مخلوق کی ایسی اطاعت حرام ہے جس سے خالق کی نافرمانی ہو۔

228۔سیدنا  علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا سالار ایک انصاری شخص کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ اتفاق سے اسے کسی بات پر غصہ آیا تو وہ کہنے لگا: کیا نبی ﷺنے تمھیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، تب اس نے کہا: تم سب میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انھوں نے لکڑیاں جمع کر دیں۔ اس نے کہا: اب آگ سلگاؤ۔ انھوں نے آگ بھی سلگائی، پھر اس نے کہا: اس میں کود جاؤ۔ انھوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تو ان میں سے کچھ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور انھوں نے کہا: ہم اس آگ سے راہ فرار اختیار کر کے تو نبیﷺ کے پاس آئے ہیں۔ وہ اسی طرح بحث مباحثے میں رہے کہ آگ بجھ گئی اور اس کا غصہ بھی جاتا رہا، پھر جب میں ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے فرمایا:

((لَوْ دَخَلُوْهَا مَا خَرَجُوْا مِنْهَا إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ))

(أَخْرَجَةُ البخاري:4340،7257، ومُسْلِمٌ: 1840)

’’اگر وہ لوگ اس آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس سے نہ نکل سکتے کیونکہ اطاعت اسی کام میں ضروری ہے جو شریعت کے خلاف نہ ہو۔‘‘

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرُ بِمُعْصِيَةٍ، فَإِذَا أَمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةً)) (أخرجه البخاري: 2955، 7144، ومسلم: 1839)

’’ہر مسلمان کے لیے پسندیدہ اور ناپسندیدہ دونوں باتوں میں امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے بشرطیکہ اسے کسی گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اس وقت نہ اس کی بات کی جائے اور نہ اس کی اطاعت ہی کی جائے۔‘‘

توضیح و فوائد:  اس کا ئنات کا خالق صرف اللہ تعالی ہے، اس کی تخلیق و تشکیل میں اس کا کوئی شریک نہیں، اس لیے بلا مشروط اطاعت کی مستحق بھی وہی ذات عالی ہے یا اس کے رسول معظم ہیں، جنھوں نے اللہ کا پیغام پہنچایا۔ حقوق میں سے حکمرانوں، والدین، علماء، اساتذہ وغیرہ سب کی اطاعت اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت سے مشروط ہے۔ اگر ان کی بات اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی بات سے ٹکراتی ہے تو ان کی اطاعت ناجائز ہوگی۔

230۔سیدنا  عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں اس حالت میں حاضر ہوا کہ میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ تو آپﷺ نے فرمایا:  ((يَاعَدِىُّ! اِطْرُحْ عَنكَ هٰذَا الْوَثَنَ مِنْ عُنْقِكَ)) ’’عدی اپنی گردن سے اس بت کو اتار پھینکو۔‘‘

 چنانچہ میں اسے اتار کر آپ کے قریب ہوا تو آپ سورہ براء ت کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے:

﴿اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾

’’انھوں نے اپنے علماء اور مشایخ (درویشوں) کو اللہ کے سوا رب بنا لیا تھا۔‘‘

جب آپﷺ تلاوت سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کی:  ہم ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔

آپﷺ نے فرمایا:

((أَلَيْسَ يُحْرِّمُونَ مَا أَحَلَّ اللهُ فَتَحَرِّمُونَهُ، وَيُحِلُّونَ مَا حَرَّمَ اللهُ فَتَسْتَحِلُّونَهُ))

’’کیا وہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار نہیں دیتے تھے اور پھر تم بھی انھیں حرام سمجھ لیتے تھے، اور کیا وہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار نہیں دیتے تھے اور پھر تم انھیں حلال سمجھ لیتے تھے۔‘‘

میں نے کہا: کیوں نہیں (ہم ایسا ہی کرتے تھے) تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((فَتِلْكَ عِبَادَتُهم)) ’’یہی تو ان کی عبادت کرتا ہے۔‘‘(أخرجه الترمذي: 3095، والطبراني في الكبير: 13673، واللفظ له)

توضیح و فوائد:  حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے  پاس ہے اور اللہ تعالی نے اس کا علم انبیاء کو عطا فرمایا۔ اگر کوئی شخص نبوی تعلیم کے بغیر کسی کے کہنے پر کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیا ہے وہ اللہ تعالی کا حق کسی دوسرے کو دے دیتا ہے اور اس عمل کا نام عبادت ہے، اس لیے اللہ تعالی اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کی بلا مشروط اطاعت کو غیر اللہ کی عبادت قرار دیا گیا ہے جو ہر لحاظ سے شرک ہے۔

231۔سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:

((سَيَلِي أُمُورَكُمْ بَعْدِي رِجَالٌ يُّطْفِئُونَ مِنَ السُّنَّةِ، وَيَعْمَلُونَ بِالْبِدْعَةِ، وَيُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ مَوَاقِيتِهَا))

’’میرے بعد کچھ ایسے لوگ بھی تمھارے معاملات کے نگران (اور تمھارے حکمران)  ہوں گے جو سنت کی روشنی کو بجھائیں گے، بدعت پر عمل پیرا ہوں گے اور نماز کو (افضل) وقت سے دیر کر کے پڑھیں گے۔‘‘

میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں انھیں پاؤں تو کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((تَسْأَلُنِي يَا ابْنَ أُمِ عَبْدٍ كَيْفَ تَفْعَلُ لَا طَاعَةً لِمَنْ عَلَى الله)) (أخرجه ابن ماجه:2865)

’’اے ام عبد کے بیٹے! مجھ سے پوچھتے ہو کہ کیا کرو گے؟ جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے، اس کی کوئی اطاعت نہیں۔‘‘ 232۔مصعب بن سعد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں ان کے حوالے سے کئی آیات نازل ہوئیں، بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ نے قسم اٹھائی کہ وہ اس وقت تک ان سے بات تک نہیں کریں گی جب تک وہ اپنے دین (اسلام) سے انکار و انحراف نہ کریں اور نہ کچھ کھائیں پئیں گی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تم اپنے والدین کی بات مانو اور میں تمھاری ماں ہوں، لہٰذا میں تمھیں اس دین کو چھوڑنے کا حکم دیتی ہوں۔ کہا: وہ تین دن اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ کمزوری سے بے ہوش ہو گئیں تو ان کا ایک بیٹا ہے عمارہ کہا جاتا تھا، کھڑا ہوا اور انھیں پانی پلایا۔ (ہوش میں آکر)  انھوں نے سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو بدعائیں دینی شروع کر دیں تو اللہ تعالی نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤی اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙ فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ؗ﴾

’’اور اگر وہ دونوں یہ کوشش کریں کہ تم میرے ساتھ شریک ٹھہراؤ جس بات کو تم (درست ہی) نہیں جانتے تو تم ان کی اطاعت نہ کرو اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔‘‘ (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 1748)

…………