معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم 1

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
الإسراء : 1

واقعہ معراج ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی معجزہ ہے یہ ایسا اعزاز ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہے، واقعہ معراج کو کم و بیش 28 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بیان کیا ہے

واقعہ معراج کب پیش آیا

واقعہ معراج کے متعلق مشہور ہے کہ 27 رجب کو پیش آیا لیکن حقیقت بات یہ ہے کہ اس کی کوئی متعین، خاص تاریخ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے
شیخ الاسلام، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَمْ يَقُمْ دَلِيلٌ مَّعْلُومٌ لَّا عَلَى شَهْرِهَا وَلَا عَلَى عَشْرِهَا وَلَا عَلَى عَيْنِهَا، بَلِ النُّقُولُ فِي ذَلِكَ مُنْقَطِعَةٌ مُّخْتَلِفَةٌ لَّيْسَ فِيهَا مَا يُقْطَعُ بِهِ، وَلَا شُرِعَ لِلْمُسْلِمِينَ تَخْصِيصُ اللَّيْلَةِ الَّتِي يُظَنُّ أَنَّهَا لَيْلَةُ الْإِسْرَاءِ بِقِيَامٍ وَلَا غَيْرِهِ .
زاد المعاد لابن قیم 58/1
ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ، جس سے معراج کا مہینہ، عشرہ یا تاریخ کا علم ہو سکے، بلکہ اس کے متعلق جتنی روایات وارد ہیں، ساری کی ساری منقطع اور ضعیف ہیں، کوئی بھی قابل استناد نہیں ۔ جس رات کولیلۃ الاسرا کا نام دیا جاتا ہے، اس میں بطور خاص شب بیداری یا کوئی اور عبادت کرنا مشروع نہیں ۔“

ہاں البتہ یہ بات یقینی ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے مکی دور میں پیش آیا تھا اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ وہ ہجرت سے ایک سال پہلے تھا۔

تاریخ معلوم نہ ہونے کی حکمت

بعض لوگ معراج کی رات میں لیلۃ القدر کی طرح خصوصی قیام اور تلاوت و ذکر کا اہتمام کرتے ہیں، اگر اس کی کوئی حقیقت ہوتی تو کم از کم کسی صحیح سند کے ساتھ اس مہینے اور دن کی تعیین ضرور معلوم ہوتی، جس میں یہ واقعہ ہوا اور صحابہ بھی اس رات اس کا اہتمام کرتے، جبکہ ستائیس رجب کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے اس رات کی خاص عبادت کا کہیں ذکر ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معراج کی رات کے نام سے لوگوں نے جو مختلف عبادات بنا رکھی ہیں ان کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے

کیا واقعہ معراج خواب میں پیش آیا ہے

بعض لوگوں نے آیت کریمہ :
«وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْۤ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ »
[ بنی إسرائیل : 60 ]
میں لفظ ’’ الرُّءْيَا ‘‘ سے استدلال کیا ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے
مگر محققین علمائے لغت نے تصریح کی ہے کہ لفظ ’’ الرُّءْيَا ‘‘ (جو ’’رَأَی يَرَی‘‘ کا مصدر ہے) بیداری میں آنکھوں کے دیکھنے پر بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے تصریح فرمائی ہے :
[ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلٰی بَيْتِ الْمَقْدِسِ ]
بخاری : 3888
’’یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات دکھایا گیا جس رات آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا۔‘‘

بیداری میں روح اور جسم سمیت پیش آنے کے دلائل

تمام صحابہ روایتاً و درایتاً اس پر متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج بیداری کی حالت میں ہوئی، روح اور جسم کے ساتھ ہوئی۔
اس کے بہت سے دلائل ہیں چند ایک ملاحظہ ہوں

1 قرآن میں لفظ ’’بِعَبْدِهٖ ‘‘ سے اس کی شہادت ملتی ہے، کیونکہ عبد صرف روح کو نہیں کہتے، بلکہ روح مع جسد کو کہتے ہیں۔

2 اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار قریش اسے نہ جھٹلاتے، کیونکہ خواب میں تو ہر ایک کو عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور ناممکن و محال چیزیں دکھائی دے سکتی ہیں۔

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَدْ زَعَمَ قَوْمٌ أَنَّ الْمِعْرَاجَ كَانَ مَنَامًا، وَيَرُدُّ قَوْلَهُمْ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ أَنْكَرُوا عَلَيْهِ مَا قَالَ، وَلَوْ كَانَ مَنَامًا لَمْ يُنْكِرْهُ أَحَدٌ .
التبصرۃ 42/2
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ معراج حالت نیند میں ہوئی ، ان کی بات کا رد اس سے ہوتا ہے کہ مشرکین نے نبی کریم علی ایم کے ( معراج کے بارے میں ) قول کا انکار کیا، اگر معراج حالت نیند میں ہوتی ، تو ان میں سے کوئی بھی انکار نہ کرتا۔“

3 اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو قرآن اسے ’’ سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ ‘‘ کی تمہید کے ساتھ بیان نہ کرتا، کیونکہ ان تمہیدی الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم اور خرق عادت واقعہ بیان کیا جا رہا ہے

حقیقت یہ ہے کہ معراج کا سفر ایک جسمانی سفر تھا ، اس میں جو کچھ دیکھا گیا وہ عینی مشاہدات تھے ، وہ کوئی روحانی سیر یا قلبی مشاہدات یا کشف یا خواب کا معاملہ نہیں تھا ، ایسا کہنا بالکل باطل ہے اور اس سے اس واقعہ کی ساری اہمیت و عظمت ختم ہو جاتی ہے۔

معراج کا مقصد

واقعہ معراج کا مقصد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا
تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔
بنی اسرائیل : 1

اس میں بہت سی نشانیاں آ جاتی ہیں
مثلاً آپ کے مکان کی چھت کا کھولا جانا
جبریل علیہ السلام کا آپ کا سینہ مبارک چاک کرکے دل کو زم زم سے دھو کر ایمان و حکمت سے بھر کر پھر ملا دینا
براق کی سواری جس کا قدم حد نگاہ پر پڑتا تھا
مہینوں کا سفر لمحوں میں طے ہونا
بیت المقدس میں دودھ اور شراب کا پیش کیا جانا اور آپ کا دودھ کو پسند فرمانا
انبیاء علیہم السلام کی ملاقات اور امامت وغیرہ
اس کے علاوہ آپ نے اور بھی بہت کچھ دیکھا فرمایا :
لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى
بلاشبہ یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔
النجم : 18
دجال، سدرۃ المنتہیٰ، جنت و جہنم، جہنم کا خازن مالک، نہر کوثر، بیت المعمور، چار دریا، وہ (مستوی) بلند ہموار جگہ جس پر چڑھے تو قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں
ان سب چیزوں کی تفصیل آگے چل کر بیان ہو گی ان شاء اللہ

إسراء و معراج

اس سفر کے دو حصے ہیں
1 اسراء 2 معراج

مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ’’اسراء‘‘ ہے، جو سورہ بنی اسرائیل میں مذکور ہے
اور مسجد اقصی سے سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر ’’معراج‘‘ کہلاتا ہے۔ جو سورہ نجم میں مذکور ہے

یہ دونوں سفر ایک ہی رات میں ہوئے ہیں

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام بیہقی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے انہوں نے فرمایا :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج اسی رات ہوئی ہے جب آپ مکہ سے بیت المقدس گئے ہیں اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔‘‘

واقعہ کو لفظ "سبحان” سے شروع کرنے کی وجہ

اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں جب بھی کوئی بات لفظ سبحان سے شروع کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آگے کوئی عظیم الشان کام، حکم یا واقعہ بیان ہونے والا ہے جوکہ یا تو بہت عظیم اور اہم ہے یا جس کا واقع ہونا انسانی طاقت سے باہر ہے، اس لیے بات یہیں سے شروع فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیبوں، کمزوریوں اور نارسائیوں سے پاک ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں اور وہ ان کاموں پر قادر ہے جن پر اس کے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے "عَبْدِهِ” لفظ بولنے میں حکمت

"عَبْدِهِ” یعنی ’’اپنے بندے‘‘ کا لفظ اس محبت اور تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ اگر پیار و محبت اور آپ کی عظمت و شان کے اظہار کے لیے اس سے زیادہ یہاں کوئی لفظ موزوں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسی کو ذکر فرماتا

لفظ ’’عَبْدٌ‘‘ کے انتخاب میں یہ لطیف اشارہ بھی ہے کہ ایک انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبودیت، غلامی اور بندگی ہی اس کی بہترین خوبی ہے
یعنی بہترین انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبودیت (بندگی) میں سب سے بہتر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب اور بلند مرتبہ تھے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے متعلق فرمایا ہے :
لَا تُطْرُوْنِيْ كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَي ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُهُ
بخاری : 3445
’’مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، میں تو صرف اس کا عبد (بندہ) ہوں، سو تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘

عبد کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے معجزہ کی وجہ سے کوئی بندے کو خدا تک نہ پہنچا دے
بندہ بندہ ہی ہے اور اللہ اللہ ہی ہے

سفر سے پہلے آپ کے سینہ مبارک کو چاک کر کے دھویا گیا

ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ ، فَفَرَجَ صَدْرِي ، ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا ، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي ، ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا
صحيح البخاري | 349
میں ایک رات مکہ مکرمہ میں اپنے گھر محو خواب تھا کہ جبرئیل امین میرے گھرکی چھت پھاڑ کر میرے پاس تشریف لائے اور میرا سینہ چاک کیا، آبِ زمزم سے دھویا اور پھر ایمان وحکمت سے بھری ہوئی ایک طلائی طشتری میرے سینہ میں انڈیل دی اور پھر اسے بند کردیا ۔‘‘

بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے :
فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَى لَبَّتِهِ
بخاری : 7517
جبرائیل علیہ السلام نے آپ کے گلے سے دل کے نیچے تک سینہ چاک کیا

مسلم کی ایک روایت میں ہے :
فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ
مسلم : 164
(میری)گردن کے قریب سے پیٹ کے پتلے حصے تک چیرا گیا

مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کتنا سفر ہے؟

مکہ سے شام تک کا چالیس راتوں کا فاصلہ ہے، یاد رہے کہ یہ سفر ایک طرف کا ہے، آنے جانے کا دگنا سمجھ لیں۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

سفر کے لیے منتخب جانور

سفر معراج کے لیے جس جانور پر سواری کی گئی اسے براق کہتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ، وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ.
صحيح مسلم | 162
’’میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے ، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے ۔
مسلم ہی کی 164 نمبر روایت میں ہے
يَقَعُ خَطْوُهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ
اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نظر کی آخری حد تھی

براق کی وجہ تسمیہ

بُراق ، برق سے مشتق ہے جو بجلی کے معنوں میں ہے چونکہ اس کی رفتار بجلی سے بھی تیز تھی ، اسی لئے اسے براق کہا گیا

براق سہم گیا

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہونے کے لیے براق کے قریب ہوئے تو براق نے تھوڑی سی مستی دکھائی، جس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:
اے براق ! تجھے شرم نہیں آتی کہ تجھ پر کائنات کا بہترین سوار سواری کرنے لگا ہے، جس پر براق کے پسینے چھوٹ گئے، گردن جھکا دی اور پسینہ اس کے جسم سے بہنا شروع ہو گیا۔”

یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مسند البزار، کنز العمال، دلائل النبوة للبيهقي، جامع الأحاديث للسيوطي، تفسير قرطبي سيرة ابن هشام سيرة ابن كثير وغیرہ میں منقول ہے۔ پسینہ کے الفاظ کے بغیر اسے امام البانی اللہ نے "الاسراء والمعراج” میں ذکر کیا ہے ]

آپ اس پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ.
صحيح مسلم | 162
میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔

راستے میں موسیٰ علیہ السلام کو ان کی قبر میں دیکھا

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ ”
صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْفَضَائِلُ |2375
"معراج کی شب میں سرخ ٹیلے کے قریب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔”

یہاں سے برزخی زندگی کا ثبوت ملتا ہے لیکن یہ زندگی کسی قسم کی ہے؟ اس کی نوعیت و کیفیت کیسی ہے؟
اس کی تفصیل کا ہمیں علم ہے نہ ہم اسے بیان کر سکتے ہیں، البتہ اس کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ وہ دنیوی زندگی ہی کی طرح ہے بلکہ اس سے زیادہ قوی ہے جیسا کہ بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو یہ دعوی بلا دلیل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر انھیں منوں مٹی کے نیچے دبا کر رکھنے کی ضرورت کیا ہے؟
حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

براق کو مسجد سے باہر باندھ دیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَاءُ
صحيح مسلم | 162
میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیاجس کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی سواریاں باندھتے تھے۔

مسجد میں داخل ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز ادا کی

آپ فرماتے ہیں :
ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ
صحيح مسلم | 162
پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں

مسجد اقصی میں انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ
مسلم : 172
میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا

موسی علیہ السلام کا حلیہ

پھر آپ فرماتے ہیں :
فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ، جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ
مسلم : 172
تو وہاں موسیٰ علیہ السلام تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں

شنوءۃ : یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک قبیلہ تھا جن کے قد بڑے لمبے اور مضبوط تھے

نیز آپ نے موسی علیہ السلام کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَرَأَيْتُ مُوسَى أَسْحَمَ آدَمَ، كَثِيرَ الشَّعْرِ شَدِيدَ الْخَلْقِ
مسند أحمد | 3546
حكم الحديث: إسناده صحيح
میں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ، آپ گندم گو، گھنے بالوں والے اور مضبوط الجثہ تھے۔

ایک روایت میں فرمایا :
مُوسَى آدَمُ طُوَالٌ
مسلم : 165
موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ کے اونچے لمبے تھے

عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ

پھر آپ فرماتے ہیں :
وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ
مسلم : 172
اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ہیں ۔

اور فرمایا :
وَرَأَيْتُ عِيسَى شَابًّا أَبْيَضَ، جَعْدَ الرَّأْسِ، حَدِيدَ الْبَصَرِ، مُبَطَّنَ الْخَلْقِ
مسند أحمد | 3546
حكم الحديث: إسناده صحيح
میں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔ جو جوان عمر ، سفید رنگت، (سیدھے اور معمولی ) گھنگھریالے بال، تیز نظر اور دبلے پتلے تھے۔

ابراهيم علیہ السلام کا حلیہ

ابراهيم علیہ السلام کے متعلق فرمایا :
وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ – يَعْنِي نَفْسَهُ
مسلم : 172
اور (وہاں ) ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں ، آپ نے اپنی ذات مراد لی

اور فرمایا :
وَنَظَرْتُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَلَا أَنْظُرُ إِلَى إِرْبٍ مِنْ آرَابِهِ، إِلَّا نَظَرْتُ إِلَيْهِ مِنِّي، كَأَنَّهُ صَاحِبُكُمْ
مسند أحمد | 3546
حكم الحديث: إسناده صحيح
اور میں نے سیدنا ابراہیم علیلام کو دیکھا، میں نے ان کی ہر نشانی اپنے اندر پائی، گویا کہ وہ میں ہی ہوں۔

آپ انبیاء کرام کی امامت کرتے ہیں

اسی روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ
مسلم : 172
پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی ۔

مسجد اقصی میں جہنم کے نگران فرشتے "مالک” سے ملاقات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ قَائِلٌ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ، فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ
مسلم : 172
جب میں نماز سے فارغ ہو ا تو ایک کہنے والے نے کہا : اے محمد! یہ مالک ہیں ، جہنم کے داروغے ، انہیں سلام کہیے : میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہل کر کے مجھےسلام کیا۔

جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا :
سَلِّمْ عَلَى مَالِكٍ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ
مسند أحمد | 3546
حكم الحديث: إسناده صحيح
کہ مالک (دروغہ جہنم) کو سلام کہیے، تو میں نے انہیں سلام کہا۔

مسلم کی روایت میں ہے کہ داروغہ مالک نے سلام کہا اور اس روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا، تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہے بسااوقات ایسے ہو جاتا ہے کہ دو ملنے والے بیک وقت دونوں ہی ایک دوسرے کو سلام کہہ دیتے ہیں

آپ کو دجال بھی دکھایا گیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَأُرِيَ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ وَالدَّجَّالَ فِي آيَاتٍ أَرَاهُنَّ اللَّهُ إِيَّاهُ
مسلم : 165
(سفر معراج کے دوران میں ) ان بہت سی نشانیوں میں سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھائیں آپ کو دورخ کا داروغہ مالک اور دجال بھی دکھایا گیا

مسجد سے باہر نکل کر آپ کو دودھ اور شراب پیش کیے گئے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ثُمَّ خَرَجْتُ، فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فَقَالَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ
صحيح مسلم | 162
پھر میں (مسجد سے ) نکلا تو جبریل علیہ السلام میرےپاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا لے آئے ۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے

مسلم کی ایک روایت میں ہے جبریل علیہ السلام نے فرمایا :
إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ ".
مسلم : 168
اگر آپ شراب پی لیتے تو آپ کی امت راستے سے ہٹ جاتی ۔

مکے ہی سے آسمانوں پر کیوں نہیں لے جایا گیا؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں سے آسمانوں پر ۔ آپ کو مکے ہی سے آسمانوں پر کیوں نہیں لے جایا گیا ؟
اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس طرح آپ کی سیر آسمانی کا ماننا لوگوں کے لیے آسان ہو گیا کیونکہ جب آپ نے یہ بتلایا کہ میں آج رات اس کے تھوڑے سے حصے میں بیت المقدس سے ہو کر آیا ہوں تو لوگوں کو معلوم تھا کہ آپ پہلے کبھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں، چنانچہ انھوں نے بیت المقدس کی جزئیات آپ سے پوچھیں تو آپ نے اللہ کی مدد سے ان کے سارے سوالات کے صحیح صحیح جواب دے دیے تو اہل کفر نے تو خیر ماننا ہی نہ تھا لیکن اس سے اہل ایمان کے ایمان ویقین میں اضافہ ہو گیا ، پھر آسمانی سیر کا تسلیم کرنا تو ان کے لیے ذرا مشکل نہ رہا۔
فتح الباری، بحوالہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

مسجد اقصی کے ارد گرد برکت کا کیا مطلب ہے

مسجد اقصی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ
بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے
بنی اسرائیل : 1

برکت کا مطلب ہے کہ وہاں چشموں، نہروں اور ہر قسم کے غلے اور پھلوں کی بہتات ہے اور معنوی و باطنی اعتبار سے بھی وہ خطہ بابرکت ہے کہ بیت المقدس میں چاروں مقدس کتابیں پڑھی گئیں، بہت سے انبیاء و رسل وہاں مبعوث ہوئے، وہاں دنیا میں کعبۃ اللہ کے بعد بنائی جانے والی دوسری مسجد ہے، جو ان تین مساجد میں شامل ہے جن کے علاوہ کسی جگہ ثواب کی نیت سے کجاوے کس کر جانا منع ہے۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

قرآن مجید میں کئی جگہ یہ برکت والی اصطلاح بیت المقدس اور شام کے لیے آئی ہے
جیسا کہ فرمایا :
«وَ نَجَّيْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ»
[ الأنبیاء : ۷۱]
’’اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سرزمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی۔‘‘
اور فرمایا :
«وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا»
[ الأنبیاء : ۸۱ ]
’’اور سلیمان کے لیے ہوا (مسخر کر دی) جو تیز چلنے والی تھی، اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی۔‘‘ ان تمام آیات سے مراد سرزمین شام ہے۔

مسجد اقصی سے آسمان کی طرف سفر

آپ فرماتے ہیں :
ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ
صحيح مسلم | 162
پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے ۔

مسجد اقصی سے آسمان کی طرف سفر کے لیے براق پر سواری کا تذکرہ نہیں ملتا

پہلے آسمان پر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ
جبریل نے (دروازہ) کھولنے کو کہا
تو انہیں کہا گیا :
مَنْ أَنْتَ ؟ آپ کون ہیں ؟
انہوں نے کہا : جبریل ہوں
پھر کہا گیا : وَمَنْ مَعَكَ ؟ آپ کے ساتھ کون ہے
تو انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم .
پھر پوچھا گیا : وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟
اور ( کیا) انہیں بلوایا گیا تھا؟
انہوں نے کہا :
قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ،بلوایا گیا تھا۔
فَفُتِحَ لَنَا
صحيح مسلم | 162
اس پر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا

آدم علیہ السلام سے ملاقات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ
صحيح مسلم | 162
تو میں اچانک آدم علیہ السلام کے سامنے تھا
مسلم کی 163 نمبر حدیث میں ہے آپ نے فرمایا :
جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے اس کے دائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے اور اس کے بائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے جب وہ آدمی اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے تو ہنستا ہے اور اپنے بائیں طرف دیکھتا ہے تو روتا ہے۔
میں نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا :کہ یہ کون ہیں؟
مسلم : 163
جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا :
هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّ قَالَ : مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ.
صحيح البخاري | 3887
یہ آپ کے جد امجد آدم علیہ السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے ۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا :
نیک بیٹے اور نیک نبی کو خوش آمدید
اور پھر جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ
ان کے دائیں طرف ان کی جنتی اولاد اور بائیں طرف والے دوزخی ہیں اس لئے جب دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو روتے ہیں۔
مسلم : 163

دوسرے آسمان پر

ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ
صحيح مسلم | 162
پھر وہ ہمیں اوپر دوسرے آسمان کی طرف لے گئے

جبریل نے (دروازہ) کھولنے کو کہا
تو انہیں کہا گیا :آپ کون ہیں ؟
انہوں نے کہا : جبریل ہوں
پھر کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟
تو انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم .
پھر پوچھا گیا :اور ( کیا) انہیں بلوایا گیا تھا؟
انہوں نے کہا : جی بلوایا گیا تھا۔
اس پر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا
صحيح مسلم | 162

عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام سے ملاقات

اب میں دوخالہ زاد بھائیوں ، عیسیٰ ابن مریم اور یحییٰ بن زکریا کے سامنے تھا(اللہ ان دونوں پررحمت اور سلامتی بھیجے)
جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا اور ان حضرات نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا :
مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ
صحيح البخاري | 3887
نیک نبی اور نیک بھائی کو خوش آمدید
مسلم کی 162 نمبر حدیث میں ہے
وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ
صحيح مسلم |
دونوں نے میرے لیے دعائے خیر کی

تیسرے آسمان پر یوسف علیہ السلام سے ملاقات

پھر جبریل علیہ السلام ہمیں اوپر تیسرے آسمان تک لے گئے ، جبریل نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا : آپ کون ہیں ؟ کہا : جبریل ہوں ۔ کہا گیا ‎: آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ کہاگیا : کیا ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا۔ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا ۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا
فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ،
صحيح مسلم | 162
تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا ، وہ ایسے تھے کہ ( انسانوں کا ) آدھا حسن انہیں عطا کیا گیا تھا
بخاری میں ہے :
جبریل علیہ السلام نے فرمایا : یہ یوسف ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا :
مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ
صحيح البخاري | 3887
خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی !
مسلم میں ہے :
وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ.
صحيح مسلم | 162
انہوں نے میرے لیے دعائے خیر کی

چوتھے آسمان پر ادریس علیہ السلام کے ساتھ ملاقات

پھر ہمیں اوپر چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا ، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو کہا گیا : یہ کون ہیں ؟ کہا : جبریل ہوں ۔ کہا گیا : اور آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا : ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا ؟ کہا :ہاں ، بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا ،
فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ
صحيح مسلم | 162
تب میرے سامنے ادریس علیہ السلام تھے۔
بخاری میں ہے :
جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ ادریس علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا :
مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ
صحيح البخاري | 3887
خوش آمدید پاک بھائی اور نیک نبی ۔
مسلم میں ہے :
وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ.
صحيح مسلم | 162
انہوں نے میرے لیے دعائے خیر کی

پانچویں آسمان پر ہارون علیہ السلام سے ملاقات

پھر ہمیں اوپر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا تو جبریل نے دروازہ کھلوایا ،کہا گیا :آپ کون ہے ؟ کہا: جبریل ہوں ۔ کہا گیا :اور آپ کے ساتھ کون ہیں ؟محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پوچھا گیا :ان کے لیے پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا : ہاں بھیجا گیا تھا ، چنانچہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا ۔
فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
صحيح مسلم | 162
تب میری ملاقات ہارون علیہ السلام سے ہوئی
بخاری میں ہے :
تو جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ آپ ہارون ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب کے بعد فرمایا :
مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ
صحيح البخاري | 3887
خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی
مسلم میں ہے :
وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ.
صحيح مسلم | 162
انہوں نے میرے لیے دعائے خیر کی

چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات

پھر ہمیں چھٹے آسمان پر لے جایا گیا ، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا : یہ کون ہیں ؟ کہا: جبریل ۔ کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پوچھا گیا : کیا انہیں پیغام بھیجا گیا تھا ؟کہا: ہاں ، بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا ۔
فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
صحيح مسلم | 162
تب میری ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی
بخاری میں ہے
جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ، میں نے سلام کیا اور انہوں نے جواب کے بعد فرمایا :
مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ
صحيح البخاري | 3887
خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی !
مسلم میں ہے :
وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ.
صحيح مسلم | 162
انہوں نے میرے لیے دعائے خیر کی

موسی علیہ السلام رونے لگے

جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا : آپ روکیوں رہے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا :
أَبْكِي ؛ لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مَنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي.
صحيح البخاري | 3887
میں اس پر رورہا ہوں کہ یہ لڑکا(یعنی نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم) میرے بعد نبی بناکر بھیجا گیا لیکن جنت میں اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ ہوںگے

یہ رونا معاذ اللہ امت مسلمہ سے حسد کی بنا پر نہیں تھا کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا برگزیدہ نبی حسد کرے بلکہ انہوں نے تو امت محمدی پر نمازوں میں کمی کروا کے بڑا احسان کیا ہے
بلکہ یہ اپنی امت کی محرومی پر رونا تھا

ساتویں آسمان پر ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات

پھر ہمیں اوپر ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا ۔ کہا گیا : یہ کون ہیں ؟ کہا : جبریل۔ کہا گیا : آپ کےساتھ کون ہیں ؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ کہا گیا : کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا ؟ کہا : (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا
فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ، وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ
صحيح مسلم | 162
تو میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے تھا۔ انہوں نے بیت معمور سے ٹیک لگائی ہوئی تھی ۔ اس (بیت معمور) میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (عبادت کے لیے )داخل ہوتے ہیں ، پھر کبھی دوبارہ اس میں واپس ( آکر داخل) نہیں ہو سکتے
بخاری میں ہے :
جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آپ کے جد امجد ہیں ، انہیں سلام کیجئے ۔ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا :
مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ
صحيح البخاري | 3887
خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے

ابراهيم علیہ السلام کی طرف سے امت محمدیہ کو سلام

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
يَا مُحَمَّدُ! أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ، وَأَنَّهَا قِيعَانٌ ، وَأَنَّ غِرَاسَهَا : سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ
سنن الترمذي | 3462 ، حسن
اے محمد ! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتادیناکہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے اور اس کی باغبانی "سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ” سے ہوتی ہے

ابراهيم علیہ السلام کے پاس بے شمار بچے بھی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ لوگوں کے وہ بچے ہیں جو بچپن میں ہی فوت ہو گیے تھے آپ نے پوچھا کہ ان میں مشرکین کے بچے بھی ہیں تو بتایا گیا کہ ہاں ان میں مشرکین کے بچے بھی ہیں

ایک اشکال اور اس کا حل

اوپر بیان ہوا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے اور موسیٰ علیہ السلام چھٹے آسمان پر تھے
جبکہ صحیح بخاری کی ہی ایک روایت میں ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ہے :
وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ
صحيح البخاري | 349 ، 7517
اور ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان میں تھے
اور موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہے :
وَمُوسَى فِي السَّابِعَةِ
صحيح البخاري | 7517
اور موسیٰ علیہ السلام ساتویں آسمان میں تھے
لیکن
یہ کوئی تعارض نہیں ہے
اس میں تطبیق اور حل یہ ہے کہ اوپر چڑھتے وقت موسیٰ علیہ السلام چھٹے اور ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان تھے اور واپسی پر موسیٰ علیہ السلام ساتویں اور ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان تھے
شائد اس میں یہ حکمت تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کی تخفیف کے لیے بار بار اوپر کی طرف چڑھتے رہے تو آپ کے لیے آسانی رہی