مسائل زکوة

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۝۶۰﴾ (التوبة: 60)
’’صدقہ اور زکوۃ فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے اور عاملین (تحصیلداروں) کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو اسلام کی طرف مائل ہوں اور گردن یعنی غلام وقیدی آزاد کرانے میں اور قرض داروں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے فرض ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں صدقہ سے مراد زکوۃ ہے اور زکوۃ کے معنی پاکی صفائی نمو کے ہیں اور اسلامی محاورہ میں مال کا وہ خاص حصہ جو اللہ تعالی کے واسطے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق غریبوں مسکینوں اور ضرورت مندوں کو دیا جائے تو جو مال مقرر و نصاب میں سے سال گزر جانے کے بعد اللہ کے واسطے محتاجوں وغیرہ کو دیا جاتا ہے اس کو زکوۃ کہتے ہیں نماز کی طرح زکو بھی فرض ہے اور اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر ہے ان میں سے ایک زکوة بھی ہے۔ اللہ تعالی کے اس حق کے ادا کرنے سے وہ مال پاک وصاف اور قابل ترقی ہو جاتا ہے اور زکوۃ دینے والا بھی گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے اسی لیے اس کو زکوۃ کہتے ہیں۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرُضِ الزَّكوة إِلَّا لِيُطَيِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ)[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن ابی داود: 50/2 كتاب الزكاة باب في حقوق المال رقم الحديث: 1664۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ نے زکوۃ اس لیے فرض کی ہے تا کہ اس کے ادا کرنے سے تمہارا باقی مال پاک وصاف ہو جائے۔‘‘
قرآن مجید میں بیاسی جگہ زکوۃ نکالنے کا تاکیدی حکم آیا ہے اور اکثر جگہ نماز اور زکوۃ کا حکم ساتھ ساتھ آیا ہے:
﴿أقيمو الصلوة واتوا الزكوة﴾ (نماز پڑھو اور ز کوٰۃ دو۔)
جو شخص زکوۃ دے گا وہ اپنے اسلام کو پورا کرے گا۔
ز کوۃ نہ دینے سے بارش نہیں ہوتی اور لوگ قحط سالیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا ہے۔
(وَ لَمْ يَمْنَعُوا زَكوٰة أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنعُوا الْقَطَرَ مِنَ السَّمَاءِ وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوْا)[1]
’’زکوٰۃ روکنے سے (ادانہ کرنے سے) پانی آسمان سے روک دیا جاتا ہے اور اگر یہ جانور نہ ہوتے تو کبھی بھی بارش نہ ہوتی۔‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
[أُمِرْنَا بِإِقام الصلوة وایتَاءَ الزَّكَوةِ وَمَنْ لَمْ يُزَكِّ فَلَا صَلوةَ لَهُ)[2]
’’ہم کو نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے جو ز کوٰۃ دے اس کی نماز بھی نہ ہوگی۔‘‘
زکوۃ کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿فَإِنْ تَابُوْا وَأَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكَوةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ﴾ (التوبة:5)
’’اگر یہ لوگ توبہ کریں اور نماز پڑھنی شروع کر دیں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کو چھوڑ دو ورنہ ان سے لڑو۔‘‘
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ۝۳۴ یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳۵﴾ (التوبة: 34،35)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن ماجه: کتاب الفتن باب العقوبات رقم الحديث: 4019 و مستدرك: 4؍540۔
[2] طبراني كبير بحواله مجمع الزوائد: 3/ 65۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر دیجئے جس دن اس کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے ان کی پیشانیوں پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغ دیئے جائیں گے اور ان سے یہ کہا جائے گا کہ یہ وہی خزانہ ہے جس کو تم لوگوں نے اپنے لیے جمع کیا تھا اب تو اس خزانے کے عذاب کو چکھو۔‘‘
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں رسول اللہ کی تعظیم نے فرمایا جو شخص سونے چاندی کی زکوۃ نہ دے گا قیامت کے روز جس کی مقدار پچاس ہزار برس کے برابر ہوگی اس کے مال کی تختیاں بنائی جائیں گی اور دوزخ کی آگ میں گرم کر کے اس کی پیشانی کروٹیں اور پیٹھ داغی جائیں گی پچاس ہزار برس کے دن میں یہی عذاب ہوتا رہے گا یہاں تک کہ تمام بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے فیصلہ کے بعد یا جنت میں یا جہنم میں داخل ہوگا۔[1]
اگر اپنے جانوروں کی زکوۃ نہیں دی تو قیامت کے دن وہ جانور بہت موٹے تازے ہو کر اپنے مالکوں کو اپنے تیز سینگوں سے ماریں گے اور اسے روندتے کچلتے رہیں گے پچاس ہزار برس کے دن میں اسے یہی عذاب ہوتا رہے گا۔[2]
اور فرمایا وہی مال گنجا سانپ بن کر اپنے مالک کا پیچھا کرے گا اور یہ مالک اس سے بھاگے گا۔ یہاں تک کہ دو سانپ اس کو پکڑ کر اس کا ہاتھ چہائے گا اور اس کے حملے کا طوق بن جائے گا اور اس کی باچھیں چیرتا ہوا کہے گا (آنا مالُكَ انا كُنْزُکَ) ’’میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔ جس کو تو جمع کرتا تھا۔‘‘[3]
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا﴾ (التوبة : 103)
’’ان کے مالوں میں سے صدقہ زکوۃ لے کر ان کو پاک اور صاف اور قابل ترقی کر دو۔‘‘
زكوة كا نصاب
نصاب سے کم میں زکوۃ فرض نہیں ہوتی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ) الخ[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 188/1 كتاب الزكاة باب اثم مانع الزكاة رقم الحديث:1403۔
[2] صحیح مسلم: 1/ 318 رقم الحديث: 2290، كتاب الزكوة باب اثم مانع الزكوة۔
[3] صحیح بخاري: 1/ 188 كتاب الزكاة باب اثم مانع الزكاة رقم الحديث: 1403۔
[4] صحیح بخاري: 188/1 کتاب الزكاة باب ما ادى زكاته فليس بكنز، رقم الحديث: 1405۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’چاندگی کے پانچ اوقیہ یعنی دو سو درہم سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔‘‘
اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ واجب ہے اور نہ غلہ میں پانچ وسق سے کم میں صدقہ و عشر ہے۔ اس حدیث سے نصاب کی تعیین ثابت ہوتی ہے دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ نے وضاحت بیان فرمائی ہے۔
(إِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَم وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شيء في الذَّهَبِ حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا فَإِذَا كَانَتْ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ فَفِيْهَا نَصْفُ دِينَارٍ)[1]
’’جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ درہم زکوۃ کے دینے پڑیں گے اور سونے میں میں دینار سے کم میں زکوۃ نہیں ہے اور جب تمہارے پاس بیس دینار ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھاد دینار فرض ہے۔‘‘
ان حدیثوں سے نصاب کی تعیین معلوم ہوتی ہے چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے جو ساڑھے باون تولے کے برابر ہے۔ اور ساڑھے باون تولہ میں چالیسواں حصہ زکوۃ کا ایک تولہ چار ماشہ ہوا اور سونے کا ادنی نصاب میں دینار ہے ایک دینار ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے تو میں دینار ساڑھے سات تولے ہوئے اور ساڑھے سات تولہ میں چالیسویں حصہ سوا دو ماشہ زکٰوۃ دینا فرض ہے یا سوا دو ماشہ سونے کی قیمت دو جو اس وقت کے بھاؤ کے مطابق ہے اگر چاندی ساڑھے باون تولے سے کم ہو یا رقم اتنی چاندی کی قیمت سے کم ہو تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے اگر اپنی مرضی و خوشی سے دو تو اور بات ہے اسی طرح ہونے میں ساڑھے سات تولہ سے کم میں زکوۃ فرض نہیں ہے۔
چاندی سونے اور ہر قسم کے مال تجارت میں اور غلہ اور جانوروں میں زکوۃ فرض ہے جب کہ وہ پانچوں شرطیں پائی جائیں غلہ کا نصاب پانچ وسق ہے اور ایک وسق ساتھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع اسی تولے کے، انگریزی حساب سے دو سیر ساڑھے دس چھٹانک کا ہوتا ہے تو ایک وسق چالیس سیر کے من کے حساب سے تقریبًا چارمن کا ہوتا ہے اس حساب سے پانچ وسق کا وزن تقریبا بیس من ہوا۔
مال تجارت میں بھی زکوۃ فرض ہے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ﴾ (بقرة: 267)
’’اے ایمان والو تم اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن ابی داود: 11؍2 کتاب الزكاة باب في الركٰاة السائمة، رقم الحديث: 1568۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے مراد مال تجارت ہے اور مال تجارت کا نصاب دو سو درہم چاندی یا بیس مثقال سونے کی قیمت کے برابر ہے یعنی تجارتی مال کی قیمت نصاب کو پہنچے ہوئے سونے یا چاندی کے برابر ہو جائے تو اس کے حساب سے زکوۃ ادا کرو اگر دو سو درہم کے برابر ہے یعنی ساڑھے باون تولہ کے برابر ہے تو اس میں ایک تولہ 4 ماشہ چاندی یا اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے اور اگر سونے کا نصاب لگا میں تو ساڑھے سات تولہ میں سوا دو ماشہ ہے مغنی لابن قدامہ میں ہے۔
(تَجِبُ الزَّكٰوةُ فِي قِيمَةِ عُرُوضِ التِّرَجَارَةِ فِي قَوْلِ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ)[1]
’’تجارتی مال کی قیمتوں میں اکثر علماء کے قول کے مطابق زکوۃ فرض ہے۔‘‘
بکری یا بھیڑ کا نصاب چالیس بکریاں یا بھیڑیں کم از کم میں چالیس بکریوں میں سے ایک بکری زکوۃ میں دینا فرض ہے گائے میں کم از کم تھیں گائے ہوں تمیں گائے پر ایک سال کا بچھڑا یا بچھیا دینا فرض ہے اور اونٹوں میں کم از کم پانچ اونٹوں پر ایک بکری سال بھر میں دینا فرض ہے۔[2]
چاندی سونے کے زیوروں میں بھی زکوۃ فرض ہے جب کہ زکوۃ کی سب شرطیں پائی جائیں حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت مقدسہ میں ایک عورت حاضر ہوئی اس کے ساتھ اس کی لڑکی بھی تھی اس لڑکی کے دونوں ہاتھوں میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے آپﷺ نے اس عورت سے فرمایا:
(اتعطين زکوة هذا) ’’کیا کنگنوں کی زکوة تم دیتی ہو۔‘‘
اس عورت نے کہا نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالی آگ کے کنگن تمہیں پہنائے۔ اس نے کہا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: پھر اس کی زکوۃ ادا کرو۔ اس نے دونوں کنگنوں کو آپ کے سامنے رکھ دیا کہ حضرت لیجئے یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔[3]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
(كنتُ الْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَنْز هُوَ فَقَالَ مَا بَلَغَ أَنْ تردىزکوٰۃ فزکی فلیس بکنز)[4].
’’میں نے سونے کی بالی پہنی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ یہ کنز ہے فرمایا اگر یہ زکوۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس کی زکوۃ ادا کر دی جائے تو کنر نہیں ہے ورنہ کنر ہے (یعنی ناجائز اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] المغني لابن قدامه
[2] صحيح بخاري: كتاب الزكاة باب زكوة الغتم 1/ 195 رقم الحديث: 1454۔
[3] سنن ابي داود: 4/2 كتاب الزكاة باب الكنز ما هو و زكوة الحلي رقم الحديث: 1559۔
[4] ابی داود: 4؍2 کتاب الزكاة باب الكنز ما هو و زكوة الحلي رقم الحديث: 1560۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل عذاب خزانہ ہے۔‘‘
اگر چاندی کا زیور ہو تو چاندی کا نصاب پورا ہو جانے کے بعد زکوۃ دو اور اگر زیور سونے کا ہو تو سونے کا نصاب لگا کر سونے کے حساب سے یا اس کی قیمت میں سے زکوۃ دو۔
عشر کا بیان:
عشر کے معنی ہیں دسواں حصہ اور محاورہ میں زمین کی پیداوار میں سے دسواں حصہ زکوۃ میں دینے کو عشر کہتے ہیں اور اس کے لیے صرف ایک ہی شرط ہے وہ یہ کہ زمین کی پیداوار کم سے کم پانچ وسق ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(ليْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْ سقٍ صَدَقَةٌ)[1]
’’پانچ وسق سے کم میں صدقہ (عشر) نہیں ہے۔‘‘
ایک وصق آٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع دو سیر ساڑھے دس چھٹانک کا ہوتا ہے تو پانچ وسق کا وزن بیس من کا ہوا اگر صرف بارش سے غلہ کی پیداوار ہو تو عشر (دسواں حصہ) زکوۃ فرض ہے یعنی میں بیس میں دو من عشر ہے اور اگر کنویں کے پانی اور ہاتھوں وغیرہ سے پانی کھینچ کر زمین سیراب کی ہے تو نصف عشر (بیسواں حصہ ہے) بیس من میں سے صرف ایک من ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔
(فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُفِى بِالنَّضْحِ نِصْفُ العشر)[2]
’’جس کھیتی یا باغ کو آسمان یا چشمے کا پانی میراب کرے یا وہ زمین خود بخو د سیراب ہو تو اس میں سے دسواں حصہ لیا جائے گا اور جس میں کنویں کا پانی کھینچ کر دیا جائے تو بیسواں حصہ‘‘
یعنی جس کھیتی کی پیداوار برساتی پانی چشمے ندی نالے تالاب وغیرہ کے پانی سے ہو یا زمین کی تراوٹ سے پیداوار ہوئی ہو تو اس میں دسواں حصہ ہے۔ اور جس کی پیداوار کنویں کے پانی سے محنت یا رقم کے ذریعہ سے ہو اس میں بیسواں حصہ ہے جو گیہوں مٹر چنا دھان، ارہر، مسور، کھجور، منقی اور کشمش وغیرہ کا نصاب بھی یہی بیس من ہے اس سے کم میں عشر نہیں ہے۔ جب غلہ اور پیداوار میں یہ شرط پائی جائے گی تو عشر دینا فرض ہوگا اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَاتُو حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾ (کھیتی کا حق (زکوۃ) اس کے کاٹنے کے دن ادا کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري:1/ 188، کتاب الزكاة باب ما ادى زكاته فليس بكنر رقم الحديث: 1405۔
[2] صحیح بخاري: 201/1 کتاب الزكاة باب العشر فيما يسقى من ماء السماء و الماء الجاري رقم:1483۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور فرمایا:
﴿وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ﴾ (البقرة: 267)
’’ہماری زمین کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کیا کرو۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے عشر کی فرضیت ثابت ہوتی ہے عشر کے لیے عشری زمین ہونا ضروری نہیں خراجی اور عشری دونوں قسم کی پیداوار میں عشر فرض ہے جیسا کہ ان آیتوں اور حدیثوں کے عموم سے ثابت ہوتا ہے۔
مصارف زکوة
زکوۃ کے آٹھ مصارف ہیں جن کو زکوۃ دینے کا حکم ہے وہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں جن کا بیان آیت ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء الآية﴾ میں ہے جو شروع خطبہ میں تلاوت کی گئی ہے اس کا ترجمہ بھی وہاں بیان کیا جا چکا ہے اب قدرے تفصیل کے ساتھ بھی اس کا بیان سن لیجئے۔
1۔ زکوۃ محتاجوں کو دی جائے خواہ وہ سائل ہوں یا غیر سائل ہوں مگر ہوں وہ حاجت مند جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ احْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمْ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مَنِ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافًا﴾ (البقرة 273)
’’اس زکوۃ و خیرات کے وہ لوگ مستحق ہیں جو محتاج ہیں اور اللہ کے راستے میں اور دینی کاموں میں رکے ہوئے ہیں زمین میں چل پھر کر روزی نہیں کھا سکتے اور نہ لوگوں سے چمٹ کر سوال کرتے ہیں اور اس بے نیازی کو دیکھ کر ناواقف لوگ ان کو مالدار سمجھتے ہیں۔‘‘
حالانکہ وہ مالدار نہیں ہیں تو فقیر وہ ہوا جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو وہ حاجت مند اور محتاج ہی ہے۔
2۔ مسکین وہ ہے جس کے پاس تھوڑا مال ہو مگر گزران کے لائق نہ ہو حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جو مانگتا ہوا آئے اور دو ایک لقمے یا دو ایک کھجور میں لے کر ٹل جائے۔ سچ مچ مسکین وہ ہے جو نہ تو اپنی حاجتوں کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور نہ اپنی کمزور حالت کو بیان کر کے لوگوں سے بھیک مانگتا پھرتا ہو ایسا مسکین زکوۃ لینے کا مستحق ہے۔[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 199/1 کتاب الزكاة باب قول الله عز و جل لا يسئلون الناس الحافا، رقم: 1476۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3) عاملین و تحصیلدار لوگ جن کو مسلمان حاکم زکوۃ وصول کرنے کے لیے مقرر کرے وہ لوگوں کے پاس جاکر بادشاہ کے حکم سے زکوۃ وصول کرتے ہیں ان کو زکوۃ کے مال سے تنخو او دے سکتے ہیں اور یہ لوگ تنخواہ میں زکوۃ کا مال لے سکتے ہیں۔
(4) مؤَ لَقَةُ الْقُلُوبُ وہ لوگ ہیں جو اسلام کی طرف مائل ہوں ان کی چند قسمیں ہیں
( الف) وہ جو ابھی مسلمان تو نہیں ہوئے لیکن ان کے دل اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں ایسے لوگوں کو زکوۃ دیتے رہیں تا کہ وہ کھلم کھلا مسلمان ہو جائیں۔
(ب) وہ لوگ جو مسلمان تو ہو گئے ہیں لیکن اسلام میں کمزور ہیں ان کو زکوۃ خیرات دیتے ہیں تا کہ وہ اسلام پر جم کر چکے مسلمان ہو جائیں۔
(5) زکوۃ کا مال غلام آزاد کرنے اور قیدیوں کو قید خانے سے چھڑانے میں خرچ کر سکتے ہیں یعنی زکوۃ کے مال سے غلام خرید کر اللہ کے راستے میں آزاد کر دینا اور قیدیوں کو چھٹر ا دینا چاہیے اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
(6) مقروض یعنی جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو تو ایسے مقروض کو زکوۃ دینی چاہیے اسی طرح کوئی شخص دو قوموں یا دو شخصوں کے درمیان صلح اور امن قائم رکھنے کے لیے قرض لے کر کام کرے تو اس کے لیے جائز ہے کہ لوگوں کی زکوۃ کے مال سے اس قرض کو ادا کر ے۔
(7) فی سبیل اللہ (اللہ کے راستہ میں) جہاد اور جہاد کے کاموں میں۔
(8) مسافر جو سفر کی حالت میں ہو اور تنگدست ہو گیا ہو اگرچہ گھر کا مالدار بھی ہو لیکن جلد منگو انہیں سکتا تو بقدر ضرورت لے جاسکتا ہے یہ آٹھوں قسم کے لوگ زکوۃ کے مستحق ہیں اور قرآن مجید نے زکوۃ کے یہ مصرف بتائے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ مالداروں سے زکوۃ لے کر غریب مسلمانوں کو دے دینی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے (تُؤْخَذُ مِنْ أَغْيَانِهِمْ وَتَرَدُّ عَلَى فَقَرَآئِهِمْ)
ترجمہ: مسلمان مالداروں سے زکوة لی جائے اور اسے مسلمانوں کے محتاجوں پر تقسیم کی جائے۔[1]
کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ زکوۃ لے سکتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا ان کو دے سکتا ہے وہ یہ ہیں اہل بیت نبوی سید اور بنو ہاشم یعنی اولاد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور عقیل رضی اللہ تعالی عنہ اور جعفر رضی اللہ تعالی عنہ و عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کو مال زکوۃ میں سے دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحيح بخاري: 187/1 كتاب الزكاة، باب وجوب الزكاة رقم الحديث: 1395۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جان بوجھ کر لینا حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ)[1]
’’ہم صدقہ نہیں کھاتے۔‘‘
(إِنَّا لَا يَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ)[2]
’’ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔‘‘
ایک مرتبہ حسن بلال بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بچپن کے زمانہ میں صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں رکھ لی تھی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا:
(کخ کخ ارم بِهَا أَمَا عَلِمْتَ إِنَّا لَانَأْكُلُ الصَّدَقَةَ)[3]
’’دور کر دو اس کو پھینک دو کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔‘‘
بلکہ آل رسول کو تو عامل بن کر اجرت لینا بھی زکوٰۃ سے جائز نہیں ہے جیسا کہ ابو رافع سے آپ نے فرمایا تھا:
(إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا يَحِلُّ لَنَا)[4]
’’صدقہ ہمارے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘
رسول اللهﷺ نے حضرت فضل رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا:
(إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لَالِ مُحَمَّدٍ(صلى الله عليه وسلم))[5]
’’یہ صدقہ زکوۃ لوگوں کا میل کھیل ہے محمد ﷺاور ال محمدﷺ کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘
آپ کے آزاد کیے ہوئے لونڈی غلام کو بھی صدقہ لینا حرام ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
(وَإِنَّ مَوَالِيِّ الْقَوْمِ مِنْ أَنفُسِهِمْ)[6]
’’قوم کا آزاد کیا ہوا غلام انہی میں سے شمار ہوتا ہے۔‘‘
’’غنی مالدار اور صاحب نصاب کو زکوۃ نہیں لینی چاہیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]، [2]، [3] صحیح بخاري: 202/1 كتاب الزكاة أخذد صدقة التمر عند صرام النحل الخ، رقم الحديث 1485۔
[4] سنن ابی داؤد: 45/2 كتاب الزكاة باب الصدقة على بني هاشم. رقم الحديث: 1645۔
[5] صحیح مسلم: 344/1 كتاب الزكاة باب ترك استعمال الى النبي على الصدقة رقم
الحديث:2482۔
[6] سنن ابی داؤد: 45/2 کتاب الزكاة باب الصدقة على بني هاشم رقم الحديث: 1645۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(لَاتَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِي إِلَّا لِخَمْسَةٍ لِغَازِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ لِعَامِلٍ عَلَيْهَا أَوْ لِغَارِمٍ أَوْ لِرَجُلٍ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ أَوْ لِرَجُلٍ كَانَ لَهُ جَارٌ مِسْكِينَ فَتَصَدَّقَ عَلَى الْمِسْكِينِ فَاهُدَى المسكن لغنی) [1]
’’کسی مالدار کو صدقہ زکوۃ لینا حلال نہیں لیکن پانچ قسم کے غنیوں کو لینا جائز ہے:
(1) جہاد اور غزوہ کرنے والے کے لیے (2) زکوۃ کے تحصیلدار کے لیے۔
(3) تاوان بھرنے والے کے لیے۔ (4) یا اس کے لیے جو اپنے مال سے زکوۃ کی چیزوں کو خریدے۔
(5) یا وہ شخص جس کا پڑوسی مسکین ہو اور کسی نے اسے صدقہ زکوۃ دیا ہو اور وہ مسکین اس کو کچھ ہدیہ میں دے دے تو اس کو ہدیہ میں زکوۃ کا مال لینا جائز ہے۔
اپنے غریب رشتہ داروں کو زکوۃ کے مال کا دینا زیادہ بہتر ہے زکوۃ ادا ہو جائے گی اور صلہ رحمی کا ثواب بھی پاؤ گے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ میں نبی ﷺ سے سوال کیا تھا کہ اگر میں اپنے خاوند پر اور زیر کفالت یتیموں پر خرچ کروں تو کیا وہ صدقہ ہو جائے گا تو نبی ﷺ نے فرمایا:
(لَهَا اَجرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَآجُرُ الصَّدَقَةِ)
’’ان کو دگنا اجر ملے گا قرابت اور صلہ رحمی اور صدقہ خیرات کا۔ لہٰذا اپنے بھائی بہن چچا، بھتیجے، بھانجے، بھانجیوں، خالہ، پھوپھی، داماد اور ساس سسر وغیرہ رشتہ داروں کو اور اپنے پڑوسیوں کو جو غریب اور حاجتمند ہوں دینا زیادہ افضل ہے۔
اللہ تعالی ہمارے صدقات و خیرات کو قبول فرما کر سعادت دارین کا ذریعہ بنائے۔ (آمین )
(بَارَكَ اللهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ إِنَّهُ تعَالَى جَوَّادٌ كَرِيمٌ مَّلِكُ بَرٌّ رَءُوْفَ رَّحِيمٌ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن ابی داود: 38،39/2 کتاب الزكاة، باب من يجوز له أخذ الصدقة وهو على رقم الحديث.1630،
[2] صحیح بخاري: 198/1 كتاب الزكاة باب الزكاة على الزوج والايتام في الحجر رقم الحديث 1466-
…………………………….