مومن اور فاسق برابر نہیں

اہم عناصر:
❄ مومن اور فاسق موت میں برابر نہیں ❄ مومن اور فاسق قبر میں برابر نہیں
❄ مومن اور فاسق حشر میں برابر نہیں ❄ مومن اور فاسق انجام میں برابر نہیں
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم اَفَمَنۡ كَانَ مُؤۡمِنًا كَمَنۡ كَانَ فَاسِقًا‌ لَا يَسۡتَوٗنَ]السجدہ: 18[ اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ كَالۡمُجۡرِمِيۡنَ]القلم: 35[ لَا يَسۡتَوِىۡۤ اَصۡحٰبُ النَّارِ وَاَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ‌ ]الحشر: 20[
ذی وقار سامعین:
معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے جب کسی کو کہا جاتا ہے کہ "نیکی کرو ، نماز پڑھو ، اللہ کے قریب ہو جاؤ اور گناہ چھوڑ دو” تو اس کے جواب میں ایک جملہ بڑا معروف ہے جو کہا جاتا ہے کہ "اللہ بڑا غفور الرحیم ہے وہ معاف کر دے گا”. اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالی غفور بھی ہے ، رحیم بھی ہے اور رحمان بھی ہے. لیکن دنیا بنانے کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اچھا کون ہے؟ برا کون ہے؟ اگر کل قیامت والے دن یہ دونوں ہی برابر ہو گئے تو دنیا بنانے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا. اس لیے آج کے خطبہ جمعہ میں ہم آپ کے سامنے یہ بات رکھیں گے کہ مومن اور فاسق و فاجر ، نیک بندہ اور گنہگار بندہ یہ اللہ کے دربار میں کسی بھی حال میں برابر نہیں ہیں۔
مومن اور فاسق موت میں برابر نہیں
جس طرح نیک اور بد کی زندگی اور اللہ کے فرمانبردار اور اس کے نافرمان کی زندگی ایک جیسی نہیں ہوتی اسی طرح ان دونوں کی موت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛
أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهمْ كَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَّحْیَاهم وَمَمَاتُهمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ ]الجاثیہ: 21[
’’ کیا برے کام کرنے والوں کا یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ؟ کیا ان کا مرنا جینا ایک جیسا ہو گا ؟ برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں ۔ ‘‘
یعنی اگر ان مجرموں کا یہ خیال ہے کہ ان کا اور ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کا مرنا جینا ایک جیسا ہو گا تو یقینی طور پر ان کا یہ خیال برا ہے ، کیونکہ ان کی موت وحیات میں بہت فرق ہے ۔۔۔ اور یہ فرق کیا ہے ؟ اس بارے میں متعدد قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ موجود ہیں ۔ ان میں سے چند ایک آپ بھی سماعت فرما لیں : نیک اور صالح انسان کی موت کی کیفیت کواللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتے ہیں : یَا أَیَّتُها النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضية مَّرْضِیَّة فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ]الفجر: 27-28-29-30[
’’ اے اطمینان والی روح ! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل ، اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش ۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا ۔ ‘‘
یہ عظیم خوشخبری مومن کو اس کی موت کے وقت دی جاتی ہے ۔ گویا اس کی موت آسان ہوتی ہے اور اس حالت میں اس پر آتی ہے کہ جب وہ اللہ سے اور اللہ اس سے راضی ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ کے نافرمان کی موت اس حالت میں آتی ہے کہ فرشتۂ موت اسے موت کے وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی خبر سناتا ہے اور اس کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : تو اللہ تعالیٰ کے غضب کی طرف چلی جا ۔ برے اور نافرمان انسان کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ؛
وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئكُة بَاسِطُوا أَیْدِیْهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی الله غَیْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آیَاتِه تَسْتَکْبِرُونَ ]الانعام: 93[
’’ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا کر انہیں کہہ رہے ہوتے ہیں : اپنی جانیں نکالو ، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم اللہ پر جھوٹ بولتے تھے اور تم اللہ کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔ ‘‘
اس آیت میں غور فرمائیں کہ ظالم کی موت کتنی بری اور کس قدر سخت ہوتی ہے کہ فرشتے اس کی جان نکالنے پر تیار نہیں ! وہ اسی کو حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی جان خود نکالو ! اور موت کے وقت ہی اسے عذابِ الہی کی دھمکی سنا دیتے ہیں ! اور کافر کی موت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یوں کھینچا ہے :
فَکَیْفَ إِذَا تَوَفَّتْهمُ الْمَلاَئِکَة یَضْرِبُوْنَ وُجُوْههُمْ وَأَدْبَارَهمْ ] محمد: 47[
’’ پس ان کی کیسی ( درگت ) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور سرینوں پر ماریں گے ۔ ‘‘
جبکہ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبرداروں اور نافرمانوں کی موت کے فرق کو یوں واضح کیا ہے۔سب سے پہلے نافرمانوں کی موت کے متعلق فرمایا : اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاهمُ الْمَلائِکَة ظَالِمِیْ أَنفُسِهمْ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوئٍ بَلیٰ إِنَّ اللّٰه عَلِیْمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ. فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْها فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ ]النحل 28-29[
’’ وہ جو ( نافرمانی کرکے ) اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو وہ نیاز مندی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم توکوئی برا کام نہیں کرتے تھے ۔( تو ان سے کہا جاتا ہے) کیوں نہیں ! اللہ تمھارے عملوں کو خوب جاننے والا ہے ۔ لہٰذا تم ہمیشہ کیلئے جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ، پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا ! ‘‘
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبرداراور نیک لوگوں کی موت کا تذکرہ یوں فرماتا ہے ؛
اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاهمُ الْمَلآئِکَة طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّة بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
’’ وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں فرشتے انہیں کہتے ہیں : تمھارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے ، جاؤ جنت میں چلے جاؤ اپنے ان اعمال کے سبب جو تم کرتے تھے ۔ ‘‘ ]النحل: 16[
ان آیات سے ثابت ہوا کہ نیک لوگوں کو ان کی موت کے وقت فرشتے سلامتی اور جنت کی عظیم خوشخبری سناتے ہیں جبکہ نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی سخت وعید سناتے ہیں ۔ یہی بنیادی فرق ہے نیک اور بد کی موت میں ۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، پھر اگر مرنے والا نیک ہو تو وہ کہتے ہیں : اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی نکل ، تُو قابلِ ستائش حالت میں نکل اور تجھے آرام اور عمدہ روزی کی خوشخبری ہو اور اس بات کی کہ اللہ تجھ پر راضی ہے ۔ فرشتے یہ باتیں بار بار اسے کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کی روح نکل جاتی ہے ۔ پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے : یہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے ۔ تو کہا جاتا ہے : اس پاک روح کو خوش آمدید جو پاک جسم میں تھی ، تم قابلِ ستائش حالت میں اندر آ جاؤ ۔ اور تمھیں آرام اور عمدہ روزی کی خوشخبری ہو اور اس بات کی کہ اللہ تم پر راضی ہے۔ فرشتے اسے بار بار یہ خوشخبریاں سناتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس آسمان پر پہنچ جاتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ ہے (یعنی علیین میں) اور اگر مرنے والا برا ہو تو فرشتہ کہتا ہے: اے وہ ناپاک روح جو ناپاک جسم میں تھی نکل ، تُو قابلِ مذمت حالت میں نکل ۔ اور تجھے جہنم اور پیپ اور طرح طرح کے عذاب کی خوشخبری ہو ، پھر اس سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی روح نکل جاتی ہے ، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے اور اس کیلئے جب آسمان کا دروازہ کھلوایا جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے : اس ناپاک روح کو کوئی خوش آمدید نہیں جو ناپاک جسم میں تھی ، تم قابلِ مذمت حالت میں واپس پلٹ جاؤ اور تمھارے لئے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جا سکتے ۔ پھراسے واپس بھیج دیا جاتا ہے اورپھر وہ قبر میں آ جاتی ہے۔ ‘‘ [ابن ماجہ :4262وصححہ الألبانی[
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللّٰه أَحَبَّ اللّٰه لِقَائَ ہُ ، وَمَنْ كَرِہَ لِقَائَ اللّٰه كَرِہَ اللّٰه لِقَائَ ہُ
’’جو شخص اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہو اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ۔ اورجو شخص اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہو اللہ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اگر اس سے مراد موت کو نا پسند کرنا ہے تو اسے توہم سب نا پسند کرتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَیْسَ كَذٰلِکَ،وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللّٰه وَكَرَامَتِه،فَلَیْسَ شَیْئٌ أَحَبَّ إِلَیْه مِمَّا أَمَامَه،فَأَحَبَّ لِقَائَ اللّٰهِ، وَأَحَبَّ اللّٰه لِقَائَ ہُ،وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حَضَرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللّٰه وَعُقُوْبَتِهٖ،فَلَیْسَ شَیْئٌ أَكْرَہَ إِلَیْه مِمَّا أَمَامَهُ ،فَکَرِہَ لِقَائَ اللّٰهِ، وَكَرِہَ اللّٰه لِقَائَ ہُ
’’ نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کی رضا کی خوشخبری دی جاتی ہے اور اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انتہائی کریم ہے ۔ اس لئے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے سوا کوئی اور چیز زیادہ محبوب نہیں ہوتی ۔ اور وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ۔ اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کی خوشخبری دی جاتی ہے ، اس لئے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے سوا کوئی اور چیز زیادہ ناپسندیدہ نہیں ہوتی ۔ اوروہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔‘‘ ]البخاری:6507،مسلم :2684[
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ: «مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا المُسْتَرِيحُ وَالمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ: «العَبْدُ المُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالعَبْدُ الفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ العِبَادُ وَالبِلاَدُ، وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ» ]بخاری:6512[
ترجمہ : ابو قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” مستریح یامستراح “ ہے ۔ یعنی اسے آرام مل گیا ، یا اس سے آرام مل گیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ” المستریح او المستراح منہ “ کا کیا مطلب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پاجاتا ہے وہ مستریح ہے اورمستراح منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے ، شہر ، درخت اور چوپائے سب آرام پاجاتے ہیں۔
یعنی بندے اس طرح آرام پاتے ہیں کہ اس کے ظلم وستم اور برائیوں سے چھوٹ جاتے ہیں۔ ایماندا رتکالیفِ دنیا سے آرام پا کر داخل جنت ہوتا ہے۔
مومن کی موت کی مثالیں:
1۔ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ] بخاری 3803[
ترجمہ : جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ۔ آپ نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا.
2۔ لاہور کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالمتین اصغر رحمہ اللہ ستمبر 2021 میں دوران تقریر شان صحابہ پر قرآن کی آیات تلاوت کرتے ہوئے وفات پاگئے.
3۔مولانا قاری عبدالاکبر محمدی رحمہ اللہ چیچہ وطنی والے اذان دیتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے.
4۔ مولانا سید خالد محمود ندیم شاہ رحمہ اللہ ملتان میں شانِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے وفات پا گئے.
فاسق و فاجر کی موت کی مثال:
فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا گیا۔ جب فرعون ڈبکیاں لینے لگا تو اس نے موت و حیات کی کشمکش کے دوران دہائی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لاتے ہوئے مسلمان ہوتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں یہاں تک کہ اس نے اس کا بھی اقرار کیا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ کیا اب ایمان لاتا ہے؟ اس سے پہلے تو بار بار انکار کرچکا اور انتہا درجے کا فسادی تھا۔ بس آج تیرے وجود کو لوگوں کی عبرت کے لیے باقی رکھا جائے گا تاکہ آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائے۔
مومن اور فاسق قبر میں برابر نہیں
❄ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے ( منکر نکیر ) اس کے پاس آتے ہیں‘ وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کاٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کردی جائے گی۔ پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی‘ فرمایا اور منافق وکافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تونے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔ ]بخاری:1374 [
❄ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ، فَإِنَّهُ يُعْرَضُ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالعَشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، فَمِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ] بخاری 3240 [
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رصی اللہ عنہما نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جب کوئی شخص مرتا ہے تو ( روزانہ ) صبح و شام دونوں وقت اس کا ٹھکانا ( جہاں وہ آخرت میں رہے گا ) اسے دکھلایا جاتا ہے ۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ میں۔
❄ سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے ۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی ‘ تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں ( نہایت پر سکون اور خاموشی سے بیٹھے تھے ۔ ) آپ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی ‘ آپ ﷺ اس سے زمین کرید رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا ” اللہ سے قبر کے عذاب کی امان مانگو ۔ “ آپ ﷺ نے یہ دو یا تین بار فرمایا ۔ جریر کی روایت میں یہاں یہ اضافہ ہے ” جب لوگ واپس جاتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آہٹ سنتی ہے ‘ جبکہ اس سے یہ پوچھا جا رہا ہوتا ہے : اے فلاں ! تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ اور تیرا نبی کون ہے ؟ ہناد نے کہا : فرمایا ” اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں : تجھے کیسے علم ہوا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ‘ میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” یہی ( سوال جواب ہی ) مصداق ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان کا «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» پھر وہ دونوں روایت کرنے میں متفق ہیں ۔ فرمایا ” پھر آسمان سے منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے : تحقیق میرے بندے نے سچ کہا ہے ‘ اسے جنت کا بستر بچھا دو ‘ اور اس کو جنت کا لباس پہنا دو ‘ اور اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ “ فرمایا ” جنت کی طرف سے وہاں کی ہوائیں ‘ راحتیں اور خوشبو آنے لگتی ہیں اور اس کی قبر کو انتہائے نظر تک وسیع کر دیا جاتا ہے ۔ ” پھر کافر اور اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور وہ اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ تو منادی آسمان سے ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا ‘ اسے آگ کا بستر بچھا دو ‘ اسے آگ کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے دوزخ کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ فرمایا کہ پھر اس جہنم کی طرف سے اس کی تپش اور سخت گرم ہوا آنے لگتی ہے اور اس پر قبر کو تنگ کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” پھر اس پر ایک اندھا گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے ‘ جس کے پاس بھاری گرز ہوتا ہے ۔ اگر اسے پہاڑ پر مار جائے تو وہ ( پہاڑ ) مٹی مٹی ہو جائے ۔ پھر وہ اسے اس کے ساتھ ایسی چوٹ مارتا ہے جس کی آواز جنوں اور انسانوں کے علاقہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری مخلوق سنتی ہے ۔ اور پھر وہ مٹی ( ریزہ ریزہ ) ہو جاتا ہے ۔ ” فرمایا : پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے ۔ “] ابوداؤد 4753 صححہ الالبانی[
مومن اور فاسق حشر میں برابر نہیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
فَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِيَمِينِهِۦ فَيَقُولُ هَآؤُمُ ٱقۡرَءُواْ كِتَٰبِيَهۡ إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَٰقٍ حِسَابِيَهۡ فَهُوَ فِي عِيشَةٖ رَّاضِيَةٖ فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٖ قُطُوفُهَا دَانِيَةٞ كُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ هَنِيٓـَٔۢا بِمَآ أَسۡلَفۡتُمۡ فِي ٱلۡأَيَّامِ ٱلۡخَالِيَةِ وَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِشِمَالِهِۦ فَيَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي لَمۡ أُوتَ كِتَٰبِيَهۡ وَلَمۡ أَدۡرِ مَا حِسَابِيَهۡ يَٰلَيۡتَهَا كَانَتِ ٱلۡقَاضِيَةَ مَآ أَغۡنَىٰ عَنِّي مَالِيَهۡۜ هَلَكَ عَنِّي سُلۡطَٰنِيَهۡ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ثُمَّ ٱلۡجَحِيمَ صَلُّوهُ ثُمَّ فِي سِلۡسِلَةٖ ذَرۡعُهَا سَبۡعُونَ ذِرَاعٗا فَٱسۡلُكُوهُ إِنَّهُۥ كَانَ لَا يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ ٱلۡعَظِيمِ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلۡمِسۡكِينِ فَلَيۡسَ لَهُ ٱلۡيَوۡمَ هَٰهُنَا حَمِيم وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنۡ غِسۡلِينٖ لَّا يَأۡكُلُهُۥٓ إِلَّا ٱلۡخَٰطِـُٔونَ ]الحاقہ 19تا 37 [
ترجمہ:تو جس کا (اعمال) نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں سے) کہے گا کہ لیجیئے میرا نامہ (اعمال) پڑھیئے.مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا. پس وہ (شخص) من مانے عیش میں ہوگا. (یعنی) اونچے (اونچے محلوں) کے باغ میں. جن کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے. جو (عمل) تم ایام گزشتہ میں آگے بھیج چکے ہو اس کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو. اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں یاد جائے گا وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا (اعمال) نامہ نہ دیا جاتا. اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرا حساب کیا ہے.اے کاش موت (ابد الاآباد کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی. آج میرا مال میرے کچھ بھی کام بھی نہ آیا. (ہائے) میری سلطنت خاک میں مل گئی. (حکم ہوگا کہ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو.پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو. پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے جکڑ دو. یہ نہ تو خدائے جل شانہ پر ایمان لاتا تھا. اور نہ فقیر کے کھانا کھلانے پر آمادہ کرتا تھا. سو آج اس کا بھی یہاں کوئی دوست نہیں. اور نہ پیپ کے سوا کھانا ہے. جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔
❄ صفوان بن محرزمازنی نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جارہا تھا۔ کہ ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا رسول کریم ﷺ سے آپ نے ( قیامت میں اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی ) سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے نزدیک بلا لے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے؟ وہ مومن کہے گا ہاں، اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آجائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ ( ملائیکہ، انبیاء، اور تمام جن و انس سب ) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبر دار ہو جاؤ ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہو گی۔ ]بخاری 2441 [
❄ مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’ قیامت کے دن سورج کو بندوں سے قریب کردیاجائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل یادومیل کے فاصلے پر ہوگا’۔ راوی سلیم بن عامر کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے کون سی میل مراد لی ہے، زمین کی مسافت یا آنکھ میں سرمہ لگانے کی سلائی)، ‘پھر سورج انہیں پگھلادے گا اور لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، بعض ایڑیوں تک، بعض گھٹنے تک، بعض کمر تک اور بعض کاپسینہ منہ تک لگام کی مانند ہو گا ، مقداد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺاپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ پسینہ لوگوں کے منہ تک پہنچ جائے گا جیسے کہ لگام لگی ہوتی ہے۔ ]ترمذی: 2421 صححہ الالبانی[
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ ] بخاری 660 [
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے نبی ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا کہ سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اوّل انصاف کرنے والا بادشاہ، دوسرے وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا، تیسرا ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے، چوتھے دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی للٰہی ( اللہ کے لیے محبت ) محبت ہے، پانچواں وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، چھٹا وہ شخص جس نے صدقہ کیا، مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور ( بے ساختہ ) آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
مومن اور فاسق انجام میں برابر نہیں
❄اِنَّ لِلۡمُتَّقِيۡنَ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ جَنّٰتِ النَّعِيۡمِ ]القلم 34 [
ترجمہ:بلاشبہ ڈرنے والوں کے لیے ان کے رب کے ہاں نعمت والے باغات ہیں۔
❄وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ‌ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ]التوبہ 72 [
ترجمہ: اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے، اور پاکیزہ رہنے کی جگہوں کا جو ہمیشگی کے باغوں میں ہوں گی اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی سب سے بڑی ہے، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔
❄إِلاَّ أَصْحَابَ الْيَمِينِ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِينَ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ]المدثر 39 تا 44 [
مگر داہنے والے۔ باغوں میں ہوں گے، پوچھیں گے۔ گناہگاروں سے۔ کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔ وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔
❄❄❄❄❄

اہم عناصر:
❄ مومن اور فاسق موت میں برابر نہیں ❄ مومن اور فاسق قبر میں برابر نہیں
❄ مومن اور فاسق حشر میں برابر نہیں ❄ مومن اور فاسق انجام میں برابر نہیں
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم اَفَمَنۡ كَانَ مُؤۡمِنًا كَمَنۡ كَانَ فَاسِقًا‌ لَا يَسۡتَوٗنَ]السجدہ: 18[ اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ كَالۡمُجۡرِمِيۡنَ]القلم: 35[ لَا يَسۡتَوِىۡۤ اَصۡحٰبُ النَّارِ وَاَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ‌ ]الحشر: 20[
ذی وقار سامعین:
معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے جب کسی کو کہا جاتا ہے کہ "نیکی کرو ، نماز پڑھو ، اللہ کے قریب ہو جاؤ اور گناہ چھوڑ دو” تو اس کے جواب میں ایک جملہ بڑا معروف ہے جو کہا جاتا ہے کہ "اللہ بڑا غفور الرحیم ہے وہ معاف کر دے گا”. اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالی غفور بھی ہے ، رحیم بھی ہے اور رحمان بھی ہے. لیکن دنیا بنانے کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اچھا کون ہے؟ برا کون ہے؟ اگر کل قیامت والے دن یہ دونوں ہی برابر ہو گئے تو دنیا بنانے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا. اس لیے آج کے خطبہ جمعہ میں ہم آپ کے سامنے یہ بات رکھیں گے کہ مومن اور فاسق و فاجر ، نیک بندہ اور گنہگار بندہ یہ اللہ کے دربار میں کسی بھی حال میں برابر نہیں ہیں۔
مومن اور فاسق موت میں برابر نہیں
جس طرح نیک اور بد کی زندگی اور اللہ کے فرمانبردار اور اس کے نافرمان کی زندگی ایک جیسی نہیں ہوتی اسی طرح ان دونوں کی موت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛
أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهمْ كَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَّحْیَاهم وَمَمَاتُهمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ ]الجاثیہ: 21[
’’ کیا برے کام کرنے والوں کا یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ؟ کیا ان کا مرنا جینا ایک جیسا ہو گا ؟ برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں ۔ ‘‘
یعنی اگر ان مجرموں کا یہ خیال ہے کہ ان کا اور ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کا مرنا جینا ایک جیسا ہو گا تو یقینی طور پر ان کا یہ خیال برا ہے ، کیونکہ ان کی موت وحیات میں بہت فرق ہے ۔۔۔ اور یہ فرق کیا ہے ؟ اس بارے میں متعدد قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ موجود ہیں ۔ ان میں سے چند ایک آپ بھی سماعت فرما لیں : نیک اور صالح انسان کی موت کی کیفیت کواللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتے ہیں : یَا أَیَّتُها النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضية مَّرْضِیَّة فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ]الفجر: 27-28-29-30[
’’ اے اطمینان والی روح ! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل ، اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش ۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا ۔ ‘‘
یہ عظیم خوشخبری مومن کو اس کی موت کے وقت دی جاتی ہے ۔ گویا اس کی موت آسان ہوتی ہے اور اس حالت میں اس پر آتی ہے کہ جب وہ اللہ سے اور اللہ اس سے راضی ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ کے نافرمان کی موت اس حالت میں آتی ہے کہ فرشتۂ موت اسے موت کے وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی خبر سناتا ہے اور اس کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : تو اللہ تعالیٰ کے غضب کی طرف چلی جا ۔ برے اور نافرمان انسان کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ؛
وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئكُة بَاسِطُوا أَیْدِیْهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی الله غَیْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آیَاتِه تَسْتَکْبِرُونَ ]الانعام: 93[
’’ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا کر انہیں کہہ رہے ہوتے ہیں : اپنی جانیں نکالو ، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم اللہ پر جھوٹ بولتے تھے اور تم اللہ کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔ ‘‘
اس آیت میں غور فرمائیں کہ ظالم کی موت کتنی بری اور کس قدر سخت ہوتی ہے کہ فرشتے اس کی جان نکالنے پر تیار نہیں ! وہ اسی کو حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی جان خود نکالو ! اور موت کے وقت ہی اسے عذابِ الہی کی دھمکی سنا دیتے ہیں ! اور کافر کی موت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یوں کھینچا ہے :
فَکَیْفَ إِذَا تَوَفَّتْهمُ الْمَلاَئِکَة یَضْرِبُوْنَ وُجُوْههُمْ وَأَدْبَارَهمْ ] محمد: 47[
’’ پس ان کی کیسی ( درگت ) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور سرینوں پر ماریں گے ۔ ‘‘
جبکہ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبرداروں اور نافرمانوں کی موت کے فرق کو یوں واضح کیا ہے۔سب سے پہلے نافرمانوں کی موت کے متعلق فرمایا : اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاهمُ الْمَلائِکَة ظَالِمِیْ أَنفُسِهمْ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوئٍ بَلیٰ إِنَّ اللّٰه عَلِیْمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ. فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْها فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ ]النحل 28-29[
’’ وہ جو ( نافرمانی کرکے ) اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو وہ نیاز مندی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم توکوئی برا کام نہیں کرتے تھے ۔( تو ان سے کہا جاتا ہے) کیوں نہیں ! اللہ تمھارے عملوں کو خوب جاننے والا ہے ۔ لہٰذا تم ہمیشہ کیلئے جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ، پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا ! ‘‘
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبرداراور نیک لوگوں کی موت کا تذکرہ یوں فرماتا ہے ؛
اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاهمُ الْمَلآئِکَة طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّة بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
’’ وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں فرشتے انہیں کہتے ہیں : تمھارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے ، جاؤ جنت میں چلے جاؤ اپنے ان اعمال کے سبب جو تم کرتے تھے ۔ ‘‘ ]النحل: 16[
ان آیات سے ثابت ہوا کہ نیک لوگوں کو ان کی موت کے وقت فرشتے سلامتی اور جنت کی عظیم خوشخبری سناتے ہیں جبکہ نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی سخت وعید سناتے ہیں ۔ یہی بنیادی فرق ہے نیک اور بد کی موت میں ۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، پھر اگر مرنے والا نیک ہو تو وہ کہتے ہیں : اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی نکل ، تُو قابلِ ستائش حالت میں نکل اور تجھے آرام اور عمدہ روزی کی خوشخبری ہو اور اس بات کی کہ اللہ تجھ پر راضی ہے ۔ فرشتے یہ باتیں بار بار اسے کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کی روح نکل جاتی ہے ۔ پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے : یہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے ۔ تو کہا جاتا ہے : اس پاک روح کو خوش آمدید جو پاک جسم میں تھی ، تم قابلِ ستائش حالت میں اندر آ جاؤ ۔ اور تمھیں آرام اور عمدہ روزی کی خوشخبری ہو اور اس بات کی کہ اللہ تم پر راضی ہے۔ فرشتے اسے بار بار یہ خوشخبریاں سناتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس آسمان پر پہنچ جاتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ ہے (یعنی علیین میں) اور اگر مرنے والا برا ہو تو فرشتہ کہتا ہے: اے وہ ناپاک روح جو ناپاک جسم میں تھی نکل ، تُو قابلِ مذمت حالت میں نکل ۔ اور تجھے جہنم اور پیپ اور طرح طرح کے عذاب کی خوشخبری ہو ، پھر اس سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی روح نکل جاتی ہے ، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے اور اس کیلئے جب آسمان کا دروازہ کھلوایا جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے : اس ناپاک روح کو کوئی خوش آمدید نہیں جو ناپاک جسم میں تھی ، تم قابلِ مذمت حالت میں واپس پلٹ جاؤ اور تمھارے لئے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جا سکتے ۔ پھراسے واپس بھیج دیا جاتا ہے اورپھر وہ قبر میں آ جاتی ہے۔ ‘‘ [ابن ماجہ :4262وصححہ الألبانی[
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللّٰه أَحَبَّ اللّٰه لِقَائَ ہُ ، وَمَنْ كَرِہَ لِقَائَ اللّٰه كَرِہَ اللّٰه لِقَائَ ہُ
’’جو شخص اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہو اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ۔ اورجو شخص اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہو اللہ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اگر اس سے مراد موت کو نا پسند کرنا ہے تو اسے توہم سب نا پسند کرتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَیْسَ كَذٰلِکَ،وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللّٰه وَكَرَامَتِه،فَلَیْسَ شَیْئٌ أَحَبَّ إِلَیْه مِمَّا أَمَامَه،فَأَحَبَّ لِقَائَ اللّٰهِ، وَأَحَبَّ اللّٰه لِقَائَ ہُ،وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حَضَرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللّٰه وَعُقُوْبَتِهٖ،فَلَیْسَ شَیْئٌ أَكْرَہَ إِلَیْه مِمَّا أَمَامَهُ ،فَکَرِہَ لِقَائَ اللّٰهِ، وَكَرِہَ اللّٰه لِقَائَ ہُ
’’ نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کی رضا کی خوشخبری دی جاتی ہے اور اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انتہائی کریم ہے ۔ اس لئے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے سوا کوئی اور چیز زیادہ محبوب نہیں ہوتی ۔ اور وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ۔ اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کی خوشخبری دی جاتی ہے ، اس لئے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے سوا کوئی اور چیز زیادہ ناپسندیدہ نہیں ہوتی ۔ اوروہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔‘‘ ]البخاری:6507،مسلم :2684[
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ: «مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا المُسْتَرِيحُ وَالمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ: «العَبْدُ المُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالعَبْدُ الفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ العِبَادُ وَالبِلاَدُ، وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ» ]بخاری:6512[
ترجمہ : ابو قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” مستریح یامستراح “ ہے ۔ یعنی اسے آرام مل گیا ، یا اس سے آرام مل گیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ” المستریح او المستراح منہ “ کا کیا مطلب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پاجاتا ہے وہ مستریح ہے اورمستراح منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے ، شہر ، درخت اور چوپائے سب آرام پاجاتے ہیں۔
یعنی بندے اس طرح آرام پاتے ہیں کہ اس کے ظلم وستم اور برائیوں سے چھوٹ جاتے ہیں۔ ایماندا رتکالیفِ دنیا سے آرام پا کر داخل جنت ہوتا ہے۔
مومن کی موت کی مثالیں:
1۔ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ] بخاری 3803[
ترجمہ : جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ۔ آپ نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا.
2۔ لاہور کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالمتین اصغر رحمہ اللہ ستمبر 2021 میں دوران تقریر شان صحابہ پر قرآن کی آیات تلاوت کرتے ہوئے وفات پاگئے.
3۔مولانا قاری عبدالاکبر محمدی رحمہ اللہ چیچہ وطنی والے اذان دیتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے.
4۔ مولانا سید خالد محمود ندیم شاہ رحمہ اللہ ملتان میں شانِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے وفات پا گئے.
فاسق و فاجر کی موت کی مثال:
فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا گیا۔ جب فرعون ڈبکیاں لینے لگا تو اس نے موت و حیات کی کشمکش کے دوران دہائی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لاتے ہوئے مسلمان ہوتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں یہاں تک کہ اس نے اس کا بھی اقرار کیا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ کیا اب ایمان لاتا ہے؟ اس سے پہلے تو بار بار انکار کرچکا اور انتہا درجے کا فسادی تھا۔ بس آج تیرے وجود کو لوگوں کی عبرت کے لیے باقی رکھا جائے گا تاکہ آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائے۔
مومن اور فاسق قبر میں برابر نہیں
❄ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے ( منکر نکیر ) اس کے پاس آتے ہیں‘ وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کاٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کردی جائے گی۔ پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی‘ فرمایا اور منافق وکافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تونے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔ ]بخاری:1374 [
❄ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ، فَإِنَّهُ يُعْرَضُ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالعَشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، فَمِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ] بخاری 3240 [
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رصی اللہ عنہما نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جب کوئی شخص مرتا ہے تو ( روزانہ ) صبح و شام دونوں وقت اس کا ٹھکانا ( جہاں وہ آخرت میں رہے گا ) اسے دکھلایا جاتا ہے ۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ میں۔
❄ سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے ۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی ‘ تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں ( نہایت پر سکون اور خاموشی سے بیٹھے تھے ۔ ) آپ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی ‘ آپ ﷺ اس سے زمین کرید رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا ” اللہ سے قبر کے عذاب کی امان مانگو ۔ “ آپ ﷺ نے یہ دو یا تین بار فرمایا ۔ جریر کی روایت میں یہاں یہ اضافہ ہے ” جب لوگ واپس جاتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آہٹ سنتی ہے ‘ جبکہ اس سے یہ پوچھا جا رہا ہوتا ہے : اے فلاں ! تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ اور تیرا نبی کون ہے ؟ ہناد نے کہا : فرمایا ” اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں : تجھے کیسے علم ہوا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ‘ میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” یہی ( سوال جواب ہی ) مصداق ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان کا «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» پھر وہ دونوں روایت کرنے میں متفق ہیں ۔ فرمایا ” پھر آسمان سے منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے : تحقیق میرے بندے نے سچ کہا ہے ‘ اسے جنت کا بستر بچھا دو ‘ اور اس کو جنت کا لباس پہنا دو ‘ اور اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ “ فرمایا ” جنت کی طرف سے وہاں کی ہوائیں ‘ راحتیں اور خوشبو آنے لگتی ہیں اور اس کی قبر کو انتہائے نظر تک وسیع کر دیا جاتا ہے ۔ ” پھر کافر اور اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور وہ اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ تو منادی آسمان سے ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا ‘ اسے آگ کا بستر بچھا دو ‘ اسے آگ کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے دوزخ کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ فرمایا کہ پھر اس جہنم کی طرف سے اس کی تپش اور سخت گرم ہوا آنے لگتی ہے اور اس پر قبر کو تنگ کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” پھر اس پر ایک اندھا گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے ‘ جس کے پاس بھاری گرز ہوتا ہے ۔ اگر اسے پہاڑ پر مار جائے تو وہ ( پہاڑ ) مٹی مٹی ہو جائے ۔ پھر وہ اسے اس کے ساتھ ایسی چوٹ مارتا ہے جس کی آواز جنوں اور انسانوں کے علاقہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری مخلوق سنتی ہے ۔ اور پھر وہ مٹی ( ریزہ ریزہ ) ہو جاتا ہے ۔ ” فرمایا : پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے ۔ “] ابوداؤد 4753 صححہ الالبانی[
مومن اور فاسق حشر میں برابر نہیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
فَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِيَمِينِهِۦ فَيَقُولُ هَآؤُمُ ٱقۡرَءُواْ كِتَٰبِيَهۡ إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَٰقٍ حِسَابِيَهۡ فَهُوَ فِي عِيشَةٖ رَّاضِيَةٖ فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٖ قُطُوفُهَا دَانِيَةٞ كُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ هَنِيٓـَٔۢا بِمَآ أَسۡلَفۡتُمۡ فِي ٱلۡأَيَّامِ ٱلۡخَالِيَةِ وَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِشِمَالِهِۦ فَيَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي لَمۡ أُوتَ كِتَٰبِيَهۡ وَلَمۡ أَدۡرِ مَا حِسَابِيَهۡ يَٰلَيۡتَهَا كَانَتِ ٱلۡقَاضِيَةَ مَآ أَغۡنَىٰ عَنِّي مَالِيَهۡۜ هَلَكَ عَنِّي سُلۡطَٰنِيَهۡ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ثُمَّ ٱلۡجَحِيمَ صَلُّوهُ ثُمَّ فِي سِلۡسِلَةٖ ذَرۡعُهَا سَبۡعُونَ ذِرَاعٗا فَٱسۡلُكُوهُ إِنَّهُۥ كَانَ لَا يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ ٱلۡعَظِيمِ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلۡمِسۡكِينِ فَلَيۡسَ لَهُ ٱلۡيَوۡمَ هَٰهُنَا حَمِيم وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنۡ غِسۡلِينٖ لَّا يَأۡكُلُهُۥٓ إِلَّا ٱلۡخَٰطِـُٔونَ ]الحاقہ 19تا 37 [
ترجمہ:تو جس کا (اعمال) نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں سے) کہے گا کہ لیجیئے میرا نامہ (اعمال) پڑھیئے.مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا. پس وہ (شخص) من مانے عیش میں ہوگا. (یعنی) اونچے (اونچے محلوں) کے باغ میں. جن کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے. جو (عمل) تم ایام گزشتہ میں آگے بھیج چکے ہو اس کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو. اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں یاد جائے گا وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا (اعمال) نامہ نہ دیا جاتا. اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرا حساب کیا ہے.اے کاش موت (ابد الاآباد کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی. آج میرا مال میرے کچھ بھی کام بھی نہ آیا. (ہائے) میری سلطنت خاک میں مل گئی. (حکم ہوگا کہ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو.پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو. پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے جکڑ دو. یہ نہ تو خدائے جل شانہ پر ایمان لاتا تھا. اور نہ فقیر کے کھانا کھلانے پر آمادہ کرتا تھا. سو آج اس کا بھی یہاں کوئی دوست نہیں. اور نہ پیپ کے سوا کھانا ہے. جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔
❄ صفوان بن محرزمازنی نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جارہا تھا۔ کہ ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا رسول کریم ﷺ سے آپ نے ( قیامت میں اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی ) سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے نزدیک بلا لے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے؟ وہ مومن کہے گا ہاں، اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آجائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ ( ملائیکہ، انبیاء، اور تمام جن و انس سب ) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبر دار ہو جاؤ ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہو گی۔ ]بخاری 2441 [
❄ مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’ قیامت کے دن سورج کو بندوں سے قریب کردیاجائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل یادومیل کے فاصلے پر ہوگا’۔ راوی سلیم بن عامر کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے کون سی میل مراد لی ہے، زمین کی مسافت یا آنکھ میں سرمہ لگانے کی سلائی)، ‘پھر سورج انہیں پگھلادے گا اور لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، بعض ایڑیوں تک، بعض گھٹنے تک، بعض کمر تک اور بعض کاپسینہ منہ تک لگام کی مانند ہو گا ، مقداد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺاپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ پسینہ لوگوں کے منہ تک پہنچ جائے گا جیسے کہ لگام لگی ہوتی ہے۔ ]ترمذی: 2421 صححہ الالبانی[
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ ] بخاری 660 [
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے نبی ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا کہ سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اوّل انصاف کرنے والا بادشاہ، دوسرے وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا، تیسرا ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے، چوتھے دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی للٰہی ( اللہ کے لیے محبت ) محبت ہے، پانچواں وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، چھٹا وہ شخص جس نے صدقہ کیا، مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور ( بے ساختہ ) آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
مومن اور فاسق انجام میں برابر نہیں
❄اِنَّ لِلۡمُتَّقِيۡنَ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ جَنّٰتِ النَّعِيۡمِ ]القلم 34 [
ترجمہ:بلاشبہ ڈرنے والوں کے لیے ان کے رب کے ہاں نعمت والے باغات ہیں۔
❄وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ‌ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ]التوبہ 72 [
ترجمہ: اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے، اور پاکیزہ رہنے کی جگہوں کا جو ہمیشگی کے باغوں میں ہوں گی اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی سب سے بڑی ہے، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔
❄إِلاَّ أَصْحَابَ الْيَمِينِ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِينَ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ]المدثر 39 تا 44 [
مگر داہنے والے۔ باغوں میں ہوں گے، پوچھیں گے۔ گناہگاروں سے۔ کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔ وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔
❄❄❄❄❄