مرثیہ خوانی کی حیثیت

895۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اَللّٰهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلَا تَرْدَّهُمْ عَلٰى أَعْقَابِهِمْ، لٰكِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْن خَوْلَةً)) (أخرجه البخاري: 56، 1295، 3936، 5668، 6373، ومسلم:1628)

’’اے اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت کو کامل کر دے اور انھیں ایڑیوں کے بل نہ لوٹا (یعنی انھیں مکہ اور میں موت نہ آئے) لیکن بے چارے سعد بن خولہ!‘‘

 رسول اللہ ﷺ ان کے لیے اظہار رنج و غم کرتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں انتقال کر گئے۔

896۔ سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک عورت کو مرثیہ پڑھتے سنا تو فرمایا:

((إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَنْهٰى عَنِ الْمَرَاثِي)) (أخرجه أحمد:19141، 19417، وابن ماجه: 1592، وإسناده ضعيف، فإسماعيل بن عياش الحمصي مخلط في روايته عن غير أهل بلده، وهذه منها.))

’’بے شک رسول اللہ علیہ مرثیہ خوانی سے منع کرتے تھے۔‘‘

توضیح و فوائد: مرثیہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے مرنے کے بعد نظم یا نثر کی صورت میں کسی کی خوبیاں بیان کی جائیں اور اس پر رویا جائے۔ اسے قصیدہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ اگر خوبیاں بیان کرنے سے مسلمانوں کو فائدہ ہو کہ وہ اچھے اعمال میں مرنے والے کی اقتدا کریں گے یا اس طرح دعوت دین کی ترغیب پیدا ہو گی تو ایسا کرنا جائز ہے لیکن اگر اس کا مقصد مصیبت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور نوحہ کرنے کیدعوت دینا ہو، کہ اس کے عزیز و اقارب روئیں اور چلائیں تو پھر یہ عمل ناجائز ہے۔a