مرنے والے زندہ لوگوں کی بات نہیں سن سکتے اور جن روایات میں مردوں کے سننے کا ذکر ہے تو وہ مخصوص حالات و واقعات میں ہے ان پر قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا تعلق غیب سے ہے
466۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دن تک بدر کے مقتولین کو پڑا رہنے دیا، پھر آپ ﷺ ان کی لاشوں کے پاس آئے اور کھڑے کھڑے ان کے نام لے کر انھیں آواز دی:
((يَا أَبَا جَهْلِ بَنَ هِشَامٍ!. يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا))
’’اے ابو جہل بن ہشام! اے امیہ بن خلف! اے عتبہ بن ربیعہ! اسے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے وہ وعدہ سچا نہیں پایا جو تمھارے رب نے تم سے کیا تھا؟ میں نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ہے جو اس نے میرے ساتھ کیا تھا۔“
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبیﷺ کا یہ ارشاد سنا تو عرض کی:
اللہ کے رسول! یہ لوگ کیسے سنیں گے اور کسی طرح جواب دیں گے جبکہ یہ تو لاشیں بن چکے ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَلٰكِنَّهُمْ لَا يَقْدِرُونَ أَنْ يُّجِيبُوا))
(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2874)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو بات میں ان سے کہہ رہا ہوں، تمھاری نسبت یہ اسے زیادہ سننے والے ہیں لیکن یہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ “
پھر آپ ﷺنے ان کے بارے میں حکم دیا تو انھیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔
467۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس اس بات کا ذکر کیا گیا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما رسول الله ﷺسے یہ بیان کرتے ہیں:
((إِنَّ الْمَيْتَ يُعَذِّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 1288، 3978، ومُسْلِم:932)
’’قبر میں میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھول گئے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے تو یہ فرمایا تھا:
((إِنَّهُ لَيُعَذِّبُ بِخَطِيئَتِهِ أَوْ بِذَنْبِهِ، وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ الْآنَ))
’’بے شک اس میت کو اس کی غلطیوں اور گناہوں کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے جبکہ اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔‘‘
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ بھول اس روایت کے مانند ہے کہ رسول اللہ ﷺ بدر کے دن اس کنویں (کے کنارے) پر کھڑے ہوئے جس میں بدر میں قتل ہونے والے مشرکوں کی لاشیں تھیں تو آپ نے ان سے جو کہنا تھا، کہا اور فرمایا: ((إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ)) ’’جو میں ان سے کہہ رہا ہوں وہ اسے بخوبی سن رہے ہیں۔ ‘‘
حالانکہ وہ یہ بات بھی بھول گئے ہیں، آپﷺ نے تو فرمایا تھا:
((إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ))
’’یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ میں ان سے (دنیا میں) جو کہا کرتا تھا وہ حق تھا۔ ‘‘
پھر سیدہ عائشہ نے یہ آیتیں پڑھیں: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى﴾ (النمل80:27)
’’بے شک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ ‘‘
﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ (فاطر22:35)
’’اور جو قبروں میں ہیں تو انھیں سنانے والا نہیں۔ ‘‘
(گویا) آپ یہ کہہ رہے ہیں: جبکہ وہ آگ میں اپنے ٹھکانے بنا چکے ہیں۔
468۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلّٰى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيِّ: 1338، 1374، ومسلم:2870)
’’آدمی کو جب قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے اور دفن کرنے والے واپس لوٹتے ہیں، وہ تو ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے۔ ‘‘
469۔ سیدنا عامر بن سعد اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا:
((حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ)) (أَخْرَجَهُ الطبراني في الكبير: 326، والبزار في مسنده: 1089، وابن السني في عمل اليوم والليلة: 595، والبيهقي في دلائل النبوة:191، 192/1 وأخرجه ابن ماجه: 1573 من حديث عبد الله بن عمر)
” جب بھی تم کسی کافر کی قبر کے پاس سے گزرو تو اسے آگ کی خوش خبری دو۔ ‘‘
توضیح و فوائد: مرنے کے بعد کے حالات و معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺنے جو کچھ اور جس قدر بتایا ہے اس پر ایمان لانا فرض ہے۔ ان کی تاویلات کرنا اور دنیاوی معاملات پر قیاس کرنا ناجائز ہے۔ قانون الہی یہی ہے کہ جو لوگ فوت ہو گئے، وہ دنیا والوں کی بات نہیں سنتے۔ یہ بات قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے بتا دی گئی ہے، تاہم اگر اللہ تعالی کسی کو سنانا چاہے تو وہ قادر مطلق ہے جیسا کہ بدر میں مارے جانے والے مشرکین کو سنوا دیا گیا یا جب قبر میں مردے کو دفنا دیا جاتا ہے تو وہ واپس جانے والوں کے قدموں کی آہٹ سنتا ہے۔