معاشرتی زندگی کے اصول و آداب

﴿فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَؕ۝۱۷﴾ (الرعد:17)
’’پس جو جھاگ ہے و ہ نا کا رہ ہو کر چلا جاتا ہے اور وہ چیز جو لوگوں کو نفع دیتی ہے سو وہ زمین میں رہ جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالی مثالیں بیان کرتا ہے۔‘‘
گذشتہ خطبہ جمعہ ہم نے جانا کہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی گزارنا انسان کی خواہش بھی ہے، اس کی ضرورت و مجبوری بھی ہے اور اس کے فوائد اور نقصانات بھی ہیں، لہٰذا ضروری ٹھہرتا ہے کہ یہ جانا جائے کہ معاشرتی زندگی کس طرح گزاری جائے، اس کے اصول وضوابط کیا ہیں اور اس کے طریقے اور سلیقے کیا ہیں۔
سب سے پہلے ہر انسان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ زندگی گزارنا انسان کی زندگی کے بڑے بڑے کاموں میں سے سب سے بڑا کام ہے۔
جیسا کہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی ۔ ‘‘ (خبار خاطر )
تو زندگی گزارنا یقینًا ایک بہت بڑا کام ہے اور زندگی ویسے تو گزر ہی جاتی ہے اچھی ہویا بری، خوشگوار ہو یا نا خوشگوار، اور جو چیز عارضی ہو ختم ہونے والی ہو، وہ چاہے ہزاروں سال پر محیط ہو ، ختم ہونے کے بعد ایسے ہی لگتی ہے جیسے دو ایک پل ہی تھے گزر گئے ، جیسا کہ اہل جہنم سے قیامت کے دن جب پوچھا جائے گا کہ:
﴿ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۝۱۱۲ ﴾ (المؤمنون: (112) ’’بتاؤ زمین میں تم کتنے سال رہے؟‘‘
﴿قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّیْنَ۝﴾ (المؤمنون: (113)
’’ وہ کہیں گے: ایک دن، یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھہرے ہیں، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئے ۔‘‘
﴿قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝﴾ (المؤمنون:114)
’’ارشاد ہو گا تھوڑی ہی دیر ٹھہرے ہونا! کاش تم نے اُس وقت جانا ہوتا ۔‘‘
اسی طرح دیگر آیات میں بھی ہے کہ دنیا میں گزری ہوئی زندگی انہیں تھوڑی دیر ہی معلوم ہوگی ۔ تو جو چیز عارضی اور فانی ہے، جسے بالاخرختم ہونا ہی ہے، وہ ایسے ہی ہے کہ اب ختم ہوئی کہ اب ختم ہوئی، جیسا کہ شاعر کہتا ہے کہ:
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے ،
صبح گیا یا شام گیا
تو زندگی یوں تو گزر ہی جاتی ہے، نرم ہو یا گرم، مگر کامیاب زندگی گزارتا، پاکیزہ اور خوشگوار زندگی گزارنا ، جو کہ مطلوب بھی ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے اہل ایمان کے لیے جس کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، اس کے لیے سعی و جہد کرنا اصل کام ہے۔
یادر ہے کہ اسلام کے نزدیک کامیاب، پاکیزہ اور خوشگوار زندگی کا معنی و مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں میں معروف و مشہور ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ دنیا والوں کے نزدیک کامیاب زندگی کا مطلب خالصتاً مادی ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو، عہدہ و منصب ہو، بڑی بڑی سفارشیں ہوں اور دیگر نعمتوں اور سہولتوں سے مالا مال ہو، تکلیفوں، مصیبتوں اور پریشانیوں سے محفوظ ہو۔
مگر اسلام کے نزد یک کامیاب اور خوشگوار زندگی ایک معنوی چیز ہے، جس کا تعلق دل سے ہے، دل اگر نعمت ایمان سے معمور ہو اور عمل صالح کی توفیق حاصل ہو تو اسے سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ایمان کی لذت محسوس ہونے لگتی ہے، پھر وہ تمام ظاہری تنگیوں اور تکلیفوں کے باوجود پر سکون ہوتا ہے اور اپنی حالت پر مطمئن ہوتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے یہ جو فرمایا ہے کہ:
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝﴾ (النحل:97)
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مؤمن، تو اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘
تو اس حیات طیبہ، پاکیزہ اور کامیاب زندگی سے مراد صحابہ کرام سے منقول تفسیر کی روشنی میں رزق حلال اور قناعت ہے۔ اور جیسا کہ حدیث میں بھی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ((قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافاً، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ))(صحیح مسلم ، كتاب الزكاة:1054)
’’کامیاب ہو گیا وہ جو اسلام لایا اور اس کی ضرورت کے مطابق اسے رزق دیا گیا اور اللہ تعالی نے جو کچھ عطا فرمایا اس پر اسے قناعت نصیب فرمادی۔‘‘
اور آپ جانتے ہیں کہ قناعت کتنی بڑی نعمت، کتنی بڑی سعادت اور کتنی بڑی دولت ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ مالدار اور صاحب حیثیت ہونے کے باوجود روتے رہتے ہیں کہ کاروبار مندا ہے، حالات بڑے ٹائیٹ میں بس مشکل سے گزارا ہوتا ہے وغیرہ الفاظ سے اپنی غربت کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ جن کے پاس کوئی بینک بیلنس نہیں ہوتا کوئی جمع پونچھی نہیں ہوتی ، مشکل سے ضروریات زندگی پوری ہوتی ہیں مگر آپ کبھی ان کی زبان سے شکوہ نہیں سنیں گے بلکہ وہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں قناعت کی دولت سے نواز رکھا ہوتا ہے، مالا مال کر رکھا ہوتا ہے، وہ اپنی حالت اور اپنی قسمت پر خوب خوب مطمئن ہوتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حقیقی بھنا اور تو نگری مال و متاع اور دولت و ثروت میں نہیں ہوتی بلکہ دل کی تو نگری میں ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غنی النَّفْسِ )) (صحیح البخاری ، کتاب الرقاق:6446)
’’مالداری اور تو نگری کثرت مال و متاع میں نہیں بلکہ دل کا غنا اصل میں تو نگری ہے۔‘‘
تو حقیقی کامیاب زندگی اس دنیا میں یہی ہے کہ آدمی کو دولت ایمان نصیب ہو، عمل صالح کی توفیق حاصل ہو، تقدیر پر رضا ہو، نعمت قناعت میسر ہو اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر دل و جان سے مطمئن ہو، تو اُس سے زیادہ مالدار اور اُس سے زیادہ خوش نصیب کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا: ((مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِناً في سربه، مُعَافِي فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوْتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا)) (ترمذی ، کتاب الزهد:2346)
’’جو شخص اپنے گھر اور اہل و عیال میں امن امان سے ہو، جسمانی بیماریوں اور تکلیفوں سے محفوظ ہو اور اُس دن کا کھانا اس کے پاس موجود تو گویا اُس کے لیے ساری دنیا سمیٹ کر رکھ دی گئی ہے۔‘‘
اندازہ کریں ان تینوں چیزوں کو ساری دنیا قرار دیا ہے گویا کہ یہ تین چیزیں پوری دنیا نعمتوں کا لب لباب، نچوڑ اور خلاصہ ہیں، اور ان کے علاوہ دیگر نعمتیں محض سامان عیش و کی عشرت میں آتی ہیں۔
اگر آدمی کو ایمان عمل صالح اور قناعت نفس کے ساتھ یہ تین چیزیں حاصل ہوں تو پھر تمام تکلیفوں اور محرومیوں کے باوجود الیسا پر سکون اور مطمئن نظر آتا ہے کہ دنیا اُس کی حالت پر رشک کرتی ہے۔
جیسا کہ جب خلیفہ عبدالملک بن مروان نے بستر مرگ پر آخرت کے سوال و جواب میں فکرمند، موت کی سختیوں سے دوچار، گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے کہا کہ کمرے کی کھڑکیاں کھول دو تا کہ تازہ ہوا آئے ، جب کھڑ کی کھولی گئی، تو دیکھا کہ دور ایک دھوبی کپڑے دھو رہا ہے۔
((لَمَّا احْتُضِرَ عَبْدُ الْمَلِكِ أَمَرَ بِفَتْحِ الْأَبْوَابِ مِنْ قَصْرِهِ ، فَلَمَّا فُتِحَتْ سَمِعَ قَصَّارًا بِالْوَادِي فَقَالَ: مَا هَذَا قَالُوا قَصَّارٌ))
’’جب عبد الملک بن مردان کا وقت وفات قریب آیا تو محل کے دروازے کھول دینے کا حکم دیا ، جب درازے کھولے گئے تو وادی میں ایک دھوبی کے کپڑے دھونے کی آواز سنائی دی ، پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: یہ دھوبی ہے ۔‘‘
((فَقَالَ: يَا لَيْتَنِي كُنتُ قَصَّاراً أَعِيْشُ مِنْ عَمَلِ يَدِي))
’’اے کاش میں دھوبی ہوتا ، اپنے ہاتھ کی محنت سے زندگی گزارتا ہے ۔‘‘
((فَلَمَّا بَلَغَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ قَوْلُهُ))
’’جب سید التابعين امام سعيد بن المسیب رحمہ اللہ تک ان کی یہ بات پہنچی ۔‘‘
((قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَهُمْ عِنْدَ مَوتِهِمْ يَفِرُّونَ إِلَيْنَا وَلَا نَفِرُّ إليهم)) (البداية والنهاية ، ج:9، ص:68)
’’تو فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ان لوگوں کو موت کے وقت ہماری طرف آنے والا بنا دیا، ہمیں ان کی طرف نہیں جانا پڑا۔‘‘
تو نعمت ایمان کے ساتھ قناعت ہی ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کو خوشگوار اور پاکیزو زندگی کی راہ پر گامزن کرتی ہے ورنہ انسان دنیا کے حصول کے لیے دن رات بے چین اور مارا مارا پھر رہا ہوتا ہے، رالیں ٹپک رہی ہوتی ہیں ، آرام کی نعمت سے محروم، بچوں کی محبت سے
محروم ، اسے صرف کام کی فکر ہوتی ہے کہ کام، کام اور بس کام ۔
ایسے دنیا دار لوگ، جو دنیا کی ہوس میں ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں کبھی اس کیفیت سے آشنا نہیں ہوتے جس کے بارے میں بعض سلف صالحین یوں گویا ہوئے ہیں کہ:
((إِنَّهُ لَتَمُرُّ بِي أَوْقَاتٌ أَقُولُ فِيهَا: إِنْ كَانَ أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي مِثْلِ هَذَا، إِنَّهُمْ لَفِي عَيْشِ طَيِّبٍ)) (مدارج السالكين ، ج:3 ، ص: 243)
’’مجھ پر کبھی ایسے اوقات بھی گزرتے ہیں کہ جنہیں پاکر میں کہتا ہوں کہ اگر جنت والے اس کیفیت میں ہوتے ہیں تو وہ یقینًا بڑی عیش کی زندگی میں ہوں گے۔‘‘
اور ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ نے اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
((لَوْ يَعْلَمُ الْمُلُوكُ وَأَبْنَاهُ الْمُلُوكِ مَا نَحْنُ فِيهِ مِنَ السَّعَادَةِ لَجَالَدُونَا عَلَيْهَا بِالسُّيُوفِ)) (مجموع رسائل ابن رجب ، ج:1 ،ص:172)
’’اگر بادشاہوں کو اور ان کی اولادوں کو معلوم ہو جائے کہ ہم کسی سعادت و خوشی بختی میں ہیں تو وہ اسے ہم سے تلواروں کے ذریعے چھین لینا چاہیں ۔‘‘
تو پاکیزہ، خوشگوار اور کامیاب زندگی مال و دولت اور عہدہ و منصب کا نام نہیں، بلکہ وہ ول کی کیفیت کا نام ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہ جنہیں طرح طرح کی مصیبتوں سختیوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا فرماتے ہیں۔
((مَا يَصْنَعُ أَعْدَائِي بي؟))
’’میرے دشمن میرا کیا کر لیں گے!‘‘
((أَنَا جَنَّتِي وَبُسْتَانِي فِي صَدْرِي ، أَيْنَ رُحْتُ فَهِيَ مَعِيَ لا تفارقني))
’’ میری جنت اور میرے باغات میرے سینے میں ہیں، میں جہاں بھی جاؤں میرے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، مجھ سے جدا نہیں ہوتے۔‘‘
((أَنَا حَبْسِي خَلْوة))
’’میری قید میرے لیے تنہائی ہے۔‘‘
((وَقَتْلِي شَهَادَةَ))
’’اور میرا قتل میرے لیے شہادت ہے۔‘‘
وإخراجي من بلدي سياحة)) (ذيل طبقات الحنابلة ، ج:4، ص:519)
’’اور مجھے ملک بدر کرنا میرے لیے سیاحت ہے۔‘‘
تو پاکیزہ، خوشگوار اور کامیاب زندگی جینا انسان کا مطلوب و مقصود ہے مگر اس کے کچھ تقاضے بھی ہیں وہ تقاضے پورے کئے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے اس کے علاوہ عام معاشرتی زندگی کے اصول وضوابط ہیں اور معاشرتی زندگی جینا انسان کی ضرورت و مجبوری ہے، مگر مل جل کر رہنے کے لیے کچھ اصول وضوابط بھی ہیں جو ہمیں اسلام نے سکھائے ہیں، جن کا اپنانا لازم ہے، ورنہ بہت کی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں، بہت سے نقصانات سامنے آتے ہیں، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور فتنہ وفساد پیدا ہوتا ہے۔
معاشرتی زندگی جینے کے لیے گذشتہ جمعے ایک قائدہ اور ضابطہ اور سنہری اصول ذکر کیا تھا کہ لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی کرنا، اور یہ ایک ایسا قاعدہ اور اصول ہے کہ اسلام نے اس کو جہاں معاشرے کے لیے مفید بتلایا ہے وہاں انسان کے اچھا ہونے کا معیار بھی قرار دیا ہے فرمایا:
((خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ))
(معجم الأوسط للطبراني:6026)
’’سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے ہوں ۔‘‘
اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی بہت سی صورتوں میں سے ایک معروف صورت صدقہ کرنے کا ذکر کیا تھا اور صدقہ کرنے کی قرآن وحدیث میں بہت زیادہ فضیلت اور بہت زیادہ دنیوی اور اخروی فوائد بتلائے گئے ہیں ایک فضیلت یہ بیان ہوئی ہے کہ:
((إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ عَنْ أَهْلِهَا حَرَّ الْقُبُورِ))
’’صدقہ ، صدقہ کرنے والوں سے قبر کی گرمی بھیجاتا ہے۔‘‘
((وَإِنَّمَا يَسْتَظِلُّ الْمُؤْمِنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ)) (صحيح الترغيب:873)
’’اور بندہ مؤمن قیامت کے دن اپنے صدقے کے سائے میں ہو گا۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
((كُلُّ امْرِئٍ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ))(مسند احمد:17333 ، ابن حبان:3310)
’’ہر آدمی قیامت کے دن اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلے مکمل ہو جا ئیں ۔‘‘
تو صدقہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی بہت سی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا ایک اور آسان طریقہ بھی ہے، جو کہ بہت ہی آسان ہے، مگر مزاج اور فطرت کی مجبوری کی وجہ سے شاید سب سے مشکل لگتا ہے۔
اور وہ ہے: لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھنا۔ جیسا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
سأَلْتُ النَّبِيَّ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟
قَالَ: ((إِيْمَانُ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ))
قُلْتُ فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟
قَالَ: ((أَغْلَاهَا ثَمَناً، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا))
قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ ؟
قَالَ: ((تُعِينُ صَانِعًا أَوْ تَصْنَعُ الأَخْرَقَ)) قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ
قَالَ: تَدَعُ النَّاسَ مِنْ الشَّرِ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ .
(صحيح البخاری ، کتاب العتق:2518)
’’کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول سے سب سے افضل عمل کون سا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے کہا: کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: جس کی قیمت زیادہ ہو اور وہ اپنے مالک کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ ہو۔ میں نے کہا: اگر میں یہ نہ کر سکوں؟ آپﷺ نے فرمایا: پھر کسی کام کرنے والے کی مدد کر یا کسی بے ہنر اور اناڑی کا کام کر دے۔ میں نے کہا: اگر یہ بھی نہ کر سکوں؟ آپ ﷺنے فرمایا: تم لوگوں کو نقصان نہ پہنچاؤ، یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تم اپنے اوپر کرو گے۔‘‘
غور فرمائیے کہ اللہ تعالی کا ہم پر کتنا بڑا فضل اور انعام ہے، کہ کچھ نہ کرنے سے بھی صدقہ کرنے کا ثواب مل جاتا ہے، صرف نیت ہی تو کرنی ہے کہ میں نے کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی ۔ کوئی عقلمند ، شریف النفس انسان ویسے بھی کسی کو نقصان اور تکلیف پہنچانا پسند نہیں کرتا۔ ہاں کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں کہ جن کی سرشت میں ہی چھیڑ چھاڑ اور ایذا رسانی کے جراثیم ہوتے ہیں وہ لوگوں کو اذیت پہنچا کر خوش ہوتے ہیں وہ جب تک کسی کو طنز نہ کر لیں کسی کو تنگ نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا۔
ایسے لوگ چاہے کسی بھی ماحول میں رہ لیں، کوئی بھیں دھار لیں، کوئی بھی حلیہ اختیار کر لیں، مگر ان کی فطرت میں اذیت پہنچانا بدستور موجود رہتا ہے۔
جیسا کہ ایک قصہ مشہور ہے، بہت سی مستند کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک بدو نے ایک بھیڑیے کا بچہ دیکھا کہ پیدا ہوتے ہی اس کی ماں مرگئی۔ اس بدو کے پاس ایک بکری تھی، اس نے بھیڑیے کا بچہ لیا اور اس کو بکری کا دودھ پلا پلا کر پالنا شروع کیا۔
جب بھیڑیے کا بچہ بڑا ہو گیا تو وہ ایک دن بکری کو چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ اس پر بدو بہت حیران ہوا، کہ اس بچے نے اپنی ماں نہیں دیکھی بلکہ بکری ہی اس کی ماں تھی اور نہ بھیڑیوں میں پلا بڑھا ہے پھر اس کو کیسے معلوم ہوا کہ ایسے بھی کر سکتے ہیں چنانچہ وہ اسے مخاطب ہو کر کہتا
ہے کہ تجھے کس نے بتایا کہ تیرا باپ بھیڑیا ہے۔
بالآخر نتیجہ نکالا کہ:
إِذَا كَانَ الطَّبَاعُ طِبَاعَ سَوءٍ
فلا أدبٌ يُفيد ولا أديبُ
’’اگر کسی کی سرشت بری ہو تو پھر نہ کوئی ادب کام آتا ہے اور نہ ادیب‘‘
اس کا مطلب یہ نہیں کہ مزاج پر یا فطرت پر قابو نہیں پایا جا سکتا ضرور قابو پایا جاسکتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ اس کے لیے بہت زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔
لوگوں کو اذیت پہنچانے کی کیا کیا شکلیں اور صورتیں ہیں اور ان سے کس طرح بچا جا سکتا ہے اور کسی کو اذیت پہنچانے کے کیا کیا سنگین نتائج ہو سکتے ہیں ان میں سے کچھ آئند و خطبہ میں ان شاء اللہ ذکر کریں گے۔
……………….