مردو زن کے اختلاط سے ممانعت

الحمد لله الهادي إلى سبيل الرشاد، يهدي من يشاء من عباده إلى طريق السداد، ويضل بعدله من يشاء إلى طريق الغي والفساد، أحمده سبحانه وهو للحمد أهل، وأشكره على الانه ونعمه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الناصح الأمين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
سب تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو رشد و ہدایت کی راہ دکھاتا ہے۔ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے۔ ہدایت دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے۔ اپنے عدل کے ساتھ ہلاکت و بربادی کی راہ پر ڈھکیل دیتا ہے۔ میں اس رب پاک کی حمد بیان کرتا ہوں کہ وہی حمد و ثنا کا سزاوار ہے۔ اور اس کی بے پناہ نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو امت کے خیر خواہ اور رسالت کے امین ہیں۔ یا اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ رب العالمین سے ڈرو اپنے ایمان کا عملی ثبوت دو اور اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہو اللہ تعالیٰ نے ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کے لئے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور انہیں دنیا و آخرت کی بھلائی کی بشارت دی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ قول و عمل کی سچائی ہی اصل چیز ہے۔ ایمان یا اسلام کا کھوکھلا دعوی کر لینا کچھ مفید نہیں بلکہ زبان و دل اور اعضاء و جوارح کے ذریعہ ایمان کا ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔ ایک مسلمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے۔ کہ وہ گفتار و کردار میں اپنے حالات کا جائزہ لیتا رہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
(إن العبد ليتكلم بالكلمة من رضوان الله لا يلقى لها بالا يرفع اللهُ بِها دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العبد ليتكلم بالكلمة من سخط الله
تعالى لا يلقى لها بالا يهوي بها في جهنم) [صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان (6878) و مسند احمد: 333/2 (8419)]
’’بندے اللہ کی خوشنودی کا کوئی کلمہ اپنی زبان سے ادا کرتا ہے۔ جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اللہ تعالی اس کلمہ کے سبب اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ اور اسی طرح ایک بندے اللہ کی ناراضگی کا کوئی جملہ اپنے منہ سے نکالتا ہے۔ جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اس کے سبب اللہ اسے جہنم رسید کر دیتا ہے۔
‘‘لہٰذا ضروری ہے۔ کہ بندے ہمہ وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتا اور اس کا جائزہ لیتار ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر شعوری طور پر وہ کوئی بڑی بات کہہ دے یا نادانستہ طور پر نفاق کا شکار ہو جائے یا اللہ ورسول کے حکم کی مخالفت کر بیٹھے۔
اللہ و رسول کی مخالفت یہ بھی ہے۔ کہ آدمی کسی ایسی بات کی طرف بلائے جو فرمان الہی یا ارشاد نبوی کے خلاف ہو ایسے لوگوں کے بارے میں رب العالمین فرماتا ہے:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اُولٰٓىِٕكَ فِی الْاَذَلِّیْنَ۝۲۰ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۲۱﴾ (المجادلة: 20،21)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ نہایت ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ دیا ہے۔ کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے بیٹک اللہ زور آور اور زبردست ہے۔‘‘
اللہ ہی کی ذات وہ طاقت ور ذات ہے۔ جس سے غلبہ میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور وہی وہ زبر دست اور زور آور ہے۔ جو اپنی مشیئت کے مطابق جسے چاہتا ہے۔ عزت دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ذلیل کرتا ہے۔
برادران اسلام! یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔ کہ کچھ لوگوں نے باطل کو خوشنما بنا کر پیش کرنا اور لوگوں کو اس کی طرف بلانا شروع کر دیا ہے۔ ان کا مقصد ہے۔ کہ سادہ لوح عوام اور دین کے بارے میں کم سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کے درمیان کچھ ایسی چیزیں رواج پذیر ہو جائیں جو رب العالمین کے نزدیک محبوب و پسندیدہ نہیں۔ دین کے سلسلہ میں کم مائیگی درحقیقت محرومی و بدنصیبی کی دلیل ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقَهُهُ فِي الدِّينِ) [صحیح بخاری: کتاب العلم، باب من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين (71) و صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب قوله صلى الله عليه وسلم لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق (1923)]
’’اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے۔ اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘
چنانچہ اس حدیث کا مفہوم یہ نکلا کہ جس شخص کو اللہ نے دین کی سمجھ عطا نہیں کی اس کے ساتھ خیر کا ارادہ نہیں فرمایا۔
اللہ کے بندو! باطل کو خوشنما بنا کر پیش کرنا لوگوں کو اس کی طرف بلانا اور مردوزن کے اختلاط کو تقدم و ترقی اور حریت سے تعبیر کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے۔ کہ اہل مغرب کی تقلید اور ان کے پیچھے پیچھے چلنا ہی ترقی ہے۔ ایسے لوگوں کے سلسلہ میں یہ ڈر ہے۔ کہ کہیں اللہ تعالی ان کے دلوں پر مہر نہ لگا دے کیونکہ آدمی کے دل پر جب مہر لگ جاتی ہے۔ تو وہ نہ معروف کو پہچان سکتا ہے۔ نہ منکر کا انکار کر سکتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے۔ کہ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھنے لگتا ہے۔ اور یہ منافقین کی ایک صفت ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْ ؕ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ ؕ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ هُمُ لْفٰسِقُوْنَ۝۶۷﴾ (التوبه:67)
’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے سے ہیں۔ (یعنی ایک ہی طرح کے ہیں) کہ برے کام کرنے کو کہتے اور نیک کاموں سے منع کرتے ہیں۔ اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی ان کو بھلا دیا بیشک منافق نافرمان ہیں۔‘‘
اللہ سبحانہ و تعالی نے عورت کو مطلق آزادی نہیں بخشی۔ بلکہ کچھ مخصوص اشیاء میں اسے آزادی دی ہے۔ جس کی شریعت کے اندر وضاحت موجود ہے۔ نیز مرد کو اس پر فوقیت و فضیلت عطا کی ہے۔ ارشاد ہے:
﴿وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ﴾ (البقره: 228)
’’مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔‘‘
ساتھ ہی مردوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھرایا ہے۔ کہ وہ شریعت کے حدود کے مطابق ان کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کریں، فرمایا:
﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (النساء:34)
’’مرد عورتوں پر حاکم و مسلط ہیں۔ اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے۔‘‘
مرد کا عورت کے مصالح کی رعایت کی ساتھ اس کی نگہداشت کرنا ایک قطعی فریضہ ہے جسے اسلام نے تمام مسلمانوں پر مقرر کیا ہے۔ اب عورت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ اس حکم المی اور وصیت ربانی سے نکل کر اپنے آپ کو آزاد کر لے کیونکہ جس ذات نے یہ قانون وضع کیا ہے۔ وہ احکم الحاکمین اور عادل کامل ہے۔ اس نے مرد و عورت دونوں جنسوں کو پیدا کیا ہے۔ اور ہر ایک کی طبیعت کے مطابق اس کا مزاج بنایا ہے۔ اور وہی یہ بھی جانتا ہے۔ کہ ہر دو جنسوں کے لئے کون سی چیز زیادہ مناسب اور بہتر ہے۔
لہذا مرد عورتوں کے ’’قوام‘‘ ہیں۔ لفظ ’’قوام‘‘ کا اطلاق جتنے امور سے بھی متعلق ہو گا ہر معاملہ میں مرد عورتوں کی محافظت و نگرانی کریں گے چنانچہ وہی عورتوں کے نان و نفقہ لباس و پوشاک اور رہائش گاہ کے ذمہ دار ہوں گے وہی ان کی اسلامی تادیب و تربیت کرنے کے مکلف ہوں گے اور وہی اس بات کے بھی پابند ہوں گے کہ بے کار آوارہ گرد، بد اخلاق اور معاشرہ کے گرے ہوئے لوگوں سے عورتوں کی حفاظت و نگہداشت کریں۔
یہ ایک عجیب بات ہے۔ کہ آزادی اور ترقی کے نام پر کچھ لوگ کھل کر عورتوں کو مطلق آزادی بخشنے کی بات کرتے ہیں۔ اور بزعم خویش وہ اپنے آپ کو عورتوں کی صف میں لاکھڑا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ درحقیقت عورتوں کے دشمن ہیں۔ جو اس بات کی کوشش میں ہیں۔ کہ عورت بھی اجتماعات و محافل میں جائے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے اور ان کے ساتھ اٹھے بیٹھے۔ واقعہ یہ ہے۔ کہ ان لوگوں نے اس دعوت کے ذریعہ اول خود عورتوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا بلکہ ان کے بدخواہ ہیں۔ ثانیا معاشرے کے حق میں بھی یہ کچھ اچھا نہیں ہو گا مزید برآں انہوں نے اپنے دین کے ساتھ بھی بہت برا کیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک تعلیمات و ہدایات کی بھی پرواہ نہ کی آپ کا ارشاد ہے:
(لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم) [صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم (1341) و صحیح بخاری: کتاب النکاح باب لا يخلون رجل بامرأة (5233)]
’’کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ ہو مگر اس حال میں کہ اس عورت کا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو۔‘‘
قرآن کریم نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کو ادب سکھاتے ہوئے اور انہیں صلاح و عفت اور تقویٰ کے امور کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ ﴾ (الاحزاب:32)
’’اے پیغمبر کی بیویو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگار رہو لہٰذا (کسی اجنبی شخص سے) نرم باتیں نہ کرو کہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے۔ کوئی امید لگا بیٹھے۔‘‘
اس آیت کریمہ کے اندر جس بات کی رہنمائی کی گئی ہے۔ وہ امہات المومنین کے لئے بھی ہے۔ اور امت مسلمہ کی تمام عورتوں کے لئے بھی۔ اب جو لوگ مردو عورت کے اختلاط کو اچھا سمجھتے اور اس کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے سلسلہ میں اس بات کا خطرہ ہے۔ کہ کہیں ان کے دلوں میں اسی قسم کا کوئی مرض نہ ہو کیونکہ کسی کی عزت و آبرو پر داغ لگانے اور نوجوان دوشیزاؤں کو اپنے دام فریب میں لینے کی امید عورتوں سے اختلاط و مجالست اور ان کے ساتھ خلوت و تنہائی میں ہونے سے ہی پوری ہو سکتی ہے-
أعوذ بالله من الشيطن الرجيم: ﴿ اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ یُّخْرِجَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ۝۲۹ وَ لَوْ نَشَآءُ لَاَرَیْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ ؕ وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ۝۳۰ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِیْنَ مِنْكُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ ۙ وَ نَبْلُوَاۡ اَخْبَارَكُمْ۝۳۱﴾ (محمد:29 تا 31)
’’کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ یہ خیال کئے ہوئے ہیں۔ کہ اللہ ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا۔ اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور تم ان کو ان کے چہروں ہی سے پہچان لیتے اور تم انہیں ان کے انداز گفتگو ہی سے پہچان لوگے اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔ اور ہم تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ ان کو معلوم کریں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم۔
خطبه ثانیه
الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له. وأشهد أن محمداً عبده ورسوله. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ ہم اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس سے مدد مانگتے ہیں۔ اس سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور اپنے نفس کے شر اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور محمد – صلی اللہ علیہ و سلم. اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه أما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اس کی اطاعت کر کے اس کی نارا ضگی اور درد ناک عذاب سے بچو اور یہ جان لو کہ جو لوگ ’’آزادی‘‘ اور ’’تقدم و ترقی‘‘ کے نام پر اخلاقی آوارگی اور بے حیائی عام کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ یا تو حد درجہ سادہ لوح ہیں۔ یا ان کے دلوں کے اندر کوئی مرض پوشیدہ ہے۔ خواہ وہ مرض بہیمانہ خواہشات کا ہو یا نفاق کا۔ ایسے لوگ درحقیقت شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلامی دشمن افکار و نظریات کی خدمت کر رہے ہیں۔
اسلام تو وہ دین ہے۔ جو اخلاقی بے راہ روی اور دو اجنبی صنفوں کے باہم اختلاط سے روکتا اور کسی بھی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت و تنہائی کو حرام قرار دیتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے
(لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان) [جامع ترمذی: ابواب الرضاع، باب كراهية الدخول على المغيبات (1178) و ابواب الفتن، باب في الزوم الجماعة (2268) نیز دیکھئے: مسند احمد: 18/1 (114) و 22/1 (177)]
’’کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے یعنی شیطان ان کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
نیز آپﷺ نے فرمایا:
(لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر إلا مع ذي محرم) [صحیح مسلم میں یہ حدیث تقریبا ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔ دیکھئے کتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم (1338، 1339، 1340) نیز دیکھئے: صحیح بخاری: کتاب تقصير الصلاة، باب في كم يقصر الصلاة (1086، 1087، 1088)]
’’کسی عورت کے لئے جو کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ محرم کے بغیر سفر کرے۔‘‘
ایک عورت خواہ کتنی بھی دیندار، باعزیمت، صاف دل اور پاکدامن ہو لیکن عفت و پاکدامنی میں امہات المومنین کے درجہ کو ہرگز نہیں پہنچ سکتی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب نیز ازواج مطہرات کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ ؕ﴾ (الاحزاب: 53)
’’جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو یہ تمہارے اور ان دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔‘‘
اس آیت کے اندر جو تعلیم دی گئی ہے۔ وہ ان کے لئے بھی ہے۔ اور ان کے علاوہ قیامت تک آنے والی نسل کے لئے بھی لیکن مخاطب وہی لوگ ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے اور ان کے احکام بجالاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔