبَّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ)) (النسائي:2357)
’’ میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل جب اوپر لے جائے جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں ۔‘‘
ان فضیلت والے اوقات میں یوں تو کوئی بھی نیکی کی جاسکتی ہے، نماز، روزہ، صدقہ، خیرات ، تسبیحات اور کوئی بھی عمل صالح ۔ مگر آپ ﷺنے اپنے لیے روز و پسند فرمایا۔ روزے کا جو درجہ اور مقام و مرتبہ ہے، جو اس کے فوائد ہیں، آپ نے یقینًا بہت بارسن رکھے ہوں گے اور آئندہ بھی سنتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ مگر شعبان میں بالخصوص کثرت سے نفلی روزے رکھنے کا سبب جو حدیث میں بیان ہوا ہے وہ تو یہی ہے کہ اس میں اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں، یعنی سالانہ رپورٹ پیش ہوتی ہے۔
اور اس کی کچھ حکمتیں علماء کرام نے قرآن وحدیث سے جو اخذ کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ شعبان کے روزے اور شوال کے چھ روزے رمضان المبارک کے فرض روزوں کے ساتھ ایسے ہی ہیں جیسے کہ فرض نمازوں کے ساتھ اُن سے پہلے اور بعد میں سنتیں ہیں۔ بالخصوص ان میں سے جو سنت مؤکدہ ہیں، ان کی یقینًا بہت اہمیت ہے لہذا وہ بڑی تاکید اور پابندی کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔
نفلی روزوں کی عبادات میں بہت زیادہ اہمیت ہے، لہذا اس کی کئی ایک قسمیں ہیں۔
نفلی روزوں میں سے 9 قسم کے روزے تو ایسے ہیں جو فرض اور واجب کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، جیسا کہ کفارہ کے طور پر روزے ہیں، پھر اس کی بھی کئی قسمیں ہیں، جیسا کہ کفارہ ظہار ہے، کفارہ قتل ہے اور دیگر قسمیں ہیں۔ اسی طرح حج کے روزے ہیں۔
﴿فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ؕ﴾ (البقرة:196)
’’جسے قربانی میسر نہ ہو وہ تین روزے تو حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی میں ۔‘‘
نفلی روزوں کی ایک قسم ایسی ہے جو نفلی ہی رہتے ہیں مگر وہ بھی سات قسم کے ہیں۔ ان سب کی تفصیل کے لیے تو یقینًا وقت درکار ہے، تا ہم نذر کے روزے کے بارے میں کچھ عرض کرتا چلوں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس کا ایک غلط تصور پایا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر تو نذر ماننا جائز ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِعِ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ)) (صحيح البخاري:6696)
’’جس نے اللہ کی اطاعت کی نذرمانی، وہ اس کی اطاعت کرے۔‘‘
یعنی نذر پوری کرے۔ مگر نذر کی ایک قسم مکر وہ بھی ہے، بلکہ بعض علماء کرام اسے حرام قرار دیتے ہیں اور وہ ہے النذر المعلق، یعنی مشروط نذر اور وہ ہے، کہ کوئی شخص نذر مانے کہ اگر اللہ نے اسے بیٹا دیا تو وہ اتنے نفل پڑھے گا یا اتنے روزے رکھے گا، یا اتنا صدقہ کرے گا، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر میرا کام ہو گیا تو روزہ رکھوں گا، اور اگر نہیں ہوا تو نہیں رکھوں گا اور یہ بڑی بے ادبی کی بات ہے، اور اس قسم کی نذر کے متعلق آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ النَّدْرَ لَا يُقَدِّمُ شَيْئًا وَلَا يُؤَخِّرُ، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِالنَّدْرِ مِنَ البخيل)) (صحيح البخاري:6692)
’’ندر سے اللہ تعالی کے کسی حکم میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی لیکن اس طرح نذر کے ذریعے ایک بخیل سے نکالا جاتا ہے۔ یعنی صدقہ نقل نماز، یا روزہ جو بھی اس نے نذر مانی ہو۔‘‘
نذر سے متعلق ایک چھوٹا سا واقعہ ذکر کرتا چلوں، آپ سے ایم کی اونٹنیوں میں سے ایک عضباء نام کی اونٹنی تھی وہ بہت تیز بھاگتی تھی ، کوئی اونٹنی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
ایک بار کافروں نے یلغار کی اور رات کو وہ اونٹنی چرا کر کے لے گئے اور ساتھ ایک مسلمان عورت بھی اغوا کر لی۔
راستے میں انھوں نے رات کو ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور سو گئے، وہ عورت چپکے سے اٹھی ، اپنی رسیاں کھولیں اور اونٹنی کو ڈھونڈ نے لگی ، اندھیرا تھا، نظر تو آتا نہیں تھا، اونٹوں کو ہاتھ لگا لگا کر دیکھتی جس کو ہاتھ لگاتی ، وہ اونٹنی غراتی، تو اس کو معلوم ہو جاتا کہ وہ عضباء نہیں ہے۔
سبحان اللہ اصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی نبی کریمﷺ سے محبت اور تعلق کا اندازہ کیجئے کہ نبی کریم سے عالم کی اونٹنی کی بھی اس تفصیل سے پہچان رکھتے تھے کہ اس کی چال، اس کی عادات، اس کی آواز اور اس کا غرانا تک معلوم تھا۔ اندھیرے میں آواز کو سن کر جان لیتی کہ وہ عضباء نہیں ہے۔
ہسپتالوں میں بیسیوں نیو بورن بے پیر پڑے ہوتے ہیں، جب وہ روتے ہیں تو آواز سے پہچانا مشکل ہوتا ہے کہ کون کس کا بچہ ہے مگر ایک ماں فورا پہچان لیتی ہے، شدت تعلق کی وجہ سے، حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ماں سے پیارا رشتہ کوئی نہیں ہے۔ تو وہ صحابیہ بھی تھا رات کے اندھیرے میں ہاتھ سے ٹٹول کر معلوم کرتی کہ آپﷺ کی اونٹنی کون سی ہے، جب اس کو ہاتھ لگایا تو وہ نہ غرائی ، اس نے ہاتھ پھیرا تو اس کا نرم و گداز جسم محسوس کر کے اس کو یقین ہو گیا کہ وہی عضہاء ہے۔
اس کی رسیاں کھولیں، اس پر سوار ہوئیں، ادھر ادھر دیکھ کر مدینہ منورہ کی جہت کا تعین کیا اور اونٹنی دوڑا دی ، لوگ پیچھے بھاگے مگر اس کو نا پا سکے۔ اس نے نذر مانی کہ اگر میں بچ گئی تو اس اونٹنی کو اللہ کے لیے ذبح کردوں گی، آپﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا: ((بئْسَ مَا جزيتها ، لا نذر في معصية، ولا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدم)) (المعجم الأوسط:1137)
’’تم نے اسے برا بدلہ دیا ہے، معصیت کے کام میں اور جو چیز آدمی کی ملکیت میں نہ ہو اس کی نذر نہیں مانی جاسکتی ۔‘‘
…………………