مومن کے اوصاف
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝۶۳ وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا۝۶۴ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ۝۶۵ اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۝۶۶ وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝۶۷ وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ۝۶۸  یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ۝۶۹ اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۷۰ وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰهِ مَتَابًا۝۷۱ وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا۝۷۲ وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا۝۷۳ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۝۷۴ اُولٰٓىِٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًاۙ۝۷۵ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۝۷۶ قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠۝۷۷﴾  (الفرقان:63 تا 77)
’’رحمان کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ جہالت کی باتیں کرنے لگتے ہیں کہ وہ کہہ دیتے ہیں سلام ہے، اور جو اپنے رب کے سامنے رات میں سجدہ کرتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں اور وہ لوگ کہ کہتے ہیں اے رب ہٹا ہم سے دوزخ کا عذاب۔ بیشک اس کا عذاب چمٹنے والا ہے۔ وہ بری جگہ ہے ٹھہرنے کی۔ اور بری جگہ ہے رہنے کی۔ اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرنے لگیں نہ بے جا اڑائیں اور نہ تنگی کریں اور ہے انکے درمیان ایک سیدھی گذران۔ اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے۔ اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے وہ بغیر حق کے قتل نہیں کرتے اور نہ و ہزنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو ایسا کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔ اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وہ ذلت وخواری کے ساتھ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں۔ ایمان لائیں اور نیک کام کریں۔ اپنے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا۔ اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔ اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ در حقیقت خدا کی طرف سچا رجوع کرتا ہے اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغویت پر ان کا گذر ہوتا ہے۔ تو وہ بزرگانہ طور پر گذر جاتے ہیں۔ اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گر پڑتے۔ اور وہ لوگ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اسے ہمارے رب! تو ہمیں ہماری بیویوں اور ہمارے بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔ یہی وہ لوگ ہیں۔ جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند بالا خانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا و سلام پہنچایا جائے گا۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔ کہہ دیجئے! اگر تمہاری التجا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا، تم تو جھٹلا چکے، اب عنقریب ان کی سزا انہیں چمٹنے والی ہے۔‘‘
 اس پورے رکوع میں اللہ تعالی نے مومنوں کے اوصاف اور ان کی بڑی بڑی نشانیوں کو بیان فرمایا ہے جن کا مختصر بیان یہ ہے
(1) زمین پر آہستگی سے چلنا یعنی تواضع اور انکساری سے رہنا۔
(2) جاہلوں کا مقابلہ سلام سے کرنا۔  (3) شب بیداری کرنا یعنی رات کو عبادت الہی میں مصروف رہنا۔
(4) خدا کے حضور میں دوزخ سے رہائی کی دعا مانگنا۔
(5) اسراف سے بچنا اور میانہ روی اختیار کرنا۔
(6) خدا کے ساتھ کسی دوسرے کو نہ پکارنا۔
(7) کسی کو ناحق قتل نہ کرنا۔ (8) زنا نہ کرنا۔
(9) غلط کام سرزد ہو جانے پر توبہ کر لینا۔ (10) جھوٹی گواہی نہ دینا۔
(11) بیہودہ مشاغل سے بچتے رہنا۔ (12) خدا کی آیتوں کو سوچ سمجھ کر عقیدت مندانہ سننا۔
(13) اپنے اور اپنی بیوی اور بچوں کے واسطے دینداری اور امانت کی دعا کرنا۔
اب ہر ایک صفت کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے
(1) تواضع اور خاکساری کو اپنے لئے ہمیشہ لازم سمجھتے رہئے تواضع کے معنی عاجزی و انکساری و خاکساری و فروتنی کے ہیں یعنی اپنے کو دوسروں سے چھوٹا سمجھنا اور لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آنا، تکبر، غرور، فخر اور گھمنڈ نہ کرنا۔ تواضع و خاکساری انسان کی بڑی خوبی ہے۔ اس صفت سے اللہ تعالی بھی بہت خوش ہوتا ہے اور لوگ بھی خوش ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے آیت مذکورہ میں بتلایا ہے۔ اور رسول اللہﷺ نے اس کی تاکید فرمائی چنانچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔
(إِنَّ اللهَ أَوْحٰى إِلَىَّ أَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰى لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰى أَحَدٍ وَلَا يَبْغِي أَحَدٌ عَلٰی احد)[1]
’’اللہ تعالی نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ آپس میں تو اضع اور خاکساری سے پیش آؤ تاکہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر ظلم و تعدی کرے۔‘‘
غرض خاکساری، عاجزی، فروتنی اور رحم وانکساری خدا کو بہت پسند ہے۔ اور اس کے مدمقابل تکبر اور عجب و گھمنڈ خدا کے نزدیک ناپسند اور عند الناس بھی معیوب ہیں۔ یہ مذموم صفتیں سب سے پہلے شیطان نے اختیار کی تھیں جن کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے ذلیل و خوار ہوا۔ اس نے آدم علیہ السلام کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بالاتر سمجھا اور کہا کہ میں آدم علیہ السلام سے بہتر ہوں، وہ مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں۔ اللہ تعالی نے اس تکبر کی وجہ سے اس کو مردود قرار دیا۔ ارشاد خداوندی ہے:
﴿إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا﴾ (النساء: 36)
’’اللہ تعالی مغرور اور گھمنڈی کو پسند نہیں فرماتا ہے۔‘‘
 اس لئے ایسے لوگوں کو دوزخ کی سزا ہے۔ اور فرمایا:
﴿اَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ﴾ (الزمر: 60)
’’کیا جہنم مغرور لوگوں کا ٹھکانا نہیں ہے؟ ضرور ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا۔ كُلُّ ذلِكَ كَانَ سَيّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا﴾ (بنی اسرائیل: 38)
’’زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو کیونکہ تکبر کے ساتھ چلنے سے تو زمین کو نہیں پھاڑ سکے گا۔ اور نہ پہاڑوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحيح مسلم: كتاب الجنة ونعيمها، باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا اهل الجنة و أهل النار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی اونچائی تک پہنچ سکے گا۔ ان تمام باتوں میں سے جو بھی بری ہیں وہ تمہارے رب کے نزدیک ناپسند ہیں۔‘‘
لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا:
﴿وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ۝۱۸ وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ؕ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠۝۱۹﴾ (لقمان: 18 تا 19)
’’اور لوگوں سے بے رخی نہ کرو اور زمین پر اترا کر نہ چلو کیونکہ اللہ کسی اترانے والے شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا اور اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرو اور کسی سے بات کرو تو آہستہ بولو، کیونکہ آوازوں میں سب سے بری ناگوار آواز گدھوں کی ہے تو آدمی ہو کر گدھے کی طرح چیخنا چلانا مناسب نہیں ہے۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے غرور کی مذمت ثابت ہوتی ہے اور غرور و تکبر کرنے والے دوزخی ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ غرور و تکبر کرنے والا جنت میں نہیں جائیگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَايَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ۔)
’’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں داخل ہوگا۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(حُشِرَ الْمُتَكْتِرُونَ أَمْثَالَ الذُّرِّ يَوْمَ الْقِيمَةِ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ يَغْشَاهُمُ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانَ يُسَاقُونَ إِلَى سِجْنِ جَهَنَّمَ يُسَمَّى بُولَسُ تَعْلُوهُمْ نَارُ الْأَنیَارِ وَيُسَقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلَ النَّارِ طِينَةَ الْخَبَالِ)[2]
’’قیامت کے دن متکبروں کو میدان حشر میں اس طرح لایا جائے گا جیسے چیونٹیاں ہوتی ہیں۔ آدمیوں کی صورت میں اور ہر طرف سے ان پر ذلت چھا رہی ہوگی اور دوزخ کے جیل خانہ بولس میں ہانک کر ڈالے جائیں گے۔ ان پر زبردست جہنم کی آگ غالب ہوگی ان متکبروں کو دوزخیوں کا دھون، پیپ لہو وغیرہ پینے کو دیا جائے گا۔‘‘ (العیاذ باللہ)
تکبر کرنے سے دنیا میں بھی سزا ملتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گذشتہ لوگوں میں ایک شخص ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الايمان، باب تحريم الكبر و بیانه265، 266، 267۔
[2] ترمذي: كتاب صفة القيامة باب ماجاء في الوعيد للمتكبرين: 241۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوڑا پہن کر اتراتا ہوا نکلا تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا، زمین نے اس کو پکڑ لیا۔ اور اب وہ قیامت تک دھنستا چلا جا رہا ہے۔‘‘[1]
آپ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ)[2]
’’جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے کو گھسیٹے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔‘‘
عام طور پر تکبر کرنے والے حسب و نسب حسن و جمال اور دولت و ثروت پر تکبر کرتے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک چیز زوال پذیر ہے۔ اور ذاتی خوبی کسی میں نہیں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ (الحجرات:13)
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد (آدم) اور ایک عورت (حوا) سے پیدا فرمایا اور تمہاری ذاتیں اور برادریاں ٹھہرائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو۔ ورنہ اللہ کے نزدیک تم میں بڑا معزز وہی ہے جو پرہیز گار ہو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے اس کی تشریح میں فرمایا:
(لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُونَ بِآبَائِهِمُ الَّذِينَ مَاتُوا إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ جَهَنَّمَ أَوْلَيَكُونُنَّ أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنَ الْجُعْلِ الَّذِي يُدَهْدِهُ الْخَرْءَ بِأَنْفِهِ إِنَّ اللهَ اَذْهَبَ عَنْكُمُ عَبِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخَرَهَا بِالْآبَاءِ إِنَّمَا هُوَ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ- النَّاسُ كُلُّهُمْ بَنُو ادَمَ وَادَمُ مَنْ تُرَابٍ)[3]
’’جو لوگ اپنے مرے ہوئے باپ دادا پر فخر کرتے ہیں انہیں اس سے باز رہنا چاہئے وہ دوزخ میں جل بھن کر کوئلہ ہو گئے ہیں تو ان پر فخر کرنا حماقت ہے اگر یہ لوگ باز نہ آئیں تو اللہ تعالی کے نزدیک گبریلے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو اپنی ناک سے پاخانہ دھکیلتا ہے۔ اللہ تعالی نے جاہلیت کے زمانہ کی نخوت وریا اور اجداد پر فخر کرنے کو دور کر دیا ہے۔ آدمی دو حال سے خالی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب اللباس، باب من خرثوبة من الخيلاء (5790)
[2] بخاري: کتاب اللباس، باب من جر ازاره من غير خيلا (5784)
[3] ترمذي: کتاب المناقب باب (في نسخة) فضل الشام، مسند احمد:524، 361/2۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مومن پرہیز گار، یا بدکار و بد بخت، سب کے سب ایک آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے۔ مٹی میں تو اضع وخاکساری ہے ترفع و تکبر نہیں ہے۔‘‘
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يَمْشُوْنَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا﴾ (الفرقان:63)
’’رحمن کے بندے وہی ہیں جو زمین پر فروتنی اور عاجزی سے چلتے ہیں۔‘‘
 جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ تھی۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ کہ حسن بصری رحمۃ اللہعلیہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومنوں کی آنکھیں، ان کے کان اور ان کے اعضاء جھکے اور رکے ہوئے ہیں یہاں تک کہ بیوقوف انہیں بیمار سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے۔ بلکہ خوف خدا سے جھکے رہتے ہیں۔ آخرت کا علم دنیا طلبی سے اور یہاں کے ٹھاٹھ سے انہیں روکے ہوئے ہے۔ یہ قیامت کے دن کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کر دیا۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ انہیں دنیا میں کھانے پینے وغیرہ کا غم لگا رہتا ہے۔ نہیں، خدا کی قسم دنیا کا کوئی غم ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ ہاں انہیں آخرت کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا تھا جنت کے کسی کام کو بھاری نہیں جانتے تھے۔ ہاں جہنم کا خوف انہیں رلاتا رہتا ہے۔ جو شخص خدا کے خوف دلانے سے بھی خوف نہ کھائے اس کا نفس حسرتوں کا مالک ہے جو شخص کھانے پینے کو ہی خدا کی نعمت سمجھے وہ کم علم ہے اور عذابوں میں پھنسا ہوا ہے۔
(2) دوسری صفت یہ بتائی گئی ہے کہ رحمن کے بندے نادان کو مخاطب کرتے وقت امن و سلامتی کی دعوت دیتے ہیں جب کوئی جہالت کی بات کرے تو نرم بات اور صاحب سلامت کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں یعنی بدخلقی کا جواب بدخلقی سے نہیں دیتے بلکہ گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے سے کنارہ کش ہو کر امن وسلامتی کا پیغام دیتے ہیں کیونکہ اسلام امن و سلامتی کی دعوت دیتا ہے اور مسلمان اس کی اشاعت کرتا ہے اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا۔
﴿إِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامَ﴾ (آل عمران: 19)
’’اللہ تعالی کے نزدیک سب سے پیارا مذہب اسلام ہی ہے۔‘‘
اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿اُدْخُلُوْ فِي السِّلْمِ كَافَةً﴾ (البقرة: 208)
’’تم خدا کی اطاعت و فرمانبرداری میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘
 یہی مذہب توحید الہی اور محاسن انسانی کی طرف دعوت دیتا ہے اور یہی مذہب خدا کے تمام نبیوں اور رسولوں کا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سے حضرت محمدﷺ تک سارے نبی خدا رسول کی اطاعت کی طرف بلاتے ر ہے۔ اور امن و سلامتی کی دعوت دیتے رہے۔ تو صحیح امن اور کامل سلامتی کا داعی صرف اسلام ہی ہے، اسلام کے دائرہ میں داخل ہونے کے بعد انسان ہر قسم کے شروفساد اور جنگ و جدال وغیرہ سے امن میں ہو جاتا ہے اور نذر ہو کر قوم وملت کی خدمت کرتا ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا میں جنگ و جدال قتل و غارت گری اور بدامنی ہر جگہ عام تھی خاص طور پر ریگستان عرب میں انسانی خون کے جو طوفان برپا ہوئے اور ان میں باہمی جنگ و جدال کی جو تلاطم خیز لہریں اٹھی تھیں۔ انہوں نے اہل عرب کے جذبات و احساسات میں ایک عام ہیجان پیدا کر دیا تھا اور اس کا اثر عمومًا رہرنی اور غارت گری کی صورت میں ظاہر ہوتا رہتا تھا۔ جس سے عرب کا امن و سکون غارت ہو کر رہ گیا تھا۔ اور جان و مال کا تحفظ ختم ہو گیا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام اقوام عالم، عرب و عجم کے ساتھ اسلام ہی نے ہمدردی کی جس نے ان کو قعر مذلت سے نکال کر حسن معاشرت اور امن عامہ کے تخت پر جلوہ افروز کیا۔ سچ ہے۔
﴿وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانبياء: 107)
’’تمام دنیا والوں کے لئے اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
 در اصل اسلام اور امن ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اسلام کے امن کا دروازہ ہر شخص کے لئے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ جو اسلام میں داخل ہوا وہ ہر اعتبار سے امن میں آ گیا۔ اس کی تائید حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: میں آنحضرت ﷺ کے پاس تھا۔ اتنے میں دو آدمی آئے۔ ایک تو محتاجی کا شکوہ کر رہا تھا، دوسرا راستہ کی بدامنی کی شکایت کر رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ راستہ کی بدامنی تو تھوڑے دنوں کی ہے جب مکہ تک قافلہ روانہ ہوگا۔ اور کوئی ضمانت کے طور پر ساتھ نہ ہوگا۔ رہی محتاجی! تو قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی۔ جب تک تم میں سے کوئی اپنی خیرات لئے نہ گھومتا رہے گا۔ اور کوئی ایسا نہ ملے گا۔ جو وہ خیرات قبول کرلے۔ پھر قیامت کے دن تم میں سے ہر شخص اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا۔ اس میں اور اللہ کے بیچ میں کوئی پردہ نہ ہوگا۔ اور نہ کوئی درمیانی ترجمان ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کیا میں نے تجھ کو دنیا میں مال نہیں دیا تھا؟ عرض کرے گا کیوں نہیں، بے شک دیا تھا پھر فرمائے گا کیا میں نے دنیا میں رسول نہیں بھیجے تھے وہ عرض کرے گا۔ کیوں نہیں۔ تو نے رسول بھیجے تھے۔ پھر اپنے داہنے طرف دیکھے گا تو آگ اور بائیں طرف بھی آگ۔ تم میں سے ہر شخص کو آگ سے بچنا چاہئے۔ اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات میں دے۔ اگر یہ بھی نہ ملے تو اچھی بات ہی کہے اس کے بعد حضرت عدی رضی للہ تعالی عنہ نے فرمایا:
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ حیرہ سے ایک پردہ نشین عورت آتی ہے اور بلا خوف خانہ کعبہ کا طواف کر کے چلی جاتی ہے۔ کسری بن ہرمز کا خزانہ کھولا گیا۔ اور میں اس کے کھولنے میں شریک تھا۔ آنحضرت ﷺ کی دوسری بشارت یعنی اللہ تعالی اس قدر دولت عطا فرمائے گا۔ کہ صدقہ لینے والے مسکین نہ ملیں گے تو عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ جو لوگ زندہ رہیں گے وہ اس بات کو بھی دیکھ لیں گے۔ چنانچہ اس دور کے بعد جو لوگ آئے انہوں نے اس چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔[1]
 یہ بشارت تھی جو اسلام نے اس قوم کو دی تھی جو ریگستان کے صحرائی خیموں میں سوتی، خشک کھجوریں کھاتی اور اونٹوں کو چراتی تھی لیکن اس نے یقین کر لیا اور اس کا پھل پایا۔ لیکن آہ! موجود عہد کے وہ مسلمان جو محلوں میں رہ کر ریشمی بستروں پر سو کر آج اسلام کے وعدے پر یقین نہیں لاتے۔ اور اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے بدامنی اور خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں امن اس لئے ہوا کہ اسلام کی نظر میں سب انسان بھائی بھائی ہیں اور کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہے۔ بجز مکارم اخلاق، حسن معاملات اور تقوی کے۔ اس کا اعلان آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں اس طرح فرمایا تھا:
’’اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہے اور تم سب کا ایک ہی باپ ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر بزرگی ہے اور نہ کسی سرخ کو کالے پر فوقیت ہے اور نہ کسی کالے کو سرخ پر برتری ہے مگر تقویٰ کے ساتھ۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔[2]
 حسب و نسب کوئی چیز نہیں ہے اور نہ باعث فخر ہے کیونکہ سب کی اصلیت خاک اور مٹی ہے جیساکہ آنحضرتﷺ  فرماتے ہیں۔
جو لوگ اپنے مرے ہوئے باپ داداوں پر فخر و شیخی کرتے ہیں اس سے باز آ جانا چاہئے۔ کیونکہ وہ دوزخ میں جل بھن کر کوئلہ ہو گئے ہیں تو اب ان پر فخر کی کون سی بات ہے اگر یہ فخر وشیخی سے باز نہیں آئے تو اللہ کے نزدیک اس کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے جو اپنی ناک سے پلیدیوں کو الٹ پھیر کرتا ہے یعنی اس گوبروڑے کیڑے سے جو اپنے منہ سے پاخانہ کی گولی بنا کر اپنی ناک سے لڑھکاتا پھرتا ہے۔ اللہ تعالی نے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادوں پر فخر کرنے کو دور کر دیا ہے آدمی تو دو ہی طرح کے ہیں۔ مومن پرہیز گار،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب المناقب باب علامات النبوة في الإسلام – (3594)
[2] مسند احمد: 411/5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا بد بخت و بدکار۔ ورنہ انسان کے لحاظ سے سبھی برابر ہیں سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ [1]
آپﷺ نے صرف زبان سے ہی یہ اعلان نہیں کیا بلکہ ان الفاظ کو اسلامی زندگی کا دستور العمل بنادیا۔ خود بھی اس پر ساری زندگی عمل کیا اور اپنے پیرو کاروں کو عمل کرنے کی تاکید کی۔ آپ ﷺ نے ان کے سامنے اپنے عمل کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا کہ انسانیت کی وحدت کا تصور بھی ان کے دل سے نہ نکل سکا۔ اس طرح آپ ﷺ نے عداوت و دشمنی اور افتراق و انتشار کی سب سے بڑی بنیاد ڈال دی۔ آپ نے یہ حقیقت بھی لوگوں کے دلوں میں جمانے کی اچھی طرح کوشش کی کیونکہ انسانی وحدت کا تصور اس وقت تک پورے طور پر ذہن نشین نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ وحدت معبود کا عقیدہ ذہن نشین نہ ہو جائے۔ جب تک کہ ہر قبیلہ کا خدا الگ اور ہر قوم کا خالق جدا سمجھا جائے گا اس وقت تک ناممکن ہے۔ کہ سب انسان کسی ایک مرکز پر جمع ہوسکیں۔ نفسیات اجتماعی کے علاوہ مشاہدہ فطرت اور مطالعہ کائنات بھی اس نتیجہ تک پہنچاتے ہیں اور خلاق عالم کی یکتائی کا یقین دلاتے ہیں ایک خدا نے تمام انسانوں کو بنایا ہے اور سب انسان ایک ہی اصل کی شاخیں اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ انہیں بنیادی حقیقتوں پر انسانیت کی تعمیر ہو سکتی ہے۔ اور اختلافات اور تفرقوں کی جڑ کٹ جاتی ہے اس لئے آپ ﷺ نے ان دونوں اصولوں پر زیادہ زور دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جو تعلیم ہم کو دی ہے۔ اس کا اصل منشا یہ ہے کہ ہم دنیا میں امن سے رہیں اور لوگوں کو بھی امن سے رہنے دیں اور دنیا ہی میں امن واطمینان سے جنت کی زندگی بسر کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
(لا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَحَاسَدُوْا وَ كُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلٰثَةِ أَيَّامٍ)[2]
’’نہ بغض وکینہ رکھو اور نہ حسد کرو۔ اللہ کے بندے بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔‘‘
 ان بنیادی باتوں کے بعد تفرقہ کی چند باتیں اور بھی ہیں۔ لوگ ذاتوں اور پیشوں کی بنا پر بھی تقسیم ہو جاتے ہیں اس لئے اسلام نے نہ کسی پیشہ کو خاندانی قرار دیا ہے۔ اور نہ انہیں عزت وذلت کا معیار تسلیم کیا، بلکہ ہر شخص کو پوری آزادی دی ہے وہ اپنے حالات و ضروریات طبیعی مناسبت کی بنا پر اپنے لئے جو ہمیشہ مناسب سمجھے اختیار کرلے کسی پیشہ کی بنا پر کوئی شریف یا رذیل نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اپنے اعمال کی بنیاد
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب الادب، باب في التفاخر بالاحساب: 492/4
[2] بخاري کتاب الادب، باب ما ينهى عن التحاسد و التدابر: 6065-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پر عزت یا ذلت کا مستحق ہوگا۔ اگر دانش مندی اور ایمان داری سے کام کرے گا تو عزت کی نظر سے دیکھا جائے گا اور اگر فریب و بد دیانتی سے کام کرے گا تو وہ برا ہی سمجھا جائے گا خواہ کتنا ہی اہم پیشہ کیوں نہ اختیار کرے۔ اسلام در اصل دنیا میں امن و سلامتی کی اشاعت ہی کے لئے آیا ہے جتنی زیادہ سلامتی ہوگی اتنا ہی زیادہ امن ہوگا اور اتنا ہی زیادہ ایمان کامل ہو گا۔ یہ رسول اللہﷺ کی زبان فیض ترجمان سے سنئے۔ فرمایا:
(لَا تَدْخُلُو الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلَا تُومِنُوْا حَتَّى تَحَابُّوْا أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ اَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ)[1]
’’تم لوگ جنت میں اس وقت تک داخل نہ ہو سکو گے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ گے اور اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو گے اور میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرنے لگو گے تو آپس میں محبت پیدا ہو جائے گی اور وہ یہ ہے کہ تم باہمی سلام و سلامتی پھیلاؤ اور اس کی اشاعت کرو۔‘‘
 سلام پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو سلام کیا جائے کسی چھوٹے بڑے، امیر غریب کی کوئی تخصیص نہ ہو۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد رسول اللہﷺ  نے جو سب سے پہلے خطبہ دیا وہ اسی افشاء سلام کے بارے میں تھا وہ یہ ہے کہ:
 (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اَفْشُو السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَام)[2]
’’اے لوگو! تم آپس میں سلام پھیلاؤ اور غریبوں کو کھانا کھلاؤ اور جب سب لوگ سو رہے ہوں تو اس وقت تم نماز پڑھو جب یہ کام کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
 اس حدیث نے روٹی کپڑے کا مسئلہ حل کر دیا ہے کیونکہ اس حدیث پر اگر عمل کر لیا جائے تو کوئی غریب ننگا اور بھوکا نہیں رہ سکتا۔ اور سلام وامن کی اشاعت سے دنیا کی خونریز کی بند ہو جائے گی۔ موجودہ زمانے میں یہی دو چیزیں موجب فساد بنی ہوئی ہیں اور دوسرے ممالک والے انہی دونوں چیزوں کو لے کر اچھالتے ہیں اور لوگوں کو روٹی کپڑا حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اسلام نے زکوۃ، صدقات وغیرہ کے ذریعہ غرباء پروری کو بڑی اہمیت دی ہے بہرحال ﴿وَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوْا سَلَامًا﴾ میں بہت خوبیاں مضمر ہیں جو غور و فکر سے ظاہر ہو سکتی ہیں۔ دنیا میں زیادہ فسادات جہالت و نادانی اور ناعاقبت اندیشی سے ہوتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الايمان، باب بيان انه لا يدخل الجنة إلا المومنون (194)
[2] مسند احمد: 451/5 مستدرك حاكم كتاب البر والصلة:160/4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں ان کا انسداد اسلام ہی سے کیا جاسکتا ہے اس لئے اللہ تعالی نے اپنے محبوب اور پیارے بندوں کی یہی شان بتائی ہے کہ وہ جواب جاہلاں باشد سلامی سے دیتے ہیں نہ کہ جہالت ہے۔ جیسا کہ کسی جاہلی شاعر نے کہا ہے:
اَلَا لَا يَجْهَلَنْ أَحَدٌ عَلَيْنَا فَتَجْهَلُ فَوْقَ جَهْلِ الْجَاهِلِيْنَا
مگر رحمن کے محبوب بندے ایسا نہیں کرتے بلکہ در گزر کر جاتے ہیں وہ گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے۔ جیسے کہ رسول اللہﷺ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جوں جوں کوئی آپ پر گرم اور تیز ہوتا۔ آپ اتنا ہی نرم اور ٹھنڈے ہو جاتے۔ یہی سلامتی کی بات ہے۔ قرآن مجید میں متعدد آیتوں میں مومن کی شان یہی بتائی گئی ہے۔
﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِيْ صَلٰوتِهِمْ خَاشِعُونَ۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ﴾ (مومنون: 1 تا 3)
’’یقینًا ایمان داروں نے نجات حاصل کر لی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں جو لغو سے منہ موڑ لیتے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ﴾ (قصص: 55)
’’مومن لوگ بے ہودہ باتیں سن کر منہ پھیر لیتے ہیں۔‘‘
پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندا نہیں کرتے۔ برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔ یہ رحمن کے ان مخصوص اور محبوب بندوں کا مشغلہ تھا۔ اب آگے شب بیداری اور عبادت گذاری کی کیفیت ان بندوں کی بیان کی جا رہی ہے۔
﴿وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا﴾ (الفرقان: 64)
’’یعنی رات کو جب غافل بندے نیند اور آرام کے مزے لوٹتے ہیں تو یہ خدا کے سامنے کھڑے اور سجدہ میں پڑے ہوئے رات گزارتے ہیں نہ دن ان کا بے کار ہوتا ہے اور نہ رات۔‘‘
انہیں لوگوں کی شان میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۩۝۱۵ تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؗ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ۝۱۶ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷﴾ (السجدة: 15 تا 17)
’’ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب بھی نصیحت کی جاتی ہے وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر سے الگ تھلگ رہتے ہیں ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں وہ جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے۔ وہ خرچ کرتے ہیں کوئی انس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے پوشیدہ کر رکھا ہے جو کچھ وہ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے‘‘
 یعنی سچے ایمان داروں کی نشانی یہ کہ ہے وہ دل کے کانوں سے ہماری آوازوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں دل و زبان سے برحق جانتے ہیں سجدے کرتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں۔ اتباع حق سے جی نہیں چراتے۔ اور نہ اکڑتے اور غرور کرتے ہیں یہ بری عادت تو کافروں کی ہے۔
جیسا کہ فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيْنَ﴾ (مؤمن:60)
’’یعنی میری عبادت سے تکبر کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے۔‘‘
ان سچے ایمانداروں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ راتوں کو نیند چھوڑ کر اپنے بستروں سے الگ ہو کر نمازیں ادا کرتے ہیں۔ تہجد پڑھتے ہیں بعض علماء کے نزدیک اس سے مراد مغرب و عشاء کے درمیان کی نماز ہے۔ کوئی کہتا ہے مراد اس سے عشاء کی نماز کا انتظار ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد عشاء اور صبح کی نماز باجماعت ہے۔ وہ خدا سے دعا کرتے ہیں اور اس کے عذابوں سے نجات پانے کے لئے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات کیا کرتے ہیں۔ وہ نیکیاں بھی کرتے رہتے ہیں جن کا تعلق انہیں کی ذات سے ہے۔ ان بہترین نیکیوں میں سب سے بڑھتے ہوئے وہ ہیں جو درجات میں بھی سب سے آگے ہیں یعنی سید اولاد آدم فخر دو جہاں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے شعروں میں ہے:
وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ يَتْلُو كِتَابَهُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ الصُّبْحِ سَاطِعٌ
يَبِيْتُ يُجَافِي جَنْبُهُ عَنْ فِرَاشِهٖ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ الْمَضَاجِعُ
’’یعنی ہم میں اللہ کے رسول ہیں جو صبح ہوتے ہی خدا کی پاک کتاب کی تلاوت کرتے ہیں راتوں کو جب مشرکین گہری نیند سوتے ہیں تو آنحضور ﷺ کی کروٹ بستر سے الگ ہوتی ہے۔‘‘
مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ دو قسم کے لوگوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔ ایک تو وہ جو رات کو میٹھی نیند سوئے ہوتے ہیں لیکن دفعۃً اپنے رب کی نعمتیں اور اس کی سزائیں یاد کر کے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ اپنے نرم و گداز بستر کو چھوڑ کر میرے سامنے کھڑے ہو کر نماز شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرا وہ شخص جو ایک غزوہ میں ہے۔ کافروں سے لڑتے لڑتے مسلمانوں کا پانسہ کمزور ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ شخص یہ سمجھ کر کہ بھاگنے میں خدا کی نارانگی ہے اور آگے بڑھنے میں رب کی رضا مندی ہے۔ میدان کی طرف لوٹتا ہے اور کافروں سے جہاد کرتا ہے یہاں تک کہ اپنا سر اس کے نام پر قربان کر دیتا ہے اللہ تعالی فخر سے اپنے فرشتوں کو دکھاتا ہے اور اسکے سامنے اسکی تعریف کرتا ہے۔[1]
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ صبح کے وقت میں آپ ﷺ کے قریب ہی چل رہا تھا۔ میں نے پوچھا: اے اللہ کے پیغمبرﷺ! مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور جہنم سے الگ کر دے۔ آپﷺ نے فرمایا۔ تو نے سوال تو بڑے کام کا کیا ہے لیکن اللہ جس پر آسان کر دے اس پر بہت سہل ہے۔ سن! تو اللہ کی عبادت کرتا رہ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر نمازوں کی پابندی کر، رمضان کے روزے رکھ، بیت اللہ کا حج کر، زکوۃ ادا کرتا رہے۔ اب میں تجھے بھلائیوں کے دروازے بتلا دوں۔ روزہ ڈھال ہے صدقہ گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے۔ اور انسان کی آدھی رات کی نماز۔ پھر آپ ﷺ نے آیت تتجافی کی تلاوت يَعْمَلُونَ تک فرمائی۔ پھر فرمایا: اب میں تجھے اس امر کے سر، اس کے ستون اور اس کی کوہان کی بلندی کو بتلاؤں۔ اس تمام کام کا سر تو اسلام ہے اس کا ستون نماز ہے اس کے کوہان کی بلندی اللہ کی راہ کا جہاد ہے۔ فرمایا۔ اب میں تجھے ان تمام کاموں کے سردار کی خبر دوں۔ پھر اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: اسے روک رکھ۔ میں نے کہا: ہم اپنی بات چیت پر بھی پکڑے جائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! افسوس تجھے معلوم ہی نہیں کہ انسان کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالنے والی چیز اس کی زبان ہی ہے۔[2]
(4) اور اللہ تعالیٰ کے محبوب و مخلص بندے باوجود شب بیداری اور محنت کے خدا کے خوف و عذاب جہنم سے بے خوف وبے فکر اور نڈر نہیں ہوتے بلکہ یہ دعائیں کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں عذاب جہنم سے بچا کیونکہ اس کا عذاب بہت دکھ درود پہنچانے والا ہے۔ اور نافرمانوں کو چمٹ جانے والا ہے۔ غرام۔ دائمی عذاب کو کہا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے شان خدائی بتائی ہے:
اِن يُّعَذِّبْ يَكُنْ غَرَامًا وَإِنْ یُعْطِ جَزِيلًا فَإِنَّهُ لَا يُبَالِى
’’یعنی اس کے عذاب بھی سخت، لازمی اور ابدی اور اس کی عطا اور انعام بھی بے حد ان گنت اور بے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 416/1۔
[2] ترمذی كتاب الإيمان باب ما جاء  في حرمة الصلوة: 358/3- مسند احمد: 231/5۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حساب ہے جو چیز آئے اور ہٹ جائے وہ غرام نہیں۔ غرام وہ ہے جو آنے کے بعد ہٹنے اور دور ہونے کا نام بھی نہ لے۔ یہ معنی بھی لئے گئے ہیں کہ عذاب جہنم تادان ہے جو کافران نعمت سے لیا جائے گا۔ انہوں نے خدا کے دیئے کو اس کی راہ میں نہیں لگایا۔ لہٰذا آج اس کا تاوان یہ بھرنا پڑے گا  کہ جہنم کو پر کر دیں۔ وہ بری جگہ ہے بد منظر ہے۔ تکلیف دہ ہے۔ مالک بن حارث کا بیان ہے کہ دوزخی کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا تو خدا ہی جانتا ہے کہ کتنی مدت تک وہ نیچے ہی نیچے چلا جائے گا اس کے بعد جہنم کے ایک دروازہ پر اسے روک دیا جائے گا اور کہا جائیگا آپ بہت پیاسے ہو رہے ہوں گے۔ لو ایک جام نوش کر لو۔ یہ کہہ کر انہیں کالے ناگ اور بچھوؤں کے زہر کا ایک پیالہ پلایا جائے گا۔ جس کے پیتے ہی ان کی کھالیں الگ جھڑ جائیں گی۔ بال الگ ہو جائیں گے۔ رگیں الگ جائیں گی اور ہڈیاں جدا جدا ہو جائیں گی۔ حضرت عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جہنم میں کنوئیں جیسے گڑھے ہیں ان میں سانپ ہیں جیسے بختی اونٹ اور بچھو ہیں جیسے خچر۔ جب کسی جہنمی کو جہنم میں ڈالا جاتا ہے۔ تو وہاں سے نکل کر آتے اور انہیں لپٹ جاتے ہیں ہونٹوں پر، سروں پر، اور جسم کے دوسرے حصوں پر ڈستے اور ڈنگ مارتے ہیں جس سے ان کے سارے جسم میں زہر پھیل جاتا ہے اور پھکنے لگتے ہیں سارے جسم کی کھال جلس کر گر پڑتی ہے پھر وہ سانپ چلے جاتے ہیں۔
 (5) پھر رحمان کے بندوں کی اس صفت کا بیان ہے کہ وہ نہ تو مسرف اور فضول خرچ ہیں اور نہ بخیل، نہ بے جا خرچ کرتے ہیں نہ ضروری اخراجات میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں۔ نہ ایسا کرتے ہیں کہ اپنے اہل واعیال کو تنگ رکھیں۔ اور نہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ہو لٹا دیں۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول اللہﷺ کو اسی کی تعلیم دی ہے۔
﴿وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا۝۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا۝۲۷ وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا۝۲۸ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۝۲۹ اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠۝۳۰﴾ (بنی اسرائیل: 26 تا 30)
’’رشتے داروں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو۔ اسراف اور بے جا خرچ سے بچو۔ کیونکہ بجا اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت ہی ناشکرا ہے۔ اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں جس کی تو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہئے کہ نرمی سے سمجھا دے۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردان سے بندھا ہوا مت رکھو۔ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دو کہ ملامت کئے ہوئے اور پچھتائے ہوئے بیٹھ جاؤ گے۔ یقینًا تمہارا رب جس کے لئے چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کر دیتا ہے یقینًا وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
 ان آیتوں میں صلہ رحمی اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور فضول خرچی سے روکا گیا ہے اور حد سے زیادہ بخل اور حد سے زیادہ فیاضی سے بھی روکا گیا ہے۔ کیونکہ حداعتدال سے بڑھ جانے کیوجہ سے انسان ملامت کا مستحق ہو جاتا ہے۔ کھانے پینے اور شادی بیاہ کے موقع پر اعتدال سے خرچ کرنا چاہئے۔ حداعتدال سے بڑھنا اسراف ہے جو شیطانی کام ہے اس سے بچنا ضروری ہے ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنا، ایمان کی نشانی ہے۔ اس فراط و تفریط سے بچنے کو صراط مستقیم اور اعتدال کہتے ہیں معاملات میں تعلقات میں عبادات میں اعتدال کی ضرورت ہے جو میانہ روی اختیار کر لیتے ہیں وہ اچھے سمجھے جاتے ہیں اس لئے ہر کام میں اعتدال کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں لقمان علیہ السلام کی نصیحتوں میں ہے۔
﴿وَاقْصِدْ فِي مَشيِكَ﴾
’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو۔‘‘
 قصد اور اقتصاد، اعتدال کا نام ہے۔ ’’قصد السبيل‘‘ سیدھی راہ (مستقیم) جو حق تک پہنچا دے ’’کان اَبْيَضُ، مُقَصَّدًا‘‘
 آنحضرت رسول اللهﷺ سفید رنگ میانہ قامت تھے (نہ لمبے، نہ پست، نہ بہت موٹے، نہ دبلے)
’’اَلْقَصَدَ، اَلْقَصَدَ، تَبْلُغُوا‘‘[2] میانه روی (اعتدال) اختیار کرو تم اپنی مراد کو پہنچو گے۔
یہ حدیث تمام علم اخلاق کو جامع ہے، بڑی چھوٹی کتابوں کا خلاصہ ہے ہر ایک امر میں اعتدال یعنی بیچوں بیچ میں چلنا۔ افراط و تفریط نہ کرنا۔ یہی کمال ہے جو انسان کو اپنے مقاصد تک پہنچا دیتا ہے۔
بہت دوڑ کر چلنے والا تھک کر گر پڑتا ہے۔ کھانا پینا، سونا جاگنا، حرکت و سکون کلام و خاموشی محنت و ریاضت سب میں اعتدال کی ضرورت ہے اور افراط و تفریط دونوں مضر ہیں۔ حدیث میں ہے:
(كَانَتْ صَلٰوتُهُ قَصْدًا وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا)[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الفضائل باب كان النبيﷺ ابيض مليح الوجه (6072)
[2] بخاري: کتاب الرقاق، باب القصد والمداومة على العمل (6463)
[3] مسلم: کتاب الجمعة باب تخفيف الصلوة و الخطبة رقم (2003)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آنحضرت کی نماز متوسط ہوتی اور آپ ﷺ کا خطبہ بھی متوسط ہوتا۔‘‘
 نہ بہت لمبا، نہ بہت مختصر اور نماز نسبتًا لمبی ہوتی۔ اب احمق و نادان اور کم علم لوگ خطبہ تو لمبا سناتے ہیں اور نماز مختصر۔
صرف وخرچ میں اسراف و تبذیر معیشت فاسدہ کی علامات ہیں اس لئے اقتصاد و میانہ روی اختیار کرنا ضروری ہے مثلاً: عام حالات میں یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ خرچ آمدنی سے بڑھ جائے اور پھر حاجت کے وقت دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے بلکہ حتی الامکان اس کی کمی کرنی چاہئے کہ ان تمام اجتماعی حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جو غنی ہونے کی صورت میں اللہ تعالی نے ان پر عائد کئے ہیں اپنے اہل وعیال کی حاجات و ضروریات کے لئے کچھ پس انداز ہو اور یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ بخل کو کام میں لایا جائے اور خود اپنے اہل وعیال کے لئے کچھ عطائے الہی کے باوجود معیشت کو تنگ کر بلکہ یہ اقتصاد، اعتدال اور میانہ روی نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الْهَدْىَ الصَّالِحَ وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ وَ الْأَقْتِصَادَ جُزءٌ مِّنْ خَمْسٍ وَ عِشْرِينِ جُزْءًا مِّنَ النُّبُوَّةِ)[1]
’’اچھی سیرت اور اچھا طریقہ اعتدال نبوت کے پچیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔‘‘
 اس حدیث سے اعتدال اور میانہ روی کی بہت بڑی اہمیت ثابت ہوتی ہے ہر چیز میں اعتدال پسندیدہ ہے۔ مسند بزار میں حضرت حذیفہ  رضی اللہ تعالی عنہ صحابی کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
(مَا احْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْغِنٰى مَا أَحْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ مَا أَحْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْعِبَادَةِ)[2]
’’دولت مندی میں میانہ روی کتنی اچھی ہے۔ محتاجگی میں میانہ روی کتنی اچھی ہے اور عبادت میں میانہ روی کتنی اچھی ہے۔‘‘
 غرض یہ ہے کہ نہ اتنا دولت مند ہو کہ انسان قارون وقت بن کر حق سے غافل ہو جائے۔ نہ اتنا محتاج ہو کہ پریشان خاطر ہو کر حق سے محروم رو جائے۔ لوگ دولت مند ہو کر اس قدرشان و شکوه عز و جاو اور عیش و متهم کی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں کہ اعتدال سے خارج ہو جاتے ہیں اور بعض لوگ محتاج ہو کر اس قدر کمزور مبتذل ہو جاتے ہیں کہ صبر، خودداری، اور تمام شریفانہ اوصاف کھو دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 296/1، ابو داود: كتاب الادب، باب في الوقار رقم الحديث: 4768۔
[2] مسند بزار بحواله مجمع الزوائد: 255/10۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا اور عبادت میں بھی اعتدال کا حکم ہے چنانچہ ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 110)
’’اور نہ نماز میں چلا چلا کر نماز پڑھو اور نہ چلا چلا کر دعا ہی کرو اور نہ بالکل چپکے چپکے پڑھو بلکہ اس کے درمیان کی راہ اختیار کرو۔‘‘
قرآن مجید میں نیک بندوں کی یہ علامت بتائی گئی ہے۔
﴿وَالَّذِيْنَ إِذَا اَنْقَفُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَفْتَرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا﴾ (الفرقان:67)
’’اور خرچ کرنے لگیں تو فضول خرچی نہ کریں اور نہ بہت تنگی کریں بلکہ ان کا خرچ افراط و تفریط کے اور درمیان کا ہو۔‘‘
(6) اور رحمان کے محبوب بندے وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو معبود نہیں تھہراتے اور نہ کسی کو اللہ تعالی کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ وہ صرف ایک وحدہ لاشریک کو جانتے ہیں اور اس کی پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ یعنی خدا پرست موحد اور متبع سنت ہیں اور جس نفس کو اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام کیا ہے۔ اس کو قتل نہیں کرتے مگر جیسے اللہ تعالی نے حق کے ساتھ قتل کرنے کی رخصت دی ہے اور نہ زنا کاری و بدکاری کرتے ہیں اور نہ فحاشی وبے حیائی پر آمادہ ہوتے ہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالی نے یہی حکم دیا ہے:
﴿لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَّسَاءَ سَبِيْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 32)
’’خبردار! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔‘‘
 شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ یہی گناہ ہے۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شرک کے بعد کوئی گناہ زنا سے بڑھ کر نہیں ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ’’لا تَقْرَبُوا الزِّنٰى‘‘ کے تحت میں مسند احمد کے حوالہ سے یہ حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’ایک نوجوان نے زنا کاری کی اجازت آپ ﷺ سے چاہی۔ لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیا کہہ رہا ہے۔ آپﷺ سلا م نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا۔ بیٹھ جاؤ۔ جب وہ بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا: تو اس کام کو اپنی ماں کے لئے پسند کرتا ہے؟ اس نے کہا، خدا کی قسم نہیں۔ یا رسول اللہﷺ! مجھے آپ ﷺ پر اللہ خدا کرے ہرگز نہیں۔ فرمایا، پھر سوچ لے کہ کوئی اور کیسے پسند کرے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتا ہے؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اپنی بیٹیوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتا۔ اچھا اپنی بہن کیلئے پسند کرتا ہے؟ اس نے اسی طرح انکار کیا۔ آپ ﷺ ہم نے فرمایا: اسی طرح اپنی بہن کیلئے دوسرے لوگ بھی اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ بتا کیا تو چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے؟ اس نے اس سختی سے انکار کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس طرح کوئی اور بھی اسے اپنی پھوپھی کیلئے نہ چاہے گا۔ اچھا اپنی خالہ کے لئے؟ اس نے کہا: ہرگز نہیں، فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی۔ پھر اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ ابہی! اس کے گناہ بخش دے۔ اس کے دل کو پاک کر۔ اسے عصمت والا بنا۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا تھا۔[1]
آپ ﷺ کی یہ حکیمانہ نصیحت ہر ایسے شخص کے لیے مفید ہے جو اپنے لئے اپنی ماں بہن کے لئے اس فعل کو پسند نہیں کرتا تو دوسرے کی ماں بہن کے لیے کسیے پسند کر سکتا ہے۔ لامحالہ بدکاری سے باز آئے گا۔ بدکار لوگوں کی سزا دنیا میں سنگسار اور سو کوڑے کی مار ہے اور آخرت میں دوزخ کی آگ ہے۔ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا کہ میں نے تنور جیسا کنواں دیکھا جس کے اوپر کا حصہ تنگ اور نیچے کا کشادہ تھا اس میں آگ بھڑک رہی ہے اور شور و غل کی آواز آ رہی ہے اس میں مرد اور عورتیں ہیں جو آگ کے شعلوں کے ساتھ اوپر کو آ جاتے ہیں اور جب شعلہ دب جاتا ہے تو جاتے ہیں یہ زنا کار مرد اور عورتیں ہیں جو اس آگ میں جل رہے ہیں۔[2]
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا زَنٰى الرَّجُلُ خَرَجَ مِنْهُ الْإِيْمَانُ)[3]
’’جب انسان زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان اس سے نکل جاتا ہے۔“
اگر اسی حالت میں مر گیا تو بے ایمان ہو کر مرا اور زنا و بدکاری سے خدا کی طرف سے بلا میں مسلط ہو جاتی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
 (إِذَا ظَهَرَ الزِّنٰى فِي قَرْيَةٍ فَقَدْ حَلُّوْا بِأَنْفُسِهِمْ عَذَابَ اللهِ)[4]
’’جس بستی میں زنا کاری و سود خواری کھلم کھلا کرنے لگیں تو اس بستی پر خدا کا عذاب آئے گا۔‘‘
غرض زنا کاری کی سزا دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں ہے جیسا کہ فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 257،256/5، طبرانی کبیر (162/8 (7679)
[2] بخاري: کتاب الجنائر (1386)
[3] ابو داود: كتاب السنة، باب الدليل على زيادة الإيمان و نقصانه.
[4] مستدرك: حاكم كتاب البيوع، باب اذا ظهر الزنا و الربا في قرية (37/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثٰمًا﴾ (الفرقان: 68)
’’جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔‘‘
قیامت کے دن دوھرا عذاب دیا جائے گا۔ اور ذلت وخواری کے ساتھ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ البتہ جن لوگوں نے توبہ کر لی۔ اور ایمان لاکر نیک کام کیا۔ تو ایسے لوگوں کے گناہ کو اللہ تعالی نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔ اور جس نے توبہ کر لی۔ اور نیک کام کیا تو اس نے اللہ تعالی کو سچا معبود مان لیا۔
(7) توبہ کے معنی خفت، ندامت و شرمندگی کے ہیں اور سچی توبہ سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ گناہوں سے بالکل پاک وصاف ہو جاتا ہے اور توبہ کرنے سے اللہ تعالی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام لاکر نیک بن جائیں پھر اسلام لانے کے بعد اللہ تعالی ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا (یعنی نیکی کرنے کی توفیق دے گا) یعنی اسلام لانے کے بعد تمام گناہ ملیا میٹ ہو جاتے ہیں۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ جب اللہ تعالی نے اسلام کی سچائی میرے دل میں ڈال دی تو میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ ﷺ داہنا ہاتھ بڑھائیے میں آپ ﷺ سے بیعت کروں گا۔ یعنی آپﷺ کے ہاتھ پر مسلمان ہوں گا۔ آپﷺ نے ہاتھ بڑھا دیا لیکن میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیا؟ میں نے کہا: میں ایک شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا۔ میں اس شرط پر اسلام لاتا ہوں کہ میرے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جا ئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ملیا میٹ کر دیتا ہے جو اسلام سے پہلے سرزد ہوئے تھے اور ہجرت بھی سب گناہوں کو ساقط کر دیتی ہے جو ہجرت سے پہلے سرزد ہوئے تھے۔ اور حج ان خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے جو حج سے پہلے ہوئی ہوں۔[1]
 یہ اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اسلام لانے سے سارے قصور معاف ہو جاتے ہیں جیسا کہ اس اعرابی کی حدیث میں آیا ہے کہ
(جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْخٌ كَبِيرٌ يُدَعِّمُ عَلٰى عَصَاهُ فَقَالَ يَارَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِى غَدَرَاتٍ وَفَجَرَاتٍ فَهَلْ يُغْفَرُ لِي؟ قَالَ اَلَسْتَ تَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ۔ قَالَ بَلٰى وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ قَدْ غُفِرَ لَكَ غَدَرَاتُكَ وَفَجَرَاتُكَ)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الإيمان، باب كون الإسلام يهدم ما قبل كذا الهجرة و الحج (321)
[2] مسند احمد: (358/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بوڑھا لکڑی کا سہارہ لگائے ہوئے۔ رسول اللہﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہﷺ  کفر کے زمانے میں بے وفائیاں اور بے ہودگیاں کر چکا ہوں تو کیا وہ سب معاف ہو جا ئیں گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو ایک اکیلے خدا ہونے کی گواہی نہیں دیتا ہے اس نے عرض کیا کیوں نہیں، اور اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا۔ تیری ساری خیانتیں اور بے ہودگیاں معاف کر دی گی ہیں۔
مذہب بدلنے والا ضرور اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ پہلے مذہب میں رہ کر جو بد عنوانیاں سرزد ہوئی ہیں دوسرے مذہب میں داخل ہونے کے سبب سے معاف ہو جائیں۔ اس چیز کی گارنٹی صرف اسلام میں ہے کہ اس میں داخل ہوتے ہی ما قبل اسلام سب کوتاہیاں بخش دی جاتی ہیں اور اسلام کے سوا دنیا کے کسی مذہب میں یہ خوبی نہیں ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
(إِذَا اَسْلَمَ الْعَبْدُ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ يُكَفِّرُ اللهُ عَنْهُ كُلَّ سَيِّئَةٍ كَانَ زَلَّفَهَا وَكَانَ بَعْدَ ذٰلِكَ الْقِصَاصُ۔ اَلْحَسَنَةُ بِعَشْرِ امْثَالِهَا إِلَى سَعِمَانَةِ ضِعْفٍ- وَالسَّيِّئَةُ بِمِثْلِهَا إِلَّا أَنْ يَّتَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهَا)[1]
’’جب بندہ اسلام لے آتا ہے اور اس کا اسلام اچھا ہو جاتا ہے تو جتنی برائیاں وہ پہلے کر چکا ہے ان سب کو اللہ تعالی در گذر فر ما دیتے ہیں اس کے بعد یہ صورت ہوتی ہے کہ اگر نیکی کرتا ہے تو اس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی کے بدلے میں سات سو نیکیاں ملتی ہیں اور برائی کے بدلے میں صرف ایک برائی مگر یہ کہ اللہ تعالی اس کو بھی معاف فرما دے۔‘‘
 اسلام کے اچھے ہونے سے یہ مراد ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والا ظاہری اور باطنی ہر حیثیت سے اسلام میں داخل ہو جائے۔ جب وہ کوئی کام کرے تو یہ یقین کرے کہ اللہ تعالی اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور اسکی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ برائیوں سے اجتناب کرتا ر ہے۔ نیکیوں کے بجا لانے کی کوشش کرتا رہے تو ایسی صورت میں اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں،
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ
(اَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالْحَدِيْدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقَاتِلُ أوْ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ- فَاسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ فَقُتِلَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمِلَ قَلِيْلًا وَأُجِرَ كَثِيرًا )[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الایمان، باب حسن اسلام المرء (41)
[2] بخاري: کتاب الجهاد، باب عمل صالح قبل القتال (2808)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہﷺ پاس ایک شخص زرہ پوش سر سے پاؤں تک لوہے سے ڈھکا ہوا آیا اور عرض کیا: یارسول اللہﷺ میں جہاد میں شریک ہوں یا پہلے اسلام لاؤں۔ اور پھر جہاد میں شریک ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے تم اسلام لے آؤ۔ بعد میں جہاد میں شریک ہو جانا۔ چنانچہ وہ پہلے اسلام لاتا ہے اور پھر جہاد کرتا ہے۔ خدا کی شان وہ جہاد میں جاتے ہی شہید ہو جاتا ہے آپﷺ  نے فرمایا: اس نے کام تھوڑا کیا اور ثواب بہت لے گیا۔‘‘
 ایمان لانا بہت معمولی کام ہے لیکن اس سے زندگی بھر کے گناہ معاف ہوئے اور ہمیشہ کا جنتی ہو گیا۔ صحیح اسلام قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بنے گا اگر اسلام صحیح ہے تو دیگر اعمال صالحہ کا بھی اعتبار ہوگا اور اگر اسلام درست نہیں تو دوسری نیکیوں کا بھی اعتبار نہ ہوگا۔
یہ اسلام ہی کی خوبی ہے کہ کلمہ شہادتین کو سچے دل سے کہنے کے بعد انسان کے سارے گناہ ملیا میٹ ہو جاتے ہیں اور وہ نوزائیدہ بچے کی طرح معصوم ہو جاتا ہے ایسے پاکیزہ دین اسلام کو چھوڑ کر کسی جانور کے پاخانہ پیشاب کو کھا پی کر کوئی دوسرا دین اختیار کرے تو وہ ہرگز فلاح دارین کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
﴿إِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولٰئِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ﴾ (الفرقان: 70)
’’مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لا کر نیک عمل کیا اس کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دے گا یعنی سارے گناہ نیک ہی نیک ہو جا ئیں گے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر میں لکھا ہے کہ سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ بتوں کی پرستش کے بدلے اللہ تعالی کی عبادت کی توفیق انہیں ملی۔ مومنوں سے لڑنے کے بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے۔ مشرکہ عورتوں سے نکاح کے بجائے مومن عورتوں سے نکاح کئے۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ یہ فرماتے ہیں کہ گناہ کے بدلے ثواب کے عمل کرنے لگے شرک کے بدلے توحید خالص ملی، بدکاری کے بدلے پاک دامنی حاصل ہوئی۔ کفر کے بدلے اسلام ملا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ خلوص کے ساتھ جو ان کی تو تھی اس سے خوش ہو کر اللہ تعالی نے ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا۔ یہ اس لئے کہ توبہ کے بعد جب بھی انہیں اپنے گذشتہ گناہ یاد آتے ہیں تو انہیں ندامت ہوتی تھی۔ غمگین ہو جاتے تھے شرمانے لگتے تھے اور استغفار کرتے تھے اس لئے ان کے گناہ اطاعت سے بدل گئے گو وہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ کے طور پر لکھے ہوئے تھے لیکن قیامت کے دن سب نیکیاں بن جائیں گے جیسا کہ احادیث و آثار میں ثابت ہے رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ یہ وہ شخص ہو گا جسے خدا کے سامنے لایا جائے گا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: اس کے بڑے بڑے گناہوں کو چھوڑ کر چھوٹے گناہوں کی نسبت اس سے باز پرس کرو۔ چنانچہ اس سے سوال ہوگا کہ فلاں دن تو نے فلاں کام کیا تھا فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا یہ کسی ایک کا بھی انکار نہیں کر سکے گا۔ اقرار کرے گا۔ آخر میں کہا جائے گا۔ کہ تجھے ہم نے ہر گناہ کے بدلے نیکی دی۔ اب تو اس کی باچھیں کھل جائیں گی۔ اور کہے گا۔ اے میرے پروردگار! میں نے اور بھی بہت سے اعمال کئے تھے جنہیں میں یہاں نہیں پا رہا ہوں؟ یہ فرما کر حضورﷺ اس قدر ہنسے کہ آپ ﷺ کے مسوڑھے دیکھے جانے لگے۔[1]
حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن نامہ اعمال دیا جائے گا۔ وہ پڑھنا شروع کرے گا تو اوپر اس کی برائیاں درج ہوں گی جنہیں پڑھ کر یہ کچھ ناامید سا ہونے لگے گا اسی وقت اس کی نظر نیچے کی طرف پڑے گی تو اپنی نیکیاں لکھی ہوئی پائے گا۔ جس سے کچھ ڈھارس بندھے گی۔ اب دوبارہ اوپر کی طرف دیکھے گا تو وہاں کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے بدلا ہوا پائے گا۔
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں بہت سے لوگ خدا کے سامنے آئیں گے جن کے پاس بہت کچھ گناہ ہوں گے، پوچھا گیا وہ کون سے لوگ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ وہ لوگ جن کی برائیوں کو اللہ تعالی بھلائیوں سے بدل دے گا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں چار قسم کے جنتی جنت میں جائیں گے متقین یعنی پرہیز گار پھر شاکرین یعنی شکر گذار، پھر خائفین، یعنی خوف خدا رکھنے والے۔ پھر اصحاب یمین یعنی جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے ہوں گے۔ پوچھا گیا کہ انہیں اصحاب یمین کیوں کہا جاتا ہے؟ جواب ملے گا اس لئے کہ انہوں نے نیکیاں بدیاں سب کی تھیں۔ ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں ملے، اپنی بدیوں کا ایک ایک حرف پڑھ کر یہ کہنے لگے کہ خدایا ہماری نیکیاں کہاں ہیں؟ یہاں تو سب بدیاں لکھی ہوئی ہیں اس وقت اللہ تعالی ان بدیوں کو مٹا دے گا۔ اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دے گا۔ انہیں پڑھ کے خوش ہو کر اب تو یہ دوسروں سے کہیں گے کہ آؤ ہمارے اعمالنا سے دیکھو۔ جنتیوں کے اعمال اکثر اس قسم کے ہوں گے۔
حضرت علی بن حسین زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنا آخرت میں ہوگا۔ حضرت مکحول رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کے گناہوں کو بخشے گا اور انہیں نیکیاں کر دے گا۔
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اگر کسی شخص نے سارے ہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الإيمان باب ادنى اهل الجنة منزلة فيها (467)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گناہ کئے ہوں اور جو جی میں آیا وہ کیا ہو تو کیا ایسے شخص کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم مسلمان ہو گئے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا، اب نیکیاں کرو برائیوں سے بچو تو اللہ تعالی تمہارے گناہ بھی نیکیاں کر دے گا۔ اس نے کہا: میری غداریاں اور بدکاریاں بھی؟ آپ ﷺ فرمایا ہاں، اب وہ اللہ اکبر کہتا ہوا واپس چلا گیا۔[1]
﴿وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوءً أَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللهَ يَجِدِ اللهَ غَفُورًا رَّحِيْمًا﴾ (النساء: 110)
’’جو برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالی سے استغفار کر لے تو وہ اللہ تعالی کو غفور اور رحیم پائے گا۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿اَلَمْ يَعْلَمُوْا أَنَّ اللهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ﴾ (التوبة: 104)
’’کیا انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اللہ تعالی توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔‘‘
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوْا عَلٰى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ﴾ (الزمر: 53)
’’میرے ان بندوں سے جو گنہگار ہیں کہہ کیجئے کہ وہ میری رحمت سے نا امید نہ ہوں یعنی توبہ کرنے والا محروم نہیں ہوتا۔‘‘
 خلاصہ یہ ہے کہ اس نے اپنی غلطی سے جتنے بھی گناہ کئے ہوں گے سچی توبہ کر لینے کے بعد اس کے سارے گناہ معاف ہو کر نیکی ہو جائیں گے۔
(8) ﴿وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ﴾ (الفرقان:72)
’’رحمن کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ جھوٹی شہادت نہیں دیتے۔‘‘
یعنی شرک نہیں کرتے، بت پرستی سے بچتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے فسق و فجور نہیں کرتے۔ کفر سے الگ رہتے ہیں اتھو اور باطل کاموں سے پر ہیز کرتے ہیں۔ گانا نہیں سنتے مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے، خیانت نہیں کرتے، بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے، شرابیں نہیں پیتے، شراب خانوں میں نہیں جاتے، اس کی رغبت نہیں کرتے۔
حدیث میں بھی ہے کہ سچے مومن کو چاہئے کہ اس دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر دور شراب چل رہا ہو۔[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] طبرانی کبیر:314/7 (7235)
[2] ترمذي: كتاب الاستئذان، باب ماجاء في دخول الحمام: 20/4 (2801)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ بھی مطلب ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ صحیحین میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتاؤں؟ تین دفعہ یہی فرمایا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ ہاں یارسول اللہﷺ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ ماں باپ کی نافرمانی کرنا۔ اس وقت آپ اس کی تکلیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اب اس سے الگ ہو کر فرمانے لگے۔ اور جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹی بات کہنا۔ اسے بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے دل میں کہنے لگے کہ کاش رسول اللہ ﷺ اب خاموش ہو جاتے۔
زیادہ ظاہر لفظوں سے تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کے پاس نہیں جاتے۔ اس لئے آگے بیان ہوا کہ اگر اتفاقًا گذر ہو جائے تو وہ اس سے کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ زور اور لغو میں سینما، بائیسکوپ اور دیگر لہو و لعب داخل ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں مخرب اخلاق ہیں۔ سینما یورپ کی ایک عالم فریب مخرب اخلاق ایجاد ہے۔
یہ ایجاد بھی اپنے اندر بہت سی تباہیوں اور بربادیوں کا سامان رکھتی ہے۔ جہاں یورپ و امریکہ سے بہت سی وبائیں برصغیر میں آئیں، سینما بھی آیا۔ یورپ و امریکہ کی خوشحالی، فارغ البالی اور دولت مندی کی انتہاء نہیں ہے وہاں مال و دولت کی بارش ہوتی ہے اس کے برعکس برصغیر کے عوام مفلس و قلاش ہیں۔ نوے فیصد آدمیوں کو بھی دونوں وقت پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی، لیکن سینما کی دلچسپیوں کا یہ حال ہے کہ دن بھر مزدوری کر کے معمولی آمدنی کرنے والا سینما دیکھے بغیر نہیں رہتا۔ خواہ اس کے اہل واعیال رات کو بھوکے سو جایا کرتے ہوں۔
سینما نے جہاں مسلمانوں کو مالی تباہی وبربادی کے گڑھے میں ڈالا ہے وہاں مسلمانوں کی شرافت و تہذیب کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔ بد اخلاقی و بے حیائی عام کر دی ہے۔ اور اب اس کی تباہ کایاں مردوں سے گذر کر عورتوں تک پہنچ چکی ہیں۔ ہزاروں شریف گھرانوں کی بہبو و بیٹیاں سینما میں جاتی ہیں اور نہایت دیدہ دلیری وڈھٹائی سے اس کے حیا سوز و مخرب اخلاق مناظر دیکھتی ہیں اور صد آفریں ہے ان کے شوہروں پر کہ وہ انہیں روکتے تو کیا بلکہ خود لے جاتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
سینما کی ترویج سے پہلے عصمت فروش و آبرو باختہ عورتوں کی مجلس میں کوئی وقعت و حیثیت نہ تھی۔ لیکن سینما کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے آبرو باختہ عورتوں کو ایک خاص پوزیشن دیدی ہے اب لوگ اعلامیہ رنڈیوں کی شان میں قصیدے لکھ رہے ہیں اور مدیران اخبار ان کی تصویریں اپنے پرچوں میں شائع کر رہے ہیں۔ جن گھروں میں ان ذلیل اور فاحشہ عورتوں کا نام لینا بھی گناہ اور موجب شرم سمجھا جاتا تھا۔ اب ان گھروں میں ان کی تصویر میں آویزاں ہیں اور جن مجلسوں میں ان کا تذکرہ مکروہ خیال کیا جاتا تھا انہیں مجلسوں میں اب فخریہ ان کے تذکرے کئے جاتے ہیں۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سینما نے ہمارے ملک کی اخلاقی حالت کو کس طرح تباہ و برباد کر دیا ہے۔ سینما سے ملک کے نوجوان کسی طرح برباد ہو رہے ہیں یہ ایک ناقابل برداشت مصیبت ہے۔ وہ سینما میں ایکٹروں کو دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی کو انہیں کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بے تاب و بے قرار ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کو اس بات کا خیال مطلق نہیں رہتا کہ ان کا گھر برباد ہو گا تجارت ملیا میٹ ہوگئی۔ تعلیم ادھوری رہ جائے گی وہ ان تمام باتوں سے بے پرواہ ہو کر نگارخانوں کا طواف شروع کر دیتے ہیں۔ تو آیت کریمہ نے مومن کی شان بتائی کہ مومن کامل کی نشانی یہ بھی ہے کہ ایسی بری جگہوں پر نہیں جاتے۔ کیونکہ یہ سب لعنتی مقام ہیں۔
رسول اللهﷺ فرمایا:
(فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ وَّمَسْخٌ وَّقَذَفَ قَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتٰى ذٰلِكَ قَالَ إِذَا ظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ)[1]
’’میرے ان امتیوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا اور ان کی صورتیں بدل جائیں گی اور ان پر آسمان سے پتھر برسائے جائیں گے ایک مسلمان نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ کب ہوگا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب گانے والیاں اور باجے بہت ہو جائیں گے اور شراب خوری ہونے لگے۔‘‘
مسلمانو! خواب سے بیدار ہو جاؤ اور آج ہی سے کی توبہ کرلو اور بہت ممکن ہے کہ تمہاری صورتیں بھی اس حدیث کی رو سے مسخ کر کے سورو بندر کی صورتیں بنا دی جائیں جیسے کہ پہلی امتوں کو کونوا قردَةً کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ اور اگر یہاں کسی وجہ سے بچ بھی گئے تو وہاں سے بچنا بہت ہی مشکل ہے (أعادنا الله منها)
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا گذر ایسی ناجائز جگہوں سے ہو جاتا ہے۔ تو منہ پھیر لیتے ہیں توجہ نہیں کرتے۔ دیکھتے نہیں۔ سنتے نہیں اور دلچسپی نہیں لیتے۔
تلبیس ابلیس میں ایک حکایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہ راستہ میں کہیں جارہے تھے جو بابے کی آواز کان میں پڑتی ہے۔ تو آپ ان اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیتے ہیں۔ دور نکل کے ایک طرف ہٹ کر دریافت فرماتے ہیں کہ اب تو باجے کی آواز نہیں آ رہی ہے؟ جب کہا جاتا ہے نہیں تو اپنی انگلیاں اپنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب الفتن:225/3 (2212)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانوں سے ہٹا لیتے اور فرماتے ہیں سنت طریقہ یہی ہے آنحضرتﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ .
﴿وَإِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾
’’جب لغو مقام سے گزرتے ہیں تو نہایت عجز و احترام سے گذر جاتے ہیں۔‘‘
 اسی حکم میں یہ بھی ہے کہ اللہ کے مخصوص بندے جب گلی کوچوں اور بازاروں میں گذرتے ہیں تو ادھر اُدھر تاک جھانک نہیں کرتے۔ اور اگر کوئی بے باک و بے حیا عورت بے پردہ جا رہی ہے تو نیچی نگاہ کر کے گذر جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰی لَهُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۝۳۰ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ﴾ (نور: 30 تا 31)
’’اے نبی! مومن مردوں سے فرما دیجئے کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یقینًا اللہ ان کے عملوں سے خوب واقف ہے اور اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں پست رکھا کریں اور اپنی زینت و سنگار کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے حصے کے جو خود بخود عموماً کھلا رہتا ہے۔‘‘
 ان آیتوں میں اللہ تعالی نے مردوں اور عورتوں کونا جائز نظر بازی سے منع فرمایا ہے کیونکہ نظر بازی لغو  ہے۔
(9) اور رحمن کے محبوب بندوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کی آیتیں سن کر انکے دل دہل جاتے ہیں۔ ان کا ایمان اور توکل بڑھ جاتا ہے بخلاف کفار کے کہ ان پر کلام الہی کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی بداعمالیوں سے باز نہیں رہتے نہ اپنا کفر چھوڑتے، نہ سرکشی کا جہالت و ضلالت سے باز آتے ہیں ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور بیمار دل والوں کی گندگی بھر آتی ہے۔ پس کافران آیتوں سے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں ان مومنوں کی حالت اس کے برعکس ہے نہ یہ حق سے بہرے ہیں نہ حق سے اندھے۔ سنتے ہیں سمجھتے ہیں نفع حاصل کرتے ہیں اپنی اصلاح کرتے ہیں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن اندھا پن نہیں چھوڑتے۔ اللہ تعالی نے بہت سے نبیوں کا ذکر خیر کرنے کے بعد ان کی خاص صفت یہ بتائی ہے۔
﴿إِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمُ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَبُكِيًّا﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب الأدب باب كراهية الغناء والزمر: (4916) مسند احمد: (8،38/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جب ان کے سامنے رحمن کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گر جاتے ہیں۔‘‘
اور مومنین کاملین کی یہ بھی پہچان بنائی گئی ہے:
﴿وَإِذَا سَمِعُوْ مَا اُنزِلَ إِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰى أَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ﴾ (مائده:83)
’’اور جب وہ سنتے ہیں جو کہ رسول کی طرف بھیجا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو آنسوؤں سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے رب ہم مسلمان ہو گئے تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لیجئے جو تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
دوسری آیت میں فرمایا:
﴿وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيَاتُهُ زَادَتْهُمْ أَيْمَانًا﴾ (انفال:2)
’’جب اسکے سامنے آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں۔‘‘
حقیقت یہی ہے کہ مومنین کاملین آیتیں سن کر ان کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگ جاتے ہیں۔ نافرمان، گونگے، بہرے کی طرح نہیں ہوتے ہیں۔ اور ان کی ایک خاص صفت یہ بھی ہے کہ اپنے اہل وعیال کے لئے نیک دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کو نیک ایمان اور نیک عمل کی توفیق دے۔ جس سے ہم خوش ہوں چونکہ ایسے پاکباز خاص لوگوں نے اللہ تعالی کی پوشیدہ عبادت کی ہے۔ اس لئے اللہ تعالی بھی ان کو اسی طرح پوشیدہ نعمتیں عطا فرمائے گا۔ جو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
 (قَالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِيَ الصّٰلِحِينَ مَالَاعَيْنٌ رَاَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰى قَلْبِ بَشَرٍ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ اَعْيُنِ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ)[1]
’’اللہ تعالی فرما رہا ہے میں نے اپنے بندوں کے لئے جنت میں وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہ تو دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی دل کا گمان ہوا ہے۔ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے جو کچھ وہ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة و انها مخلوقة. (3244)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بیان کر کے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  فرمایا کہ اس کی تائید میں یہ آیت پڑھ لو:
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدة: 17)
’’کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے جو کچھ وہ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔‘‘
آیت میں جو لفظ ’’قرة اعين‘‘ آیا ہوا ہے اس سے مراد یہی ہے کہ خدایا ہمارے بیوی بچوں اور دیگر خویش و اقارب کو ایسے نیک اعمال کی توفیق دے جن کے باعث ہم کو خوشی نصیب ہو۔ مومن آدمی جب اپنے بیوی بچوں کو نماز پڑھتے ہوئے اور دیگر نیک کام کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے بڑی خوشی ہوتی ہے اور دنیاوی خوشی سے بہت زیادہ خوشی جنت میں ہوگی و اپنے اہل و عیال وازواج کو جنت میں دیکھے گا تو بہت خوش ہوگا یہی ’’قرة اعين‘‘ ہے۔
اور ایک روایت میں فرمان رسول اللہﷺ ہے کہ جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی بے نعمت نہیں ہوگا ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں۔ ان کے لئے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا وہم و گمان ہوا۔[1]
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے جنت کا ایک وصف بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی فرمایا اور پھر آیت ’’تتجافی‘‘ سے ’’یعملون‘‘ تک تلاوت فرمائی۔[2]
صحیح مسلم میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ رب العالمین سے عرض کیا کہ اے باری تعالی !ادنی جنتی کا کیا درجہ ہے؟ جواب ملا کہ ادنی جنتی وہ ہے جو اس وقت میں آئے گا جب کہ تمام جنتی اپنے مقام پر پہنچ چکے ہوں گے اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ وہ کہے گا خدایا کہاں جاؤں؟ ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور اپنی چیزوں کو سنبھال لیا ہیں اس سے کہا جائے گا کیا تو اس پر خوش ہے کہ تیرے لئے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بادشاہ کے پاس تھا۔ وہ کہے گا پروردگار! میں اس پر خوش ہوں۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تیرے لئے اتنا ہے، اتنا ہی اور، اتنا ہی اور، اتنا ہی  اور، اتنا ہی پانچ گنا۔ یہ کہے گا بس اے رب! اب میں راضی ہو گیا ہوں۔ اللہ تعالی فرمائے گا: یہ سب ہم نے تجھے دیا اور دس گنا اور بھی دیا اور جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ یہ کہے گا میرے پروردگار! میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یاخدا پھر اعلی درجے کے جنتی کی کیا کیفیت ہے؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجنة، باب في دوام نعیم اهل الجنة
[2] مسلم: كتاب الجنة، باب في دوام نعيم أهل الجنة (7135)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے ہوئی اور اس پر اپنی مہر لگا دی۔[1]
پھر وہ نہ تو کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں اور نہ کسی کے خیال میں، اس کا مصداق اللہ تعالی کی کتاب کی آیت ’’فلا تعلم‘‘ سے آخر تک ہے اور جنت کی حوروں سے دل بستگی کرنا بھی قرۃ اعین ہے۔
 خلاصہ مطلب یہ ہے کہ یہ عباد الرحمن دعا کرتے رہتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا کہ نیکی اور بھلائی میں ہماری اقتدا کریں۔ ہماری اولاد ہماری راہ پر چلے تاکہ ثواب بڑھ جائے اور نیکیوں کا باعث بھی ہم بن جائیں۔
رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ انسان کے مرتے ہی اسکے اعمال ختم ہو جاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے۔ نیک اولاد، جو اس کے لئے دعا کرے یا علم جس سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے یا صدقہ جاریہ۔ [2]
اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی پھر ان لوگوں کے لئے ان کے صبر کے بدلے میں جنت کے بلند بالا خانے دیئے جائیں گے۔ دعا و سلام پہنچایا جائے گا یعنی وہاں ان کی عزت و تکریم ہوگی ادب تعظیم ہوگی اور احترام و توقیر ہوگی ان کے لئے سلامتی ہے ہر ہر دروازہ جنت سے فرشتے حاضر خدمت ہوتے ہیں اور سلام کر کے کہتے ہیں کہ تمہارا انجام بہتر ہو گیا کیونکہ تم صبر کرنے والے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَی الْجَنَّةِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ۝۷۳ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُ ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ۝۷۴﴾ (الزمر: 73 تا 74)
 ’’جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں وہ گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آجائیں گے اور دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلامتی ہو تم خوش حال رہو۔ تم ہمیشہ کے لئے اس میں چلے جاؤ یہ کہیں گے خدا کا شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا اور جنت میں جہاں چاہیں قیام کریں ہیں عمل کرنے والوں کا بہت ہی اچھا بدلہ ہے۔‘‘
 ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ بعض لوگ نہایت عمدہ اور اعلی درجہ کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الإيمان باب ادنٰى اهل الجنة منزلة فيها (465)
[2] مسلم: كتاب الوصية باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته. (4223)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سواریوں پر سوار ہو کر جنت کی طرف پہنچائے جائیں گے کچھ مقربین کی جماعتیں ہوں گی اور صلحاء وابرار کی جماعتیں ہوں گی۔ ان سے کم درجہ والوں کی جماعت پھر ان سے کم درجہ والوں کی غرض حسب مراتب واعمال ہر جماعت اپنے مناسب لوگوں کے ساتھ ہوگی۔
انبیاء انبیاء کے ہمراہ علماء عالموں کے ساتھ، غرض ہر جنس اپنے میں کے لوگوں کے ساتھ ہو گی۔ جب یہ جنت کے پاس پہنچیں گے، پل صراط سے پار ہو چکے ہوں گے تو وہاں ایک پل پر ٹھہرائے جائیں گے اور ان میں آپس میں جو مظالم ہوں گے ان کا قصاص اور بدلہ ہو جائے گا جب پاک وصاف ہو جائیں گے تب جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے۔
حدیث میں ہے کہ میں پہلا سفارشی ہوں جنت میں۔ اور ایک روایت میں ہے آپﷺ نے فرمایا۔ کہ میں پہلا وہ شخص ہوں کہ جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ مسند احمد میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن جنت کا دروازہ کھلوانا چاھوں گا تو وہاں کا داروغہ مجھ سے پوچھے گا: آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا محمدﷺ۔ وہ کہے گا: مجھے یہی حکم تھا کہ آپ کے تشریف لانے سے پہلے جنت کا دروازہ کسی کے لئے نہ کھولوں۔[1]
 مسند احمد میں ہے کہ پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے۔ تھوک، رینٹ، پیشاب، پاخانہ وہاں کچھ نہ ہوگا۔ ان کے برتن اور سامان آسائش سونے چاندی کے ہوں گے۔ ان کی انگیٹھیوں میں بہترین اگر خوشبود دے رہا ہوگا۔ ان کا پسینہ مشک ہو گا۔ ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں ہوگی۔ جن کی پنڈلی کا گودا ہوجہ حسن و نزاکت، صفائی اور نفاست کے گوشت کے نیچے سے نظر آرہا ہوگا۔ کسی دو میں کوئی اختلاف اور حسد و بغض نہ ہوگا۔ سب مل کر ایسے ہوں گے جیسے ایک شخص کا دل۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح میں گزرے گا۔[2]
 پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ان کی بعد والی جماعت کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے بہترین چمکتا ہوا ستارہ۔ پھر قریب قریب اوپر والی حدیث کے بیان کے مطابق ہے اور یہ بھی ہے کہ ان کے قد ساٹھ ہاتھ کے ہوں گے جتنا حضرت آدم علیہ السلام کا قد تھا۔[3]
 اور ایک حدیث میں ہے کہ میری امت کی ایک جماعت جو ستر ہزار کی تعداد میں ہوگی پہلے پہل جنت میں داخل ہوگی۔ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ تعالی عنہ نے درخواست کی۔ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی ان ہی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الإيمان، باب قول النبيﷺ انا اول الناس يشفع في الجنة، (483)
[2] بخاري: کتاب بدء الخلق باب ماجاء في صفة الجنة و أنها مخلوقة (3245)
[3] بخاري: کتاب احادیث الانبیاء، باب خلق آدم و ذریته (3327)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سے کر دے۔ آپﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! انہیں بھی ان ہی میں سے کر دے پھر ایک انصاری نے بھی یہی عرض کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عکاشہ تجھ پر سبقت لے گیا۔[1]
بخاري و مسلم میں ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار یا سات سو شخص ایک ساتھ جنت میں جائیں گے اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوئے ہوں گے سب ایک ساتھ ہی جنت میں قدم رکھیں گے۔ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے۔[2]
 ابن ابی شیبہ میں ہے کہ۔ مجھے سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے۔ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے۔ ان سے نہ تو حساب لیا جائے گا اور نہ انہیں عذاب ہو گا۔ ان کے علاوہ اور تین لپیں بھر کر اللہ اپنے ہاتھوں سے جنت میں لے جائے گا۔[3]
 اس روایت میں ہے کہ پھر ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے۔ اس حدیث کے بہت سے شواہد ہیں۔ جب یہ سعید بخت و بزرگ جنت کے پاس مے تو ان کے لئے دروازے کھل جائیں گے، ان کی وہاں عزت و تعظیم ہوگی وہاں کے محافظ فرشتے انہیں بشارت سنائیں گے ان کی تعریفیں کریں گے انہیں سلام کریں گے۔ اس کے جواب کا جواب قرآن میں محذوف رکھا گیا ہے تاکہ عمومیت باقی رہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہ پورے خوش و خرم ہو جائیں گئے ہے انداز وراحت و سرور آسائش و آرام انہیں ملے گا۔ ہر طرح کی آس اور بھلائی کی امید بندھ جائے گی۔ چاروں طرف سے سلامتی سلامتی کی آوازیں سنائی دیں گی۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ﴾ (الانعام: 54)
’’تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے رب نے رحمت کو اپنے ذمہ لازم ٹھہرالیا ہے۔‘‘
یہ سلامتی ان کے لئے وہاں ہمیشہ رہے گی نہ کسی قسم کا خوف ہوگا نہ ڈر، نہ بیمار ہوں گے نہ کسی قسم کے فتنہ کا اندیشہ ہوگا۔ اور نہ مرنے کا خوف ہوگا ہمیشہ جیتے جاگتے تندرست رہیں گے ان کے رہنے سہنے راحت و آرام کرنے کی جگہ بڑی پاک وصاف اور خوش منتظر ہے۔
اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کو یہ درجہ عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ ﴿فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصَّالِحِيْنَ﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب (6542)
[2] بخاري: كتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار (6554)
[3] ترمذي: كتاب صفة القيمة، باب منه ما جاء في الشفاعة۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔