محبت اور براءت کا بیان
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؗ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ ﴾ (سورة الممتحنة آيت:4).
(مسلمانو!) تمہارے لئے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں۔ جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ۔
فرمان الہی ہے: ﴿ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ﴾ (سوره عنکبوت:46)
اور اہل کتاب کے ساتھ بحث مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو، مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۸﴾ (سورة ممتحنة:8)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالی تمہیں نہیں روکتا۔ بلکہ اللہ تعالی تو انصاف کرنے والے سے محبت کرتا ہے۔
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ الله إن أمى قَدِمَتْ عَلَى وَهِيَ رَاغِبَة- أَوْ رَاهِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ نَعمُ (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب باب الهبة و فضلها، باب الهدية للمشركين، صحيح مسلم: كتاب الزكاة، باب فضل النفقة والصدقة على الأقربين والزوج)
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! میری ماں آئی ہے اور وہ دین سے بیزار ہے (دوسری روایتوں میں ہے کہ وہ مشرکہ ہے) کیا میں اس سے سلوک اور احسان کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔
تشریح:
مومنوں سے محبت و دوستی کرنے کو دلاء اور کافروں سے بغض و عناد اور ان سے اور ان کے دین سے براءت کے اظہار کو براء کہتے ہیں۔ بغض و عداوت کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ان پر ظلم و زیادتی کریں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اپنے دل میں ان کے خلاف بغض و عداوت رکھو اور انہیں اپنا ساتھی نہ بناؤ لیکن انہیں تکلیف اور نقصان نہ پہنچاؤ اور نہ ہی ان پر ظلم کرو، اگر وہ سلام کریں تو اس کا جواب دو انہیں نصیحت کرو اور بھلائی کی جانب رہنمائی کر والبتہ سلام میں پہل نہ کرو لیکن اگر ان میں سے کسی نے ظلم کیا تو ان کے ظلم کے بموجب انہیں سزا دو۔
بغض فی اللہ کی وجہ سے ان پر کوئی مسلمان ظلم وزیادتی نہ کرے بلکہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے اور حق کی تعلیم اور اس کی جانب رہنمائی کرنے ممکن ہے کہ اللہ تعالی انہی چیزوں کے ذریعہ انہیں صیح راستے کی طرف ہدایت نصیب فرمادے۔
فوائد:
٭ دل میں کافروں سے دشمنی رکھنا۔
٭ کافروں کی خوشی میں شرکت نہ کرنا۔
٭ کافروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔
٭٭٭٭