محمد صل اللهم بحیثیت مناجات کرنے والے

نبیﷺ دنیا جہان سے بے نیاز ہو کر مکمل یکسوئی سے اپنے مولا و خالق سے دعا کرتے جس میں عبوریت، خشیت اور رقت عیاں ہوتی۔ آپ صرف اس واحد و یکتا رب کو پکارتے جس کے اختیار میں ہر معالمہ ہے۔ ہر امر اس کے سپرد کرتے۔ ہر شکوہ و شکایت اس سے کرتے۔ اس کے ہو کر اس سے سرگوشی کرتے۔ اپنی روح اس کے حوالے کر دیتے۔ اپنی پیشانی اس کے لیے خاک آلود کرتے۔ ایسے محبت کرنے والے کی طرح پکارتے جو اپنے فقر اور مسکینی کا بھی دبے لفظوں میں ذکر کر رہا ہو۔ اللہ واحد و قہار کے ساتھ عجز و انکسار اور تواضع و فرماں برداری کا اظہار کرتے۔ آپ ﷺ اس یقین کے ساتھ مانگتے کہ آپ کا ایک رب ہے جسے آپ پکار رہے ہیں اور ایک ہی معبود ہے جس سے سرگوشی کر رہے ہیں اور وہی اول، آخر ، ظاہر اور باطن ہے۔ جس کو وہ دے، اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس کو وہ نہ دے، اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ مجبور و لا چار کی صرف وہی سنتا ہے۔ اور اس کے سوا کوئی بھی تکلیف دور نہیں کر سکتا۔ غم اور مصائب دور کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ وہی  ملجا و ماویٰ ہے اور اسی سے مدد ملتی ہے اور اس سے امید کی جاسکتی ہے۔ دکھ درد کا اظہار بھی اس کے سامنے کیا جا سکتا ہے۔ وہی مدد کرنے والا ہے اور اسی پر ہی اعتماد اور بھروسا جائز ہے۔ وہ اکیلا کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ وہی کافی ، شافی ، حامی اور حکمرانی کرنے والا ہے۔ لیکی کرنا اور گناہ سے بچنا اس کی توفیق کے بغیر ناممکن ہے۔ پاک ہے وہ جو عظیم معبود اور عزت والا بادشاہ ہے۔

آپﷺ اپنے رب سے دعا کرتے تو اس محبوب ترین بندے اور اللہ جل شانہ کے درمیان سب سے ب سے عظیم مناجات اور خالص دعا ہوتی جو آپ کے سب سے پاک دل اور پاکیز ونفس سے نکلتی، ایسی دعا جو اللہ تعالی پر یقین و اعتماد سے بھر پور ہوتی۔ اس میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسا ہوتا اور اس کے سوا سب سے اظہار براءت ہوتا۔ آپ کو اللہ تعالی کے ہاں موجود نعمتوں کی شدید خواہش ہوتی۔ آپﷺ اس طرح سچے دل سے دعا کرتے کہ پوری توجہ اللہ تعالی کی طرف ہوتی۔ کمال رغبت ، شوق اور حسنِ ظن سے دعا کرتے کہ دل و دماغ پوری محبت سے اللہ تعالٰی کی طرف مائل ہوتا اور یوں اپنے رب سے کمال کا قرب نصیب ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم  ﷺ جو دعا کرتے ، وہ آنکھ جھپکنے سے پہلے قبول ہو جاتی اور موسلا دھار بارش سے بھی زیادہ مؤثر ہوتی۔

نبی ﷺ بہت زیادہ نواز نے والے رحمان کا فضل و کرم مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو آپ کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے۔ جود و کرم کے خزانے آپ پر انڈیل دیے جاتے۔ رضوان الٰہی کی بارش ہوتی۔ قربان جاؤں، آپ اللہ تعالی سے اپنی حاجات کی طلب کے لیے کسی قدر کی سرگوشی کرنے والے تھے ! آپ کسی قدر بہترین دعاء اچھی التجا کرنے والے اور اپنے پروردگار و خالق سے کس قدر خوبصورت انداز سے درخواست کرنے والے تھے ہمارے نبی  ﷺ نے ہمیں تمام مشکلات کا کس قدر عظیم، تیز اور مؤثر حل بتایا ہے اور وہ ہے دعا و مناجات۔

یہ وہ دوا اور علاج ہے جسے تمام انبیاء علیہم السلام اور صالحین نے ہر دور میں مسلسل استعمال کیا اور اپنی مرادیں پانے میں کامیاب ہوئے۔ سیدنا عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((مَا عَلَى الْأَرْضِ مُسْلِمٌ يَّدْعُو اللهَ بِدَعْوَةِ إِلَّا آتَاهُ اللهُ إِيَّاهَا أَوْ صَرَفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا مَا لَمْ يَدْعُ بِمَأْثَمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ))

’’زمین پر جو مسلمان بھی اللہ تعالی سے کچھ مانگتا ہے، اللہ تعالی اسے وہی چیز عنایت فرما دیتا ہے یا اس کے برابر برائی اس سے ٹال دیتا ہے، جب تک دو گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔‘‘ (جامع الترمذي الدعوات، حدیث: 3573)

دعا کی فضیلت اور قبولیت کی امید کے حوالے سے سب سے عظیم اور اعلی و اشرف کلام اور خطاب باری تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

﴿ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ۝﴾

’’اور (اے نبی!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے، تو چاہیے کہ وہ بھی میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘ (البقرة 186:2)

نبی ہادی ﷺنے سب سے بڑے دروازے کی چابی ہمارے ہاتھ میں دی ہے تا کہ ہم جب چاہیں اسے کھول لیں اور شہنشاہ عالم کے دربار میں داخل ہو کر ہر چیز اس سے حاصل کر سکیں۔ آپ نے وہ لمبی رسی بھی ہمیں تھمادی جو ہمارے اور عزت و بادشاہت والے رب کے درمیان ہے۔ جب ہم اسے مضبوطی سے تھام لیں تو کبھی نہیں گریں گے اور وہ ہے دعا۔ دعا فقیر، مسکین، ڈرے ہوئے، ٹوٹے ہوئے اور محتاج بندے اور اس کے بے انتہا قوت والے، قادر و قاہر، بے نیاز ، عطا کرنے والے، واجد و ماجد اور پاک رب کے درمیان رابطہ ہے۔

آپﷺ نے ہمیں بتایا کہ اللہ تعالی کے خزانے وافر اور بے شمار ہیں۔ ہمیں بس دعا کے ساتھ انھیں کھولنا ہے تا کہ ہمیں وہ ملے جس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں کیونکہ بادشاہوں کے بادشاہ کو کوئی عاجز نہیں کر سکتا۔ اس کے ہاتھ میں ہر بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

بندے کی اس سے زیادہ خوبصورت، پاکیزہ اور اعلی حالت کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی پیشانی مٹی پر رکھے اور سب سے زیادہ رحم و کرم فرمانے والے رب سے مناجات اور سرگوشی کرے اور کہے: یا رب! یا رب ! یا اللہ یا اللہ ! آپ جب مسکین و عاجز بن کر بے بسی کے عالم میں سجدہ ریز ہو کر دعا کرتے ہیں تو اس کی گونج آسمانوں میں سنائی دیتی ہے اور قبولیت کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔

آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ دعا زندگی کی تلاطم خیز موجوں کے سمندر میں سفینہ نجات ہے۔ جب ہر طرف بحرانوں کی بھر مار ہو اور مشکلات و مصائب کے بادل منڈلا رہے ہوں تو دعا ان کا بہترین حل ہے۔ آپﷺ نے ہمیں سمجھایا کہ دعا امان کا ساحل اور ہلاکت کے طوفان میں سلامتی ہے۔ آپ ﷺ ہمیشہ اپنے رب سے پرامید ہوکر دعا کرتے۔ اپنا ہر معاملہ اس کے سپرد کرتے اور نہایت گریہ وزاری سے اپنے خالق کی رحمت اور عفو و درگزر کا سوال کرتے اور اس کا جود و کرم مانگتے۔ آپ ﷺ صبح و شام اس عظیم دعا پر ہمیشگی کرتے اور کہتے :

((اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِيْ وَدُنْيَايَ وَأَهْلِيْ وَمَالِيْ، اَللّٰهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِيْ وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اَللّٰهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَّمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أَغْتَالَ مِنْ تَحْتِيْ))

’’اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کے آرام اور راحت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے معافی اور عافیت کا طلب گار ہوں، اپنے دین و دنیا میں اور اپنے اہل و مال میں۔ اے اللہ! میرے عیب چھپا دے۔ مجھے میرے اندیشوں اور خطرات سے امن عنایت فرما۔ یا اللہ ! میرے آگے سے، میرے پیچھے سے، میرے دائیں سے میرے بائیں سے اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری عظمت کے ذریعے سے اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے (قدموں) کی طرف سے ہلاک کر دیا جاؤں۔‘‘ (سنن أبي داود، أول كتاب الأدب، حديث: 5074)

آپ ﷺنے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ دعا کے نتائج بہت جلد ظاہر ہو جاتے ہیں۔ آپ کے ذمے صرف دعا کرنا ہے اور قبول کرنے والا اللہ تعالی ہے۔ اپنا پیغام اور درخواست سحری کے وقت اِرْ سال کریں اور اسے رخساروں کی تختیوں پر آنسوؤں سے رقم کریں اور عرش الہی کی طرف بھیج کر جواب کا انتظار کریں، جیسا کہ کہا گیا ہے:

لَا تَسْأَلَنَّ بُنَيَّ آدَمَ حَاجَةً

وَسَلِ الَّذِيْ أَبْوَابَهُ لَا تُحْجَبُ

اَللهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْتَ سُؤَالَهُ

وَبُنَيَّ آدَمَ حِينَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ

’’اولاد آدم میں سے کسی کے سامنے دست سوال نہ پھیلایا کر۔ سوال اس سے کیا کر جس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ اگر تو اللہ تعالی سے سوال کرنا چھوڑ دے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے جبکہ لوگوں سے سوال کیا جائے تو وہ ناراض ہوتے ہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے دعا کی ترغیب دی اور اللہ تعالی کے ہاں دعا کی قدر و منزلت اور رفعت و بلندی کی خبر دی۔ اسے عبادت کی اصل قرار دیا کیونکہ اس میں عجز و انکسار اور اللہ تعالی کے لیے خشوع و خضوع ہے اور یہی عبودیت کا راز ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ))

’’دعا ہی عبادت ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسير القرآن، حديث: 3247)

آپ ﷺ نہایت عزیمت اور اعتماد سے دعا کرتے اور گڑ گڑا کر مانگتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن یا ایک رات رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی (تین بار دعا فرمائی )۔ (صحیح مسلم السلام، حدیث: 2188)

آپﷺ نے اپنے صحابہ کو بھی اس کی ترغیب دی، آپﷺ نے فرمایا:

((إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمِ الْمَسْأَلَةَ، وَلَا يَقُولُنَّ: اَللّٰهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي، فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكْرِهُ لَهُ))

’’جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یقین و قطعیت کے ساتھ سوال کرے۔ یوں نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے دے دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث : 6338)

کیونکہ یقین و اعتماد کے ساتھ سوال کرنے سے اللہ تعالی کے کرم کی مکمل رغبت کا اظہار ہوتا ہے کہ بندہ اس کے فضل کا شدید خواہش مند اور اللہ جل شانہ کا بہت زیادہ محتاج ہے۔ آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ جب کوئی دعا کرتے تو تین مرتبہ دہراتے تھے اور آپﷺ اگر کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے تھے۔ (صحیح مسلم، الجهاد والسير، حديث: 1794)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن تھا، رسول اللہ ﷺنے مشرکین کی طرف دیکھا۔ وہ ایک ہزار تھے، اور آپ کے ساتھ تین سو انہیں آدمی تھے۔ نبیﷺ قبلہ رخ ہوئے، پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب کو پکارنے لگے: ’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا، اسے میرے لیے پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا، مجھے عطا فرما۔ اے اللہ ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری بندگی نہ ہو گی۔‘‘ آپ قبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھ پھیلائے مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گرگئی۔ اس پر سیدنا ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے پاس آئے۔ چادر اٹھائی اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا۔ وہ جلد ہی آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (صحیح مسلم، الجهاد والسير، حديث: 1763)

نبی ﷺ  نے اپنی دعا کے ساتھ اہل ایمان کے درمیان محبت اور مودت اور بھائی چارے کے پل تعمیر کر دیے، چنانچہ فرمایا:

((دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكُ مُوَكِّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ، قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلٍ))

’’مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب (قبول ) ہوتی ہے۔ اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے۔ وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے: آمین، اور تمھیں بھی اس کے مانند عطا ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2733)

جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرمﷺ سے عرض کی: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جسے میں دورانِ نماز میں پڑھا کروں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ دعا پڑھا کرو:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِيْ مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ))

’’اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے۔ گناہ تیرے سوا اور کوئی معاف کرنے والا نہیں ہے، لہٰذا  تو اپنے ہاں میری بخشش کر دے اور مجھ پر رحم فرما،  یقینًا تو بے حد بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔‘‘(صحيح البخاري، الدعوات، حديث: 6328)

اور سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ایک آدمی نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے دعا کی:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْألُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَام يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ)) ’’اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس لیے کہ تیری ہی تعریف ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو بے انتہا احسان کرنے والا ہے۔ آسمان وزمین کو ہے مادہ و بے نمونہ پیدا کرنے والا ہے۔ اے جلال و اکرام والے اے زندہ ! اسے نگرانی کرنے والے!‘‘

 اس پر نبیﷺ نے فرمایا: ’’تحقیق اس نے اللہ تعالی سے اس کے اس عظیم نام کے واسطے سے دعا کی ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے، مانگا جائے تو دیتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1495)

آپ ﷺ کی دعاؤں کے کئی معجزات کی گواہی سیکڑوں صحابہ نے دی ہے۔ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعے کے دن رسول اللہ ﷺخطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ! بارش نہیں ہو رہی، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر باران رحمت نازل فرمائے۔ آپﷺ نے دعا فرمائی تو ہم پر بارش برسنے لگی۔ ہم بڑی مشکل سے اپنے گھروں کو پہنچے، چنانچہ آئندہ جمعہ تک ہم پر بارش برستی رہی۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا کہ (اگلے جمعے ) وہی شخص یا کوئی دوسرا کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے بارش روک لے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ ! ہمارے ارد گرد بارش ہو، ہم پر نہ ہو۔‘‘

 سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بادل کو چھٹ کر دائیں بائیں جاتے دیکھا، پھر دوسرے لوگوں پر تو بارش ہوتی رہی لیکن اہل مدینہ پر نہیں ہو رہی تھی۔ (صحیح البخاري، الاستسقاء، حديث: 1015)

آپ ﷺ کی دعا کا ایک معجزہ وہ ہے جسے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ نے نقل کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حدیبیہ کے روز رسول اللہ ﷺکے ہمراہ چودہ سو یا اس سے زیادہ لوگ تھے۔ انھوں نے وہاں ایک کنویں پر پڑاؤ کیا اور اس کا سارا پانی نکال لیا۔ پھر نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ اس کنویں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ”میرے پاس اس کے پانی کا ڈول لاؤ۔‘‘ جب ڈول بھر کر لایا گیا تو آپ نے اس میں لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی۔ اس کے بعد فرمایا: ’’اسے تھوڑی دیر تک یوں ہی رہنے دو۔‘‘ پھر لوگوں نے خود پیا اور اپنی سواریوں کو بھی سیراب کیا، پھر وہاں سے مدینہ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ (صحیح البخاري المغازي، حديث (4151)

اس حدیث میں نبی اکرمﷺ کی دعا کی قبولیت کا معجزہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا کی برکت سے یہ تھوڑا سا پانی بہت بڑے مجمع کے لیے کافی کر دیا۔

آپﷺ کا لطف و کرم اور شفقت ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ آپ دعا میں کس قدر خوبصورت کلمات اور لطافت سے بھر پور جملے استعمال فرماتے جن سے رقت ، مٹھاس اور رحمت چھلکتی تھی۔ سید نا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک جنازہ پڑھایا تو میں نے آپ کی دعا میں سے یہ الفاظ یاد کر لیے، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’اے اللہ!اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے۔ اسے معاف فرما اور اس کی با عزت ضیافت فرما۔ اور اس کے داخل ہونے کی جگہ (قبر) کو وسیع فرما اور اس (کے گناہوں) کو پانی، برف اور اولوں سے دھو دے۔ اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا۔ اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر ، اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما۔ اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔‘‘  سیدنا عوف یہ کہتے ہیں: کہ میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ کاش یہ میت میں ہوتا! (صحيح مسلم، الجنائز، حديث: 963)

یہ کیا عمدہ دعا ہے اور کیا خوبصورت جملے ہیں جنھوں نے راوی حدیث صحابی کو یہ تمنا کرنے پر مجبور کر دیا کہ کاش! وہ اس میت کی جگہ ہوتے۔ اللہ تعالی رحمت و سلامتی نازل فرمائے آپﷺ پر، آپ کس قدر فصاحت و بلاغت والے، اپنی امت پر کس قدر رحیم و شفیق اور اس کے خیر خواہ تھے۔

آپ ﷺ نے دعا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کے کرم کی خوشخبری سنائی، چنانچہ فرمایا:

((إِنَّ رَبَّكُمْ حَیِيٌّ كَرِيْمٌ، يَسْتَحْيِيْ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ، أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا))

’’بلاشبہ تمھارا رب بہت حیا والا اور انتہائی سختی ہے۔ بندہ جب اس کی طرف اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ انھیں خالی لوٹا دے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث: 1488)

جب اللہ تعالی کو آپ کے ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے حیا آتی ہے تو کیا آپ کو اس سے نہ مانگتے ہوئے حیا نہیں آتی ؟ کیا اس کے سوا آپ کا کوئی رب اور خالق ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے خزانے ختم ہو گئے ہیں؟ کیا اس کا جود و کرم ماند پڑ گیا ہے؟ کیا آپ کو اس کی قدرت و طاقت پر شک ہو گیا ہے؟ کیا اس نے اپنے بندوں سے کہا نہیں:

﴿ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ؕ﴾ ’’تم مجھے پکارو، میں تمھاری (دعا ئیں) قبول کروں گا۔‘‘ (المؤمن 60:40)

بس اپنے ہاتھ اٹھائیے اور جی بھر کر اپنی مرضی کے مطابق مانگیے۔ وہ سب کرم کرنے والوں سے بڑھ کر کرم کرنے والا ہستیوں کا سخی اور سب سے زیادہ رحیم ہے۔ وہ اپنی تعریفوں کے ساتھ پاک ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کرنے کا حکم دیا اور قبولیت کا وعدہ فرمایا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

’’اے آدم کے بیٹے ! تو جب تک مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امید وابستہ رکھے گا، میں تجھے بخشا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ اے آدم کے بیٹے ! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں۔ اسے آدم کے بیٹے ! اگر تو مجھے اس حال میں ملے کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں تیرے پاس زمین بھر مغفرت لے کر آؤں گا۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3540)

بلاشبہ یہ حدیث امان کی گارنٹی، امید کی ضمانت اور ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے خوشخبری ہے۔ اور یہ دعا روح کو تازگی اور نئی زندگی عطا کرتی ہے۔

نبی اکرمﷺ نے ہمیں دعا کے آداب سکھائے تا کہ دعا کی قبولیت کے امکانات بڑھ جائیں۔ ہماری درخواست جلد سنی جائے اور ہمارا رب ہماری پکار اور سوال قبول کرلے۔ جو شخص ان آداب نبوی کے مطابق دعا کرے، اس کی دعا کی قبولیت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے کیونکہ اس نے شرعی طریقہ اختیار کیا اور نبی معصوم ﷺ  کی اتباع کی جو اپنی مرضی سے نہیں بولتے۔

ان آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ دعا اخلاص سے کی جائے اور مقصود صرف اللہ تعالی کی ذات ہو، جیسا کہ آپ ﷺ نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ صرف وہ عمل قبول کرتا ہے جو خالص اس کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ۙ۬ حُنَفَآءَ ﴾ ’’حالانکہ انھیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ دو بندگی کو اللہ کے لیے خالص کر کے یکسو ہو کر اس کی عبادت کریں۔‘‘ (البينة5:98)

جو دعا اخلاص کے بغیر ہو، وہ ثمر آور نہیں ہوتی اور نہ بارگاہ الہی میں قبول ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۝﴾

’’لہذا تم اللہ کے لیے بندگی خالص کرتے ہوئے اس کو پکارو، اگر چہ کا فر ناپسند ہی کریں۔‘‘ (المؤمن 14:40)

 دعا کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی ربوبیت والوہیت اور اسماء و صفات کے ساتھ اس کی عبادت کرنے والا ہو۔ وہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تا کہ وہ اپنے بندے کی دعا قبول فرمائے، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:

﴿ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ۝﴾

’’اور (اے نبی!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے۔ اب چاہیے کہ وہ بھی میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘ (البقرة 186:2)

آپ ﷺنے دعا کرتے وقت خشوع و خضوع، شوق و خوف اور عجز و انکسار کو مسنون قرار دیا ہے کیونکہ بندہ جب اپنے مولا و آقا کے سامنے عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کرتا ہے تو اس کا سوال زیادہ توجہ سے سنا جاتا ہے اوراس کی مراد جلد پوری ہو جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً﴾

’’تم اپنے رب کو آہ وزاری کرتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔‘‘ (الأعراف 55:7)

اور فرمایا:

﴿ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ۝﴾

’’اور (اے نبی !) اپنے رب کو صبح اور شام اپنے دل میں یاد کیجیے۔ عاجزی سے اور ڈرتے ہوئے۔ پست اور ہلکی آواز ہے۔ اور آپ غافلوں میں (شامل) نہ ہوں۔‘‘ (الأعراف 205:7)

غور کریں کہ دعا میں ﴿خُفْيَةً﴾ کا ذکر کیا گیا ہے جو اختفاء سے ماخوذ ہے اور وہ ہے چپکے چپکے مانگنا کیونکہ اس میں اخلاص کا امکان زیادہ ہے اور ذکر میں ﴿خِیْفَة) کا لفظ آیا جو خوف سے ماخوذ ہے کیونکہ اس سے قبولیت کا امکان بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالی نے اپنے انبیاء  علیہم السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا ؕ وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ۝﴾

’’بے شک وہ (انبیاء ) نیکیوں میں جلدی کرتے اور ہمیں رغبت اور ڈر سے پکارتے تھے۔ اور وہ ہمارے لیے ہی عاجزی کرنے والے تھے۔‘‘ (الأنبياء 90:21)

نبی اکرمﷺ نے راہنمائی فرمائی کہ دعا کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کے نبی ﷺ پر درود و سلام سے کریں۔ اور یہ انداز کیا ہی خوبصورت ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے آسمان کا دروازہ کھٹکھٹائے اور اس مالک سے التجا کرے جس کے ہاتھ میں جلد یا بدیر آنے والی ہر بھلائی ہے، اور دل سے اس کی طرف متوجہ ہو کر زبان سے یا رب! یا رب ! پکارے۔ اس طرح اس کی حمد سے رحمتوں کی بارش طلب کرے اور اس کی مدح سے اس کی برکتوں کا نزول مانگے۔ پھر وہ نبی مصطفی اور امام مجتبی ﷺ پر درود بھیجے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بعد آپ ﷺ کا تذکرہ کرنا ہی بنتا ہے۔ آپ ہی نے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی پہچان کرائی اور اس کی شریعت سے آگاہ کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِذَا صَلّٰى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأُ بِتَحْمِيدِ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ يَدْعُو بَعْدُ بِمَا شَاءَ))

’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے (یعنی دعا کرے) تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبیﷺ پر درود پڑھے، اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث (1481)

 جب نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے سنا جس نے اللہ تعالی کی بزرگی اور تعریف بیان کی اور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھا تو آپﷺ نے فرمایا:

((أدْعُ تُجَبْ)) ’’تم دعا کرو، قبول ہوگی۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث: 3476)

آپﷺ نے ہمیں اس بات پر یقین رکھنے کی ترغیب دلائی کہ اللہ تعالیٰ دعا ضرور قبول کرتا ہے، اس لیے دعا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ پختہ یقین رکھے کہ اللہ مالک الملک اس کی دعا قبول کرنے پر قادر ہے۔ وہ جو چاہے، کر سکتا ہے اور وہ قابل تعریف اور انتہائی بزرگی والا ہے۔ اسے کوئی چیز عاجز کر سکتی ہے نہ کوئی کام اس کے لیے مشکل ہے۔ ہر چیز اس کے پاس ہے۔ اس کی مشکل کا حل اس کے مولا کے پاس ہے اور اس کا خالق و رازق اس کی دعا ضرور قبول کرے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((اُدْعُوا اللهَ وَأَنتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ، وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِّنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَّاهٍ)) ’’اللہ تعالی سے اس طرح دعا مانگو کہ تمھیں قبولیت کا یقین ہو اور جان لو کہ اللہ تعالی اس دعا کو قبول نہیں کرتا جو غافل اور بے پروا  دل سے کی جائے۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث: 3479)

آپ ﷺنے دعا سے پہلے صدقہ کرنے کی ترغیب دی کیونکہ صدقہ رب تعالی کے قصے کو ٹھنڈا کرتا ہے اور یہ قبولیت کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ جب اللہ تعالی نے اپنی کتاب محکم میں فرمایا ہے:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةً ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُ ﴾

’’اے ایمان والو! جب تم رسول سے سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ پیش کرو، یہ تمھارے لیے بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘ (المجادلة 12:58)

تو اللہ تعالی سے مناجات تو اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے اور اس سے دعا کرنا کہیں بڑھ کر باعث تکریم ہے، چنانچہ دعا سے پہلے صدقہ کرنا نہایت عظیم ہے تا کہ اللہ تعالی کے حکم سے قبولیت یقینی ہو۔

نبیﷺ نے ہمیں صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگنے کا حکم دیا۔ مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالی دعا قبول کرنے پر قادر ہے۔ لیکن وہ نہایت حکمت والا ہے، اس لیے انسان کی بہتری کے مطابق دعا جلد یا بدیر قبول کرتا ہے یا اس سے خوبصورت چیز اسے عطا کر دیتا ہے۔ دعا کرتے رہنا چاہیے اور صبر و استقامت سے مسلسل مانگتے رہنا چاہیے۔ تمام مخلوقات سے زیادہ رحم کرنے والا ہمارا رب مناسب وقت پر ہماری دعا ضرور قبول فرمائے گا کیونکہ وہ زیادہ جانتا ہے کہ ہماری بہتری کس میں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :

((يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ، فَيَقُوْلُ : دَعَوْتُ رَبِّي فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي))

’’تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلد بازی سے کام نہ لے اور یوں کہنا شروع نہ کر دے: میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی لیکن اس نے میرے لیے وہ قبول نہیں کی۔ ‘‘(صحیح البخاري الدعوات حديث: 6340)

نماز عبودیت کی سب سے عظیم مشکل ہے اور اطاعت و فرماں برداری، عجز و انکسار اور تقرب الہی کی سب سے عالی شان صورت ہے۔ نمازی جب مسجدے کی حالت میں دعا کرتا ہے تو اس کی قبولیت کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں، جیسا کہ  آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوْا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُّسْتَجَابَ لَكُمْ))

’’جہاں تک سجدے کا تعلق ہے، اس میں خوب دعا کرو۔ یہ دعا اس لائق ہے کہ تمھارے حق میں قبول کرلی جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 479)

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوة﴾

’’اور تم صبر اور نماز کے ذریعے سے (اللہ تعالی کی ) مدد طلب کرو۔‘‘ (البقرة 45:2)

لہٰذا دعا کرنے والے کو دعا قبول کرانے کے لیے نماز کے ساتھ مدد طلب کرنی چاہیے، خواہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجت و ضرورت پیش کرنے سے پہلے دو رکعت ہی ادا کرے۔ رسول اکرم  ﷺ کو جب بھی کوئی اہم معاملہ در پیش ہوتا تو آپ نماز کا سہارا لیتے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((مَا مِنْ عَبْدٍ مُّؤْمِنٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَيَسْتَغْفِرُ اللهَ إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهُ))

’’کوئی بھی مومن بندہ جب کوئی گناہ کرے اور پھر وضو کر کے اچھی طرح طہارت حاصل کرے، پھر دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ تعالی سے استغفار کرے تو اللہ تعالی اسے بخش دیتا ہے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث:56)

 ہمارے رسول ﷺنے ہمیں دعا کرتے وقت بلند ہمتی اختیار کرنے اور مانگتے ہوئے عزم و یقین رکھنے کی تعلیم دی کیونکہ ہم جس سے مانگتے ہیں، وہ سارے خزانوں کا مالک ہے۔ ہر خیر اور بھلائی اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ کریم بھی اور نہایت مہربان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جب تم اللہ تعالی سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو کیونکہ یہ جنت کا اعلیٰ اور بلند ترین درجہ ہے اور اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حدیث:7423)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یہ نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، بلکہ وہ پختگی اور اصرار سے سوال کرے اور بڑی رغبت کا اظہار کرے کیونکہ اللہ تعالی کے لیے کوئی چیز دینا مشکل نہیں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2879)

رب العالمین کے کرم کے کیا کہنے! اور رسول اکرمﷺ کی امت پر رحمت و شفقت کی کیا بات ہے! آپﷺ  دعا میں بھی امت کو اعلی منازل، بلند مقامات اور عظیم درجات طلب کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

نبی ﷺ نے اپنی امت کو دعا کے جو آداب سکھائے ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ بندہ تکلف میں پڑ کر قافیہ بندی والے الفاظ سے دعا نہ کرے کیونکہ دعا کریم و تعظیم مالک کے سامنے عجز و اطاعت اور خشوع و خضوع کا مقام ہے۔ یہ خطابت کے جوہر دکھانے ، فصاحت و بلاغت کا اعتبار کرنے یا تکلف سے عبارتیں گھڑنے کا نام ہرگز نہیں۔ اس طرح بندہ زیادہ بلند آواز سے دعا نہ کرے کیونکہ وہ اس شہنشاہ عالم کو پکار رہا ہے جس کے سامنے آواز میں پست ہو جاتی ہیں، پیشانیاں خاک آلود ہوتی ہیں اور بڑے بڑے جابر لرزتے ہیں۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ۝﴾

’’تم اپنے رب کو آہ وزاری کرتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو، بے شک وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الأعراف 55:7)

مفسرین نے حد سے گزرنے کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد بے جا تکلف کرتا، الفاظ کی قافیہ بندی میں مبالغہ کرنا اور آواز بلند کرتا ہے۔

آپ ﷺنے ہمیں خبر دی کہ دعا کا ایک ادب قبلہ رو ہونا بھی ہے، جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا: ((…..قَبْلَتِكُمْ أَحْيَاءً وَّأَمْوَاتًا))

’’بیت اللہ زندگی اور موت میں تمھارا قبلہ ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الوصايا، حديث: 2875)

 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ بدر کے روز قبلہ رو ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر مشرکوں کے خلاف دعا کی۔ یہ شعائر اسلام کا احترام، اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کے تقدس اور دعا کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ اور یہ کمال ادب ہے۔

دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانا اور ہتھیلیوں کی اندرونی جانب آسمان کی طرف کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ اس میں سنت کی پیروی کے علاوہ انتہائی عجز و انکسار، مسکینی اور شدید طلب کا اظہار ہے اور بندے کی اپنے مولا کے سامنے کمزوری کا ذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :

’’جب تم اللہ سے سوال کرو (دعا کرو) تو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے مانگا کرو، ہاتھوں کی پشت سے نہ مانگا کرو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث: 1486)

  آپ ﷺ کامل و اکمل اور جامع و مانع دعائیں کرتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ اکثر یہ دعا کرتے تھے: ﴿ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۝﴾

’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ (البقرة 20:12)

یہ عمومی طور پر تمام دعاؤں سے زیادہ جامع و مانع اور خوبصورت ترین دعا ہے۔ اس میں دنیا و آخرت کی خوبیاں اور اگلی پچھلی سب بھلائیاں جمع کر دی گئی ہیں۔ اس میں ہر وہ چیز آگئی ہے جو انسان دل و جان سے چاہتا ہے۔ یہ کتنی عالی شان اور خیر اور بھلائی پر مبنی دعا ہے!

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے مجھے یہ دعا سکھائی:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمُ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمُ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيِّكَ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِيِّكَ، اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا))

’’ اے اللہ ! میں تجھ سے ہر قسم کی خیر مانگتا ہوں، جلدی ملنے والی اور دیر سے ملنے والی (یا دنیا اور آخرت کی ) ، وہ بھی جس کا مجھے علم ہے اور وہ بھی جس کا مجھے علم نہیں۔ اے اللہ! میں ہر قسم کے شرسے تیری پناہ میں آتا ہوں، جلدی آنے والے سے بھی، اور دیر سے آنے والے سے بھی (یا دنیا و آخرت کے شر سے) جس کا مجھے علم ہے، اس سے بھی اور جس کا مجھے علم نہیں، اس سے بھی۔ اے اللہ! میں تجھ سے وہ خیر مانگتا ہوں جو تجھ سے تیرے بندے اور تیرے نبی (محمد ﷺ) نے مانگی ہے۔ اور میں اس شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس شر سے تیرے بندے اور تیرے نبی (ﷺ) نے پناہ مانگی ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور ہر اس قول و عمل کی توفیق کا سوال کرتا ہوں جو اس سے قریب کرے۔ اور میں جہنم سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور ہر اس قول و عمل سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو اس سے قریب کرے۔ اور میں یہ سوال کرتا ہوں کہ تو جو بھی فیصلہ کرے، اسے میرے لیے بہتر (یا خیر کا باعث) بنا دے‘‘ (سنن ابن ماجه، الدعاء، حدیث: 3846)

ایک آدمی نے آپ سے سوال کیا: اللہ کے رسول ! جب میں اپنے رب سے سوال کروں تو کیا کہوں؟ آپ ﷺنے فرمایا:

’’تم کہو: ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِيْ وَعَافِنِيْ وَارْزُقْنِيْ))

’’اے اللہ مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔‘‘ ساتھ ہی آپ انگوٹھے کے سوا ایک ایک کر کے ساری انگلیاں بند کرتے گئے (اور فرمایا:) یہ کلمات تمھارے لیے تمھاری دنیا اور آخرت دونوں کو جمع کر دیں گے۔‘‘ (صحيح مسلم، الذكر والدعاء، حديث:2697)

ان کلمات کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے؟! جب گناہ معاف کر دیے جائیں، بندہ اللہ تعالی کی طرف سے ثواب و رضا کا حق دار ٹھہرے، اللہ تعالی اسے ہر بلا اور اذیت اور فتنے سے بچائے اور اسے اچھا رزق عطا فرمائے تو باقی کیا بچتا ہے؟ اللہ اللہ ا یہ نبوی کلمات کتنے خوبصورت اور کسی قدر بلاغت پر مبنی ہیں!

نبی ﷺ کے روشن و مبارک کلمات اور فصاحت و بلاغت سے لبریز الفاظ کی ایک مثال آپ ﷺ کی یہ دعا بھی ہے:

((اَللّٰهُمَ أَصْلِحْ لِيْ دِيْنِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيْهَا مَعَاشِي، وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيْهَا مَعَادِي، وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِّي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِّي مِنْ كُلِّ شَرٍّ))

’’اے اللہ ! میرے دین کو درست کر دے جو میرے (دین و دنیا کے ) ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ اور میری دنیا کو درست کر دے جس میں میری گزران ہے۔ اور میری آخرت کو درست کر دے جس میں میرا اپنی منزل کی طرف لوٹنا ہے۔ اور میری زندگی کو میرے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنا دے۔ اور میری وفات کو میرے لیے ہر شر سے راحت بنا دے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2720)

میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ کلام صرف نبی معصومﷺ ہی کا ہو سکتا ہے۔ دوسرا کوئی شخص کتنا بھی فصیح و بلیغ اور ادیب و دانشور ہو، وہ اس طرح کا کلام پیش نہیں کر سکتا۔ کوئی نابغہ روزگار اس طرح کی عبارت نہیں بنا سکتا۔ یہ صرف نور نبوت ، عصمت کا فیضان اور رسالت کی برکت ہے۔

نبی اکرم ﷺنے دعا کے جو آداب سکھائے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسباب کو بروئے کار لا کر دعا کی قبولیت کی شرائط کو یقینی بنایا جائے، یعنی دعا اور عملی اقدام، نیز توکل اور کوشش کو ایک ساتھ آزمایا جائے ، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((اعْقِلْهَا وَ تَوَكَّلْ))

’’اس (اونٹ) کا گھٹا باندھو اور توکل کرو۔ ‘‘ (جامع الترمذي، أبواب صفة القيامة، حديث: 2517)

ایسا نہ ہو کہ دعا کرنے والا دعا کرے اور پھر اسباب کو چھوڑ دے کیونکہ یہ ناکامی، پسماندگی اور کاہلی ہے۔ بندے کو اپنے رب کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ اپنے مولا سے دعا کرنی چاہیے اور مقصود کو پانے کے لیے پوری تگ و دو اور محنت و کوشش کرنی چاہیے۔

نبیﷺ اسمائے حسنیٰ کے واسطے سے بھی دعا کرتے تھے۔ باری تعالی نے جن ناموں اور صفات سے خود کو موسوم اور منصف نہیں کیا ، ان کے ساتھ دعا نہیں کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْهُ بِهَا ۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىِٕهٖ ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝﴾

’’اور اللہ ہی کے ہیں سب سے اچھے نام، لہٰذا  تم اسے ان (ناموں) سے پکارو۔ اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، جلد اس کی سزا پائیں گے۔‘‘ (الأعراف 180:7)

اسمِ مبارک کے معانی جس قدر حاجت و ضرورت کے قریب ہوں، اسی قدر قبولیت کے امکانات زیادہ ہیں، مثلاً: اے رحم کرنے والے! مجھ پر رحم فرما۔ اسے خوب رزق دینے والے! مجھے رزق عطا فرما۔ اور اسے کریم ! مجھے عزت عطا فرما۔ اور یہ اس سے زیادہ مناسب ہے کہ بندہ کہے: اے جبار! مجھے بخش دے۔ یا کہے: اے قہار! مجھے پر رحم فرما کیونکہ اسم مبارک اور دعا میں مناسبت نہیں ہے۔

نبی اکرمﷺ نے ترغیب دلائی کہ دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس پاکیزہ ہونا چاہیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ تعالی پاک ہے اور پاک مال کے سوا کوئی مال قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالی نے مومنوں کو بھی اس بات کا حکم دیا ہے جس کا رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اے رسولو! پاک چیز یں کھاؤ اور نیک کام کرو۔ جو عمل تم کرتے ہو، میں اسے اچھی طرح جاننے والا ہوں۔‘‘ اور فرمایا: ’’اے مومنو! جو پاک رزق ہم نے تمھیں عنایت فرمایا ہے، اس میں سے کھاؤ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا: ’’جو لمبا سفر کرتا ہے، بال پرا گندہ اور جسم غبار آلود ہے، وہ (دعا کے لیے) آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے: اے میرے رب ! اے میرے رب ! جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے، تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1015)

چنانچہ حرام کمائی دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

نبی ﷺنے ہر دعا کرنے والے کو خبردار کیا ہے اور اس کی راہنمائی کی ہے کہ وہ دعا میں احتیاط برتے اور غصے کی حالت میں انتقام لینے کے لیے اپنے اہل و عیال اور جان و مال کے خلاف دعا نہ کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ((لَا تَدْعُوا عَلٰى أَنْفُسِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلٰى أَوْلَادِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلٰى أَمْوَالِكُمْ، لَا تُوَافِقُوْا مِنَ اللهِ سَاعَةً يُسْأَلُ فِيْهَا عَطَاءً، فَيَسْتَجِيبُ لَكُمْ))

’’اپنے آپ کو بد دعا نہ دو اور نہ اپنی اولاد کو بد دعا دو، نہ اپنے مال مویشی کو بد دعا ہو۔ اللہ تعالی کی طرف سے (مقرر کی ہوئی قبولیت کی) گھڑی کی موافقت نہ کرو، جس میں جو کچھ مانگا جاتا ہے، وہ تمھیں عطا کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزهد والرقائق، حدیث 3009)

سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں سے ایک ایسے شخص کی عیادت کی جو لاغر اور کمزور ہو کر چوزے کی طرح ہو گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’کیا تم اللہ تعالی سے کسی چیز کی دعا کرتے تھے یا اس سے کچھ مانگتے تھے؟‘‘  اس نے کہا: جی ہاں، میں کہتا تھا: اے اللہ! تو مجھے آخرت میں جو سزا دینے والا ہے، ابھی دنیا ہی میں دے دے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’اللہ پاک ہے! تم میں اس کی طاقت نہیں یا  (فرمایا:)  تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ تم نے یہ کیوں نہ کہا: اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھی اچھائی عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے‘‘پھر آپ ﷺنے اس کے لیے اللہ تعالی سے دعا فرمائی تو اللہ تعالی نے اس شخص کو شفا عطا فرمادی۔ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2688)

دعا میں حد سے گزرنا اللہ تعالی کے ادب کے منافی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل  رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو کہتے سنا: اے اللہ ! میں جب جنت میں داخل ہوں تو مجھے جنت کے دائیں طرف کا سفید محل عطا فرمانا۔ اس پر انھوں نے کہا: میرے بیٹے!تم اللہ تعالی سے جنت طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”اس امت میں عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے گزریں گے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث: 96)

دعا میں حد سے گزرنا ان تفصیلات میں پڑنا ہے جن کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اور یہ دعا کرنے والے کی حالت کے منافی ہے کیونکہ اسے تو ہر قسم کے غیب جاننے والے کے سامنے عجز و انکسار اور خشوع و خضوع سے پیش ہونا چاہیے۔

قبولیت کے اوقات میں دعا کرنے کی ترغیب نبویﷺ

٭سجدوں میں دعا: سجدے کی حالت وہ خوبصورت کیفیت ہے جس میں انسان اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں دعا کی قبولیت کی بہت زیادہ امید کی جاسکتی ہے، جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا:

((أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ))

’’بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، لہٰذا  اس میں کثرت سے دعا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:482)

٭رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کا وقت: یہ بھی قبولیت دعا کا وقت ہے۔ آپﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو دعا کرتے اور قنوت نازلہ بھی رکوع کے بعد ہی کرتے ، جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی کے خلاف یا حق میں دعا کا ارادہ کرتے تو رکوع کے بعد قنوت کرتے۔

٭آخری تشہد میں : نماز کا آخری تشہد بھی دعا کی قبولیت کا مقام ہے اور اس کی دلیل  آپ ﷺ کا فرمان ہے: ((ثُمَّ يَتَخَيَّرُ بَعْدُ مِنَ الدُّعَاءِ مَا شَاءَ، أَوْ مَا أَحَبَّ))

’’پھر اس کے بعد جو چاہے یا جو پسند کرے، وہ دعا مانگے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث:3919)

نماز کا سلام پھیرنے کے بعد : رسول اکرمﷺ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ((جُوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ))  ’’رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث: 3499)

رسول اکرم ﷺنے سیدنا معاذ  رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ’’اے معاذ اللہ کی قسم !مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے معاذ!  میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز نہ چھوڑنا : ((اَللّٰهُمَّ أَعِنِّي عِلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ))

’’اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، اپنا شکر کرنے اور بہترین انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث:1522)

٭سحری کے اوقات میں دعا:  ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ ’’ اور وہ سحری کے وقت بخشش مانگا کرتے تھے۔‘‘ (الذاریات 18:51)

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے:

’’ہما را بزرگ و برتر پروردگار ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، وہ آواز دیتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں اسے قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے، میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے معاف کر دوں؟‘‘ (صحيح البخاري، التهجد، حديث (1145)

اذان اور اقامت کے درمیان نبیﷺ نے فرمایا: ((لَا يُرَدُّ الدُّعَاءُ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ)) ’’اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں دعا رد نہیں ہوتی۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:521)

 کیونکہ یہ اطاعت کے دو کاموں کے درمیان کا وقت ہے۔

مسافر اور مظلوم کی دعا، نیز والد کی اولاد کے لیے بددعا : نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

((ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَّا شَكَ فِيْهِنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلٰى وَلَدِهِ))

’’تین دعا ئیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک و شبہ نہیں : مظلوم کی دعاء، مسافر کی دعا اور والد کی اپنے بیٹے کے خلاف دعا۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب البر والصلة، حديث: 1905 )

مظلوم چونکہ شکستہ دل ہوتا ہے اور مجبور ہو کر اپنے خالق و مالک کی پناہ طلب کرتا ہے اور مسافر بھی انکسار کی حالت میں ہوتا ہے اور اللہ تعالی منکسر مزاج لوگوں کے ساتھ ہے۔ اور والد کی بددعا اولاد کے خلاف اس لیے قبول ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے وجود کا باعث بنا اور اللہ تعالی کے بعد اس کا حق ہے۔

روزہ دار کی دعا: رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’تین لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی‘‘ اور آپ ﷺ نے بتایا کہ ان میں سے ایک ’’روزہ دار ہے یہاں تک کہ وہ افطار کرلے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3588)

یہ اس لیے کہ وہ اپنے رب کے لیے بھوک پیاس برداشت کرتا ہے اور عجز و انکسار کی حالت میں ہوتا ہے۔

مریض یا میت کے پاس دعا: رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

((إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِيْضَ أَوِ الْمَيْتَ فَقُوْلُوْا خَيْرًا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلٰى مَا تَقُوْلُوْنَ))

’’جب تم مریض یا مرنے والے کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ تم جو کہتے ہو، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 919)

٭آسانی اور خوشحالی کے وقت دعا، نیز مجبور اور لا چار کی دعا: ارشاد باری تعالی ہے:

﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ ﴾

’’کیا یہ بہت بہتر ہیں یا وہ (اللہ ) جو مجبور اور لاچار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور وہ اس کی تکلیف دور کر دیتا ہے۔‘‘ (النمل 62:27)

اور آپ ﷺ نے فرمایا:

((ومَنْ سَرَّهُ أَنْ يَّسْتَجِيْبَ اللهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكُرْبِ فَلْيُكْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ))

’’جسے یہ پسند ہو کہ پریشانیوں اور سختیوں کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہیے کہ عافیت و خوش حالی کے زمانے میں بکثرت دعا کرے۔ ‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث، 3382)

٭کسی خطرے یا سختی کے خوف کے وقت دعا: رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

((لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا يَزِيْدُ فِي الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ))

’’قضا و قدر کو صرف دعا بدلتی ہے اور عمر میں صرف نیکی سے اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب القدر، حدیث: 2139)

٭جمعے کے دن قبولیت کی گھڑی میں دعا: اہل علم کے راجح قبول کے مطابق یہ جمعے کے روز کی آخری گھڑی ہے، جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ لَسَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ، يَسْأَلُ اللهَ فِيْهَا خَيْرًا، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ))

’’جمعے کے دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کسی خیر کا سوال کرتے ہوئے اس کی موافقت نہیں کرتا مگر اللہ تعالی اسے وہی خیر عطا کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 852)

دعا کی قبولیت کے اوقات بہت زیادہ ہیں کیونکہ اللہ تعالی ہر وقت، ہر لمحہ اور ہر زمان و مکان میں ہمارے ساتھ اور قریب ہے جو ہمیں دیکھتا اور سنتا ہے لیکن اس نے کچھ اوقات کو قبولیت دعا کے لیے اس لیے فضیلت دی ہے تا کہ مانگنے والے اور دعا کرنے والے زیادہ شوق سے مانگیں کیونکہ اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے۔

نبیﷺ نے اللہ تعالی سے بے رغبتی اور اس سے دعا نہ کرنے کے خطرات سے بھی آگاہ کیا اور فرمایا:

((مَنْ لَّمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ))

’’جو اللہ تعالی سے سوال نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حدیث:3373)

ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی ربوبیت کی چوکھٹ پر خود کو گرا دیں اور اس کے سامنے کھڑے رہیں۔ اس سے دعا کریں، مانگیں اور مناجات کریں کیونکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے۔ ہر چیز اس کے پاس ہے اور وہی اس کا مالک ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ قوی ہے اور سب عزت والوں کو عزت دینے والا ہے۔ وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور سب سخیوں سے بڑھ کرسخی ہے۔ اس سے مانگیں، وہ عطا کرے گا۔ دعا کریں، وہ قبول کرے گا۔ اس کا کرم ختم نہ ہونے والا اور اس کی سخاوت کو کوئی رد نہیں کر سکتا۔ آپ جب بھی اس سے مناجات کریں ، سوال کریں، کچھ مانگیں اور مدد طلب کریں تو وہ آپ سے محبت کرے گا، اپنے قریب کرے گا، عطا کرے گا، اپنا بنا لے گا اور آپ کی حمایت و نگرانی کرے گا، لہٰذا  خوب جوش و خروش اور کثرت سے مانگیں۔

………………