مسجد کے آداب
اہم عناصرِ خطبہ :
01. مسجد کی اہمیت اور قدرو منزلت
02. مسجد تعمیر کرنے کے فضائل
03. مسجد کو آباد کرنے کے فضائل
04. مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت
05. مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے فضائل
06. مسجد میں تعلیمِ قرآن کا اہتمام کرنا
07. مسجد میں دروسِ قرآن وحدیث کا اہتمام کرنا
08. مسجد کے آداب
پہلا خطبہ
حضرات محترم ! اسلام میں مسجد کی بڑی اہمیت ہے ۔
٭ ’ مسجد ‘ اللہ تعالی کا وہ گھر ہے جس میں مسلمان دن اور رات میں کم از کم پانچ مرتبہ جمع ہوتے اور اسلام کا سب سے اہم فریضہ ادا کرکے اپنے دلوں کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں ۔
٭ ’ مسجد ‘ وہ مقام ہے جہاں اللہ کے بندے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے اور اس کے سامنے عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہیں ۔
٭ ’ مسجد ‘ وہ عبادت گاہ ہے جہاں مومنین تقرب الٰہی کے حصول کیلئے مختلف عبادات سرانجام دیتے ہیں ۔
٭ ’ مسجد ‘ وہ جگہ ہے جہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اور متفاوت درجات ومراتب رکھنے والے لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اللہ تعالی کے سامنے بندگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کرکے سب
ایک ہی اللہ کو پکارتے ، اس سے راز ونیاز کی باتیں کرتے اور اس سے دعا کرتے ہیں ۔
٭ ’ مسجد ‘ وہ عظیم جگہ ہے جہاں اللہ کے گناہگار بندے اپنے گناہوں پر آنسو بہاتے ، تو بہ واستغفار کرتے اور اللہ تعالی سے سرگوشی کرتے ہوئے معافی مانگتے اور اسے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم مساجد میں حاضر ہونے کے آداب بیان کریں گے ، ان شاء اللہ تعالی ۔ لیکن آئیے سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اللہ تعالی کے نزدیک ’ مساجد ‘ کی کتنی اہمیت اور شریعتِ اسلامیہ میں ان کی قدر ومنزلت کتنی بلند ہے !
’مساجد ‘ کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی طرف کی ہے جو ان کی عظیم قدر ومنزلت کی دلیل ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ ﴾ [التوبۃ: 18]
’’ اللہ کی مساجد کو آباد کرنا تو اس کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا ، نماز پابندی سے پڑھتا رہا اور زکاۃ ادا کرتا رہا اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا ۔ امید ہے کہ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہونگے ۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ میں تین باتیں قابل توجہ ہیں :
پہلی یہ کہ اللہ تعالی نے مساجد کی نسبت اپنی طرف کی ہے : (مَسٰجِدَ اللّٰہِ) ’’ اللہ کی مسجدیں ‘‘ یقینا یہ اِن مساجد کا شرف اور ان کی فضیلت ہے کہ اللہ تعالی انھیں اپنی طرف منسوب کر رہا ہے ۔
دوسری یہ کہ اللہ تعالی نے مساجد کی تعمیر اور تعمیر کے بعد ان کی آباد کاری کاکام ان لوگوں کی طرف منسوب کیا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ مساجد تعمیرکرنا اور انھیں آباد رکھنا ایمان کی نشانی ہے ۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا تھا کہ
( إِذَا رَأَیْتُمُ الرَّجُلَ یَعْتَادُ الْمَسَاجِدَ فَاشْہَدُوا لَہُ بِالْإِیْمَانِ ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۔۔۔ ) [ ترمذی : ۳۰۹۳ ، ابن ماجہ : ۸۰۲]
’’ اگر تم کسی آدمی کو مسجد میں آتا جاتا دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دے دو ۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ مساجد کو آباد کرنے کا کام وہی کر سکتا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ۔۔۔۔۔‘‘
تیسری یہ کہ جو شخص ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو ، مساجد کو آباد رکھتا ہو یعنی پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ مساجد میں باجماعت ادا کرتا ہو ، اس کے ساتھ ساتھ زکاۃ بھی ادا کرتا ہو اور اس کے دل میں
سوائے اللہ تعالی کے کسی اور کا ڈر اور خوف نہ ہو تو وہ اللہ تعالی کے نزدیک ہدایت یافتہ ہے ۔
ان تینوں باتوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مساجد کی تعمیر وآبادکاری کی فضیلت ذکر کی ہے ۔
جبکہ ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے مساجد کو ویران وبے آباد کرنے والے شخص کو سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَ سَعٰی فِیْ خَرَابِھَا اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَھُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَآئِفِیْنَ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ [البقرۃ: 114 ]
’’ اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام ذکر کرنے سے روکے اور اسے بے آباد کرنے کے درپے ہو ۔ انھیں تو یہ چاہئے تھاکہ مسجدوں میں اللہ سے ڈرتے ڈرتے داخل ہوتے ۔ ایسے ہی لوگوں کیلئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے ۔ ‘‘
اِس آیت میں بھی اللہ رب العزت نے مساجد کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور یہ عظیم نسبت اِس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اسلام میں مساجد کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ اور اُس شخص کو سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اُس کا ذکرکرنے سے منع کرتا اور نھیں ویران کرنے کی کوشش کرتا ہو ۔ اِس کے علاوہ ایسے شخص کو اللہ تعالی نے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذابِ عظیم کی وعید بھی سنائی ہے ۔ لہذا ایسی کسی بھی کوشش سے مسلمان کو بچنا چاہئے اور جیسے بھی ممکن ہو مساجد کی تعمیر وترقی اور ان کی آباد کاری میں ہر مسلمان کو حصہ ڈالنا چاہئے۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ٭ رِجَالٌ لاَّ تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ٭ لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ﴾ [النور:۳۶۔ ۳۸]
’’ ان گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ انھیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ، ان میں وہ لوگ صبح وشام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں اللہ کے ذکر ، اقامت ِ صلاۃ اور ادائے زکاۃ سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی ۔ تاکہ وہ جو عمل کرتے ہیں اللہ انھیں اس کا بہترین بدلہ دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق عطا کرتا ہے ۔ ‘‘
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالی نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے اپنے گھروں ( مساجد ) کو بلند کرنے یعنی تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اِس کے ساتھ ساتھ ان میں اللہ کا ذکر کرنے یعنی ان میں نمازیں ادا کرنے ، قرآن کی تلاوت کرنے ، دعا کرنے ، حلقاتِ علم اور حلقاتِ حفظِ قرآن قائم کرنے کا حکم بھی دیا ہے تاکہ یہ آباد رہیں اور ان کی رونق میں اضافہ ہوتا رہے ۔ پھر اللہ تعالی نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو تجارت اور کاروبار کی وجہ سے اللہ کے ذکر ، اقامتِ صلاۃ اور ادائے زکاۃ سے غافل نہیں رہتے بلکہ صبح وشام اللہ کی مساجد میں حاضر ہو کر اس کی تسبیح کرتے اور دیگر اذکار وغیرہ پڑھتے رہتے ہیں ۔ اور ایسے ہی لوگوں سے اللہ تعالی نے ان کے اعمال کا بہترین بدلہ اور اپنے فضل وکرم سے مزید بھی عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے کیونکہ وہ جس کو چاہئے بلا حساب رزق عطا کر نے پر قادر ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ﴾ [الجن: 18]
’’ اور مساجد اللہ تعالی کیلئے ہی ہیں ۔ لہذا تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو ۔ ‘‘
محترم حضرات ! اب تک ہم نے جتنی آیات ذکر کی ہیں ان سب میں اللہ تعالی نے مساجد کی تعمیر وآبادکاری کے فضائل سے آگاہ فرمایا ہے ۔ لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان کی قدر ومنزلت کو پہچانیں ، انھیں آباد رکھیں اور ان میں عبادت کرکے ان کی رونق میں اور اضافہ کریں ۔
اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کی اہمیت اور قدرو منزلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
( أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَی اللّٰہِ مَسَاجِدُہَا ، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَی اللّٰہِ أَسْوَاقُہَا ) [ مسلم : ۶۷۱]
’’ شہروں میں اللہ تعالی کو سب سے محبوب ان میں پائی جانے والی مساجد ہیں ۔ اور شہروں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ ان میں پائے جانے والے بازار ہیں ۔ ‘‘
چونکہ مساجد اللہ تعالی کے گھر ہیں اور یہ اسے کسی بھی ملک یا شہر یا بستی میں سب سے زیادہ محبوب ہیں اس لئے ان مساجد کا رخ کرنے اور ان میں حاضر ہونے والے ہر مسلمان کو اِس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ وہ ان مساجد سے تہہ دامن نہیں بلکہ اللہ تعالی کی رحمتوں سے اپنا دامن بھر کر ہی واپس لوٹے گا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ تَوَضَّأَ وَجَائَ إِلَی الْمَسْجِدِ فَہُوَ زَائِرٌ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَحَقٌّ عَلَی الْمَزُوْرِ أَن یُّکْرِمَ الزَّائِرَ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی : ۱۱۶۹]
’’ جو شخص وضو کرے اور مسجد کی طرف آئے تو وہ اللہ عز وجل کا مہمان ہے ۔ اورمیزبان (اللہ تعالی ) پر یہ حق ہے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے ۔ ‘‘
مسجد تعمیر کرنے کے فضائل
مسجد کی جو اہمیت اور قدرو منزلت ہم نے ابھی ذکر کی ہے اسی کے پیش نظر مسلمانوں کو مساجد کی تعمیر کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہئے ۔ خاص طور پر ان کو جنھیں اللہ تعالی نے وافر مقدار میں مال عطا کیا ہے کیونکہ ضروریاتِ زندگی سے فاضل مال کا بہترین مصرف مسجد تعمیر کرنا ہے ۔
اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد بنانے کی فضیلت ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا لِلّٰہِ کَمَفْحَصِ قَطَاۃٍ أَوْ أَصْغَرَ، بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ) [ رواہ ابن ماجہ : ۷۳۸ ۔ وصححہ الألبانی]
’’ جو شخص اللہ کیلئے مسجد بنائے ( خواہ وہ ) پرندے کے گھونسلے کی مانند یا اس سے بھی چھوٹی ہو تو اللہ اس کیلئے جنت میں گھر بنادیتا ہے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ مسجد بنانا ایسا عظیم عمل ہے کہ اس کا اجروثواب بنانے والے کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موت کے بعد فائدہ پہنچانے والے اعمال میں شمار کیا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( إِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِہِ وَحَسَنَاتِہِ بَعْدَ مَوْتِہِ : عِلْمًا عَلَّمَہُ وَنَشَرَہُ ،وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَہُ ،وَمُصْحَفًا وَّرَّثَہُ ،أَوْ مَسْجِدًا بَنَاہُ ، أَوْ بَیْتًا لِابْنِ السَّبِیْلِ بَنَاہُ ، أَوْ نَہْرًا أَجْرَاہُ، أَوْ صَدَقَۃً أَخْرَجَہَا مِنْ مَّالِہِ فِی صِحَّتِہِ وَحَیَاتِہِ یَلْحَقُہُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہِ) [ رواہ ابن ماجہ : ۲۴۲ وحسنہ الألبانی ]
’’ مومن کے جن اعمال اور جن نیکیوں کا ثواب اس کی موت کے بعد بھی اس کو ملتا رہتا ہے وہ ہیں : علم جو اُس نے سکھلایا یا اس کی نشرو اشاعت کی ،نیک اولاد جو اُس نے اپنے پیچھے چھوڑی ، وہ مصحف جو اُس نے اپنے ورثے میں چھوڑا ، یا وہ مسجد جو اس نے بنوائی ، یا وہ گھر جو اُس نے کسی مسافر کیلئے بنوایا ، یا وہ نہر جو اُس نے جاری کی ، یا وہ صدقہ جو اُس نے اپنی تندرستی اور زندگی میں اپنے مال سے نکالا ۔ ان سب چیزوں کا ثواب اسے اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ۔ ‘‘
مساجد کو آباد کرنے کے فضائل
اسلام میں صرف یہ نہیں ہے کہ مساجد کو تعمیر کرنے کے بعد انھیں ایسے ہی ویران وبے آباد چھوڑ دیا جائے ۔ بلکہ اسلام اس بات کی ترغیب دلاتا ہے کہ انھیں آباد کیا جائے ، ان کی رونق میں اضافہ کیا جائے ، ان سے دل لگایا جائے ،
ان میں پانچوں نمازیں قائم کی جائیں اور انھیں قرآن وحدیث کی دعوت کا مرکز بنایا جائے ۔ آئیے اب مساجد کو آباد کرنے کے فضائل سے اپنے دلوں کو منور کریں ۔
01.حدیث نبوی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے دل لگانے اور اسے آباد رکھنے والے شخص کو قیامت کے روز عرشِ باری تعالی کے سائے میں جگہ پانے کی عظیم خوشخبری دی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہٖ یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّہُ : اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ ، وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَۃِ اللّٰہِ ، وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ ، اِجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ، وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّی أَخَافُ اللّٰہَ ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی لاَ تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ) [ البخاری : ۶۶۰، مسلم : ۱۰۳۱]
’’ سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے (عرش کے ) سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا : عادل حکمران ۔ وہ نوجوان جس کی نشو ونما اللہ کی عبادت کے ساتھ ہوئی ۔ وہ آدمی جس کا دل مسجد سے لٹکا ہوا ہو۔ وہ دو آدمی جنہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کی ، اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا جدا ہوئے ۔ وہ آدمی جس کو ایک عہدے پر فائز خوبصورت عورت نے دعوتِ ( زنا ) دی تو اس نے کہا : میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔ وہ آدمی جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔ اور وہ آدمی جس نے علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ‘‘
02. قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہو گا
حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( بَشِّرِ الْمَشَّائِیْنَ فِی الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ بِالنُّوْرِ التَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ رواہ ابو داؤد : ۵۶۱ والترمذی : ۲۲۳ وصححہ الألبانی ]
’’ اندھیروں میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو بشارت دے دیجئے کہ انھیں قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہو گا ۔ ‘‘
03. جنت میں اللہ جل شانہ کی مہمان نوازی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
( مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ أَوْ رَاحَ ، أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ نُزُلًا ، کُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ ) [ البخاری : ۶۶۲ ، مسلم : ۶۶۹]
’’ جو شخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد میں جائے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں مہمان نوازی تیار کرتا ہے ، وہ جب بھی جائے ، صبح کو یا شام کو ۔ ‘‘
04. مسجد کی طرف جاتے ہوئے قدم قدم پر گناہ معاف ہوتے اور درجات بلند ہوتے ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ تَطَہَّرَ فِی بَیْتِہٖ ثُمَّ مَشٰی إِلٰی بَیْتٍ مِّنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ ، لِیَقْضِیَ فَرِیْضَۃً مِّنْ فَرَائِضِ اللّٰہِ، کَانَتْ خُطْوَتَاہُ إِحْدَاہُمَا تَحُطُّ خَطِیْئَۃً وَالْأُخْرٰی تَرْفَعُ دَرَجَۃً ) [ مسلم : ۶۶۶]
’’ جوشخص اپنے گھر میں وضو کرے ، پھر اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کی طرف روانہ ہو جائے اور اس کا مقصد صرف اللہ کے فرائض میں سے ایک فریضہ کو ادا کرنا ہو تو اس کے دو قدموں میں سے ایک قدم ایک گناہ کومٹاتا ہے اور دوسرا ایک درجہ بلند کرتا ہے ۔ ‘‘
مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَأَقِیْمُوْا الصَّلاَۃَ وَآتُوْا الزَّکَاۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۴۳]
’’ نماز قائم کرو اور زکاۃ دیتے رہو۔اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو ۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے رکوع کرنے والوں یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ مساجد میں جا کر باجماعت ادا کرنا واجب ہے ۔ اور اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : ( مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یَأْتِہِ فَلَا صَلَاۃَ لَہُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ ) [ ترمذی : ۲۱۷ ، ابن ماجہ : ۷۹۳۔ وصححہ الألبانی]
’’ جو شخص اذان سنے ، پھر وہ اذان ( کی جگہ یعنی مسجد میں ) نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ۔ ہاں اگر عذر ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘
اور جب ایک صحابی( ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جوکہ نابینا اور عمر رسیدہ تھے ، جن کا گھر دور تھا ، گھر اور مسجد کے درمیان بہت درخت تھے اور سانپ اور درندے وغیرہ بھی تھے۔ اور انھوں نے یہ اعذار بیان کرتے ہوئے کہا کہ : اے اللہ کے رسول ! میں نابینا ہوں اور مجھے مسجد میں لانے والا کوئی نہیں ہے تو مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دیجئے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ نے پوچھا :
( ہَلْ تَسْمَعُ النِّدَائَ ؟ ) وفی روایۃ : ( ہَلْ تَسْمَعُ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ؟ ) ’’کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو ؟ ‘‘ ایک روایت میں ہے کہ ’’ کیا تم حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ‘‘ کی آواز سنتے ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں سنتا ہوں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لَا أَجِدُ لَکَ رُخْصَۃً ) وفی روایۃ : ( فَأَجِبْ )
’’ میرے پاس تمھارے لئے کوئی رخصت نہیں ہے ۔ ‘‘ ایک روایت میں ہے کہ ’’ اگرتم اذان سنتے ہو تو اس کو قبول کرتے ہوئے مسجد میں آ کر نماز پڑھا کرو ۔ ‘‘ [ مسلم : ۶۵۳ ، ابو داؤد : ۵۵۲ ، ۵۵۳، نسائی : ۸۵۱ ، ابن ماجہ : ۷۹۲ ]
محترم حضرات ! اِس حدیث میں ذرا غور کریں کہ ایک نابینا صحابی جس کے پاس ایک نہیں کئی عذر تھے ، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت نہیں دی توآج کسی شخص کیلئے یہ رخصت کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ جہاں چاہے اکیلا نماز پڑھ لے اور باجماعت نمازپڑھنے کیلئے مسجد میں نہ آئے !!!
اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مساجد میں نماز باجماعت ادا کرنے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
( مَنْ سَرَّہُ أَن یَّلْقَی اللّٰہَ غَدًا مُّسْلِمًا فَلْیُحَافِظْ عَلٰی ہٰؤُلَائِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ حَیْثُ یُنَادَی بِہِنَّ ، فَإِنَّ اللّٰہَ شَرَعَ لِنَبِیِّکُمْ صلی اللہ علیہ وسلم سُنَنَ الْہُدَی وَإِنَّہُنَّ مِنْ سُنَنِ الْہُدَی ، وَلَوْ أَنَّکُمْ صَلَّیْتُمْ فِی بُیُوتِکُمْ کَمَا یُصَلِّی ہٰذَا الْمُتَخَلِّفُ فِی بَیْتِہِ لَتَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ ، وَلَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ لَضَلَلْتُمْ ،وَمَا مِنْ رَجُلٍ یَّتَطَہَّرُ فَیُحْسِنُ الطَّہُوْرَ ثُمَّ یَعْمِدُ إِلَی مَسْجِدٍ مِّنْ ہٰذِہِ الْمَسَاجِدِ إِلَّا کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ یَّخْطُوہَا حَسَنَۃً وَیَرْفَعُہُ بِہَا دَرَجَۃً ،وَیَحُطُّ عَنْہُ بِہَا سَیِّئَۃً ، وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَّعْلُومُ النِّفَاقِ ، وَلَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ یُؤْتٰی بِہِ یُہَادَی بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتّٰی یُقَامَ فِی الصَّفِّ) [ رواہ مسلم : ۶۵۴]
’’ جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ کل ( قیامت کے روز ) اللہ تعالی سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو وہ ان پانچ نمازوں کو ہمیشہ وہاں ادا کرے جہاں سے ان کیلئے بلایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہدایت کے طریقے مشروع کئے ہیں اور یہ نمازیں بھی انھی میں سے ہیں ۔ اوراگر تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھنا شروع کردو جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں ہی نماز پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑنے والے ہو گے ۔ اور اگر تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے ۔ اور کوئی بھی شخص جو اچھی طرح سے وضو کرنے کے بعد ان مساجد میں سے کسی مسجد کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس
کے ہر ہر قدم پر اللہ تعالی اس کیلئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ، اس کے بدلے میں ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کی ایک برائی کو مٹا دیتا ہے ۔ اور ہم ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ) دیکھتے تھے کہ باجماعت نماز سے صرف وہ منافق پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا ۔ اور ایک شخص کو مسجد میں باجماعت نماز کیلئے اس حالت میں لایا جاتا تھا کہ اس نے دو آدمیوں کے درمیان ان کے کندھوں کا سہارا لیا ہوا ہوتا ، یہاں تک کہ اسے صف میں لا کھڑا کیا جاتا ۔ ‘‘
اِس حدیث سے معلوم ہواکہ مساجد میں باجماعت نماز سے پیچھے رہنا نفاق کی علامت ہے ۔ لہذا مسلمانو ! اِس سلسلے میں قطعا سستی نہ کیا کرو اور مساجد میں ہی باجماعت نماز ادا کیا کرو ۔
مساجد میں باجماعت نماز ادا نہ کرنا کتنا بڑا گناہ ہے ! اِس کا اندازہ آپ اِس بات سے کر سکتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں باجماعت نماز ادا نہ کرنے والے لوگوں کے گھروں کو اُن سمیت آگ لگانے کا ارادہ کیا تھا۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو بعض نمازوں میں نہ پایا تو آپ نے فرمایا : ( لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا یُّصَلِّی بِالنَّاسِ ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ یَّتَخَلَّفُونَ عَنْہَا ، فَآمُرَ بِہِمْ فَیُحَرِّقُوا عَلَیْہِمْ بِحُزَمِ الْحَطَبِ بُیُوتَہُمْ ) [ البخاری : ۶۴۴ ، مسلم : ۶۵۱ ]
’’ میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں ، پھر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو نماز پڑھنے نہیں آتے ، تو اُن سمیت ان کے گھروں کو ایندھن کی گٹھڑیوں کے ساتھ آگ لگانے کا حکم جاری کر دوں ۔ ‘‘
مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے فضائل
محترم حضرات ! مساجد میں با جماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت تو آپ نے معلوم کر لی ۔ اب یہ بھی جان لیجئے کہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی فضیلت کتنی زیادہ ہے !
a حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِیْ جَمَاعَۃٍ تَزِیْدُ عَلیٰ صَلاَتِہٖ فِیْ بَیْتِہٖ وَصَلاَتِہٖ فِیْ سُوْقِہٖ بِضْعًا وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً ، وَذَلِکَ أَنَّ أَحَدَہُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ ، ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ ، لاَ یَنْہَزُہُ إِلَّا الصَّلَاۃُ ، لَا یُرِیْدُ إِلَّا الصَّلَاۃَ ، فَلَمْ یَخْطُ خُطْوَۃً إِلَّا رُفِعَ لَہُ بِہَا دَرَجَۃٌ ، وَحُطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِیْئَۃٌ حَتّٰی یَدْخُلَ الْمَسْجِدَ ، فَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ کَانَ فِی الصَّلاَۃِ مَا کَانَتِ الصَّلَاۃُ
تَحْبِسُہُ ، وَالْمَلاَئِکَۃُ یُصَلُّوْنَ عَلیٰ أَحَدِکُمْ مَادَامَ فِیْ مَجْلِسِہِ الَّذِیْ صَلّٰی فِیْہِ ، یَقُوْلُوْنَ : اَللّٰہُمَّ ارْحَمْہُ ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ ، اَللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیْہِ ، مَا لَمْ یُؤْذِ فِیْہِ ، مَا لَمْ یُحْدِثْ فِیْہِ) [ البخاری : ۲۱۱۹ ، مسلم : ۶۴۹]
’’ آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب اُس نماز سے بیس گناسے زیادہ بڑھ جاتا ہے جسے وہ گھر میں یا بازار میں اکیلے پڑھے ۔ اور یہ اس طرح کہ جب کوئی شخص اچھی طرح سے وضو کرے ، پھر مسجد میں صرف نماز پڑھنے کی نیت سے آئے ، نماز کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہ ہو تو اس کے ایک ایک قدم پر اس کا ایک درجہ بلند اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے ۔ پھرجب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے وہ ایسے ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو۔اور وہ جب تک اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے فرشتے اس کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : اے اللہ! اس پر رحم فرما ۔ اے اللہ! اس کی مغفرت فرما ۔ اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما ۔ وہ بدستور اسی طرح دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ کسی کو اذیت نہ دے یا اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے ۔ ‘‘
اِس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے متعدد فضائل ذکر فرمائے ہیں :
1. مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا اکیلئے نماز پڑھنے سے بیس گناسے زیادہ ( ستائیس گنا ) افضل ہے ۔
2. مسجد کی طرف آتے ہوئے ہر قدم پر ایک درجہ بلند اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے ۔
3. جب تک وہ مسجد میں نماز کیلئے بیٹھا رہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو ۔
4. نماز کے بعد جب تک وہ اپنی جگہ پہ بیٹھا رہے فرشتے اُس کیلئے مسلسل دعائے مغفرت ودعائے رحمت کرتے رہتے ہیں ۔
یہ تمام فضائل تبھی نصیب ہو سکتے ہیں جب آپ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کیلئے آئیں گے ۔
2. حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جس کا گھر میرے علم کے مطابق مسجد سے سب سے زیادہ دور تھا لیکن وہ ایک نماز سے بھی پیچھے نہیں رہتا تھا۔ اسے کہا گیا کہ اگر تم گدھا خرید لیتے تو کم از کم اندھیرے میں اور سخت گرمی کے وقت اس پر سوار ہو کر آتے ! تو اس نے کہا : مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ میرا گھر مسجد کے قریب ہو کیونکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا مسجد کی طرف آنا اور پھر اپنے گھر والوں کے پاس واپس لوٹنا دونوں اللہ کے ہاں لکھے جائیں ۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( قَدْ جَمَعَ اللّٰہُ لَکَ ذَلِکَ کُلَّہُ ) ’’ اللہ تعالی نے تمھارے لئے یہ دونوں چیزیں جمع کردی ہیں ۔ ‘‘ [ مسلم : ۲۴۱ ]
3. حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسجد کے ارد گرد کچھ جگہیں خالی ہوئیں تو بنو سلمہ نے ان میں منتقل
ہونے کا ارادہ کیا تاکہ وہ مسجد کے قریب آ جائیں ۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے بنو سلمہ سے کہا : ’’ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونا چاہتے ہو ؟ ‘‘ انھوں نے کہا : جی ہاں ، ہم یہ ارادہ کر چکے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( یَا بَنِی سَلَمَۃَ ! دِیَارَکُمْ تُکْتَبُ آثَارُکُمْ ، تُکْتَبُ آثَارُکُمْ ) [ مسلم : ۶۶۵]
’’ اے بنو سلمہ ! تم اپنے گھروں میں ہی رہو ۔ کیونکہ تمھارا آنا جانا لکھا جا رہا ہے ۔ تمھارے آنے جانے کے نشانات محفوظ کئے جار ہے ہیں ۔ ‘‘
4. بہت سارے فضائل ایسے ہیں جو آپ کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کئے بغیر نصیب نہیں ہو سکتے ۔ مثلا :
1. حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ صَلّٰی الْفَجْرَ فِیْ جَمَاعَۃٍ ، ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُ اللّٰہَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ،کَانَتْ لَہُ کَأَجْرِ حَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ ) [ الترمذی : ۵۸۶ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ جس شخص نے نمازِ فجر باجماعت ادا کی ، پھر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا ، پھر دو رکعتیں پڑھیں تو اسے یقینی طور پر مکمل حج وعمرہ کا ثواب ملے گا ۔ ‘‘
یہ فضیلت آپ کو تبھی نصیب ہو سکتی ہے جب آپ نماز فجر مسجد میں باجماعت ادا کریں گے ۔
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ أَرْبَعِیْنَ یَومًا فِی جَمَاعَۃٍ یُدْرِکُ التَّکْبِیْرَۃَ الْأُوْلٰی کُتِبَ لَہُ بَرَائَ تَانِ : بَرَائَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ وَبَرَائَ ۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ ) [ الترمذی : ۲۴۱۔ وحسنہ الألبانی ]
’’ جو شخص اللہ کی رضا کیلئے چالیس دن اِس طرح باجماعت نماز پڑھے کہ تکبیر اولی بھی فوت نہ ہو تو (اللہ تعالی کی طرف سے ) اس کیلئے دو چیزوں سے براء ت لکھ دی جاتی ہے : جہنم کی آگ سے اور نفاق سے۔ ‘‘
یہ اور اِس طرح کے دیگر بہت سارے فضائل حاصل کرنے کے مواقع آپ کو کب ملیں گے ؟ جب آپ مساجد میں باجماعت نماز ادا کریں گے ۔
قرآن کی تعلیم حاصل کرنا
مساجد کو آباد کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تو ان میں باجماعت نماز ادا کرنا ہے ۔ تاہم نمازوں کے علاوہ انھیں آباد کرنے کا ایک اور ذریعہ ان میں حلقاتِ قرآن قائم کرنا بھی ہے ۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم ’ صفہ ‘ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا :’’ تم میں سے کون ہے جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ ہر روز صبح سویرے ’ بطحان‘ یا ’عقیق ‘ میں جائے ، پھروہاں سے دو موٹی تازی اونٹنیاں بغیر کسی گناہ اور قطع رحمی کے لے آئے ؟ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم سب یہ پسند کرتے ہیں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( أَفَلَا یَغْدُو أَحَدُکُمْ إِلَی الْمَسْجِدِ فَیَعْلَمَ أَوْ یَقْرَأَ آیَتَیْنِ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ خَیْرٌ لَہُ مِنْ نَاقَتَیْنِ ، وَثَلاَثٌ خَیْرٌ لَہُ مِنْ ثَلاَثٍ ، وَأَرْبَعٌ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَرْبَعٍ ، وَمِنْ أَعْدَادِہِنَّ مِنَ الْإِبِلِ ) [ مسلم : ۸۰۳]
’’ کیا تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے مسجد میں نہیں جاتا جہاں وہ کتاب اللہ کی دو آیات کا علم حاصل کرے یا ان کی تلاوت کرے ،یہ اس کیلئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے ۔ ا ور تین آیات تین اونٹنیوں سے اور چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ پھر اسی طرح ہر آیت ایک ایک اونٹ سے بہتر ہوگی ۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
( مَا اجْتَمَعَ قَومٌ فِی بَیْتٍ مِّنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُونَہُ بَیْنَہُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہُ ) [ مسلم :۲۶۹۹]
’’ جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور آپس میں ایک دوسرے کو اس کی تعلیم دیتے ہیں تو ان پر سکونِ قلب نازل ہوتا ہے ، رحمتِ باری تعالیٰ انھیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ، انھیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا ہے۔‘‘
دروسِ قرآن وحدیث کا اہتمام کرنا
مساجد کی آبادکاری اور ان کی رونقوں میں اضافے کا ایک اور ذریعہ ہے ان میں دروسِ قرآن وحدیث کا اہتمام کرنا اور انھیں علومِ اسلامیہ کی نشر واشاعت کا مرکز بنانا۔
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں بیٹھے ہوئے چند لوگوں کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ انھوں نے کہا :
( جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللّٰہ ) ’’ ہم یہاں بیٹھے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہے ہیں ۔‘‘
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم تم صرف اسی لئے بیٹھے ہو ؟
انھوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم صرف اسی لئے بیٹھے ہیں ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا :خبردار ! میں نے تم سے حلف اس لئے نہیں لیا کہ میں تمہیں جھوٹا سمجھتا ہوں ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کچھ لوگوں کو مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا تو آپ نے پوچھا : تم کیوں بیٹھے ہو؟ انھوں نے کہا : ( جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللّٰہَ وَنَحْمَدُہُ عَلَی مَا ہَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ بِہِ عَلَیْنَا)
’’ ہم یہاں بیٹھے اللہ تعالیٰ کو یاد کر رہے ہیں اور اس کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت دے کر ہم پہ احسان فرمایا ہے ۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم تم صرف اسی لئے بیٹھے ہو ؟
انھوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم صرف اسی لئے بیٹھے ہیں ۔
تو آپ نے فرمایا : ( أَمَا إِنِّی لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُہْمَۃً لَّکُمْ ، وَلٰکِنَّہُ أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَأَخْبَرَنِی أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُبَاہِیْ بِکُمُ الْمَلاَئِکَۃَ ) [ مسلم : ۲۷۰۱ ]
’’ یاد رکھنا ! میں نے تم سے حلف اس لئے نہیں لیا کہ میں تمہیں جھوٹا سمجھتا ہوں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے جنھوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کر رہا ہے ۔ ‘‘
اور ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ کے ایک بازار میں گئے اور بازار والوں کو مخاطب کرکے فرمایا :
آپ کو کس چیز نے عاجز کیا ہے ؟
انھوں نے کہا : کس چیز سے ؟
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت تقسیم ہو رہی ہے اور تم یہاں ہو ؟ تم جاکر اپنا حصہ کیوں نہیں وصول کرتے ؟
انھوں نے کہا : کہاں ہے وہ ؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مسجد میں
چنانچہ وہ جلدی سے مسجد کی طرف چلے گئے لیکن خود ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وہیں رہے۔
جب وہ لوگ واپس لوٹے تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا :کیا ہوا ؟
انھوں نے کہا : ابو ہریرہ ! ہم مسجد کے اندر گئے لیکن ہمیں تواس میں کوئی چیز تقسیم ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی !
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تم نے مسجد میں کسی کو دیکھا بھی ؟
انھوں نے کہا : ہاں ، کچھ لوگوں کو ہم نے دیکھا جو نماز پڑھ رہے تھے ، کچھ لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اور کچھ لوگ حلال وحرام کے بارے میں مذاکرہ کررہے تھے ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : افسوس ہے تم پر، وہی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت ہے ۔ [ الطبرانی ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب : ۸۳ ]
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو مساجد سے گہری محبت کرنے ، انھیں آباد رکھنے اور ان میں باجماعت نماز ادا کرنے کی توفیق دے ۔
دوسرا خطبہ
حضرات محترم ! مسجد کی اہمیت اور اس کے مختلف فضائل سننے کے بعد اب مسجد کے آداب بھی جان لیجئے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان آداب کا بھر پور خیال رکھے جو ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کررہے ہیں ۔
مسجد کے آداب
1. مسجد کی صفائی
آدابِ مسجد میں سب سے پہلے یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر کے بعد اسے صاف ستھرا رکھنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ مسجد اللہ کا گھر ہے ۔ جب ہم اپنے گھروں کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں تو اللہ کے گھر اِس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انھیں صاف ستھرا رکھا جائے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
( أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِبِنَائِ الْمَسَاجِدِ فِی الدُّوْرِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَیَّبَ) [ ابوداؤد : ۴۵۵ ، ترمذی : ۵۹۴۔ وصححہ الألبانی ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں تعمیر کرنے اور انھیں صاف وستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا ۔ ‘‘
مساجد کی صفائی بہت ہی عظیم عمل ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک کالے رنگ کی عورت مسجد کی صفائی کرتی تھی ۔ پھر اچانک اس نے مسجد میں آنا چھوڑ دیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ پاکر اس کے بارے میں پوچھا ۔ چنانچہ لوگوں نے
بتایا کہ وہ تو فوت ہو چکی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( أَفَلَا کُنْتُمْ آذَنْتُمُونِی ؟ ) ’’ تم نے مجھے خبر کیوں نہ دی؟‘‘
تو لوگوں نے گویا اسے حقیر تصور کیا ۔
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( دُلُّوْنِی عَلٰی قَبْرِہَا) ’’ مجھے اس کی قبر کے بارے میں بتاؤ ، کہاں ہے؟‘‘
لوگوں نے اس کے بارے میں آپ کو آگاہ کیا تو آپ اس کی قبر پر گئے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔ [ بخاری : ۱۳۳۷ ، مسلم : ۹۵۶]
یہ حدیث اِس بات کی دلیل ہے کہ مسجد کی صفائی کرنا نہایت ہی عظیم عمل ہے کہ جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کالے رنگ کی عورت ( جس کو معاشرے میں کوئی خاص اہمیت نہ دی جاتی تھی ) اس کے متعلق خصوصی طور پر دریافت کیا ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی موت کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی قبر پہ جا کر اس کی نماز جنازہ ادا کی ۔
مسجد کو ہر قسم کی گندگی سے پاک رکھنا ضروری ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع کردیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس کی طرف لپکے اور کہا : ٹھہر جاؤ ، ٹھہر جاؤ ۔ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( لَا تُزْرِمُوہُ دَعُوہُ ) ’’ اسے مت کاٹو اور چھوڑ دو ۔ ‘‘
چنانچہ انھوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ پیشاب سے فراغ ہو گیا ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلاکر فرمایا : ( إِنَّ ہٰذِہِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَیْیٍٔ مِّنْ ہٰذَا الْبَولِ وَلَا الْقَذَرِ ، إِنَّمَا ہِیَ لِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَالصَّلَاۃِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ ) [ مسلم : ۲۸۵]
’’ یہ مساجد یقینا اِس پیشاب اور گندگی کیلئے نہیں بنائی گئی ہیں ۔ بلکہ یہ تو صرف اللہ عز وجل کا ذکر کرنے، نمازپڑھنے اور تلاوتِ قرآن کیلئے بنائی گئی ہیں ۔ ‘‘
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول منگوا کر اس کے پیشاب پر بہا دیا ۔
2. مسجد میں بد بودار چیز کھا کر آنا منع ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ أَکَلَ ثَوْمًا أَوْ بَصَلًا فَلْیَعْتَزِلْنَا ، أَوْ لِیَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا ، وَلْیَقْعُدْ فِی بَیْتِہِ) [ البخاری : ۸۵۵ ، مسلم : ۵۶۴]
’’ جو شخص لسن یا پیاز کھائے تو وہ ہم سے دور رہے ( یا آپ نے فرمایا ) وہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہے ۔ ‘‘
دوسری روایت میں ہے ( مَنْ أَکَلَ الْبَصَلَ وَالثَّوْمَ وَالْکُرَّاثَ فَلَا یَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ بَنُو آدَمَ ) [ مسلم : ۵۶۴]
’’ جو شخص پیاز ، لسن اور کڑی کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب تک نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو بھی ہر اُس چیز سے اذیت پہنچتی ہے جس سے انسانوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ ‘‘
3. مسجد میں صاف ستھرا لباس پہن کر آنا
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ [الأعراف:31]
’’ اے آدم کی اولاد ! تم ہر مسجد کی طرف آتے ہوئے اپنے آپ کوخوب آراستہ کرلیا کرو ۔ ‘‘
یعنی وہ لباس زیب ِ تن کر لیا کرو جو تمھیں خوبصورت بنائے اور زینت بخشے ۔ لہذا بد بو دار یا گندا لباس پہن کر نماز ادا کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔ اسی طرح مکمل لباس پہنے بغیر نماز پڑھنا بھی درست نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خصوصا گرمی کے موسم میں صرف چادر ( لنگی ) اور بنیان ہی میں نماز پڑھ لیتے ہیں ! ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اِس حالت میں کسی بڑے آدمی کے سامنے جانا گوارا کرتے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر اللہ جو کہ بادشاہت کا مالک ہے اس کے سامنے اِس حالت میں جانا کیوں گوارا کر لیتے ہیں ؟
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیَلْبَسْ ثَوْبَیْہِ فَإِنَّ اللّٰہَ أَحَقُّ أَن یُّتَزَیَّنَ لَہُ ) [ أخرجہ البیہقی وصححہ الألبانی فی الثمر المستطاب ج ۱ ص ۲۸۶]
’’ تم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھنا چاہے تو اپنے دونوں کپڑے پہن لے کیونکہ اللہ تعالی اِس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کیلئے خوبصورتی اختیار کی جائے ۔ ‘‘
4. مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے وقت مسنون طریقہ اختیار کرنا
مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندر رکھنا اور نکلتے وقت پہلے بایاں پاؤں باہررکھناچاہئے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ جب تم مسجد میں داخل ہونے لگو توپہلے دایاں پاؤں اندر رکھو اور باہر نکلنے لگو تو پہلے بایاں پاؤں باہر رکھو ۔‘‘ [ الحاکم : صحیح علی شرط مسلم ، ووافقہ الذہبی ]
5. مسجد میں داخل ہوتے وقت اور باہر نکلتے وقت مسنون دعا پڑھنا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیُسَلِّمْ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ لِیَقُلْ : اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ، وَإِذَا خَرَجَ فَلْیَقُلْ : اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ)
’’ تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہوتو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے ، پھر یہ دعا پڑھے :
(اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ) ’’ اے اللہ ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔‘‘
اور جب مسجد سے باہر نکلنے لگے تو یہ دعا پڑھے : (اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ)
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔‘‘ [ ابو داؤد : ۴۶۵۔ وصححہ الألبانی]
6. تحیۃ المسجد پڑھنا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلَا یَجْلِسْ حَتّٰی یُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ) [ بخاری : ۱۱۶۳]
’’ تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہو تواس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعات نماز ادا نہ کرلے۔‘‘
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھے بغیر مسجد میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ تحیۃ المسجد پڑھے بغیر مسجد میں بیٹھنا ممنوع ہے ۔ تاہم یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہوکر جو بھی نماز پڑھی جائے وہی اُس کیلئے تحیۃ المسجد ہوتی ہے ۔ مثلا کوئی شخص مسجد میں داخل ہو اور فرض نماز کی جماعت ہو رہی ہو یا اقامت ہونے ہی والی ہو ، پھر وہ فرض نماز میں مل جائے تو وہی نماز اُس کیلئے تحیۃ المسجد
ہوگی ۔ اور اگر وہ داخل ہو کر فرض نماز سے پہلے کی سنتیں پڑھ لے تو وہی سنتیں اُس کیلئے تحیۃ المسجد ہونگی ۔ اور اگر وہ کسی ایسے وقت میں مسجد میں داخل ہوکہ جب فرض نماز کا وقت نہیں ہے اور وہ مسجد میں بیٹھنا چاہتا ہے تو اِس حالت میں اسے تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنا ہونگی ۔
خاص طور پر جب وہ نماز جمعہ کیلئے آئے اور امام کا خطبہ شروع ہو چکا ہو تو اسے تحیۃ المسجد پڑھ کر ہی بیٹھنا ہو گا۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
( دَخَلَ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالنَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم یَخْطُبُ فَقَالَ : صَلَّیْتَ ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ ) [بخاری : ۹۳۱ ، مسلم : ۸۷۵ ]
یعنی ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا تو اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا تم نے نماز پڑھی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اٹھو اور دو رکعت نماز پڑھو ۔‘‘
وفی روایۃ لمسلم : ( جَائَ سُلَیْکٌ اَلْغَطْفَانِیُّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَخْطُبُ ، فَجَلَسَ ، فَقَالَ لَہُ : یَا سُلَیْکُ ! قُمْ ، فَارْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، وَتَجَوَّزْ فِیْہِمَا ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا جَائَ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ ، وَلْیَتَجَوَّزْ فِیْہِمَا ) [ مسلم : ۸۷۵ ]
یعنی حضرت سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ جمعہ کے روز اس وقت آئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ وہ آکر بیٹھ گئے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے سلیک ! کھڑے ہو جاؤ اور دو ہلکی پھلکی رکعات ادا کرو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص جب جمعہ کے دن اس وقت آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعت نماز ادا کرے اور انہیں ہلکا پھلکا پڑھے۔ ‘‘
7. سترہ کے سامنے نمازادا کرنا
مسجد میں نمازی کو چاہئے کہ وہ سترہ کے سامنے کھڑا ہو کر نماز ادا کرے ۔ مثلا دیوار یا ستون یا کرسی وغیرہ کے سامنے ، حتی کہ اگر کوئی اور چیز نہ ہو تو سامنے جو نمازی بیٹھا ہو یا نماز ادا کر رہا ہو تواسے بھی سترہ بنایا جا سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیُصَلِّ إِلٰی سُتْرَۃٍ وَلْیَدْنُ مِنْہَا ) [ ابو داؤد : ۶۹۸۔ وصححہ الألبانی ]
’’ تم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھنا چاہے تو سترہ کی طرف پڑھے اور اس کے قریب ہو جائے۔ ‘‘
ابن ماجہ کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے :
( وَلَا یَدَعْ أَحَدًا یَّمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ یَّمُرُّ فَلْیُقَاتِلْہُ فَإِنَّہُ شَیْطَانٌ ) [ ابن ماجہ : ۹۵۴۔ وصححہ الألبانی ]
’’ اور اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے۔ اگر کوئی گذرنا چاہے تو وہ اسے سختی سے پیچھے دھکیل دے کیونکہ وہ شیطان ہے ۔‘‘
8. نمازی کے سامنے سے گذرنا ممنوع ہے
نمازی کے سامنے سے گذرنا قطعا درست نہیں ہے ۔ ہاں اگر نمازی نے سترہ رکھا ہوا ہو اور سترہ کے اُدھر سے گذرنا ممکن ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( لَوْ یَعْلَمُ الْمَارُّ بَیْنَ یَدَیِ الْمُصَلِّی مَاذَا عَلَیْہِ لَکَانَ أَن یَّقِفَ أَرْبَعِیْنَ خَیْرٌ لَّہُ مِنْ أَن یَّمُرَّ بَیْنَ یَدَیْہِ ) [ بخاری : ۵۱۰ ، مسلم : ۵۰۷]
’’ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو گزرنے کا گناہ معلوم ہوجائے تو چالیس ( سال یا مہینے یا دن) تک اس کا کھڑا رہنا ایک قدم آگے بڑھنے سے اس کیلئے بہترہوتا ۔‘‘
9. خواتین کو خوشبولگا کر مسجد میں نہیں آنا چاہئے
اگرچہ خواتین مسجد میں آکر نماز پڑھ سکتی ہیں تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ( وَبُیُوتُہُنَّ خَیْرٌ لَّہُنَّ ) ’’ ان کے گھر ان کیلئے بہتر ہیں ۔ ‘‘ [ ابو داؤد : ۵۶۷۔ وصححہ الألبانی ]
یعنی اگر وہ گھروں میں ہی نماز پڑھیں تو یہ ان کیلئے زیادہ اجروثواب کا باعث ہے ۔
اگروہ مساجد میں آکر نماز پڑھنا چاہیں توانھیں کچھ شرائط کی پابندی کرنا ہوگی ۔
پہلی یہ کہ مساجد میں ان کیلئے باپردہ انتظام ہو ، دوسری یہ کہ وہ خود مکمل پردہ کرکے آئیں اور تیسری یہ کہ وہ خوشبو لگاکر مساجد میں نہ آئیں ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ أَصَابَتْ بَخُوْرًا فَلَا تَشْہَدْ مَعَنَا الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ ) [ مسلم : ۴۴۴]
’’ جو خاتون خوشبو استعمال کرے تو وہ ہم ( مردوں کے ساتھ مسجد میں ) نماز عشاء پڑھنے نہ آئے ۔ ‘‘
10. مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرنا حرام ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ سَمِعَ رَجُلًا یَنْشُدُ ضَالَّۃً فِی الْمَسْجِدِ فَلْیَقُلْ : لَا رَدَّہَا اللّٰہُ
عَلَیْکَ ، فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِہٰذَا ) [ مسلم : ۵۶۸]
’’ جو شخص کسی آدمی کو مسجد میں گمشدہ چیز کا ااعلان کرتے ہوئے سنے تو وہ کہے : اللہ تعالی اس چیز کو تمھارے پاس نہ لوٹائے ۔ کیونکہ مسجدیں اِس لئے نہیں بنائی گئیں ۔ ‘‘
11. مسجد میں خرید وفروخت ممنوع ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( إِذَا رَأَیْتُمْ مَّن یَّبِیْعُ أَوْ یَبْتَاعُ فِی الْمَسْجِدِ فَقُولُوْا : لَا أَرْبَحَ اللّٰہُ تِجَارَتَکَ ) [ ترمذی : ۱۳۲۱ ۔ وصححہ الألبانی ]
’’ جب تم مسجد میں کسی کو کوئی چیز فروخت کرتے ہوئے یا خرید کرتے ہوئے دیکھو تو کہو : اللہ تمھاری تجارت میں کوئی برکت نہ ڈالے ۔ ‘‘
12. مسجد میں آواز بلند کرنا درست نہیں ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے بعض لوگوں کو اونچی آواز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ۔ چنانچہ آپ نے پردہ ہٹایا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا :
( أَلَا إِنَّ کُلَّکُمْ مُنَاجٍ رَبَّہُ فَلَا یُؤْذِیَنَّ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ، وَلَا یَرْفَعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الْقِرَائَ ۃِ ) [ابو داؤد : ۱۳۳۲۔ وصححہ الألبانی ]
’’ خبردار ! تم میں سے ہر شخص اپنے رب سے سرگوشی کرنے والا ہے ۔ لہذا تم میں سے کوئی کسی کو اذیت نہ پہنچائے اور نہ ہی تلاوت قرآن میں کوئی کسی پر اپنی آواز کو بلند کرے ۔ ‘‘
13. اذان ہونے کے بعد مسجد سے نکل کر چلے جانا درست نہیں ہے
ابو الشعثاء بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے تھے ، جب اذان ہوئی تو ایک آدمی چلتا بنا ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسے بغور دیکھنے لگے ۔ جب وہ مسجد سے نکل کر چلا گیا تو انھوں نے فرمایا :
( أَمَّا ہٰذَا فَقَدْ عَصَی أَبَا الْقَاسِمِ صلی اللہ علیہ وسلم ) [ مسلم : ۶۵۵ ]
’’ رہا یہ آدمی تو اِس نے ابو القاسم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے ۔ ‘‘
14. نماز نفل گھروں میں ادا کرنا افضل ہے
نماز نفل ( جس میں فرض نمازوں سے پہلے یا ان کے بعد کی سنتیں بھی شامل ہیں ) مسجد میں پڑھنے کی بجائے گھر میں پڑھنا افضل ہے ۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( فَصَلُّوْا أَیُّہَا النَّاسُ فِیْ بُیُوْتِکُمْ ، فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلاَۃِ صَلاَۃُ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہٖ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃ ) [ البخاری : ۷۳۱ ]
’’ لوگو ! تم اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو ، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل نماز وہ ہے جسے وہ اپنے گھر میں ادا کرے ، سوائے فرض نماز کے ۔‘‘
اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں : ( فَعَلَیْکُمْ بِالصَّلاَۃِ فِیْ بُیُوْتِکُمْ ، فَإِنَّ خَیْرَ صَلاَۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہٖ إِلاَّ الصَّلاَۃُ الْمَکْتُوْبَۃُ ) مسلم : ۷۸۱ ]
’’ تم اپنے گھروں میں بھی نماز ضرورپڑھا کرو ، کیونکہ آدمی کی بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے ، سوائے فرض نماز کے۔ ‘‘
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( اِجْعَلُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ مِنْ صَلاَتِکُمْ ، وَلاَ تَتَّخِذُوْہَا قُبُوْرًا ) [ البخاری : ۴۳۲ ، مسلم : ۷۷۷ ]
’’ تم کچھ نماز اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور انہیں قبرستان مت بناؤ ۔‘‘
جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( إِذَا قَضیٰ أَحَدُکُمْ الصَّلاَۃَ فِیْ مَسْجِدِہٖ فَلْیَجْعَلْ لِبَیْتِہٖ نَصِیْبًا مِنْ صَلاَتِہٖ ، فَإِنَّ اللّٰہَ جَاعِلٌ فِیْ بَیْتِہٖ مِنْ صَلاَتِہٖ خَیْرًا ) [ مسلم : ۷۷۸ ]
’’ تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں نماز پڑھے تو وہ اپنی نماز میں سے کچھ حصہ اپنے گھر کیلئے بھی رکھے ، کیونکہ گھر میں کچھ نماز ادا کرنے سے اللہ تعالی گھر میں خیر وبھلائی لاتا ہے ۔‘‘
حضرات محترم ! یہ تھے مساجد کے چند ضروری آداب جن کا خیال رکھنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو مساجد سے محبت کرنے اور انھیں آباد کرنے کی توفیق دے ۔