مہر کی گرانی اور کفو کو قبول نہ کرنے کے مسائل

الحمد لله الذي بدأ خلق الإنسان من طين، ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهين، خلق من الماء بشرا فجعله نسبا وصهرا، أحمده سبحانه، أحل لنا الطيبات وحرم علينا الخبائث، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، الحكيم العليم ﴿خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَة﴾ وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أرسله رحمة للعالمين، وهاديا إلى الصراط المستقيم. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جس نے آدمی کی پیدائش مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل نچڑے ہوئے بے حقیقت پانی سے قائم رکھی اس پانی (یعنی نطفہ) سے انسان کو بنایا پھر اس کے لئے نسب اور دامادی کا رشتہ قائم کیا، میں اس اللہ سبحانہ کی تعریف بیان کرتا ہوں جس نے ہمارے لئے پاکیزہ چیز میں حلال کیں اور گندی چیزوں کو حرام ٹھرایا اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ حکیم و علیم ہے، جس نے تم ہی میں سے تمہاری بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تم میں الفت و محبت رکھی۔ میں یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں سارے جہان کے لئے رحمت اور ہادی بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد! لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پیدا کر کے روئے زمین پر پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو اور قطع ارحام سے بچو بیشک اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی جان رکھو کہ مسلمانوں کے درمیان ان کے مختلف قوموں اور طبقوں میں جو اجتماعی مشاکل پائے جاتے ہیں۔ ضروری ہے۔ کہ ہر مسلمان ان کا حل تلاش کرے اور ان سے رہائی حاصل کرنے کے لئے آسان ترین طریقہ ڈھونڈے۔
آج ہم جن مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان میں شادی بیاہ اور اس سے متعلق کفو کو لوٹا دینے ان کی منگنی قبول نہ کرنے اور اپنے ماتحتوں کو شادی سے روک دینے کی مشکلات بھی ہیں۔
یہ مشکلات یا تو کسی غرض کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔ یا تنگ نظری کے سبب یا محض تشدد اور ایذارسانی کے ناطے۔ اسی طرح مہر کی گرانی اور اس کے اندر فخر و مباہات شادی کے موقع پر بے جا فضول خرچی خلاف شرع افعال اور مال و دولت کا اسراف بھی ہے۔ ہر مسلمان کا یہ فرض ہے۔ کہ ان مشکلات کا وہ اپنے تئیں حل تلاش کرے کیونکہ حسب استطاعت ہر شخص سے اس سلسلے میں باز پرس ہو گی۔
لیکن اس سلسلہ میں سب سے بڑی ذمہ داری حکام، علماء اور ان بااثر حضرات پر عائد ہوتی ہے۔ جو لوگوں پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہوں، جن کا معاشرہ کے اندر کوئی مقام ہو اور جو اپنے اندر اصلاح کی طاقت رکھتے ہوں ایسے حضرات کے لئے یہ ہر گز روا نہیں کہ ان مشکلات سے چشم پوشی کر کے بیٹھے رہیں اور یہ مشکلات دن بدن اور لمحہ بہ لمحہ بڑھتی اور مضبوط ہوتی جائیں۔ اللہ کے بندو انکاح زندگی کی ایک ضرورت ہے۔ جس سے کوئی بھی مرد یا عورت مستغنی نہیں رہ سکتی ‘ ساتھ ہی یہ تمام انبیاء کا طریقہ اور رسول سید المتقین صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے۔
آپ کا ارشاد ہے۔ کہ نکاح میری سنت میں سے ہے۔ اور فرمایا:
(فَمَن رغب عن سنتي فليس مني) [صحیح بخاری، کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح (5063) و صحیح مسلم: کتاب النکاح، باب استحباب النكاح لمن تافت نفسه الیه (1401)]
’’جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:
(يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر وأحسن للفرج) [صحیح بخاری، کتاب النکاح باب قول النبی صلی الله عليه وسلم من استطاع منكم الباءة… (5065) صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النكاح لمن تاقت نفسه (1400)]
’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص نان و نه نفقہ کی طاقت رکھتا ہو وہ شادی کرلے کیونکہ یہ نگاہوں کو پست رکھنے والی اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہے۔‘‘
عورتوں کو ان کے ہمسروں کے ساتھ شادی کرنے سے روک دینا بڑی خطر ناک بات ہے۔ اس کا انجام بڑا ہی بھیانک ہو گا یہ چیز سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بھی ہے۔ اور فتنہ و فساد کا باعث بھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه، إن لا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد كبير) [سنن ابن ماجه: کتاب النکاح، باب الاكفاء (1967) البتہ اس میں ’’فساد کبیر‘‘ کے بجائے ’’فساد عریض‘‘ وارد ہے۔]
’’جب تمہارے پاس ایسا شخص پیغام نکاح لے کر آئے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کے ساتھ شادی کر دو اگر ایسا نہیں کرو گے تو روئے زمین پر فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔‘‘
نکاح اور شادی کی ایک بڑی مصیبت مہر کی گرانی بے جا اسراف اور فخر و مباہات میں خوب خوب زیورات و جائداد کا دینا بھی ہے۔ ان چیزوں میں بیجا اسراف کسی کے حق میں بھی اچھا اور قابل تعریف نہیں بلکہ یہ فخر و تکبر کی بات ہے، تنگدستوں کے لئے بار گراں اور خوشحال طبقہ کے لئے بھی باعث پریشانی ہے۔ اس سے اللہ تعالی کی وہ حکمت ہی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ جس کے لئے اس نے نکاح مشروع کیا ہے، مزید برآن اس سے ان عورتوں پر تعلم ہوتا ہے۔ جو محض اسی بہانہ سے اپنے ہمسروں کے ساتھ شادی کرنے سے روک دی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کے سر پرست متشدد ہوتے ہیں۔ اور اونچی مہر اور ایسی بڑی جائداد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جس کی نہ شریعت نے اجازت دی ہے۔ نہ اس میں کوئی حکمت و مصلحت ہے۔ اور نہ ہی وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ انہوں تو
نے فرمایا:
(لا تُغَالُوا في صدقات النساء، فإن ذلك لو كان مكرمة في الدُّنيا، وتقوى عِندَ اللهِ، كَانَ أَوْلاكُم به رسول الله صلى الله
عليه وسلم) [سنن ابی داود: کتاب النکاح، باب الصداق (2106) و جامع ترمذی: ابواب النکاح، باب ما جاء فی مہور النساء (1127) و سنن ابن ماجه، کتاب النکاح باب صداق انتساء (1887) اور سنن دارمی: کتاب النکاح، باب کم كانت مهور ازواج النبي ﷺ (2310) میں تقریب ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث مردی ہے۔]
’’عورتوں کے مہر کے سلسلہ میں غلو نہ کرو کیونکہ یہ چیز اگر دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقوی کی بات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تم سب سے زیادہ اس کام کے مستحق تھے۔‘‘
مہر کی گرانی در حقیقت نکاح سے روک دینے کا ایک بنیادی سبب ہے۔ اور رسول مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سنت کے خلاف ہے۔ جو آپ نے مہر کی تخفیف کی بابت بیان فرمائی اور اس کی ترغیب دی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
(إن أعظم النكاح بركة أيسره مئونه) [مسند احمد: 82/6 (24583)]
’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے۔ جس میں خرچ کم سے کم ہو۔‘‘
نیز آپ نے ایک شخص کو جنہوں نے ایک عورت کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ کیا تھا، حکم ديا:
(التمس ولو خاتماً من حدید)
’’کہ مہر کے لئے کوئی چیز تلاش کرو خواہ لوہے کی ایک انگھوٹھی ہی ہو۔‘‘
چنانچہ تلاش کے بعد بھی انہیں کوئی چیز نہ ملی تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم کو قرآن شریف کا کچھ حصہ یاد ہے؟ جواب دیا کہ فلاں فلاں سورت یاد ہے۔ آپ نے فرمایا:
(زوجتكها بما معك من القرآن) [صحیح بخاری: کتاب النکاح، باب إذا كان الولي هو الخاطب (5132)]
’’تمہارے پاس قرآن کا جو حصہ ہے۔ اس کے بدلہ ( بطور مہر ) میں نے اس عورت سے تمہاری شادی کردی۔‘‘
اللہ کے بندو! نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی تمہارے لئے اسوہ و نمونہ ہے۔ انہیں کی اقتداء کرو سلف صالحین کے آداب زندگی کو اپناؤ میر کے سلسلہ میں غلو نہ کرو شادی بیاہ میں فضول خرچی سے بچو اپنے اموال فضول میں ضائع نہ کرو۔ جس سے تمہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو۔ یا بسا اوقات الٹے تمہیں دینی یا دنیاوی نقصان برداشت کرنا پڑے اپنی بیٹیوں، بہنوں اور دیگر ماتحتوں کی ان کے ہمسروں کے ساتھ شادی کرنے میں رکاوٹ نہ ہو۔ ہمسری جاہ و منصب اور مال و منال کے اندر نہیں بلکہ تقوی اور دین و اخلاق کی ہمسری معتبر ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه، إن لا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد كبير)(حوالہ گزر چکا ہے)
’’جب تمہارے پاس ایسا شخص پیغام نکاح لے کر آئے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کے ساتھ شادی کر دو اگر ایسا نہیں کرو گے تو روئے زمین پر فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘
برادران اسلام! نہایت افسوس کی بات ہے۔ کہ آج بہت سے لوگوں کے یہاں میری شادی کا مقصود اصلی بن چکی ہے۔ اس مہر کی وجہ سے وہ مناسب جوڑے کو ٹھکرا کر نا مناسب اور غیر کفو کے ساتھ شادی کر دیتے ہیں۔ لیکن بات در حقیقت یوں نہیں ہے۔ بلکہ شادی کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل ہو ‘ صالح اور نیک اولاد پیدا ہو میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے سے راحت و سکون ملے اور ان کے مابین الفت و محبت قائم رہے۔
اللہ کے بندو! کب ہمارے اندر نرمی پیدا ہو گی؟ یہ مذموم عادتیں کب چھوڑیں گے؟ الفت و محبت کا ہمارے اندر بول بالا کب ہو گا؟ بخل و حرص کی برائیاں کب دور ہوں گی؟ تو ان ایک ناتواں کی مدد کب کرے گا؟ مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لئے خیر و سعادت اور خوشگوار زندگی کی راہ کب ہموار کرے گا؟ ذرا سوچو تو سہی اس غریب کا کیا ہو گا جو گراں بار مہر ادا کرنے اور رسم ورواج کے پرستاروں کا ساتھ دینے کی طاقت نہیں رکھتا؟ آخر بیچاری ان دو شیزاؤں کا کیا قصور ہے۔ جو محض مر کی گرانی اور شادی کے فضول اخراجات کی وجہ سے شادی سے محروم کر دی گئی ہیں، جن کو صاحب خانہ اور پاکباز ہیوی اور صالح اولاد کی مشفق ماں بننے سے روک دیا گیا ہے؟
پس اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو بھلائی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناه و معصیت میں کوئی مدد نہ دو اللہ عزوجل کے اس فرمان کو سامنے رکھو:
﴿وأَنكِحُوا الْأَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يكُوْنُوْا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ﴾ (النور:32)
’’اپنے بے نکاح افراد کے نکاح کر دو اور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کے بھی نکاح کر دو اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے خوشحال کر دے گا اور اللہ وسعت والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
خطبه ثانیه
الحمد لله الذي خلق فسوى، والذي قدر فهدى، خلق الإنسان من زوجين ذكر وأنثى، أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله البشير النذير، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك سيدنا محمد وعلى آله وصحبه.
ہر قسم کی تعریف کا سزاوار اللہ ہے۔ جس نے سب چیزوں کو بنایا اور عمدگی سے بتایا، جس نے اندازہ مقرر کیا پھر راور کھائی انسان کو مرد اور عورت کے جوڑے سے پیدا کیا میں شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جنہیں اللہ نے بشیر و نذیر بنا کر دنیا میں بھیجا۔ اے اللہ! تو اپنے بندے ورسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور یہ بات بخوبی ذہن نشین کر لو کہ اللہ نے تمہیں جن افراد کا سر پرست اور نگہبان بتایا ہے۔ ان کے سلسلہ میں تم سے باز پرس کرے گا ہر شخص اپنی جگہ پر ذمہ دار ہے۔ اور ماتحتوں کے بارے میں اس سے باز پرس ہو گی۔
اپنے ماتحتوں کو بغیر کسی شرعی عذر کے ان کے ہمسروں کے ساتھ شادی کرنے سے روکنا یار کاوٹ کا سبب بنا در حقیقت امانت کو ضائع کرنا اخلاق و مروت سے بیزاری اور بہت بڑا گناہ اور ظلم ہے۔ یہ عورت پر بھی ظلم ہے۔ کہ اس کو اس کے ہمسر سے باز رکھا جاتا ہے۔ اور سر پرست کا خود اپنے نفس پر بھی ظلم ہے۔ کہ اس کے ذریعہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی مخالفت کرتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے۔ کہ وہ ان خلاف مصلحت کا موں اور مذموم رسموں کے خلاف آواز بلند کرے ‘ با اثر حضرات اپنے معاشر و پر نظر رکھیں علماء و خطباء اپنے وعظ و تقریر میں اس پر روشنی ڈالیں مدرسین درس کے دوران اور گھر کے سر پرست اپنے اہل و عیال کو اس سے بچنے کی تاکید کریں اور اس طرح سے جملہ امور و معاملات بالخصوص نکاح و شادی کے مسائل میں باہم تعاون کا مظاہرہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔