مہمانوں کے حقوق

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ فَانْطَلَقَا ۥ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ ِ۟اسْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ ؕ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا۝۷۷﴾ (الكهف: 77)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں پر ان کا گزر ہوا تو انہوں نے وہاں کے رہنے والوں سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا، اتنے میں ان کو وہاں ایک دیوار ملی جو گرا چاہتی تھی تو اس نے اس کو سیدھا کر دیا موسیٰ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے تو اس پر کچھ اجرت ہی لے لیتے اس پر اس نے کہا کہ یہ وقت ہماری اور آپکی علیحدگی کا ہے۔‘‘
یہ دونوں بزرگ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام ہیں جو ایک بستی میں پہنچ کر وہاں کے لوگوں سے ملے اور چاہا کہ بستی والے مہمان سمجھ کر کھانا کھلائیں۔ طلب کرنے کے باوجود ان بد بختوں نے ان بزرگوں کو کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ یہ دونوں بزرگ واپس ہو رہے تھے کہ راستے میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی انہوں نے اسے مرمت کر کے سیدھا کر دیا مقصد یہ ہے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی نہ کرنے کی وجہ سے قیامت تک کے لیے ان کی مذمت قرآن مجید میں بیان کر دی گئی۔ اس لیے اگر تم اپنے مہمانوں کی عزت و احترام اور خدمت کرو گے تو جب تم ان کے یہاں جاؤ گے تو وہ بھی تمہاری خدمت کریں گے دنیا کا عام دستور یہی ہے لیکن مسلمانوں میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ صفات عالیہ کی تکمیل اور مکارم اخلاق کی بلندی کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ مہمان کی عزت و احترام کے ساتھ خاطر تواضع کی جائے۔
مہمان کی خدمت اتنی اہم ہے کہ اس کو ایمان کا جزو بتایا گیا ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكُرِمْ ضَيْفَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوِ لْيَصْمُتْ)[1]
’’جو شخص خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اپنے قرابت داروں کے حقوق ادا کرے اور جو اللہ اور قیامت کر سچا جانتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ بھلی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔“
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مہمانوں کی عزت و خدمت کرنا ایمان کامل کا ایک جزو ہے مہمانوں کی عزت و خدمت نہ کرنے والے پورے مومن نہیں۔ مہمان کا بہت بڑا حق ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
(وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا )[2]
’’یقینا تیرے مہمان کا تجھ پر بڑا حق ہے۔“
اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم مہمانوں کی بڑی خدمت کرتے تھے بعض دفعہ خود نہیں کھاتے تھے مگر اپنے مہمانوں کو ضرور کھلاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰى أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ (سورة الحشر: 9)
’’وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، گو وہ خود ہی بھو کے کیوں نہ ہوں۔‘‘
بخاري شریف میں یہ روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے یہاں ایک مہمان پہنچ گیا انہوں نے اپنے بال بچوں کا کھانا ان کو کھلا دیا اور بال بچوں سمیت بھوکے سو رہے اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف میں یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاري ومسلم)
خود انبیاء علیہم السلام اپنے مہمانوں کی بڑی عزت اور قدر کرتے تھے۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا بیان قرآن مجید میں کئی جگہ پر آیا ہے۔ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
﴿ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ۝۲۴ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَۚ۝۲۵ فَرَاغَ اِلٰۤی اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍۙ۝۲۶ فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَؗ۝۲۷ فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ ؕ وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ﴾ (الذاريات:(24-28
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، کتاب الادب، باب اكرام الضيف و خدمته اياه بنفسه۔
[2] بخاري، کتاب الصوم، باب من الجسم في الصوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اے ہمارے نبی! کیا آپ کے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے کہ جب یہ لوگ ان کے پاس آئے تو سب سے پہلے سلام کیا ابراہیم نے ان کے سلام کا جواب دیا اور اپنے دل میں سوچنے لگے یہ اجنبی لوگ ہیں کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے پھر جلدی سے اپنے گھر جا کر موٹے تازے بچھڑے کا گوشت بھنوا کر مہمانوں کے سامنے رکھا (ان مہمانوں نے کھانے میں تامل کیا) تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا: آپ لوگ کیوں نہیں کھاتے؟ (اس پر بھی انہوں نے نہ کھایا ) تب ابراہیم علیئے اپنے جی میں ڈرے (ان کی یہ حالت دیکھ کر ) مہمانوں نے کہا آپ کسی قسم کا اندیشہ نہ کیجئے (ہم لوگ فرشتے ہیں، کھاتے پیتے نہیں ہیں ہم آپ کو ایک ہوشیار ذی علم فرزند کی خوش خبری دینے آئے ہیں چنانچہ) انہوں نے ذی علم لڑکے کی خوش خبری دے دی۔‘‘
یہ مہمان فرشتے تھے جو انسانی شکل میں آئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں انسان سمجھ کر ضیافت کا حق ادا فرمایا۔ اس واقعہ سے مہمان اور میزبان کے آداب سمجھ لینے چاہئیں۔ جو کہ یہ ہیں:
1۔ مہمان اور میزبان میں کلام کی ابتداء باہمی سلام سے ہونی چاہئے جیسا کہ ان مہمانوں (فرشتوں) نے کیا تھا کہ آتے ہی پہلے السلام علیکم کہا اور نبی صلی اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(السَّلَامُ قَبلَ الْكَلَامِ.) (ابن عدی)
’’گفتگو سے پہلے سلام ہونا چاہئے۔‘‘
2۔ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورًا اس کے کھانے پینے کا انتظام کرنا چاہیے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سلام کے بعد فورًا کھانے کا سامان مہیا کیا۔ حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ اور قیامت کو سچا مانتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کا جائز حق (حق مہمانی) عزت کے ساتھ ادا کرے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جائز حق کیا ہے؟ فرمایا ایک دن ایک رات اور مہمانوں کی مہمانی تین دن تک ہے۔ اس کے بعد مہمان کا حق نہیں بلکہ صدقہ ہوگا۔ (بخاري، مسند احمد) 3
۔ مہمانوں کے کھانے پینے کا سامان پوشیدہ طور پر ان کی نگاہ سے بچا کر کرنا چاہیے کیونکہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ شاید از راہ تکلف اس سے روکیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام چپکے سے کھانے پینے کا انتظام کرنے چلے گئے۔ ’’فزاع‘‘ کے معنی ہی ہیں کہ چپکے سے مہمانوں سے جدا ہو کر گھر چلے گئے۔
4۔ مہمانوں کی نشست و برخاست کے لیے اہل و عیال سے علیحدہ ایک جگہ ہونی چاہیے تاکہ دنوں کو تكليف نہ ہو۔ فراغ الی اہلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو مہمان خانہ میں بیٹھا دیا جو اہل وعیال سے الگ تھا۔
5۔ کسی بہانے سے تھوڑی دیر کے لیے مہمانوں سے الگ ہو جانا چاہیے تاکہ ان کو آرام کرنے یا دوسری ضروریات سے فارغ ہونے میں تکلیف نہ ہو اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کھانے پینے کا سامان کرنے کے لیے ان سے الگ ہو گئے تھے جو ﴿فراغ إلى أهلِهِ﴾ سے معلوم ہوتا ہے۔
6۔ کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہئے کہ آپ لوگ کھانا کھائیے۔ ہاں پیش کرنے پر بھی اگر وہ نہ کھائیں تو یوں کہہ سکتے ہو کہ آپ لوگ کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا۔
7۔ مہمانوں کے کھانے سے مسرور اور نہ کھانے سے مغموم ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں مگر ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ مہمان نہ کھائے یا کم کھائے تا کہ وہ کھانا ان کے اہل وعیال کے کام آئے۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بخیل نہ تھے اس لیے جب ان لوگوں نے کھانے سے انکار کر دیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو ناپسند کیا اور ان کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہوا کہ یہ مہمان بن کر دشمن تو نہیں آ گئے ہیں۔
8۔ نہ کھانے کی صورت میں مہمانوں کو عمدہ الفاظ میں معقول عذر کر دینا چاہئے تا کہ میزبان کی دل شکنی نہ ہو۔ اس لیے فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ہم لوگ فرشتے ہیں ہم کھاتے پیتے نہیں ہیں ہمارے دکھانے پینے سے آپ خوفزدہ یا رنجیدہ نہ ہوں۔
9۔ معقول عذر کے بعد میزبان اپنے مہمان کو کھانے پر مجبور نہ کرے بلکہ اس کے معقول عذر کر قبول کر کے خاموش ہو جائے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا کہ فرشتوں کے عذر کے بعد آپ نے ان کے کھانے پر اصرار نہیں کیا۔
10۔ کھانے پینے اور دیگر ضروریات سے فراغت کے بعد جب اطمینان ہو جائے تو مہمان سے آنے کی تکلیف گوارا کرنے کی وجہ دریافت کی جائے کہ کیسے اور کسی کام کے لیے آنا ہوا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے کھانوں سے فرمایا۔
﴿فَمَا خَطْبُكُم أَيُّهَا الْمُرْسِلُوْنَ﴾ (الذاريات: 31)
’’آپ لوگ کس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں۔‘‘
11۔ مہمانوں کی دل جوئی کے لیے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنا چاہیے اگر رات میں عشاء کے بعد گفتگو کا موقع ہو تو اس وقت بھی ان سے گفتگو کر سکتے ہیں اور بے کار بات چیت کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس مکالمہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بقدر ضرورت بامقصد گفتگو فرمائی۔ بیجا باتوں میں ان کو نہیں الجھایا۔
12۔ مہمانوں کی تکریم جزوایمان ہے اگر کوئی شخص ان سے اہانت آمیز برتاؤ کرے تو میزبان پر فرض ہے کہ مہمان کی جانب سے مدافعت کرے۔ کیونکہ اس سے خود میزبان کی توہین ہوتی ہے۔ اس لیے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے جب ان معزز مہمانوں کے ساتھ توہین کا برتاؤ کرنا چاہا تو حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو روکا اور فرمایا: ﴿إِنَّ هٰؤُلَاءِ ضَيْفِىْ فَلَا تَفْضَحُوْنَ وَاتَّقُوا اللهَ وَلَا تُخْزُوْنِ﴾ (حجر: 68۔69)
’’یہ میرے معزر مہمان ہیں ان کے بارے میں مجھ کو فضیحت نہ کرو اور خدا سے ڈرو اور مجھ کو رسوا نہ کرو۔‘‘
13۔ مہمان کو بلا ضرورت کسی کے یہاں تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہئے کیونکہ اس سے میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس پر بار پڑے گا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ كَانَ يُؤْمِنْ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضَّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فَمَا كَانَ بَعْدَ ذلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى یُحَرِّجُهُ)[1]
’’جو شخص اللہ اور قیامت کے دن کو سچا جانتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کا جائزہ عزت کے ساتھ ایک دن ایک رات کرے اور مہمان کا حق تین دن ہے اس سے زیادہ ٹھہرے گا تو مہمان صدقہ کھائے گا اور اتنا زیادہ ٹھہرنا اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے میزبان کو تنگی میں ڈال دے۔“
14۔ مہمان کے لیے یہ مناسب ہے کہ بغیر میزبان کی اجازت کے اس کے گھر میں نہ داخل ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤی اَهْلِهَا ﴾ (النور: 27)
’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، كتاب الادب، باب من كان يؤمن باللہ والیوم الاٰخر فلا یؤذ جارہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15۔ میزبان کے یہاں کھانا کھانے کے بعد مہمان اپنے میزبان کے لیے یہ دعا کرے۔
(اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ وَاغْفِرْ لَهُمْ۔ اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَاسْقِ مَنْ سَقَانِيْ)[1]
’’اے اللہ! تو اس چیز میں برکت عطا فرما جو تو نے ان کو دی ہے اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم کر، الہی تو اس کو کھلا، جس نے مجھے کھلایا اور اس کو سیراب کو جس نے مجھے سیراب کیا ہے۔“
اللہ تعالیٰ ہم سب کو مہمانوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔آمین۔
(أقُولُ قَولِى هَذَا وَاسْتَغْفِرُ اللهَ لِى وَ لَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُؤْمِنِينَ، إِنَّهُ تَعَالَى غَفُورٌ رَّحِيمٌ، بَارَكَ اللهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْمَجِيدِ۔ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمُ بالآيَاتِ وَالذِكْرِ الْحَكِيمِ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى رَسُولِهِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: کتاب الاشربة، بابا استحباب وضع النوي