مسجد کے آداب

عَن أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ أَنَّ النَّبِيُّ ﷺ رَأَى نُخَامَةً فِي القِبْلَةِ فَشَقَّ ذَلِك عَلَيْهِ حَتَّى رُؤى فِي وَجهِهِ، فَقَامَ فَحَكَّهُ بِيَدِهِ فَقَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ إذَا قَامَ فِي صَلاتِهِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ أَوْ إِنَّ رَبَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ فَلَا يَبْزُقَنَّ أَحَدُكُم قِبَلَ قِبْلَتِهِ وَلَكِنَّ عَن يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ، ثُمَّ أَخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ فَبَصَقَ فِيهِ ثُمَّ رَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فَقَالَ : أَوْ يَفْعَلْ هَكَذَا . (متفق عليه)
(صحیح بخاری: كتاب الصلاة، باب حك البزاق باليد من المسجد، صحيح مسلم: كتاب المساحة
ومواضع الصلاة باب النهي عن البصاق في المسجد في الصلاة وغيرها.)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ قبلہ کی جانب کچھ تھوک دیکھا تو آپ پر سخت ناگوار گزرا حتی کہ اس کا اثر آپ کے چہرہ مبارک پر دیکھا گیا آپ خود کھڑے ہوئے اور اپنے دست مبارک سے صاف کیا اور ایک روایت میں سنگریزہ سے صاف کرنے کا ذکر ہے پھر فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اور اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے لہذا تم میں سے کوئی بھی (بحالت نماز) اپنے قبلے کی طرف نہ تھوکے بلکہ بائیں جانب یا اپنے قدم کے نیچے (تھوک سکتا ہے) پھر آپ نے اپنی چادر کے ایک کنارے میں تھوکا اور چادر کے دوسرے حصہ سے اسے رگڑ دیا پھر آپ نے فرمایا کہ یا اس طرح کرلے۔
وَعَن أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : الْبَرَاقَ فِي المسجد خطِيئَةٌ وَكَفَّارَتُهَا دَفْتُهَا. (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الصلاة، باب كفارة البزاق في المسجد، صحيح مسلم: كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب النهي عن البصاق في المسجد في الصلاة وغيرها.)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کر دینا ہے۔
وَعَن أَبِي هُرِيرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ : إِذَا رَأَيْتُمْ مَن يَبِيعُ أو يَبْتَاعُ فِي المَسْجِدِ فَقُولُوا : لا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً فَقُولُوا: لَا رَدَّ اللهُ عَلَيْكَ (أخرجه الترمذي)
(سنن ترمذی أبواب البيوع عن رسول الله، باب النهي عن البيع في المسجد، هذا حديث حسن غريب وصححه الألباني في المشكاة (733) وفي الإرواء (1495).
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی شخص کو دیکھے کہ مسجد میں وہ خرید و فروخت کر رہا ہے تو تم اس سے کہو: اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے۔ اور جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو گم شدہ چیز مسجد میں ڈھونڈھتے ہوئے دیکھے تو کہے اللہ کرے تیری چیز نہ ملے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ مَن أَكَلَ مِن هٰذِهِ الشَّجَرَة. يعنى الثوم. فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسجِدَنا (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الأذان باب ماجاء في الثوم التي والبصل والكراث، صحيح مسلم: كتاب
المساجد ومواضع الصلاة، باب نهى عن أكل ثوما أو بصلا أو كراثا أو نحوها مما له رائحة.)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر فرمایا: جو شخص اس درخت سے کھائے (یعنی لہسن) تو وہ ہرگز ہماری مسجد میں نہ آئے۔
وَعَن جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ أَكَلَ البَصَلَ وَ الثَّومَ وَالكُرَّاثَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ المَلائِكَةُ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنهُ بَنُو آدَم. (اخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهى عن أكل ثوما أو بصلا أو كراثا أو نحوها مما له ……)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص پیاز لہسن، گندنا (ایک ترکاری کا نام ہے جو لہسن کے مشابہ ہوتی ہے) کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب بالکل نہ آئے اس لئے کہ ایسی چیزوں سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے جن سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنهَا قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِبَنَاءِ المَسَاجِد فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنظَّفَ وَ تُطَيَّبَ. (اخرجه ابو داود).
(سنن أبو داود: کتاب الصلاة باب اتخاذ المساعد في الدورسنن ترمذى: أبواب الصلاة، باب ما ذكر في تطیيب المسجد، وصححه الألباني في صحیح سنن ابی داود: (455)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجد میں بنائی جائیں اور انہیں پاکیزہ، صاف ستھری اور معطر رکھا جائے۔
عَن ابنِ عَبَّاس رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهُ مَا أُمِرتُ بِتَشيِيدِ المَسَاجِدَ، قَالَ ابْن عَبَّاسٍ: لَتُرَخْرِفْنَّهَا كَمَا زَخُرَفَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى (أخرجه ابو داود).
(سنن أبو داود: کتاب الصلاة، باب في بناء المساجد، وصححه الألباني في صحيح سنن أبی داود: 448)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے مسجدوں کو پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا تم انہیں (یعنی مساجد کو) ضرور مزین کرو گے جیسے کہ یہود و نصاری نے (اپنے عبادت خانے) مزین کئے ہیں۔
تشریح:
اس روئے زمین پر سب سے اچھی جگہ مسجد ہوتی ہے جو یقین ذ کر اور نماز کے لئے بنائی گئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب جگہ ہے اس لئے اس کے کچھ خاص آداب ہیں جن کی وضاحت رسول اللہ ﷺ نے حدیث میں کی ہے اور فرمایا کہ جب کوئی چیز انسان کی غائب ہو جائے تو وہ مسجد میں نہ تلاش کرے اسی طرح مسجدوں میں گندگی نہ پھلائی جائے اور نہ ہی اس میں تھوکا جائے اور نہ ہی کوئی چیز خرید و فروخت کی جائے اور نہ ہی اس میں بیہودہ باتیں کی جائیں بلکہ مسجد جن مقاصد اور غرض وغایت کے لئے بنائی گئی ہے اس میں وہی کام کیا جائے یعنی نماز، ذکر واذکار اور قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ۔ نیز مسجد اللہ تعالی کا گھر ہے اسے ہمیشہ صاف وستھرا اور خوشیوں سے معطر رکھنا چاہئے اسی طرح اس میں آنے جانے والے نمازیوں کو بھی اپنی اور اپنے کپڑوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے اس میں کچی پیاز لہسن اور مولی کھا کر نہیں آنا چاہتے نیز بیڑی سگریٹ اور حلقہ وغیرہ پی کر آنے سے سختی کے ساتھ پر ہیز کرنا چاہئے کیونکہ یہ ساری چیزیں استعمال کرنے کے بعد انسان کے منہ سے بو آتی ہے جو دوسروں کو بری لگتی ہے جب ان چیزوں کی بو ایک انسان کو خراب لگتی ہیں جو انہیں کے جنس سے ہیں تو فرشتوں کو مزید تکلیف ہوتی ہوگی اس لئے رسول اکرم ﷺ نے ان چیزوں کے استعمال کے بعد ہمیں مسجدوں میں نماز کے لئے آنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ان سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔ نیز آپ ﷺ نے مسجدوں میں بہت زیادہ نقش و نگار کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
فوائد:
٭ مسجدوں میں تھو کنا منع ہے اگر کوئی شخص تھو کے تو اسے دفن کر دے۔
٭ مسجدوں میں خرید و فروخت حرام ہے کیونکہ مسجدوں میں خرید و فروخت کرنے
والے پر آپ ﷺ نے بددعا کی ہے۔
٭ مسجدوں میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنا نا جائز ہے۔
٭ بد بودار آدمی کو مسجد میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
٭ مسجدوں کی لمبی چوڑی تعمیر اور اس کے نقش ونگار میں مبالغہ آرائی سے کام لینا
مکروہ ہے۔
٭ مسجدوں کو خوشبوؤں سے معطر کرنا اور اسے صاف وستھرا رکھنا مستحب ہے۔
٭٭٭٭