مسائل نکاح (حصہ اول)

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰی مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ ؕ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۳۲﴾ [النور: 32]
آج کل شادیوں بیاہوں کا سلسلہ عروج پر ہے۔ اس لیے مناسب سمجھا کہ نکاح کے حوالے سے چند ضروری گزارشات کی جائیں۔ یوں تو جس شخص کا نکاح قریب ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ نکاح سے متعلقہ مسائل قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم کرنے لیکن آج دو دو ماہ شادی کی شاپنگ اور خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے بلا ناغہ بازار کا چکر لگایا جاتا ہے لیکن نکاح کے مسائل سیکھنے کے لیے بالکل وقت نہیں نکالا جاتا۔ جس کے بہت سارے خطرناک نتائج معاشرے میں موجود ہیں۔
نکاح اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے اور انسان کو دوسری بہت ساری مخلوقات سے ممتاز کرنے والی چیز ہے اور معاشرے میں انسانوں کی تربیت کا انتہائی موثر ذریعہ ہے اس لیے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں نکاح کو نعمت ذریعہ سکون اورباعث محبت والفت قرار دیا ہے۔
اللہ رب العزت سورہ فرقان میں فرماتے ہیں:
﴿ وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا ؕ وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا﴾ [الفرقان: 54]
’’اللہ وہ ذات ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا پھر اسے نسب والا اور سرالی رشتوں والا کر دیا۔ بلا شبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر)) قادر ہے۔‘‘
اور سورہ روم میں ہے:
﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ۝۲۰
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ﴾ [الروم: 20-21]
’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے) پھیل رہے ہو۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی یقینًا غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘
اور سورۃ الاعراف میں فرمایا:
﴿ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا﴾ [ الاعراف: 189]
’’وہ اللہ تعالی ہی ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تا کہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرنے اور اس سے سکون پکڑے۔‘‘
معلوم ہوا نکاح دل کا سکون ہے اور باہمی محبت والفت کا ذریعہ ہے اور یہ تمام فوائد و منافع اظہر من الشمس ہیں، عمومًا د یکھنے میں آتا ہے شوہر پنجاب کا ہوتا ہے اور بیوی سندھ کی ہوتی ہے دونوں کے مابین نکاح سے قبل کوئی رشتہ اور ناطہ اور تعلق نہیں ہوتا، لیکن جب وہ دونوں رشتہ ازدواج میں مسلک ہوتے ہیں ان دونوں کے دل باہمی الفت و محبت سے معمور ہو جاتے ہیں انہیں ایک دوسرے سے انس ہو جاتا ہے وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہمدرد اور غم خوار بن جاتے ہیں یہ نکاح کی خیر و برکت ہے۔
اسی طرح نکاح کے فوائد میں ایک بہت بڑا فائدہ نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو جوانوں کی جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا: (يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَعْضُّ
لِلْبَصَرِ وَاحْصَنُ لِلْفَرْج) [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب قول النبي ﷺ من استطاع الباءة فليتزوج (5065) و مسلم (1400) و ابوداود (3046)]
’’اے نو جوانو! جو کوئی تم میں سے نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح ضرور کرنے پس نکاح نظر کو پست کر دیتا ہے اور شرمگاہ کو محفوظ کرتا ہے۔‘‘
لیکن نکاح کے تمام فوائد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نکاح قرآن و سنت کے مطابق ہو رفیق حیات کے انتخاب سے لے کر ازدواجی زندگی اور تربیت اولاد سب کچھ شریعت کے مطابق ہو۔ آج دین سے دوری کے نتیجے میں لوگوں نے ایک نعمت کو مصیبت اور پریشانی بنا لیا ہے۔ حالانکہ دین اسلام میں نکاح کو نعمت اور باعث سکون بنانے کے لیے ہر طرح کے چھوٹے بڑے احکام و مسائل بیان کیے گئے ہیں اور کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ان میں سے چند مسائل آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
انتخاب کیسا ہو؟
اسلام نے شوہر کے لیے بیوی اور بیوی کے لیے شوہر چننے اور منتخب کرنے کے لیے قواعد وضوابط مقرر کیے ہیں۔
شوہر کے لیے ہدایات:
بخاری و مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: (تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لأَرْبَعٍ لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفُرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ) [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب الإكتفاء في الدين (5090) ومسلم (1466) و احمد (428/2) والدارقطني (302/3)]
’’چار باتوں کی وجہ سے کسی عورت سے نکاح کی رغبت کی جاتی ہے؛ اس کے مالدار ہونے کی بناء پر اس کی خاندانی شرافت کے سبب اس کی خوبصورتی کے پیش نظر اور اس کی دین داری کی وجہ سے (نیز فرمایا اگر) تو دیندار کو نکاح میں لائے گا تو اللہ تجھے بھلائی عطاء کرے گا۔‘‘
اور مسلم شریف کی روایت ہے: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الدُّنْيَا كُلُّهَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ) [صحیح مسلم، كتاب الرضاع، باب خير متاع الدينا المرأة الصالحة (1467) و این ماجه (1855) والنسائي (3232)]
’’دنیا ساری کی ساری فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور دنیا کا بہترین سامان صالحہ بیوی ہے۔‘‘
لیکن آج صرف کسی شکل پہ نظر پڑ گئی اور وہ چہرہ دل میں اتر گیا اور ضد بنائی کہ بس اس سے نکاح کروں گا۔ حتی کہ اس غلط انتخاب پر لوگ جانیں دے رہے ہیں لڑ کے اور لڑکیاں گولیاں کھا کر مر رہے ہیں۔ خود کشی کر رہے ہیں۔ ہاں دین کو محوظ رکھ کر اس کے بعد اگر باقی چیزیں (حسن و جمال وغیرہ) ملحوظ رکھ لی جائیں۔ تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن سب سے پہلے دین کو دیکھا جائے۔ اسلام نے دین کے علاوہ بھی چند چیزوں کی ترغیب دی ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(تَزَوَّجُوا الْوَدُودُ الْوَلُودَ فَإِنِّى مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ)[سنن أبي داود، كتاب النكاح، باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء (2050) و احمد (158/3)]
محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو تاکہ میں دیگرامتوں پر تمہاری (کثرت کی وجہ سے فخر کر سکوں۔‘‘
اور یہ کیسے پتہ چلے گا کہ فلاں عورت خوب بچے جننے والی اور شوہر سے محبت کرنے والی ہے یہ اس کے خاندان کی عورتوں کے مزاج سے پتہ چلے گا۔ اس طرح یہ بھی بہتر ہے کہ کنوارا شخص کنواری اور پاکیزہ عورت سے نکاح کرے۔ بخاری و مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں ہم رسول اللہ ﷺ علم کی معیت میں تھے جب ہم واپسی مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ میرا ابھی نکاح ہوا ہے۔ آپﷺ نے مجھ سے دریافت کیا ’’نکاح ہو گیا ہے؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ آپﷺ نے دریافت کیا: ’’کنواری لڑکی سے یا بیوہ سے؟‘‘ میں نے عرض کیا جی! بیوہ سے۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’کنواری لڑکی سے کیوں نہ کیا؟ تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی‘‘[صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب شراء الدواب والحمير (2097) و مسلم (715) و ابوداود (3505)]
معلوم ہوا شریعت اسلامیہ میں جائز طریقے سے مردوزن کی دل لگی اور جی بہلانے پر کوئی پابندی نہیں، بلکہ ترغیب دی ہے کہ باکرہ عورت سے نکاح کر دو وہ تمہارا جی بہلائے تم اس کا دل لگاؤ۔
عورت کے لیے ہدایات:
عورت چونکہ کمزور ہے یہ اپنا نفع نقصان پہچاننے میں اکثر ناکام رہتی ہے اس لیے اسلام نے عورت کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ خود شوہر کا انتخاب کرے۔ بلکہ اس کے لیے ولی کی اجازت اور راہنمائی کو ضروری قرار دیا ہے اور عورت کے اس نکاح کو باطل اور حرام قرار دیا ہے جو ولی کی اجازت کے بغیر ہو جناب ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا:
(لَا نِكَاحَ إِلَّا بِولي) [سنن أبي داود، كتاب النكاح، باب في الولى (2085) والترمذی (1101) حدیث صحيح.]
’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو عورت اپنے ولی کی
اجازت کے بغیر نکاح کرے: (فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ. فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ. فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ) [سنن ابی داود، كتاب النكاح، باب في الولى (2083) والترمذی (1102) و ابن ماجه (1879) حدیث صحیح]
’’اس کا نکاح باطل ہے۔ اس کا نکاح باطل ہے۔ اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘
غور فرمائیے! عورت کے لیے ولی کی اجازت کس قدر اہم اور ضروری ہے کہ رسول ہدایت، ناطق وحی تین بار یہ بات دہرا رہے ہیں کہ ولی کے بغیر عورت کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا:
(البَغَايا اللاتي يَنْكِحْنَ انْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ) [جامع الترمذي، كتاب النكاح، باب ما جاء لا نكاح الا بينۃ (1103) والبيهقي (125/7) یہ روایت ضعیف ہے۔ ارواء الغلیل (1832)]
’’وہ عورتیں زانیہ ہیں جو ولی کے بغیر نکاح کراتی ہیں۔‘‘
لیکن ولی کو بھی آزاد نہیں چھوڑا کہ وہ عورت کی رضا معلوم کیے بغیر زبردستی نکاح کر دے۔
صحیح میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا: (لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ)
’’شوہر دیدہ عورت کا نکاح نہ کرایا جائے جب تک اس سے صریح زبانی اجازت نہ لے لی جائے۔‘‘
(وَ لَا تَنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ)
’’اور کنواری عورت کا نکاح نہ کرایا جائے جب تک اس سے اجازت طلب نہ کی جائے۔‘‘
صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے دریافت کیا:
(يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟)
’’اے اللہ کے رسول! اس سے اجازت حاصل کرنا کس طرح ہے؟۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’(اَنْ تَسْكُتَ) [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والطيب إلا برضاها (5136) و مسلم (1419) و ابوداود (2094) والترمذی (1109)]
’’اس کا خاموش رہنا اجازت ہے۔‘‘
اور ولی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زیر کفالت بچی کا نکاح کرنے کے لیے دیندار شوہر تلاش کرے۔ جو عورتوں کے حقوق جانتا پہچانتا ہو اور اخلاق و کردار میں اچھا ہو۔ آج اکثر والدین اس سلسلے میں خطرناک غلطیاں کرتے ہیں۔ عورت کی مرضی کو بالکل ملحوظ نہیں رکھتے اور اپنے رشتے اور تعلقات نبھاتے ہیں جی ہم نے تو اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرنا ہے خواہ وہ انتہائی بے دین اور بد اخلاق ہو۔ جی ہم نے تو اپنی بہن کو رشتہ دینا ہے خواہ بہن کا بیٹا خوب بد اخلاق اور بے دین ہو۔ بہر حال ولی اور عورت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ دونوں کی مشاورت ورضامندی ضروری ہے۔ نہ عورت خود مختار ہے اور نہ ولی آزاد ہے۔
لیکن آج دین اسلام کے اس سنہری اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے لڑکیاں اپنے آشناؤں کے ساتھ نکل جاتی ہیں اور عدالتی نکاح کروالیتی ہیں جسے لو میرج یا کورٹ میرج کا نام دیا جاتا ہے یہ نکاح بالکل ناجائز باطل اور حرام ہے اور اس نکاح کی بنیادی وجہ کیبل ڈش ٹی وی وی سی آر اور دیگر بے حیائی پھیلانے والے ذرائع ابلاغ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بے پردگی بھی اس کا سبب ہے۔
حق مہر:
انتخاب کے بعد مسائل نکاح میں سے ایک اہم مسئلہ حق مہر کا مسئلہ ہے۔ دین اسلام میں نکاح کے اخراجات میں صرف دوخرچے ہیں ان میں سے ایک حق مہر ہے۔ یہ عورت کا بہت بڑا حق ہے۔ اللہ رب العزت سورہ نساء میں فرماتے ہیں: ﴿وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً ؕ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓـًٔا مَّرِیْٓـًٔا۝۴﴾ [النساء: 4]
’’اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دوہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ میر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔‘‘
اور اس کی کم از کم کی اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کی علم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺمیں نے خود کو آپ ﷺکے لیے ہبہ کر دیا ہے۔ وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک صحابی اٹھا اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو آپﷺ میرا اس عورت سے نکاح کرا دیں۔ آپﷺ نے دریافت کیا: ’’تیرے پاس حق مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: میرے پاس تو صرف میری یہ چادر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تلاش کر! اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے تلاش کیا لیکن اسے کچھ نہ مل سکا اس پر رسول اللهﷺ نے دریافت کیا: ’’اچھا تجھے کچھ قرآن یاد ہے۔‘‘ اس نے کہا ہاں! مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اس کے ساتھ تیرا نکاح کر دیا۔ حق مہر قرآن پاک کی سورتیں ہیں اسے یاد کرا دے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب تزويج المعسر (5087) و مسلم (1925) والحميدي (128) والبيهقي (144/7)]
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میں نے جناب عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ نبیﷺ کی بیویوں کا حق مہر کتنا تھا؟ انہوں نے بیان کیا آپ کی بیویوں کا حق مہر بارہ اوقیہ اور ایک ’’نش‘‘ تھا۔ پھر انہوں نے پوچھا کیا تو جانتا ہے کہ ’’نش‘‘ کیا ہے؟ (ابو سلمہ میں اور کہتے ہیں) میں نے نفی میں جواب دیا (تو) انہوں نے بتایا ایک نش نصف اوقیہ کے برابر ہے اس طرح کل پانچ سو درہم ہوئے۔[صحیح مسلم، كتاب النكاح، باب الصداق و جواز كونه تعلیم قرآن و خاتم من جديد و غير ذلك من قليل وكثير (1426) و ابوداود (2105) و این ماجه (1886)]
لیکن آج حق مہر کے بارے میں بڑی خرابیاں ہیں: ایک طرف وہ لوگ ہیں جو رسموں رواجوں پر لاکھوں روپیہ پھینک دیتے ہیں لیکن حق مہر جو شریعت نے فرض کیا ہے اسے ادا کرتے وقت کنجوس بن جاتے ہیں۔ جب نکاح پڑھاتے وقت ان سے پوچھا جائے که حق مہر کتنا باندھنا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں جی شرعی حق مہر 500 لکھ دیں۔ پتہ نہیں یہ کونسی شریعت میں ہے۔ اتنی تھوڑی رقم تو بھانڈ میراثی لینے کو تیار نہیں جتنی رقم یہ سیٹھ چوہدری اور صنعت کار بیوی کو حق مہر میں دے رہا ہے۔ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو طاقت سے بھی زیادہ حق مہر لکھوا لیتے ہیں اور پہلے ہی نیت خراب ہے کہ دینا کس نے ہے؟ بس لوگوں کو سنانے کے لیے لکھوا دیا۔ بہر حال حق مہر بہت بڑا فریضہ ہے جو اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق ضرور ادا کرنا چاہیے۔
آج ناجائز خرچے (سلامیاں، نیوتا، موت وحیات پر لین دین وغیرہ) تو اپنی حیثیت اور طاقت سے بھی زیادہ کرتا ہے لیکن جب حق مہر کی باری آتی ہے تو ہاتھ تنگ ہو جاتا ہے بس انسان کا معاملہ ہی بڑا عجیب ہے جہاں اللہ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اللہ کا دیا ہوا مال وہاں خرچ نہیں کرتا لیکن جہاں شیطان نے خرچ کرنے پر ابھارا ہے وہاں اللہ کا دیا ہوا مال خرچ کرتا اور بر باد کرتا ہے۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

دعوت ولیمہ:
شادی کے ان اخراجات میں جو اسلام نے نافذ کیے ہیں ایک خرچہ دعوت ولیمہ ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے۔
صحیحین کی روایت ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ پر زرد رنگ کا نشان دیکھا دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا میں نے ایک عورت سے کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا حق مہر دے کر نکاح کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے مبارک ہو، ولیمہ کر، اگر چہ ایک بکری ہی ہو۔‘‘ اور شادی کی اصل دعوت یہی ہے جس میں شرکت بہت اہم ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْوَلِيمَةِ فَلْيَأْتِهَا) [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب حق إجابت الوليمة والدعوة (5173) ومسلم (1429) و ابوداود (3736) و ابن ماجه (1914)]
’’جب تم میں سے کسی شخص کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تو وہ دعوت ولیمہ میں ضرور شریک ہو۔‘‘
لیکن آج اس دعوت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی لوگ کہتے ہیں بارات پر بلایا نہیں ولیمے پہ کیوں جائیں حالانکہ نکاح کے حوالے سے یہ ایک ہی دعوت ہے جسے ولیمہ کہتے ہیں۔ اور اس کے چند آداب ہیں۔
1۔ اس میں صرف مالداروں کو ہی اکٹھا نہ کیا جائے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ يُدْعَى لَهَا الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الفُقَرَاءُ) [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب من ترك الدعوة فقد عصى الله و رسوله (5177) ومسلم (1432) و ابوداود (3742)]
’’سب سے برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالدار لوگوں کو دعوت طعام دی گئی ہو اور فقیروں کو چھوڑ دیا گیا ہو اور جس شخص نے دعوت کو قبول نہ کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔‘‘
2۔ اس میں غیر شرعی کام نہ ہوں:
دعوت ولیمہ میں شرکت کے لیے اس بات کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اس میں اللہ کی بغاوت اور نافرمانی والے کام نہ ہوں یعنی گانا بجانا، ڈھول ڈھمکا، مووی و تصویر کشی، کھڑے ہو کر کھانے کا اہتمام اور اسراف و فضول خرچی نہ ہو۔ صحیح البخاری میں ہے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے داماد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ الزهراء علی والا نے کھانے پر بلایا آپ تشریف لائے اور دروازے سے ہی پلٹ گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا شدید پریشان ہوئیں، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو پیچھے بھیجا کہ معلوم کریں ابا جان کیوں ناراض ہو کر پلٹ گئے ہیں؟ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جب دروازے پہ قدم رکھا تو میری نظر خوبصورت ریشمی پردے پر پڑی تو میں نے کہا: میرا دنیا کی سجاوٹوں سے کیا تعلق؟ میں اس لیے پلٹ آیا ہوں۔‘‘ جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: کیا حکم ہے؟ فرمایا: ’’وہ پردہ فلاں غریب کو دو وہ بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرے اور تم یہاں سادہ پردہ لٹکاؤ‘‘ جب یہ طے ہو گیا تب آپ گھر میں داخل ہوئے۔[سنن ابوداود، كتاب الأطعمة، باب اجابة الدعوة اذا حضرها مكروه (3755) و ابن ماجه (3360) و احمد (220/5) (222687)]
3۔ اگر دو دعوت دینے والے اکٹھے دعوت دیں؟
اگر دو دعوت دینے والے اکٹھے دعوت دیں تو جس کا دروازہ قریب ہے اس کی دعوت قبول کی جائے اور اگر ایک پہلے دعوت دے تو جس نے پہلے دعوت دی ہو اس کی دعوت قبول کی جائے سنن ابی داؤد میں ہے: رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ میں سے کسی شخص کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب دو دعوت دینے والے اکٹھے آ جائیں تو جس کا درواز ہ قریب ہو اس کی دعوت قبول کی جائے اور اگر ایک پہلے آجائے تو پہلے آنے والے کی دعوت قبول کی جائے۔[صحيح البخاري، كتاب الادب، باب حق الجوار في قرب الأبواب (6020) و احمد (175/6)]
4۔ دعوت ولیمہ طاقت کے مطابق ہو:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے کسی بیوی کا ولیمہ اس طرح کا نہیں کیا جس طرح کا زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا کیا۔ آپ ﷺ نے اس کے ولیمہ پر بکری ذبح کی۔[صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب الوليمة ولو بشاه (5168) و مسلم (1428)]

اور دوسری حدیث میں ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب زینب بنت جحش کے ساتھ نکاح کیا اسے لائے اور اس کا ولیمہ کیا تو حاضرین کو گوشت اور روٹی سے سیر کر دیا۔ [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب الوليمة ولو بشاه (5198) و ابن ماجه (1908) والنسائی (13281)]
تیسرا ولیمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو آزاد کر کے اس سے نکاح کیا اور اس کے آزاد کرنے کو اس کا حق مہر قرار دیا (تو) اس کے ولیمہ میں کھانا (کھجور پنیر اور گھی سے) تیار کروایا۔ [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب من جعل عتق الأمۃ صداقها (5086) ومسلم (1365) و ابن ماجه (1957)]

اور ایک حدیث میں ہے: حضرت صفیہ بنت شبیر رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں نبی ﷺ نے اپنی بعض بیویوں کا ولیمہ دو ’’مد‘‘ جو سے کیا۔[صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب من أولم بأقل من شاء (5172)]
جس کی موجودہ مقدار تقریبا 21 چھٹانک بنتی ہے۔ ان واقعات سے معلوم ہوا کہ دعوت ولیمہ استطاعت کے مطابق ہو۔
چند ممنوع نکاح:
حلاله:
آخر میں چند ممنوع نکاحوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
یہ وہ نکاح ہے جو مطلقہ ثلاثہ کو اس کے شوہر کے لیے حلال کرنے کی نیت سے کیا جاتا ہے یہ نکاح شریعت اسلامیہ میں ناجائز، حرام اور موجب لعنت ہے حدیث میں ہے:
(لَعَنَ رَسُولُ اللهِ الْمُحَلَّلَ وَ الْمُحَلَّلَ لَهُ) [سنن الدارمی (158/2) و جامع الترمذي، كتاب النكاح، باب ماجاء في المحلل والمحلل له (1120) و صحیح ترمذی (894) و احمد (448/1)]
’’رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے (دونوں) پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘
شغار (و ٹہ شٹہ):
یہ وہ نکاح ہے جس میں رشتہ دینے والا رشتہ لینے والے کو پابند کرتا ہے کہ وہ بھی اپنی بہن یا بیٹی کا رشتہ دے یہ نکاح بھی دین اسلام میں ناجائز اور حرام ہے صحیح البخاری میں حدیث ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلامِ) [صحیح مسلم، كتاب النكاح، باب تحريم نكاح الشغار بطلانه (1415)]
’’اسلام میں نکاح شغار (وٹہ سٹہ) کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
لیکن آج بہت سارے علاقوں میں مسلمان یہ نکاح بکثرت کر رہے ہیں۔
متعہ:
نکاح متعہ یہ ہے کہ آدمی کسی عورت سے محدود مدت کے لیے شادی کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر والے دن اس نکاح کی حرمت کا کھلا اعلان فرمایا جس طرح صحیح البخاری میں موجود ہے۔ [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب نهى رسول اللهﷺ عن نكاح المتعۃ أخيرا (5115) و مسلم (1407)]
لیکن آج اسلام کا دعوی کرنے والوں میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ نکاح کرتے بھی ہیں اور اسے کار ثواب بھی سمجھتے ہیں۔ کسی قدر المناک اور افسوسناک معاملہ ہے۔
حالت احرام میں نکاح:
حالت احرام میں نکاح کرنا شریعت اسلامیہ میں ناجائز اور حرام ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ وَلَا يُنْكِحُ) [صحيح مسلم، كتاب النكاح، باب تحريم نكاح المحرم و كراهة خطبته (1409) والترمذی (480)]
’’احرام والا نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کرائے۔‘‘
نکاح کے اوپر نکاح:
دین اسلام میں کسی کے نکاح کے اوپر نکاح کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔
حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کوئی شخص کسی کی منگنی کے اوپر منگنی نہ کرے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب لا يخطب على خطبة أخيہ حتى ينكح أو يدع (5144) والحميدي (1027)]
جب منگنی پر منگنی جائز نہیں تو نکاح پر نکاح کیسے جائز ہے اور یہ مسئلہ سورۃ النساء میں بھی مذکور ہے۔ اسی طرح عورت کا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا بھی ممنوع اور ناجائز ہے جس کی تفصیل خطبہ کی ابتداء میں گزر چکی ہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں قرآن وسنت کے مطابق نکاح کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ ممنوع اور حرام نگاھوں سے محفوظ فرمائے۔