مصائب و مشکلات کے اسباب
﴿وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ۳۰﴾ (الشورى:30)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں مسائل شروع سے ہیں اور قیامت تک رہیں گے، البتہ حالات کے ساتھ ساتھ ان کی شکلیں بدلتی رہی ہیں اور بدلتی رہیں گی، ان مسائل میں سے ایک مسئلہ کہ جس کا سامنا ہر دور میں لوگوں کو کرنا پڑتا رہا ہے اور آج اس دور میں بھی کرنا پڑ رہا ہے، دہشت گردی ہے۔
دہشت گردی کیا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اس کے ذمہ داران کون ہیں؟ اور اس کا حل کیا ہے؟
دہشت گردی کا لفظی مطلب ہے، کسی کو خوف زدہ کرنا اور اصطلاح میں اس کا مفہوم ہے، کسی فرد، جماعت یا کسی ملک کی طرف سے لوگوں کو جان و مال پر منظم قلم اور زیادتی ، جو ڈرانے دھمکانے کی صورت میں، اتلاف املاک کی صورت میں یا ایذا رسانی کی صورت میں ہو، اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے، اپنے مطالبات منوانے کے لیے، یا اصلاح معاشرہ کے لیے طاقت کا استعمال ہو۔
قرآن پاک میں ایسے جرائم کو فساد کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرعون کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىِٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۴﴾ (القصص:4)
’’یقینًا فرعون نے زمین میں سرکشی کررکھی تھی ، اور وہاں کے لوگوں کو گروہ در گردہ تقسیم کر رکھا تھا ، اور ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کر رکھا تھا ، ان کے لڑکوں کو قتل کرتا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا بے شک وہ تھا ہی مفسدوں میں سے ۔‘‘
اور اسی طرح دیگر آیات میں بھی ہے۔ اور فساد فی الارض کی سزا قتل قرار دی گئی ہے۔
﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ﴾(المائده:33)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں، ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا جلا وطن کر دیئے جائیں، یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہےاور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔‘‘
یہ تو تھا اسلام کا موقف دہشت گردی کے حوالے سے، جس کا مطلب ہے کہ کوئی سچا مسلمان دہشت گرد نہیں ہو سکتا، جبکہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کو دہشت گردی، شدت پسندی اور افراتفری جیسے مسائل کا سامنا ہے، ہر طرف فتنہ و فساد بر پا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں آخر اس شدت پسندی کا رجحان کہاں سے آیا ؟ اس کے اسباب اور محرکات کیا ہیں؟
یوں تو شدت پسندی اور دہشت گردی صرف عالم اسلام کا مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، مگر ہم اس وقت صرف مسلمانوں کے حوالے سے جانا چاہیں گے کہ وہ لوگ جو نہ صرف امن و سلامتی کا عقیدہ و نظریہ رکھتے ہیں، بلکہ امن وسلامتی کے پیامبر بھی ہیں وہ کیونکر دہشت گردی سے متاثر ہوئے اور اس کی لپیٹ میں آئے۔
تو اس کے تفصیلی اسباب کا اگر جائزہ لیں تو وہ بہت زیادہ ہیں اس میں نفسیاتی اسباب بھی ہیں، سیاسی اسباب بھی ہیں، مذہبی اسباب بھی ہیں ، فکری اسباب بھی ہیں، معاشی اسباب بھی ہیں اور معاشرتی اسباب بھی ہیں، رد عمل کے اسباب بھی ہیں۔
مثلا: سب سے پہلا سبب ان افکار و نظریات کا اور اس شدت پسندی کے رجحانات کا جو ہو سکتا ہے تو وہ گھر سے شروع ہوتا ہے یعنی گھر میں مناسب اسلامی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
مناسب اسلامی تربیت نہ ہونے کا مطلب ہے کہ قرآن پاک پڑھنا تو سکھا دیا جائے. نماز روزہ بھی سکھا دیا جائے مگر اخلاقیات نہ سکھائی جائیں یعنی بڑوں کا احترام کرنا، چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا، پڑوسیوں کے حقوق ، راہ گیروں کے حقوق ، خوش اخلاقی پر صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہر ہ کرنا وغیرہ۔
بظاہر یہ باتیں غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں، آدمی سوچتا ہے کہ بچہ جب بڑا ہوگا تو خود ہی سیکھ جائے گا اگر بچے کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کہ وہ سوسائٹی سے اٹھنے بیٹھنے کے آداب سیکھے، رہنے سہنے کے سلیقے سیکھے، بہت بڑی نادانی، زیادتی تعلیم اور حق تلفی ہے، بالخصوص ایک ایسے معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑنا جو مسلمان تو ہو مگر اسلامی نہ ہو ، یعنی ایک ایسا معاشرہ کہ جہاں مسلمان تو رہتے ہوں مگر اسلام نہ ہو ، سکول و کالج غیر اسلامی ہوں ، میڈ یا غیر اسلامی ہو، رسم و رواج غیر اسلامی ہوں ، ایسے میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بچہ اس معاشرے سے کیا سیکھے گا ؟ وہ بہت کچھ لکھے گا مگر اسلام نہیں لکھے گا۔
اسی طرح دہشت گردی کو معاشی حالات کے تناظر میں دیکھیں تو وہ اک بہت بڑا فیکٹر ہو سکتا ہے۔ معاشی ابتری اور بے روزگاری معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں بالخصوص جب ایمان کمزور ہو، تو وہ انسان کو خود کشی کی طرف بھی مائل کر سکتے ہیں اور دہشت گردی کی طرف بھی لگا سکتے ہیں۔
اسی طرح دہشت گردی کا ایک بہت بڑا سبب میڈیا بھی ہے، وہ کس طرح دہشت گردی کا سبب ہے اس کی اک تفصیل ہے جو وقت کی متقاضی ہے۔ سیاست کے حوالے سے دہشت گردی کو دیکھیں تو آج کل کے سیاسی حالات میں سب سے زیادہ دہشت گردی، سیاسی پنڈت ہی سکھاتے ہیں، دہشت گردی کی تعریف کو ایک بار پھر پڑھ لیں کسی کو خوف زدہ کرنا، ڈرانا دھمکانا، املاک کو نقصان پہنچانا، اپنی مرضی اور سوچ اور فکر کو زبردستی منوانے کی کوشش کرنا، اپنے مطالبات اور حقوق طاقت کے زور پر حاصل کرنے کی کوشش کرتا، اصلاحات کو ڈنڈے کے زور پر نافذ کروانے کی کوشش کرنا، طاقت کے زور پر لوگوں کے کاروبار بند کروانا، ٹائروں کو آگ لگا کر جانے آنے والوں کے راستے بند کرنا، پہیہ جام کرنا ، ملک بند کرنا۔
یہ سب کیا ہیں؟ شاید کچھ لوگ اسے جمہوری حق کہتے ہوں مگر دہشت گردی کی تعریف کی روشنی میں اور اسلام کے نقطہ نظر سے یہ سراسر دہشت گردی ہے۔ اور اگر لوگوں کے ذاتی مقاصد کے لیے دہشت گردی جائز ہوئی تو پھر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے، اللہ تعالی کے دین کو غالب کرنے کے لیے دہشت گردی بالا ولی جائز ہوتی ، کہ اس میں تو اپنا کوئی ذاتی مقصد ہی نہیں ہوتا ، اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، مگر اسلام نہ اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ اس ترغیب دیتا ہے ۔ اسی طرح دہشت گردی پیدا کرنے میں ایک بہت بڑا ہاتھ حکومتوں کا بھی ہوتا ہے اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، رعایا کے ساتھ ظلم و زیادتی ، نا انصافی ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، روزگار مہیا نہ کرنا وغیرہ ۔ اس سے مایوسی اور دہشت گردی جنم لیتی ہے اور ظاہر ہے کہ ظلم و زیادتی ہو تو اس کا رد عمل بھی ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت میں عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ان کے متعلق ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ شاہ روم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اپنا سفیر بھیجا، وہ جب مدینہ منورہ پہنچا تو پوچھا کہ تمہارے بادشاہ کا کل کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارا بادشاہ نہیں بلکہ امیر المؤمنین ہے۔
پھر وہ لوگ اسے لے کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر پر گئے، وہ وفد دیکھ کر حیران ہو گیا اور یقین نہ آیا کہ کسی ملک کے حکمران کا ایسا گھر ہو سکتا ہے؟ مٹی کا بنا ہوا اور وہ بھی ٹوٹا پھوٹا ، پوچھا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہاں ہیں، بتایا گیا کہ وہ کھجوروں کے باغ میں ہوں گے، دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک درخت کے سائے میں سو رہے ہیں، کوئی باڈی گارڈ اور سیکورٹی بھی نہ تھی، وہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا زمین پر سونا اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے دیکھ کر اور بھی حیران ہوئے کہ یہ وہ شخص ہے کہ جس سے دنیا کے بادشاہ لرزتے ہیں ۔ بالآخر وہ اس حقیقت تک پہنچے کہ یہ سب کچھ عدل و انصاف کی وجہ سے ہے، چنانچہ اس نے کہ: ((فَعَدَلْتَ فَأَمِنْتَ قَنِمْتَ یَا عُمَرُ)) (رسل الملوك ومن يصلح للرسالة والسفارة لأبي يعلى الفراء ، ص:84)
’’ اے عمر !تم نے فیصلے کیے تو عدل و انصاف قائم کیا، جس کے نتیجے میں امن قائم ہوا، لہذا آج تم بے فکر سور ہے ہو ۔‘‘
تو حکومتیں جب عدل و انصاف قائم نہیں کرتیں تو بدامنی، شدت پسندی اور دہشت گردی وجود میں آتی ہے، اسی طرح دہشت گردی کے اور بہت زیادہ اسباب ہیں، مگر ہم جو دیکھتے اور سنتے ہیں وہ یہ کہ دہشت گردی کو صرف ایک ہی چیز سے جوڑا جاتا ہے اور وہ ہے مذہبی دہشت گردی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی دہشت گردی بھی موجود ہے، مگر اس کے بھی متعدد اسباب ہیں، اس کی تفصیل کے لیے بھی اک وقت درکار ہے، مگر ان تمام اسباب کے ساتھ ساتھ، بلکہ ان تمام اسباب میں سب سے بڑا سبب کہ جس کو کوئی دانشور، کوئی تجزیہ نگار اپنے تجزیوں اور تبصروں میں ذکر نہیں کرتا، وہ قانون قدرت ہے، اللہ تعالی کا اٹل فیصلہ ہے کہ:
﴿وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ۳۰﴾ (الشورى:30)
’’تم پر جو بھی مصیبت آئی ہے تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور بہت سے قصوروں سے تو وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (الروم:41)
’’’بر و بحر میں جو بھی فتنہ و فساد برپا ہے، وہ لوگوں کی بداعمالیوں کے سبب ہے تا کہ اللہ تعالی انہیں ان کی بعض بد اعمالیوں کا مزا چکھا ئیں تاکہ وہ لوٹ آئیں ۔‘‘
اب اسلامی ممالک کے حکمران کسی حادثے کے بعد جب سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اسباب کا جائزہ لینے کے لیے، تو کیا اس جائزے میں کہیں اللہ تعالی کے بتائے ہوئے دہشت گردی کے سبب کو بھی ڈسکس کیا جاتا ہے؟ بالکل نہیں۔
تو خود ہی بتلائیے کہ جب بیماری کی صیح تشخیص ہی نہیں ہوگی تو علاج کیسے ممکن ہوگا۔ امن کمیٹیاں بنانے سے کیا امن قائم ہو جائے گا! یہ محض اپنے آپ کو دھوکہ ہے اور قوم کو بھی دھوکہ ہے۔ یہ مسائل، یہ ذلت و رسوائی، یہ بدامنی، یہ دہشت گردی، یہ شدت پسندی اگر ہمارے حکمران واقعی ختم کرنا چاہتے ہیں تو قرآن وحدیث میں اس کا علاج موجود ہے۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا))
’’قریب ہے کہ قو میں تم پر چڑھ دوڑنے کے لیے ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں جیسا کہ کھانے والے دوسروں کو کھانے کی پلیٹ (دستر خوان) پر کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘
((قَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟))
’’کسی کہنے والے نے کہا: کیا اُس روز ہماری عددی قلت کی وجہ سے ایسا ہوگا ؟‘‘
((قَالَ: بَلْ أَنتُمْ يَومَئِذٍ كَثِیرٌ))
’’فرمایا بلکہ اس وقت تم لوگ کثیر تعداد میں ہو گے‘‘
((وَلٰكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ))
’’مگر تم سمندر کی جھاگ اور خس و خاشاک کی طرح ہو گے ۔‘‘
((وَلَيَنْزَ عَنَّ اللهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ))
’’اور اللہ تعالی تمھارے دشمنوں کے سینوں سے تمھارا رعب و دبدبہ چھین لے گا‘‘
((وَلَيَقْذِفَنَّ اللهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ))
’’اور اللہ تعالی تمھارے دلوں میں وطن ڈال دے گا ۔‘‘
((فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الْوَهَنُ؟))
’’کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول ! و ھن کیا ہے؟‘‘
((قَالَ حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ)) (ابو داود ، كتاب الملاهم:4297)
’’فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کی کراہت‘‘
اور حدیث میں ہے، فرمایا:
((إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِيْنَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلطَ اللهُ عَلَيْكُمْ ذُلَّا ، لَا يَنزِعُهُ حَتَّى ترْجِعُوا إِلٰى دِينِكُمْ)) (ابوداود ، كتاب الاجارة:3462)
’’جب بیع عینہ کرنے لگو گے ، گائیوں بیلوں کی دُمیں تھام لو گے کھیتی باڑی میں مگن رہنے لگو گے ، اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالی تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو تم سے اس وقت تک ہٹائی نہیں جائے گی جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔‘‘
لہٰذا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اسباب کے تحت جو جو اقدامات کیے جائیں وہ ٹھیک ہیں کرنے چاہیں، مگر جو اقدامات اُٹھانا اس سے بھی ضروری ہیں، انہیں نظر انداز کر کے اگر یہ سمجھیں کہ امن قائم ہو جائے گا تو یہ ہرگز ممکن نہیں ہے، ہاں ایک درجہ فرق ضرور پڑ سکتا ہے، مگر کلی طور پر امن قائم ہو، یہ ممکن نہیں ہے، اس کے لیے صرف وہی حل ہے جو اسلام نے بیان کیا ہے۔
دوسری طرف یہ حقائق بھی نظروں میں رہنے چاہیں کہ دنیا میں حضرت عیسی علیاء کے آنے تک مکمل طور پر امن قائم نہیں ہو سکتا، اور ان کے تشریف لے جانے کے بعد بھی رفتہ رفتہ پھر وہی صورت حال ہو جائے گی تو قرب قیامت کا دور فتنوں کا دور ہے اور ان فتنوں سے صرف اسلام کی تعلیمات پر چل کر ہی بچا جا سکتا ہے، اور قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت قتل و خونریزی بھی ہے، اور قتل و خونریزی کے بارے میں حدیث میں آتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((وَ إِنَّمَا أَخَافُ عَلٰى أُمَّتِي الأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ))
’’مجھے اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے حکمرانوں کا ڈر ہے کہ وہ میری امت کو گمراہ کردیں گے۔‘‘
((وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفَ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعُ عَنْهَا إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)) (ابو داود، كتاب الفتن:4253)
’’اور میری امت میں جب ایک دفعہ تلوار نکل آئی تو قیامت تک میان میں نہیں جائے گی۔‘‘
اور اس مفہوم کی ایک اور حدیث بھی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنِّي سَأَلْتُ اللهَ فِيهَا ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثنتين ومَنَعَنِي وَاحِدَةً))
’’میں نے اس میں تین دعائیں مانگی ہیں ، ان میں سے اللہ تعالی نے دو مجھے عطا کردی (قبول کر لی) ہیں اور ایک سے روک دیا ہے، یعنی قبول نہیں فرمائی ۔‘‘
((سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيهَا))
’’میں نے دعا مانگی کہ میری امت کو قحط سالی سے بلاک نہ کرے۔ تو اللہ تعالی نے مجھے یہ عنایت فرمادی۔‘‘
((وَسَأَلَتْهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا))
’’اور ایک دعا یہ مانگی کہ ان پر غیروں میں سے کسی دشمن کو مسلط نہ کرے ، پس اللہ تعالی نے یہ بھی مجھے عطا فرمادی ۔‘‘
((وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فَمَنَعَنِيهَا)) (ترمذي ، كتاب الفتن:2175)
’’ اور میں نے یہ بھی اس سے مانگا کہ انھیں آپس میں ایک دوسرے کو لڑائی کا مزہ نہ چکھائے، یعنی وہ باہم دست و گریبان نہ ہوں تو اللہ تعالی نے مجھے اس سے روک دیا، یعنی یہ دعا قبول نہ فرمائی ۔‘‘
اب آپ سوچتے ہوں گے کہ پھر کیا کیا جائے کہ جب آپ ﷺ کی پیشن گوئی ہے کہ قتل و خونریزی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے تو پھر اس سے کسی طرح بچا جائے ، بالکل اسی طرح جس طرح آپﷺ نے بتلایا ہے یعنی فتنوں سے دور رہ کر۔
1۔ اپنے ایمان کو بچانے کے لیے جنگلوں میں چلے جاؤ اگر ضرورت پڑے تو ۔
2۔ اپنے کھیتوں اور بھیڑ بکریوں کے پاس رہ کر زندگی گزار دو۔
3۔ اپنی تلواروں کو پتھر سے کند کردو کہ ان کی دھار اور کاٹ ختم ہو جائے۔
4۔ قتل ہونا منظور کر لو قتل کرنے والے نہ بنو۔
5۔ اور ظلم و زیادتی پر صبر کرو۔
خلاصہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور دیگر تمام مسائل کا حل صرف اور صرف قرآن و حدیث پر عمل کرنے میں ہی ہے۔ اور یہ قتل و خونریزی قرب قیامت کی علامات میں سے ایک ہے ورنہ اس سے بھی کہیں خوفناک نشانیاں ہیں، جیسے زمین میں دھنسنے اور شکلیں مسخ ہونے کے واقعات بھی رونما ہوں گے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے
((عَنْ عَائِشَةَ رضی الله تعالي عنها قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَكُونُ فِي آخِرٍ الْأُمَّةِ خَسْفُ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس امت کے آخری عہد میں زمین میں دھنسائے جانے ، صورت مسخ ہونے اور آسمان سے پتھر برسائے جانے کے واقعات رونما ہوں گے۔‘‘
((قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم ہلاک کر دیے جائیں حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے ؟‘‘
((قَالَ نَعَمْ إِذَا ظَهَرَ الْخَبَثُ)) (ترمذي، كتاب الفتن:2185)
’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں جب فسق و فجور عام ہو جائے گا ۔‘‘
اسی طرح دیگر احادیث بھی ہیں جن میں ان آفات و حوادث کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ تاہم مختصر یہ کہ اس دنیا میں انسان کو جن بے شمار مسائل کا سامنا رہتا ہے ان کے کوئی نہ کوئی اسباب ضرور ہوتے ہیں ، اور عموماً ہر مسئلے کا کوئی الگ ہی سبب ہوتا ہے ، البتہ اگر ان تمام مسائل کا کوئی ایک ہی سبب بیان کرنا چاہیں تو وہ ہے:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾(الروم:41)
’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ۔‘‘
تو اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہوں تو ہمیں اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کرنا ہوگی ، اپنے اعمال درست کرنا ہوں گے ، اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کرنا ہوگی کہ یہی تمام مسائل کا حل ہے۔ اللہ تعالی ہماری لغزشوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور اصلاح احوال کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين