محمد ﷺبحیثیت صدقہ کرنے والے

محمد رسول اللهﷺ صدقہ کرنے والوں میں پیش پیش اور خرچ کرنے والوں کے امام و پیشوا ہیں۔ آپ نے اپنے خالق کے حکم کی سب سے پہلے تعمیل کی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ ﴾

’’نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر او بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، (آسمانی) کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے اور مال کی محبت کے باوجود اُسے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں اور گردنیں چھڑانے کے لیے خرچ کرے۔‘‘ (البقرة177،2)

 آپ ﷺ نے لوگوں کو خرچ کرنے اور عطیات دینے کی ترغیب دلائی اور فرمایا:

((وَالصَّدَقَةُ تُطْفِيءُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِيءُ الْمَاءُ النَّارَ))

’’اور صدقہ غلطی کی آگ بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب السفر، حدیث:614)

آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! کون سا صدقہ اجر وثواب میں سب سے بہترہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ صدقہ جو تندرستی کی حالت میں ہو جبکہ تجھ پر مال کی حرص کا بھی غلبہ ہو، تجھے ناداری کا اندیشہ بھی ہو اور تونگری کی خواہش بھی۔ اس وقت کا انتظار نہ کر جب دم حلق میں آجائے تو اس وقت وصیت کرے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا لکھ دو، حالانکہ اب تو وہ از خود ہی فلاں (اور فلاں) کا ہو چکا ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، الزكاة، حديث: 1419)

آپﷺ نے صدقہ کرنے کی دعوت دی، اس پر ابھارا اور خبر دی کہ یہ سب سے عظیم عبادت اور قرب الہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اپنے خطبات و دروس اور وعظوں میں اس کے عظیم اجر و ثواب سے آگاہ فرمایا۔ عورتوں کو بھی صدقہ کرنے کی دعوت دی اور انھیں بتایا کہ یہ گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا :

((يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ))

’’اے عورتوں کی جماعت !صدقہ کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، الزكاة، حديث: 1462)

بلکہ آپ ﷺنے نیکی کے معمولی کاموں کو بھی صدقہ قرار دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’تیرا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا تیرے لیے صدقہ ہے۔ تیرا نیکی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ تیرا بھٹکے اور راہ بھولے ہوئے شخص کی رہنمائی کرنا تیرے حق میں صدقہ ہے۔ تیرا کمزور نظر والے کو راستہ دکھانا تیرے لیے صدقہ ہے۔ تیرا راستے سے پتھر ، کانٹا اور ہڈی ہٹا دینا تیرے لیے صدقہ ہے۔ اور تیرا اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا تیرے لیے صدقہ ہے۔ ‘‘ (جامع الترمذي البر والصلة عن رسول الله، حديث: 1956)

آپﷺ نے مومن کی ساری زندگی صدقہ قرار دی اور اس کے ہر اچھے اقدام اور نیک عمل کو مقبول صدقہ قرار دیا۔ لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانا مسلمان کے لیے صدقہ ہے۔ اس طرح آپ فریقین میں مخالفت کی آگ بجھا دیتے ہیں۔ آپ کا بدلہ اللہ مالک العلام کا ثواب ہے۔ آپ کسی آدمی کو اس کی سواری یا گاڑی پر سوار ہونے میں مدد دیتے ہیں تو یہ بھی آپ کے لیے صدقہ ہے کیونکہ آپ نے اس سے تعاون کیا اور اس کا سہارا بنے تا کہ وہ روزمرہ کے کام انجام دے سکے۔ آپ کسی سے اچھے اور خوبصورت الفاظ میں بات کریں تو یہ بھی آپ کے لیے صدقہ ہے، گویا کہ اچھے الفاظ سونا ہیں جو آپ فقراء و مساکین کو دے رہے ہیں۔ کلام کا اجر اللہ تعالی کے ہاں مال کے اجر کی طرح ہے۔ اللہ کے گھر کی طرف آپ کے اٹھنے والے قدم بھی اللہ مالک الملک کے حضور مقبول صدقے کا درجہ رکھتے ہیں، گویا ہر قدم ایک دینار ہے جو آپ کسی مسکین کو دے رہے ہیں۔ تکلیف وہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی آپ کے لیے صدقہ ہے۔

اسی طرح اہل و عیال، عزیز و اقارب پر خرچ کیا گیا مال اور فقراء و مساکین پر لطف و کرم، مہمان نوازی اور آنے والے کا مسکراہٹ کے ساتھ استقبال وغیرہ تمام امور بھی صدقہ ہیں۔ آپ کے پاس جو کچھ ہے، وہ اللہ کا ہے اور اس کا دیا ہوا ہے، لہٰذا  دل و جان، فکر و نظر، قلم و قرطاس، علم و معرفت، مال و دولت اور اپنے وقت کا صدقہ دیں تا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا:

’’ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے، انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ لازم ہوتا ہے۔ دو شخصوں کے مابین انصاف کرنا بھی صدقہ ہے۔ کسی شخص کا اس کے جانور پر سامان لاد دینا بھی صدقہ ہے۔ اچھی بات منہ سے نکالنا بھی صدقہ ہے۔ ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے، وہ بھی صدقہ ہے۔ اور راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2989)

اس نبوی رہنمائی پر غور کریں ! اہل و عیال پر خرچ کرنے کو آپ نے کس طرح سب سے عظیم صدقہ اور اللہ تعالی کے قرب کا سب سے بہترین ذریعہ قرار دیا۔ اس سے آپ اس عظیم نبی کی عظمت سے واقف ہوں گے کہ کسی طرح انھوں نے امت کی راہنمائی کی اور مسلمان کی زندگی کی ترجیحات کو کس انداز سے مرتب کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’جن دیناروں پر اجر ملتا ہے، ان میں سے ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ ایک دینار وہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن کی آزادی کے لیے خرچ کیا۔ ایک دینار وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا۔ اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا۔ ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل وعیال پر خرچ کیا۔ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 995)

نبی اکرم ﷺاپنے حسن سلوک اور صدقے کا آغاز اپنے اہل وعیال سے کرتے تھے۔

سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ میری عیادت کے لیے ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ میں حجتہ الوداع کے زمانے میں ایک سخت بیماری میں مبتلا تھا۔ میں نے عرض کی: میری بیماری جس حد کو پہنچ چکی ہے، اسے آپ دیکھ رہے ہیں۔ میں مال دار ہوں لیکن میری وارث صرف ایک لڑکی ہے کوئی اور دوسرا نہیں، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ میں نے عرض کی: پھر آدھا مال صدقہ کردوں؟

آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘  میں نے کہا: ایک تہائی کر دوں ؟  آپ ﷺ نے فرمایا:

((اَلثُّلُثُ كَثِيْرٌ، أن تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِّنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَّتَكَفَّفُونَ النَّاسُ، وَلَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةٌ تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتّٰى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ))

 ’’تہائی بہت ہے۔ اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ انھیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا ہیں۔ تم اللہ کی خوشنودی کے لیے جو بھی خرچ کرو گے، اس پر تمھیں ثواب ملے گا، یہاں تک کہ تمھیں اس تھے پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔‘‘ (صحیح البخاري، المرضى، حديث (5668)

آپ ﷺ کی حکمت و دانائی اور اعتدال پر منی شرعی منہج ملاحظہ کریں کہ آپ ﷺ سیدنا سعد  رضی اللہ تعالی عنہ کوسارا مال خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ اعتدال پسندی اور میانہ روی کا حکم دیا۔ ان کے ورثاء کو بھی نہیں بھولے بلکہ سیدنا سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ اس طرح صدقہ کرنا درست نہیں کہ ورثاء لوگوں سے سوال کرنے اور مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔ سب سے عظیم صدقہ اہل و عیال اور عزیز و اقارب پر خرچ کرنا ہے، چنانچہ آپ نے انھیں نیکی اور صدقے کا موقع بھی دیا اور زیادہ مال ورثاء کے لیے چھوڑنے کا حکم بھی دیا۔

آپ ﷺ نے ہمیں صدقے کے متعدد فضائل و فوائد کی خوشخبری دی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ صدقہ کرنے والے کو کئی گنا اجر و ثواب ملتا ہے۔ آپ نے رب العالمین کی طرف سے خبر دی ہے کہ صدقہ اس طرح بڑھتا ہے، جیسے زمین میں بویا ہوا ایک دانہ کئی دانے بن جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۲۶۱﴾

’’ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، اس دانے کی سی ہے جس سے سمات بالیاں نکلیں۔ ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اور اللہ جس کے لیے چاہے اجر بڑھا دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرة 261:2)

اس خوبصورت اور عمدہ مثال پر غور کریں کہ بے جان زمین میں ایک دانہ ڈالا جاتا ہے تو اس ایک دانے سے سات بالیاں نکلتی ہیں، پھر ہر بالی سے سو دانے نکلتے ہیں۔ اور جو شخص سب سے زیادہ رحم کرنے والے سنیوں کے بادشاہ اور سب سے بڑھ کر عزت والے رب کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، اس کا اجر کیا ہو گا ؟! وہ اپنے بندے کے صدقے کو کیسے اپنے جود و کرم سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھاتا ہے! نیز گندم کی بالی اور اس کی خوبصورتی و حسن کو دیکھیں وہ کیسے جھکی ہوتی ہے، گویا وہ آپ کے سامنے اپنے خالق و مولا کی اس بھلائی پر شکر ادا کر رہی ہے جو اللہ تعالی نے اس میں رکھی ہے۔

آپﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ صدقہ اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ اور یہ ایسا قرض ہے جس کی واپسی کئی گنا زیادہ ہو گی اور وہ پاک ذات بے نیاز اور قابل تعریف ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ۝۱۸﴾

’’بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنھوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا، وہ ان کے لیے بڑھایا جائے گا، اور ان کے لیے  عمدہ اجر ہے۔‘‘ (الحدید 18:57)

اور فرمایا:

﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ ۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝﴾

’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟ پھر اللہ وہ مال اس کے لیے کئی کئی گنا بڑھا دے اور اللہ ہی تنگی اور فراخی کرتا ہے اور تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ (البقرة 245:2)

جب صدقہ کریں تو یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ نے ایک غنی اور کریم ذات کو قرض دیا ہے جس نے آپ کو سارا مال دیا ہے اور وہ آپ کو کئی گنا زیادہ لوٹائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے مقبول صدقے کو تلاوت قرآن اور نماز قائم کرنے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ۝  لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ؕ اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ۝﴾

’’بلاشبہ جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے، اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی، تا کہ وہ (اللہ) انھیں ان کے اجر پورے دے، اور انھیں اپنے فضل سے زیادہ بھی دے۔ بے شک وہ بے حد بخشنے والا نہایت قدردان ہے۔ (فاطر 29:35، 30)

اس آیت میں دو باتیں نہایت قابل غور ہیں: ایک ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَ مِمَّا رَزَقنٰهم﴾۔

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فضل و احسان صرف اللہ کا ہے اور رزق بھی اس کا ہے۔ اور دوسری ﴿ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً﴾ اس میں ترغیب ہے کہ ہر وقت لمحہ بہ لمحہ تھوڑا یا زیادہ صدقہ وخیرات کرتے رہیں ، کبھی چھپا کر اور کبھی علانیہ۔

رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

((وَلَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ))

’’رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں: ایک دو جسے اللہ تعالی نے قرآن دیا اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے مال دیا اور وہ اسے دن رات خرچ کرتا ہے۔ ‘‘(صحیح البخاري، التوحيد، حديث: 7529)

اور آپ ﷺ نے فرمایا

’’جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے، اور اللہ تعالی حلال و پاکیزہ چیزیں ہی قبول کرتا ہے، اللہ تعالی اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الزكاة، حديث: 1410)

اس حدیث میں دو چیزوں کا ذکر کر کے بات سمجھائی گئی ہے: ایک قلت اور دوسری کثرت۔ قلت کے لیے کھجور اور کثرت و عظمت کی مثال کے لیے پہاڑ کا ذکر کیا، یعنی انسان قلیل مال دیتا ہے اور اللہ تعالی اس کا بہت زیادہ اجر و ثواب دیتا ہے۔

آپ نے کسی انسان کے لیے صدقہ نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں چھوڑی۔ صدقے کے بہت سے دروازے کھول دیے تا کہ ہر انسان اس کا اہل بن سکے یہاں تک کہ لوگوں کو اپنی ایذا اور شر سے بچانے والے کو بھی اجر و ثواب کی نوید سنائی، آپ ﷺ نے فرمایا :

’’ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ صدقہ کرے۔ ‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کی: اگر وہ صدقہ کرنے کے لیے کوئی چیز نہ پائے تو ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے۔ اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کی: اگر اس کی طاقت نہ ہو یا نہ کر سکے تو ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر کسی پریشان حال ضرورت مند کی مدد کرے۔‘‘ انھوں نے عرض کی : اگر یہ بھی نہ کر سکے تو ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر وہ بھلائی کی طرف لوگوں کو راغب کرے یا اچھے کاموں کی تلقین کرے۔‘‘ کسی نے کہا: اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر لوگوں کو اپنے شر سے بچا کر رکھے۔ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔“ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6022)

حدیث کے معنی یہ ہیں کہ معمولی نیکی بھی کر گزرو اور اگر اتنی بھی توفیق نہیں تو کم از کم کسی کو اذیت و تکلیف دینے سے باز رہو۔

اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((الصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ)) ’’صدقہ دلیل ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 534)

 یعنی صدقہ کرنے والے کی قوت ایمانی کی دلیل ہے کیونکہ مال صرف وہ خرچ کرتا ہے جو اللہ عز وجل پر ایمان رکھتا ہو، اس کے وعدے اور وعید کی تصدیق کرتا ہو اور آخرت کی جزا وسزا پر یقین رکھتا ہو۔ ایسا شخص اللہ ذوالجلال سے ثواب کی امید پر خرچ کرتا ہے۔

آپ ﷺنے خبر دی ہے کہ جو صدقہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کرتا ہے، وہ اللہ کا ولی اور جنتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((أهْلُ الْجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ))

’’جنتی تین طرح کے لوگ ہیں: بادشاہ جو عادل ہے، وہ جو صدقہ کرنے والا ہے، اور وہ جسے اچھائی کی توفیق دی گئی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنة وصفة نعيمها، حديث: 2866)

کیونکہ صدقہ کرنے والا یہ یقین رکھتا ہے کہ اسے سب معززین سے بڑے عزت والے کی طرف سے قیامت کے دن ضرور بدلہ ملے گا۔ اور جس کا ایمان سچا اور یقین کامل ہو، وہ اس دنیا میں کثرت سے صدقہ کرتا ہے۔

آپ نے صدقہ کرنے والے کو خوشخبری سنائی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اپنے عرش کا سایہ اس دن نصیب کرے گا جس دن اس پاک ذات کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔  آپ ﷺ نے فرمایا:

’’سات لوگوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا … اور ان میں سے ایک وہ آدمی ہے جس نے کوئی صدقہ کیا تو اسے اتنا چھپایا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی علم نہیں ہوا کہ دائیں ہاتھ نے کیا کیا ہے ؟ (صحيح البخاري، المحاربين من أهل الكفر والردة، حديث: 6806)

آپ ﷺ نے فرمایا: ((كُلُّ امْرِئٍ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ حَتّٰى يُفْصَلَ بَيْنَ النَّاسِ))

’’ہر آدمی اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے۔‘‘ (مسند أحمد، حديث (17333)

کیا عظیم خوشخبری ہے صدقہ کرنے والوں کے لیے! کیا اجر و ثواب ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے! جس کی خوشخبری سید المرسلین اور خاتم النبیین ﷺ نے دی ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے یہ بشارت دی کہ اللہ تعالی صدقے کا بدل ضرور دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

 ((قَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ))

’’ الله عز وجل نے فرمایا کہ تم خرچ کرو، میں تم پر خرچ کروں گا۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسير، حديث: 4884)

یہ اللہ کی طرف سے بدلے کی گارنٹی ہے۔ یہ گارنٹی اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں براہ راست دی ہے۔ رسول اکرمﷺ کی حدیث میں نہیں دی کیونکہ صدقے کا نعم البدل دینے کا پختہ وعدہ اللہ ارحم الراحمین کا ہے جو تمام عزت والوں سے بڑھ کر عزت والا ہے۔

 آپ ﷺ  نے ہمیں بتایا کہ صدقہ کرنے سے مال بڑھتا ہے اور خیر و برکت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ زمین و آسمان کے رب کا وعدہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ۝﴾

’’شیطان تمھیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ وسعت والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرة 268:2)

یہ اللہ رب العزت کا پختہ وعدہ ہے کہ وہ صدقہ کرنے والے کو خیرات و برکات سے نوازے گا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ صدقہ کرنے والا تھوڑا سا مال خرچ کرتا ہے لیکن اللہ تعالی اسے اولاد کی اصلاح ، صحت و عافیت اور احوال و امور کی درستی کی صورت میں ڈھیروں برکتیں عطا کرتا ہے۔

رب العالمین کے حکم کی تعمیل اور صدقہ کرنے والوں کے سردار محمد ﷺکی اقتدا میں صدقے کا تجربہ کریں۔ آپ کبھی نا کام نہیں ہوں گے آپ کو زندگی میں کامیابی، اجر وثواب، بھلائی اور برکت نصیب ہو گی کیونکہ صدقہ مال کی طہارت و پاکیزگی، رزق کی وسعت و فراوانی، کشادہ دلی ثواب میں اضافے اور رب کی رضا کا باعث ہے۔

آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ صدقہ رب تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ صدقہ کرنے والا جو مال خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے صدقہ کرنے والے کا دفاع کرتا ہے اور اسے بحرانوں، لغزشوں، پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچاتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک باللہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمايا: «إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوء))

’’صدقہ، اللہ تعالی کے غصب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الزكاة، حديث: 664)

آپﷺ نے ہمیں خبر دی کہ صدقہ گناہوں کی بخشش اور برائیوں کا کفارہ بن جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَ ۚ وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ؕ وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝﴾

’’اگر تم ظاہر کر کے صدقات دو تو یہ اچھی بات ہے اور اگر تم انھیں چھپاؤ اور فقیروں کو دو تو وہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ وہ (اللہ ) تم سے تمھارے گناہ دور کر دے گا اور تم جو بھی عمل کرتے ہو، اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔‘‘ (البقرة 271:2)

اس عظیم آیت پر غور کریں جس میں رب العالمین نے صدقہ کرنے کی ترغیب دی اور یہ حکم دیا ہے کہ پاکیزہ مال سے صدقہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالی صرف پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۝﴾

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ا تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم کھاتے ہو اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمھارے لیے زمین میں سے نکالی ہیں۔ اور اللہ کی راہ میں ردی اور خراب چیز خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو جبکہ تم خود تو وہ چیز لینا پسند نہیں کرتے الا یہ کہ اس کی بابت تم آنکھیں بند کرلو۔ اور جان لو کہ بے شک اللہ تعالی بڑا بے پرواہ نہایت قابل تعریف ہے۔‘‘ (البقرة 267:2)

جس طرح آپ دنیا میں اپنے محبوب کو سب سے اچھا، خوبصورت اور اعلی تحفہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح اللہ ذوالجلال والاکرام کے لیے بھی ایسا مال دیں جو وہ قبول کرتا ہے اور آپ سے قرض مانگتا ہے، پھر آپ یہ کوشش کیوں نہ کریں کہ اپنا سب سے عمدہ مال اس کے حضور پیش کریں، خواہ وہ نقدی ہو یا پھل وغیرہ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے واضح کیا کہ اگر گھٹیا یا حرام مال اور سازوسامان آپ کو پیش کیا جائے تو آپ اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے الا یہ کہ آپ آنکھیں بند کر کے نظر انداز کر دیں۔ کوئی جو ّاد و کریم اور بلند شان والے رب کے ساتھ ایسا کرے تو وہ بھلا اس کا صدقہ قبول کرے گا ؟! غور کریں اللہ تعالی نے آیت کا اختتام ایک نہایت لطیف اور عجیب نکتے پر کیا ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾

’’اور جان لو کہ بے شک اللہ تعالی بڑا بے پروا، نہایت قابل تعریف ہے۔‘‘

 یعنی جو احکام الہی سے منہ موڑے اور اعراض کرے تو اللہ تعالی اس سے بے نیاز ہے۔ اسے کسی کی پروا نہیں۔ اس کے پاس تو زمین و آسمان کے خزانے ہیں۔ وہ حمید ہے، یعنی جو اس کی خاطر کسی کو دے اور اللہ کی طرف متوجہ ہو تو وہ اس کی تعریف اور قدر کرتا ہے، لہٰذا  اگر آپ اس کی طرف متوجہ ہیں تو آپ کو حمد و شکر اور نہ ختم ہونے والے ثواب کی خوشخبری ہو۔ اور اگر آپ ﷺ پھیرتے ہیں تو اللہ تعالی ہم سے بلکہ تمام انسانیت سے بے نیاز ہے۔آپ ﷺ نے بتایا کہ صدقہ بیماریوں کا کامیاب علاج ہے، نیز  یقینًا وہ اللہ کے حکم سے شفا اور عافیت کا راستہ ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ))

’’اپنے بیماروں کا علاج صدقے سے کرو۔‘‘ (صحیح الجامع، حدیث: 3358)

نبیﷺ نے یہ بھی بتایا کہ صدقہ آگ سے آڑ اور عذاب سے بچانے والا ہے اور باری تعالی کے غضب سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَّسْتَتِرَ مِنَ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَلْيَفْعَلْ))

’’تم میں سے جو شخص آگ سے محفوظ رہنے کی استطاعت رکھے، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے کیوں نہ ہو، وہ ضرور ایسا کرے۔‘‘ (صحيح مسلم، الزكاة، حدیث: 1016)

اور ایک روایت میں ہے: ’’اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقُ تَمْرَةٍ‘‘

’’جہنم کی آگ سے بچو اگر چہ تمھیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔‘‘ (صحیح البخاري، الزكاة، حدیث:1417)

جب آپﷺ نے خرچ کرنے کا حکم دیا، خواہ تھوڑا ہی ہو اور بتایا کہ یہ صدقہ اللہ کے عذاب اور اس کے غضب و ناراضی سے بچانے والا ہے، تو کیا مسلمان اپنی نجات کے اسباب اختیار کرنے میں تاخیر کر سکتا ہے۔ بالخصوص جب اس نجات کے لیے نہایت معمولی چیز درکار ہو جو اس کی استطاعت میں بھی ہو، جیسے روٹی کا ٹکڑا، پانی کا گھونٹ، مٹھی بھر کھجور، اچھی بات یا صرف مسکراہٹ ؟!

آپ ﷺ نے ہمیں خوشخبری دی کہ صدقہ وہ عمل ہے جس کا ثواب وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔

  آپ ﷺ نے فرمایا :

((إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُّنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُولَهُ))

’’جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل مختم ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ ختم نہیں ہوتے ): صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، الوصية، حديث: 1631)

صدقے کے اثرات کا تسلسل دیکھیں کہ صدقہ کرنے والے کی زندگی ختم ہونے کے بعد بھی اس کا ثواب جاری رہتا ہے۔ روزہ، نماز، حج اور بہت سی عبادات کا ثواب ختم ہو جاتا ہے، البتہ صدقے کی خیر و برکت سے انسان وفات کے بعد بھی فائدہ حاصل کرتا رہتا ہے اور رب تعالیٰ کی رحمت اور خوشنودی کی بارش برستی رہتی ہے۔ اس صدقہ جاریہ کی ایک مثال مسجد تعمیر کرتا ہے کہ جو شخص بھی اس میں نماز ادا کرے گا، اللہ کا ذکر کرے گا اور قرآن مجید کی تلاوت کرے گا، مسجد بنانے والے کو ان سب کے برابر اجر ملے گا۔ اسی طرح نفع بخش علم کا صدقہ ہے کہ کسی کو تعلیم دے یا کتاب تالیف کرے تو اس کے سکھائے ہوئے علم کا سلسلہ جب تک چلے گا، اسے ثواب ملتا رہے گا۔

یہ سب صدقہ جاریہ کی صورتیں ہیں۔ نیک اولا د بھی صدقے کے عموم میں داخل ہے کیونکہ وہ باپ کی کمائی اور وارث ہے، صدقات جاریہ کا سبب ہے اور والد کو وفات کے بعد ملنے والی دعاؤں کا ذریعہ ہے، اس لیے میں کہتا ہوں کہ صدقہ جاریہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے، حالانکہ اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ صدقہ کرنے والوں کے لیے کائنات کے سردارﷺ کی سب سے خوبصورت خوشخبری یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی قدر کرتے ہوئے جنت کا ایک دروازہ ان کے لیے خاص کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ))

’’جو صدقہ کرنے والوں میں سے ہوگا، اسے باب الصدقة، یعنی صدقے کے دروازے سے بلایا جائے گا۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث : 1897)

اللہ تعالی نے صدقہ کرنے والوں کی عزت و تکریم کے لیے ایک دروازہ خاص کیا تا کہ دنیا کی زندگی میں انھوں نے جو خرچ کیا، انھیں اس کا بدلہ دے۔ مبارک اور خوشخبری ہو صدقہ کرنے اور مال خرچ کرنے والوں کے لیے؟ آپ ﷺ نے اپنے عمل سے صدقے کی دعوت دی اور آپ سب سے پہلے صدقہ کرنے والے تھے۔ آپ نے خواتین و حضرات، چھوٹے بڑے، ہر ایک پر میراث نبوت کے علم کا صدقہ کیا۔ اور محمدﷺ کا صدقہ کائنات کا افضل ترین صدقہ ہے۔آپ ﷺ دن رات اور سفر و حضر میں علم سکھاتے فتوی دیتے اور تعلیم دیتے تھے۔

آپﷺ نے اپنا کھانا بھی صدقہ کیا۔ آپ سب لوگوں سے زیادہ کی اور مہمان نواز تھے۔ ہر ایک کی عزت و تکریم کرتے اور خوش آمدید کہتے۔ آپ کے دستر خوان سے مسلمان، مشرک، منافق اور یہودی، مرد و خواتین، امیر غریب، چھوٹے بڑے اور بوڑھے سب فائدہ اٹھاتے۔

آپ ﷺ نے اپنی نیند کا بھی صدقہ کیا، چنانچہ آپ آنے والے سے باتیں کرتے اور مہمان کو وقت دیتے۔

آپ ﷺ نے دنیا کے مال و متاع، یعنی اونٹ ، بکریوں، گھوڑوں، کپڑوں اور ملے وغیرہ کا صدقہ بھی کیا۔ آپ کوئی چیز روک کر نہ رکھتے۔ جو کچھ پاس ہوتا، اسے بڑی تیزی سے اللہ کی راہ میں لگا دیتے۔ سونا، چاندی، کھانا اور لباس وغیرہ کوئی چیز آپ کے پاس باقی نہ رہتی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کے گھر والوں نے ایک بکری ذبح کی اور اس کا اکثر حصہ صدقہ کر دیا تو نبی ﷺ نے پوچھا: ”اس کا کتنا حصہ بچا ؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کی : اس کی صرف ایک دستی بچی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’دستی کے سوا سارا گوشت بچ گیا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب صفة القيامة، حديث (2470)

آپ ﷺ نے اپنے اخلاق کا بھی صدقہ کیا۔ اپنی امت پر حلم و کرم، سخاوت اور آسانیوں کے دریا بہائے ، آپ کی سخاوت، عظیم لطف و کرم اور عالی شان رحمت کی وجہ سے امت کا ہر فرد آپ کی زیارت، رفاقت اور تعلق کو سعادت سمجھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے آپ کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَلَمِينَ﴾

’’اور (اے نبی!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لیے ہی بھیجا ہے۔‘‘ (الأنبياء 107:21)

کبھی آپﷺ کے حلم و بردباری، عفو و درگزر، نظر انداز کرنے اور لطف و کرم کا صدقہ مال کے صدقے سے کہیں بڑھ کر ہوتا۔

کبھی  آپ ﷺ نے اپنے اعلیٰ جاہ و منصب کا صدقہ کیا۔ آپ نے خون نہ بہانے، جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنے کی سفارش کی اور یہ آپ کے سب سے عظیم صدقات ہیں۔

آپﷺ نے اپنے وقت کا صدقہ کیا اور اسے اپنے رب کی عبادت اور امت کی اصلاح و ہدایت میں صرف کیا۔ کسی کو تعلیم دے رہے ہیں، کسی کو مسئلہ بتا رہے ہیں، کسی کی تربیت کر رہے ہیں، کسی کو نصیحت کر رہے ہیں کسی کی دل جوئی کر رہے ہیں، کسی کی ڈھارس بندھا رہے ہیں، کسی سے تعزیت کر رہے ہیں، کسی کی غم خواری کر رہے ہیں اور کسی کے لیے برکت کی دعا کر رہے ہیں۔ گویا آپ کا وقت تعاون ، اصلاح ، تعلیم و تربیت، ترکیه، جهاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور غیر اور بھلائی کی دیگر سرگرمیوں میں گزرا۔ کیا اس صدقے سے عظیم کوئی صدقہ ہے ؟! بلاشبہ یہ سونے چاندی کے خزانے خرچ کرنے اور ہیرے جواہرات لٹانے سے عظیم صدقہ ہے۔

بلکہ آپ ﷺ خوش دلی ، شرح صدر اور چہرہ انور کی مسکراہٹ کے ساتھ صدقہ دیتے اور مال خرچ کرتے اور اس طرح خوش ہو کر نوازتے گویا اس عطیے سے آپ مستفید ہو رہے ہیں اور آپ ہی کو نفع مل رہا ہے، حالانکہ آپﷺ مال دے رہے ہوتے۔

أَنْتَ الَّذِيْ بَذَلَ الْحَيَاةُ رَخِيْصَةً

وَنَشَرْتَ كُلَّ فَضِيلَةٍ فِي النَّاسِ

أَسْخٰي مِنَ الْغَيْثِ الْعَمِيمِ إِذَا سَخَا

يَسْقِي البَسِيطَةَ رَوْضَهَا وَالْقَاسِي

لَازَالَ جُودُكَ لِلْقِيَامَةِ وَاكِفٌ

أنتَ الْمُقَدِّمُ فِي النَّدَى وَالْبَأْسِ

سُبْحَانَ مَنْ جَمَعَ الْمَكَارِمَ كُلَّهَا

فِي شَخْصِ أَحْمَدَ طَيِّبِ الْأَغْرَاسِ

’’آپ ﷺ تو وہ ہیں جنھوں نے اپنی ترو تازہ زندگی دل کی خوشی سے قربان کر دی اور ہر خوبی لوگوں میں پھیلا دی۔ آپ موسلا دھار بارش سے بھی زیادہ کئی ہیں کہ جب وہ سخاوت کرتی ہے تو ہر نرم اور سخت زمین کو سیراب کرتی ہے۔ آپ کا جو دو سخا قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ کو سخاوت میں بھی آگے رکھا گیا ہے اور جنگ میں بھی۔ پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اعلی اور عمدہ اوصاف کو احمد نام کی شخصیت میں جمع کر دیا ہے جس کی اصل نہایت ہی عمدہ ہے۔

………………